ما بعد جدیدیت، لبرل علوم اور ڈی کنسٹرکشن

ایک روزن لکھاری

ما بعد جدیدیت، لبرل علوم اور ڈی کنسٹرکشن

از، ڈاکٹر صلاح الدین درویش

بیسیویں صدی کی آخری تین دہائیوں تک آتے آتے گزشتہ سوا سو سال کی علمی، فلسفیانہ، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ادبی نظریہ سازی کی تمام تحریکوں نے سرمایہ داری نظام کی ضرورتوں کی کوکھ سے جنم لینے والے لبرل علوم کی طاقت اور افادیت پسندی کے سامنے ہتھیارپھینک دیے۔ ان لبرل علوم کا تعلق مارکیٹ اور سرمائے کے باہمی اعتماد اور تعاون سے تھا۔ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں تحقیق و جستجو کی خالص نظریاتی بنیادوں کو غیر ضروری قرار دے دیا اور علوم کا تعلق براہ راست ٹیکنالوجی، پیداوار، مارکیٹ اور سرمائے سے جوڑ دیا۔ ٹیکنالوجی ، پیداوار، مارکیٹ اور سرمایہ انسانی تمدن کے ایسے مظاہر ہیں کہ جن کا کسی بھی نوع کی نظریاتی شناخت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان مظاہر کے عملی قیام کے لیے جن لبرل علوم کو بے پناہ ترقی اور وسعت حاصل ہوئی وہ علوم ساری دنیا کا گویا عالمی اثاثہ قرار پائے اور تمام اقوام عالم نے ان علوم کو اپنے قومی نصابوں کا بغیر کسی بڑی یا چھوٹی رکاوٹ کے حصہ بنا لیا۔

آزادی ، ترقی اور خوشحالی کا وہ خواب جسے حقیقت کی شکل دینے کے لیے یورپ اور امریکہ نے اپنے لیے ممکن بنا لیا تھا، باقی تمام اقوام بھی اسی خواب کی اسیر ہو گئیں۔ اس خواب کی تعبیر مارکیٹ اور سرمائے کو بنیاد بنانے والے لبرل علوم کے حصول کے بغیر ناممکن تھی۔۔ ڈیکارٹ، لاک ، ڈیوڈ ھیوم ، والٹیر، نطشے،مارکس اور ڈارون سے لے کر سارتر تک جتنے بھی جدیدیت پسند نظریاتی فلسفی اور مفکرین تھے، سماج کی اس نئی سائنس کے سامنے بے اثر اور غیر ضروری ہو گئے۔ یہ مابعد جدید عہد تھا۔

جدیدیت کے تمام نظریہ سازوں کو فرد کی بجائے جماعت میں گہری دلچسپی تھی ان کا خیال تھا کہ کسی بھی مقصد یا نصیب العین کے حصول کے لیے کسی گروہ ، جماعت یا پارٹی کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ نظریے سے وابستہ اور ہم خیال لوگوں کے گروہ کے بغیر وہ اپنے نظریے کو بے جان سمجھتے تھے چنانچہ نظریہ سازی میں اس بات کا خاص اہتمام رکھا جاتا تھا کہ نظریہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے قابل قبول بن جائے اور قبولیتِ عامہ کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ اپنے نظریے کی اپیل کسی رنگ، نسل،زبان، جغرافیہ یا مذہب میں پیدا کی جائے۔یہی وجہ ہے کہ بیشتر نظریات کا جوہر’’ تعصب‘‘ قرار پایا۔ نظریہ، تعصب اور عقیدہ ایک ایسی تکون ہے کہ جس کا مرکز و محور’’ نظریاتی شناخت‘‘ بن جاتا ہے۔ یہ شناخت نظریے کے حامل فرد اور جماعت کو دوسرے تمام انسانوں سے ممتاز قرار دیتی ہے اور معقولیت کی جگہ عدم رواداری، تسلط پسندی، نفرت اور تشدد لے لیتا ہے۔

