آزادی کس سے ؟ غیر قوم سے، یا استحصال سے؟

ایک روزن لکھاری
ڈاکٹر عرفان شہزاد، صاحبِ مضمون

آزادی کس سے ؟ غیر قوم سے،  یا  استحصال سے؟

ڈاکٹر عرفان شہزاد

تاریخ  قوم کی اجتماعی یاداشت ہوتی ہے۔ یاد رہے تو مشعل راہ بن جاتی ہے، بھول جائے تو انسان بار بار پہیہ ایجاد کرتا رہتا ہے۔

یہ تاریخی حقائق ہیں کہ تقسیم  ہند سے پہلے جب بنگالیوں کا استحصال ہوتا تھا تو ان کے قائدین، دانش وروں اور مصلحین انہیں سمجھایا کرتے تھے کہ تمہارا استحصال تمہارے مسلمان ہونے کی وجہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا خون دے کرایک  الگ مسلم ملک حاصل کر لیا۔ لیکن ان کا استحصال پھر بھی جاری رہا تو اس دفعہ سمجھانے والوں نے سمجھایا کہ تمہار استحصال تمہارے بنگالی ہونے کی وجہ سے  ہو رہا ہے۔

انہوں نے ایک بار پھر خون کی بازی لگائی اور  اپنا الگ بنگالی ملک بنا لیا۔اب اس خالص بنگلہ دیس میں بھی ان کا استحصال ہوتا ہے۔ اب وہ کس منہ سے اور کس سے علیحدہ ہوں؟ لیکن اب ان کے دانش ور اور مصلحین انہیں مزید علیحدگی کی بجائے سماجی انصاف قائم کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

بنگالیوں کو مسئلے کے اصل حل پر آنے کے لیے  تاریخ کو کتنی بار اپنے خون سے سرخ کرنا پڑا ۔یہی بات اگر وہ پہلے سمجھ جاتے کہ اصل مسئلہ مذھب یا نسل کے فرق  اور اختلاف کا نہیں ، بلکہ ایک طاقت ور کے کمزور کا استحصال کرنے کا ہے، تو انہیں اتنی بہت سی رائیگاں قربانیاں دینے کی ضرورت نہ پڑتی اور سماجی انصاف کے قیام کا سفر بھی بہت پہلے شروع  کر لیا جاتا۔

آزادی، جان سے زیادہ پیاری ہے، یہ نعرہ قومیت کے جدید تصور کے بعد ایجاد ہوا۔ اس سے پہلے صرف حکمران اور رعایا ہوا کرتے تھے۔ عوام کو اس سے غرض نہیں ہوتی تھی کہ حکمران اپنا  ہم قوم ہے یا غیر قوم کا۔ انہیں غرض تھی تو اچھی طرز حکمرانی سے۔ برا حکمران اپنی قوم کا بھی ہوتا تو اس کی جگہ غیر قوم کے حکمران کو حکومت کا موقع فراہم کرنے میں عوام اس کا ساتھ دے دیا کرتے تھے۔ لیکن پھر قومیت کا یہ سیاسی تصور آگیا جس سے اپنے ہم قوم لوگوں کو بے وقوف بنانے کا ایک حربہ ہاتھ آ گیا۔

قومیت کا یہ تصور آیا تومیرٹ کی بجائے قومیت کو معیار حکمرانی قرار دے دیا۔  یعنی اپنی قوم  کی نالائق بد دیانت اور استحصالی ایلیٹ کلاس ،بیرونی، غیر قوم کی ایلیٹ کلاس سے ہر حال میں بہتر سمجھی  گئی ، چاہے غیر قوم کے حکمران  اپنے طرز حکمرانی میں بہت بہتر اور باصلاحٰت ہی کیوں نہ ہوں۔ قومیت کا یہ تصور دراصل قبائلی عصبیت کی ترقی یافتہ شکل ہے،وہی قبائلی  عصبیت جس نے عرب کےایک جھوٹے نبی، مسیلمہ کذاب کے ہم قوم پیرو کاروں کی زبان سے یہ نکلوایا کہ بنو ہاشم کے سچے نبی سے ہمارے قبیلے کا جھوٹا نبی بہتر ہے۔