مارکیٹ اور سرمائے کو بنیاد بنانے والے لبرل علوم اپنے اصول و قوانین میں کسی بھی نوع کی نظریاتی شناخت سے محرومی کے باعث اس قابل ہوتے ہیں کہ نظریاتی مقصدیت یعنی تعصب، نفرت اور عدم رواداری کے متوازی ایک ایسے تمدن کے قیام کا مطالبہ کریں کہ جس میں خیر سے مراد معاشی اور سماجی خوشحالی ہو۔ یہ علوم اجتماع کی بجائے فرد کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی نظریاتی شناخت سے علیحدہ ہو کر بھی خود اپنے اور معاشرے کے لیے مفید شہری بن سکتے ہیں۔ بطور سیاسی نظام جمہوریت کا سیکولر اختصاص نظریاتی شناخت کو دبائے رکھنے کا بہترین ٹول ہوتا ہے کہ جس کے نتیجے میں مارکیٹ اور سرمائے کی وسعت کا وہ ہدف جو لبرل علوم کا منشا ہوتا ہے، حاصل ہونے میں بہت آسان ہو جاتا ہے۔

ما بعد جدیدیت نظریاتی تفکر میں سرکھپانے اور انفس و آفاق کے بارے میں عقلِ محض کے ذریعے حتمی آراء کے ظہور کی بجائے ان لبرل علوم پر فوکس کرتی ہے کہ جن کی عملی سرگرمیوں کے نتیجے میں انسانی تمدن کو مادی وسائل کے ذریعے ترقی ملتی ہے۔ نظریاتی تفکر کا مسئلہ یہ ہے کہ کہ اس تفکر کو عملی سرگرمیوں میں حصہ بنا کر اسے انسانی تمدن کی تشکیل میں بروئے کار نہیں لایا جا سکتا مثلاً ہیگل جب یہ کہتا ہے کہ عقل کائنات کا جوہر ہے تو عقل، کائنات اور جوہر تین ایسے اجزاء ہیں کہ جن کی عددی یا مقداری پیمائش ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ان تینوں کے ارتباط سے کسی معنوی تشکیل کو منظر عام پر لایا جا سکتا ہے، اس کے حقیقی مقصود کو تمدن کی صورت گری میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

فلسفیانہ افکار میں’’نظریہ‘‘ ایک ایسی قدیم ایجاد تھی کہ جس کے ذریعے حیات و کائنات کے حوالے سے بڑے بڑے سوالوں کا جواب دینے کی لیاقت پیدا کرنا تھا مثلاً یہ کہ کائنات کیسے وجود میں آئی؟ کائنات کے مقاصد کیا ہیں؟ حیات کیا ہے؟ بعد از حیات کیا ہے؟ گناہ اوراحساسِ گناہ کیا ہے؟ خیر کیا ہے؟ شر کیا ہے؟ بیماریاں کہاں سے آتی ہیں؟یقین کیا ہے؟تشکیک کیا ہے؟ خدا کیا ہے؟دیوتا کون ہیں؟ وغیرہ ایسے تمام سوالات کا جواب محض عقل سے دیا جانا ممکن نہیں تھا کیوں کہ عقل کے پاس جو شواہد تھے وہ ان کی صرف ناظرتھی چنانچہ نظری افکار کا فلسفے میں بار پا جانا بعید از قیاس نہ تھا۔ جب تک اشیا یا مظاہر کے باطن میں موجود عناصر اور ان کے اندرونی نظام سے آگاہی ممکن نہ ہو سکی اس وقت تک فلسفیانہ افکار ذہنِ انسانی کو مسلسل متاثر کرتے رہے اور مادی سچائی کی جگہ قیاس، گمان ، خیال یا نظریے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا اور اکثر نظریاتی افکار کو یقین جیسا اعتبار بھی حاصل ہو گیا۔

بیسویں صدی کے نصف آخر کے بعد سائنسی تحقیقات نے سرعت اختیار کی۔یہ مادی حقیقتوں کی دریافت کا زمانہ تھا، نظریاتی خیال آرائیوں کا ان حقیقتوں کی کھوج، طریقہ کار اور ضرورت سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہ رہا۔ یہ وہ جہانِ علم تھا کہ جس نے نظریہ سازوں کے ایمان و یقین کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے کو بھی وقت کا زیاں سمجھا اور مادی علوم کا ہر شعبہ اپنی سماجی اور مادی معنویت کے باعث انسانی زندگی کا لازمی حصہ اور ضرورت بنتا چلا گیا۔ تعقل، نظریے اور ایمان کی جگہ اب لبرل علوم نے لے لی کہ جن کی بنیاد محض مادے پر اور اس میں تحقیق پر تھی، جو اصول و قوائد اخذ ہوئے وہ سائنسی علوم کا متن قرار پائے اور پھر انہیں ٹیکنالوجی کا حصہ بنا کر پیداواری ضرورتوں کے ساتھ مشروط کر دیا گیا۔ یوں ایسے تمام علون و فنون، سماجی خدمات کی مستقل اور ارتقاء پذیر شعبے بنتے چلے گئے۔ مثلاً میڈیکل سائنس محض ایک علم نا رہا بل کہ اس کے دائرہِ وسعت میں یہ انڈسٹری بھی ہے، پیداوار بھی، مارکیٹ بھی اور مارکیٹ کی مینجمنٹ بھی۔

فطرت، ابدیت، آفاقیت، معروضیت،موضوعیت، اخلاقی نظام، عظیم تہذیبی روایات اور اعلیٰ اقدار و روایات کے نام پر جو عقل کے گھوڑے دوڑا کر نظریات قائم کیے گئے وہ ایسے عظیم مہا بیانیے قرار پائے کہ جن کی عظمت پر سوال اٹھانا گویا انسان کی فطرت اور جبلتوں پر اعتراض اٹھانا تھا، ان بیانیوں کو خیر اور زندگی کا اصل اور حاصل سمجھ لیا گیا۔ ان کی منطقیت کی دھاک اقوام عالم پر ایسی بٹھائی گئی کہ ان میں موجود تضادات کو ابھارنا اور ان کے سطحی پن کو چلینج کرنا ذہنِ انسانی سے گویا باہر نکال دیا گیا۔ ان میں موجود نسلی، گروہی، قومی، مذہبی، لسانی اور ثقافتی تعصبات کو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مہابیانیوں کے حاملین کا حق سمجھا اور جتایا گیا، اس حق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرتوں اور حقارتوں کے خلاف اٹھنے والی گردنوں کو کاٹ دینے کے حکم نامے سنائے گئے۔ جدیدیت بھی انہی مہابیانیوں کا تسلسل تھی۔

عالمی سرمایہ دار طاقتوں مثلاً برطانیہ، روس، امریکہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ نے عالمی سطح پر اپنے سماجی اور معاشی تسلط کے لیے رنگ، نسل، زبان، مذہب اور تہذیب و ثقافت کے مہابیانیوں کو جدیدیت کے اہداف کے حصول کے لیے قابلِ قبول بنایا۔ ان طاقتوں کے پاس اپنی نو آبادیات پر چڑھائی اور ننگی جارحیت کے لیے کوئی بھی سیاسی یا اخلاقی جواز ہرگز نہ تھا چنانچہ ضروری سمجھا گیا کہ اپنے سیاسی اور اخلاقی جواز کے لیے ان مہابیانیوں کی طرف رجوع کیا جائے کہ جن کی عظمت اور برتری سے انحراف ان کی شناخت کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھی۔

یہی وجہ تھی کہ مذہب، ادب، ثقافت، زبان، نسل، اساطیر، تاریخ اور روایات کی بنیاد پر قائم نسلی، گروہی اور قومی مہابیانیوں کو تمدنِ جدید کے سیاسی اور معاشی مقاصد کے حصول کے لیے خوب خوب ہوا دی گئی اور نفرت اور حسد کی چنگاریوں نے دونوں عالمی جنگوں میں پوری انسانیت کو جلا کر بھسم کر دیا۔

ہمیں ڈینئل بیل کی کتاب”END OF IDEOLOGY” کے مندرجات سے کوئی بحث نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مابعد جدیدیت نے قومی، نسلی، ثقافتی اور مذہبی مہابیانیوں کے متشدد اور تعصب آمیز نظریات پر سوالات اٹھانے کے طریقہ کار کو سمجھا کر نظریے کی موت کا اعلان کر دیا ہے۔ان مہابیانیوں سے جڑے بے جا احساسِ تفاخر کے بخئے ادھیڑ نے کی راہ سُجھا دی ہے۔جدیدیت کی آدرشی نمائشیت کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ جسے فلسفے کی اصطلاح میں”PLURALISM” کہا جا رہا ہے۔ وہ مذاہب، ثقافتوں، نسلوں، ادبیات اور اساطیر کے باہمی اشتراک و تعاون کا نام نہیں ہے اور نہ ہی ان میں موجود ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز مواد کے کانٹے نکال باہر پھینکنے کا نام ہے۔ مہابیانیوں کی تصحیح بھی یا قابلِ قبول جدت بھی اس ازم کی بحث سے خارج ہے جو مہابیانیوں پر واضح اور دوٹوک انداز میں تنقید کے ذریعے لبرل علوم کے استحکام کی ذمہ داری کو پورا کر رہا ہے۔ یہ تحریک لبرل علوم کو مہابیانیوں میں موجود عقلِ محض کی خیال آرائیوں سے آزاد اور علیحدہ کر رہی ہے۔