غلامی اور آزادی اضافی اقدار ہیں۔ عوام غلام ہی ہوتے ہیں چاہے ہم قوم افراد کے ہوں یا غیر قوم کے افراد کے۔ آزادی کی جنگ دراصل غیر قوم کی ایلیٹ کلاس اور ہم قوم کی ایلیٹ کلاس کے درمیان اقتدار کی جنگ ہے۔ دونوں اپنے اقتدار کے لیے عوام کو استعمال کرتے ہیں۔ قومیت کے تصور کے آنے کے بعد ہم قوم ایلیٹ کلاس کے لیے عوام کو اپنے اقتدار کے لیے استعمال کرنا آسان ہو گیا ہے۔اقتدار کا یہ کھیل، آزادی کے نام پر آقاؤں کی تبدیلی  کا کھیل ہے۔

یہ پہلی بار ہوا کہ کسی قوم کے زیرِ حکومت رہنے کو غلامی باور کرایا گیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اپنے وطن سے باہر دوسرے ملکوں میں  غیر قوموں کے زیر حکومت رہنے والےہم قوموں کو کوئی نہیں ورغلاتا کہ آپ غیر کے “غلام “ہیں۔ اپنے ملک میں سادہ عوام کو البتہ ورغلایا جاتا ہے کہ غیر آپ پر حکمران ہیں اس لیے آپ ان کے غلام ہیں، ان سے آزادی حاصل کرنا ضروری ہے۔ زیرِ حکومت رہنے کو غلامی سے تعبیر کرنے سے اتنی بڑی کایا پلٹ ہو گئی۔

 یہ ورغلانے والے کون ہوتے ہیں؟ وہی جو اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ انہیں ان غیر ملکی آقاؤں کے ہوتے یہ موقع نہیں مل پاتا۔ چنانچہ وہ عوام کو سیڑھی بناتے ہیں اور ان کی لاشوں کا زینہ بنا کر اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ عجیب منطق ہے کہ کوئی قوم باہر سے آکر آپ  پر حکومت قائم کرلے تویہ  جائز نہیں،لیکن آپ خود اسی قوم کے دیس میں جا کر اس کی حکومت میں اس کے قانون کے پابند ہو کررہنے لگیں تو  یہ اعزاز کی بات ہے۔لوگ پہلے بیرونی آقاؤں سے آزادی حاصل کرنے کے مرتے ہیں اور پھر آزادی کے بعد اپنے بیرونی آقاؤں کے دیس میں ان کی نوکری کرنے کے لیے مرے جاتے ہیں۔

لوگ اپنے ملک میں اپنے خون سے آزادی حاصل کرکے بیرونی آقاؤں کے سابقہ غلاموں کے ہاتھ میں آزادی کے ثمرات تھما کر، پھر خود غلام کرنے کےلیے پہلے والے آقاؤں کے دیس میں  پہنچ جاتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ بیرونی آقاؤں کے ہاں استحصال نہیں ہے یا کم ہے۔
تو مسئلہ اصل میں کیا ہے، کسی قوم سے آزادی یا استحصال سے آزادی؟

جدوجہد دراصل استحصال کے خلاف ہونا چاہیے۔ آزادی درحقیقت ہم استحصال سے حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہدف غلط متعین کر بیٹھتے ہیں۔ استحصال سے اٹھنے والی ناراضی کو طرح طرح  کے ازموں اور جذباتی اور تجریدی نعروں میں گم کر دیتے ہیں۔ چنانچہ غلط ہدف کے تعین سے جدوجہد کو غلط راہ پر ڈال دیتے  ہیں، اور نتیجتًا غلط منزل پر پہنچتے ہیں۔ اور ہمارا حال یہ ہوتا ہے کہ:

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انہیں غور سے

جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

آزادی کے نام پر یہی ہوتا رہا  ہے اوراب بھی  یہی ہو رہا ہے، اگر کوئی سمجھے۔