مہابیانیوں میں موجود سچائی یا صداقت کے معیارات کو جو تقدیس حاصل ہے اس کے باعث متوازی افکار و نظریات کی دنیا کو سطحی اور ناقابل اعتنا سمجھا جاتا ہے۔ ایسے افکار و نظریات کو سطحی قرار دینے کے لیے مہابیانیوں کے مندرجات کو بطور سند پیش کیا جاتا ہے کہ جس کا مقصد مہابیانیوں کی اتھارٹی اور حتمیت کو لازمی طور پر ثابت کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ارتقاء پذیر اور انسانی سماج کی ضروریات سے مطابقت قائم کرنے والے چھوٹے بیانیے لبرل علوم کی صورت میں مسلسل مدّون ہوتے چلے گئے۔ لبرل علوم کی اس آزاد خیالی اور وسیع المشربی کا فائدہ یہ ہوا کہ انھوں نے مہابیانیوں کی طرح سائنس کوبھی سچائی کا حتمی معیار ماننے سے انکار کر دیا اور سائنس کے علم کو کوئی مہابیانیہ سمجھنے کی بجائے اسے صداقت کا ایک ادنیٰ سا جز قرار دے دیا لیکن یہی وہ ادنیٰ سا جز ہے جو مہابیانیوں کے تقدس اور ان کے منطقی استدلال کو مسلسل چیلنج کرتا ہوا سائنس کے علم کو ترقی کی منازل کی طرف دھکیل رہا ہے۔

ما بعد جدیدیت جب یہ دعویٰ کرتی ہے کہ حقیقت کاکوئی حتمی مرکز نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حیات و کائنات کی بے حد و شمار حقیقتیں ہیں، ان حقیقتوں کا باہمی ارتباط اور تعلق ایک ایساوسیع و عریض جال ہے کہ جس تک سائنسی تحقیق کی بنیاد پر دسترس کے بغیر حیات و کائنات کے بارے میں کوئی بھی حتمی نظریہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حیات و کائنات کے بارے میں لبرل علوم اور ان کی تحقیقات کا دائرہ اجزاء کی تفہیم تک محدود ہے اور تحقیقات کا یہ سلسلہ ان علوم کے ارتقاء میں مسلسل جاری و ساری ہے۔

سائنس اور سائنسی فکر کی بنیاد پر ابھرنے والی یہ چھوٹی چھوٹی سچائیاں ایسے”MINI NARRATIVES” ہیں جو کسی عظیم اور حتمی سچائی کی طرف بڑھنے کا دعویٰ کیے بغیر اجزاء کے ظاہر اور باطن میں چھپے عناصر، نظام اور طریقہ کار کو سمجھنے میں غرق ہیں۔ کسی مربوط اور ہمہ گیر آئیڈیالوجی یا نظریے کا قیام اس کی بحث سے خارج ہے۔ اس بات کا خاص اہتمام سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ سماجی علوم میں بھی کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ما بعد جدیدیت نے علمِ تاریخ کے حوالے سے اس بات کا انکار کر دیا ہے کہ انسانی تاریخ کے ارتقاء کے نتیجے میں کچھ ایسے اصول مرتب ہو چکے ہیں کہ جن کی بنیاد پر تاریخی سچائیوں کی دریافت ممکن ہے۔ انسانی تاریخ کا نہ کوئی حتمی اصول ہے اور نہ ہی کوئی ایسی سچائی ہے کہ جسے اتھارٹی قرار دیا جا سکے۔ تاریخ کی سچائیاں وہ عقلی موشگافیاں ہیں کہ جن کا مقصد اپنے نظریات میں موجود تعصب، نفرت، حقارت، انسان دشمنی اور تسلط پسندی کے عناصر کو دبا کر اپنی اس سچائی کو منظر عام پر لانا ہے کہ جس کو کسی گروہ، جماعت، نسلی، وطن یا قوم یا مذہب کی حمایت اور ہمدردی حاصل ہو۔ حتمی اور ہمہ گیر سچائیوں کے حامل ایسے تمام بڑے بیانیے اور نظریات چھوٹی چھوٹی سچائیوں کے ان تمام پہلوؤں سے نگاہ ہٹا دیتے ہیں کہ جن پہلوؤں کو دبانا ہی مہابیانیوں کی ان نام نہاد حتمی سچائیوں کا مقصود و مطلوب ہوتا ہے۔

انسان اور انسانی تاریخ کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی اور اس حوالے سے جن پیش گوئیوں کا اعادہ کیا جاتا ہے ان کا مقصد تاریخ سے متعلق اپنے نظریے کا دفاع ہوتا ہے یہ نظریہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ بظاہر جسے ایک قوم، نسل، فرقہ، گروہ یا کسی مذہب کے حاملین اس نظریے کے بموجب اس نظریے کے مندرجات کو صریح ظلم اور نا انصافی سمجھتے ہوں وہ اسے عین حق اور مبنی پر انصاف سمجھ کرم قبول کر لیں ورنہ نتائج کے لیے تیار رہیں۔

تاریخ سے متعلق ایسے تمام تصورات اور نظریات اور ان کی مقصدیت ما بعد جدیدیت کو ہرگز قبول نہیں ہے،ان معنوں میں ہم باسہولت کہہ سکتے ہیں کہ ما بعد جدیدیت ردِّ ثقافت یا DECULTURALIZATION کا مطالبہ کرتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جدیدیت نے جن مہابیانیوں کی آڑ میں رنگ، نسل ، زبان ، تہذیب، مذہب اور تاریخ پر تفاخرکی بنیاد پر نئی معاشی منڈیوں کے حصول کے لیے تعصب ،تشدد اور جارحیت کو اپنا فطری، نسلی، مذہبی، قومی یا لسانی حق قرار دے دیا تھا وہ حق چھوٹے بیانیوں کی حامل آزادی کی سیاسی تحریکوں نے چھین لیا مثلاً ہندوستان میں پہلے متحدہ ہندوستان کی آزادی کے چھوٹے سیاسی بیانیے نے آزادی اور خود مختاری کی تحریک میں زور پیدا کیا اور بعد ازاں دوسرے چھوٹے بیانیے یعنی دو قومی نظریے نے ’’ انگریز صاحب بہادر‘‘ کے مہابیانیے کو دیس نکالا دے دیا۔ یاد رہے کہ دو قومی نظریہ اپنی الگ الگ قومی شناخت کے حوالے سے اپنا اپنا مذہبی، قومی اور نسلی مہا بیانیہ رکھتے ہیں اگرچہ ان مہابیانیوں کے قومی، نسلی اور مذہبی تعصبات کو یہاں کے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے لبرل علوم نے اب کافی حد تک بے اثر بنا دیا ہے۔ تاہم اس جملے کے مضمرات قابل بحث ہیں۔

ردِّ ثقافت کے حوالے سے ما بعد جدیدیت کا مطالبہ بلا وجہ نہیں ہے۔ جدیدیت کے نتائج ایک خاص حد تک ٹھکانے لگنے کے بعد سرمائے کی آزادانہ گردش اور پیداوار کی آزاد منڈیوں تک رسائی کے لیے مہابیانیوں کی موجودگی نے معاشی مقاصد کے حصول کے لیے قومی ، نسلی اور مذہبی امتیازات جیسی کئی طرح کی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں، چنانچہ ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ ایسی تمام پابندیوں کو خاطر میں لائے بغیر فری مارکیٹ کے تصور کو عالمی دکانداری کا لازمی حصہ بنا دیں۔ فری مارکیٹ اکانومی کا یہ نظریہ محض نظریاتی خیال آرائی نہیں تھا بل کہ اس کا تعلق اس ٹھوس اور حقیقی صنعتی و نیم صنعتی پیداواروں سے تھا کہ جس کی طاقت کا مرکز و محور عالمی منڈی میں سرمائے کی آزاد اور بے رحم گردش سے تھا۔ تیسری دنیا کے نیم صنعتی معاشرے کہ جن کی صنعت کا تعلق محض خام مال کے حصول سے تھا۔ ان میں موجود غیر صنعتی پیشہ ور دلالوں کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ مصنوعات کی مارکیٹ کے لیے اپنے حصے کے غیر صنعتی یا تجارتی سرمایے سے ہاتھ دھونے کے لیے اپنے مہابیانیوں کو اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے۔ چنانچہ ردّ ثقافت نے مغرب سے کہیں زیادہ مشرق میں رنگ دکھایا۔

ردِّ ثقافت ما بعد جدیدیت کا براہ راست موضوع نہیں ہے اور نہ ہی لبرل علوم کی ترویج ما بعد جدیدیت کابنیادی موضوع ہے۔اس مضمون میں ان دونوں حوالوں سے بحث کا مقصد ردِّتشکیل کے مفکرین لیوٹارڈ، مشیل فوکو، رولاں بارت اور ڈریڈا کے افکار کی معنوی توسیع ہے تاکہ ادبی متون کے ما بعد جدید مطالعے اور تنقید کے طریقہ کار کو سمجھنے میں سہولت پیدا کی جا سکے۔ اس حوالے سے ہمارے پیش نظر مہابیانیوں کی متون ڈی کنسٹرکشن یا ردِّ تشکیل نہیں ہے بل کہ وہ تمام ادبی متون ہیں کہ جن میں مذہبی، نسلی، قومی ، لسانی یا تہذیبی مہابیانیوں کی وکالت، تائید، حمایت یا دفاع کی مختلف صورتیں موجود رہتی ہیں، جہاں نسلی، قومی یا تہذیبی وقار اور امتیاز کو اجاگر کرنے کے لیے بڑی دلیری اور اعتماد کے ساتھ دوسری نسلوں، قوموں ، مذہبوں ، فرقوں، گرہوں یا تہذیبوں کے ساتھ دشمنی، حقارت اور تعصب کو استحقاق سمجھا جاتا ہے اور دوسروں کی نسلی، مذہبی یا تہذیبی شناخت کی توہین اور تذلیل پر اپنی شناخت کا قد بڑھایا جاتا ہے۔

مہابیانیوں کے نظریات ایسے عقائد بن جاتے ہیں کہ جو ادبی متون میں داخل ہو کر فن یا کرافٹ کے ذریعے اپنے داخلی تعصبات اور فکری تضادات اور جھول کو مزید دبا دیتے ہیں اور بقول رولاں بارت ایک طرح کاPLEASURE OF TEXT( متن کا ثقافتی سرور)یاJUSSANCE پیدا ہو جاتا ہے، یوں تعصبات کی معنوعی پرتیں قاری کے ذہن کو متن کے ’’تجزئیے‘‘ سے دور لے جاتی ہیں اور متن کا معنوی سطحی پن اوجھل ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر شعری متون میں ایسے احتمال کی گنجائش بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایسی شاعری حقیقی اور مادی زندگی کی چھوٹی مگر ناگزیر سچائیوں کو دبا کر ایک نمائشی سچ کو منظر عام پر اچھال دیتی ہے کہ جس کا مقصد سچائی کے اس ماڈل کو دیدہ زیب اورپُر مغز قرار دینا ہوتا ہے کہ جو ماڈل تہذیبی، نسلی، ثقافتی یا مذہبی اشرافیہ کے بیانیے سے مطابقت رکھتا ہو۔
مشیل فوکو نے ایسے متون کی انقلابیت کو سیاسی اور معاشی طاقت کے کسی دوسرے مرکز کے قیام کی خواہش قرار دیا ہے، ہر نیا ادبی یا سیاسی منشور طاقت کے حصول کے لیے کہیں نہ کہیں مہابیانیوں کے مقاصد کو بھی اپنی شقوں میں ضرور داخل کر لیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا نہ کرنے سے منشور کی اجتماعی اپیل محدود رہ جاتی ہے اور جسے متون کے مطالعہ کے بعد تعین قدر کا مرحلہ قرار دیا جا سکتا ہے، اس کا تعین بھی تہذیبی، نسلی، مذہبی، یا ثقافتی مہابیانیوں کی روشنی میں کہا جاتا ہے۔ ان مہابیانیوں کی اقدار ہی سے ادبی متون کی قدر کا تعین کیا جا تا ہے۔ان اقدار سے مطابقت ہی قدر کا تعین کہلاتی ہے۔

ڈی کنسٹرکشن متن میں موجود معنیٰ کی وحدت، تحریری اسلوب یا نظام کی مرکزیت، الفاظ، تراکیب اور جملوں کی نشست،اہتمام اور سلیقے میں موجود ترتیب اور توازن کوتوڑ دیتی ہے۔ متن کا نمائشی تعقل جس نفرت، تعصب اور تسلط کی خواہش کو دبا کراسے تفکر ، تدبر اور حکمت کا لبادہ اوڑھا دیتا ہے، ڈی کنسٹرکشن اس لبادے کو گھسیٹ کر پرے پھینک دیتی ہے اور متن کی دبائی میں اصل خواہش کوننگا کر دیتی ہے، وہ متن کی معنوی حتمیت اور حاکمیت کو توڑ دیتی ہے اور متن کا وہ معنوی تناظر سامنے لے آتی ہے کہ جسے متن کا بظاہر نمائشی تعقل دبانے میں کامیاب ہوتا ہے۔یوں صداقت پر نظریے، فلسفے یا کسی مہابیانیے کی اجارہ داری LOGOCENTERISM کو بھی توڑ دیا جاتا ہے۔

ہر متن اپنے لیے ایک خاص سیاق و سباق منتخب کرتا ہے ، سیاق و سباق کا یہ انتخاب کسی بھی متن کی معنوی حیثیت کو مشکوک بنانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔چنانچہ جس مہا بیانیے کے سیاق و سبق میں رہتے ہوئے متن کی نظریاتی تشکیل کی جاتی ہے۔متن کی یہ نظریاتی تشکیل THE OTHERS کے کان کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہوتی ہے، اس نظریاتی تشکیل میں’’دوسروں‘‘ کے لسانی، قومی، مذہبی یا ثقافتی مفادات اور مقاصد کو جب ہدف بنایا جاتا ہے تو دوسرے اپنے مہابیانیوں کے سیاق وسباق میں اپنے متون کی نظریاتی تشکیل کے لیے کیل کانٹوں کو سیدھا کر لیتے ہیں۔ڈی کنسٹرکشن متون کی ہر دو صورتوں کی خبر لیتی ہے کیوں کہ وہ متون کی نظریاتی تشکیل میں موجود تضادات، افتراقات اور معنوی کھانچوں پر خوب نظر رکھتی ہے۔ اپنی برتری، افتخار اور امتیاز کو جب بہر طور ثابت کرنا لازم آ جاتا ہے تو جھوٹ ،مکر و فرویب اور جعل سازی کا متون میں در آنا کچھ ایسا مشکل نہیں رہتا۔ تاریخ، واقعات، افکار،شواہد اور شخصیات کو اپنی مخصوص نظریاتی تشکیل کے لیے متون میں موم کی نازک کی طرح من مانی شکل دے دی جاتی ہے۔ ڈی کنسٹرکشن ہر دومتون کے مطالعہ کے دوران ایسی تمام شکلوں کو ان کی اصل میں بحال کر دیتی ہے یعنی ہر دو متون میں موجود نفرت اور تعصب پر مبنی مواد کو متون سے باہر نکال کر ان کے فکری سطحی پن کو نمایاں کر دیتی ہے۔

ڈی کنسٹرکشن نثری و شعری متون کے با احتیاط مطالعے کا نام ہے، اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ کسی بھی متن کی پہلی خواندگی میں حالات ، واقعات، فکریات، اس میں موجود اقتباسات، شخصیات، دلائل، شواہد، تشبیہات، علامات، استعاروں، روز مرہ محاورات، الفاظ، الفاظ کی تراکیب اور متن کی ترتیب اور توازان کو بالکل ویسے ہی دیکھا، سمجھا اور جانچا جائے کہ جو متن کی تشکیل کا مقصود ہو اور تجزیے میں ان تمام کی وضاحت کر دی جائے کہ جن سے وہ متن تکمیل پا کر ایک مربوط اور با معنی تحریر کی صورت میں سامنے آیا ہے اور وہ تمام اعتراض جو اس تحریر یا متن پر واجب ہوتے ہیں انہیں دخیلِ مطالعہ نہ ہونے دیا جائے تاکہ متن کی اصل معنوی صورت برقرار رہے۔ دوسری خواندگی میں حالات، واقعات، فکریات، دلائل اور شواہد وغیرہ میں موجود تضادات اور افتراکات اورGAPS یعنی معنوی کھانچوں کو متن سے الگ کر دیا جائے کیوں کہ نظریاتی تعقلات کی تشکیل میں مخالف متون کو غلط، بے معنی اور ناحق ثابت کرنے کے لیے ان تضادات یا افتراکات کا در آنا ضروری ہے۔نفرت اور تعصب کی وجوہات کے پیچھے نسلی، گروہی، ثقافتی، مذہبی یا قومی مفادات کے حصول کے لیے جو طاقت اور نظریے کی سچائی درکار ہوتی ہے،مہابیانیوں کی خوشہ چینی سے متن میں وہ طاقت اور سچائی کا جوہربہت کم سما پاتا ہے۔

اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے ہے کہ عقلی استدلال جب اس کمی کو پورا کرنے کے لیے متن کے میدان میں اترتا ہے تو متن میں غصہ اور اشتعال کے باعث شواہد اور دلائل کی جگہ براہ راست تعصبات لے لیتے ہیں۔ یوں وہ متن جوصداقت کی تلاش میں سفر کا آغاز کرتا ہے بہت جلد تضادات اور افتراقات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ ڈی کنسٹرکشن کے لیے متن کی دوسری خواندگی متن میں موجود نفرت، غصے، حسداورتعصب کے تمام عناصر کو منظر عام پر لے آتی ہے اور ان تمام جگہوں کی نشاندہی کرتی ہے کہ جہاں جہاں متن کی نظریاتی تشکیل نے ٹھوکر کھائی ہو۔ڈی کنسٹرکشن کا تیسرا مرحلہ DECONSTRUCTED متن کی تیاری کا ہوتا ہے، ادبی متون کے ایک ما بعد جدید ناقد کے لیے ضروری ہے کہ وہ زیرِ مطالعہ متن کے ان تمام فکری ومعنوی مقاصد کو کھول کھول کر بیان کر دے کہ جن کو ادب پارے کی تشکیل کے دوران بین السطور کہیں چھپا دیا گیا تھا۔

ما بعد جدید ناقد فن پارے کی معنوی قدر کا تعین فن پارے کے ثقافتی، قومی یا مذہبی سیاق و سباق میں اس لیے نہیں کرتا کیوں کہ وہ خود ایسے سیاق و سباق کے تناظرات اور اس کے تضادادات سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ وہ ما بعد جدیدیت جو کسی بھی مہابیانیے کی حتمیت کو خاطر میں نہ لاتی ہو، اس کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا ہے کہ وہ اسی مہابیانیے کو قدر کے تعین کا وسیلہ قرار دے دے۔ اسے اقدار کے تحفظ سے زیادہ اقدار اور مادی زندگی کی حقیقتوں کے درمیان پائے جانے والے فرق اور فاصلے میں دلچسپی ہوتی ہے۔

جب وہ دوسری خواندگی میں زیرِ مطالعہ متن کی معنوی سطح پر دھجیاں اڑا رہا ہوتا ہے اس وقت اس کے پیش نظرمتن کا داخلی تنوع بھی ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ حقائق سے پردہ پوشی کے لے متن میں فکری سطح پر کن جہات کو داخل کیا گیا ہے؟ اور کیوں؟واقعیت کی جگہ جھوٹ کی اختراع کیسے کی گئی ہے؟ اور کیوں؟ عبارت کے بعض حصوں کے درمیان متن ربط پیدا کرنے میں کیوں ناکام ہوا؟ اس کی وجوہات کیا تھیں؟ نتائج کی تدوین میں بعض جگہوں پر متن کے مندرجات کو خاطر میں نہیں لایا گیا تو کیوں؟ جن حوالہ جات کو سند کے طور پر متن کے لیے منتخب کیا گیا، ان کے انتخاب کی وجہ کیا تھی؟ یہ تمام ایسے سوالات ہیں جو ہمیشہ ما بعد جدید ادبی ناقد کے پیش نظر رہتے رہے ہیں۔ان سوالات کے جوابات میں وہ اپنے معانی داخل نہیں کرتا بل کہ خود متن میں ان تمام کے جوابات موجود ہوتے ہیں۔ یوں وہ متن کی واحد معنوی تفہیم کو بھی توڑ دیتا ہے کہ جس کی پذیرائی کسی نسل، قوم ، تہذیب یا ہم مذہبوں میں شدو مد کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔

جہاں تک اردو تنقید کا معاملہ ہے تو وہ ابھی تک جدیدیت کی مہابیانیوں سے مملو طرزِ تنقید سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اس کی اپنی جغرافیائی، معاشی اور سیاسی وجوہات بھی ہیں۔ ما بعد جدیدیت کے ایک لازمی سیکٹر یعنی صارفی معاشرہ ہونے کے باوجود اب بھی اردو تنقید نظریات کے جکڑ بند اور فرسودہ فکری ماڈلوں کی نام نہاد سچائیوں کے جال میں الجھی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو تنقید زندہ زندگی سے مربوط ہونے کی بجائے نظریاتی قیاسات اور خیال آرائیوں میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ تاہم ڈی کنسٹریشن اور اس کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے راقم کی کتاب’’ فکرِ اقبال کا المیہ‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

7 Comments

  1. محترم داکٹر صلاح الدین درویش نے مشکل تصورات کو انتیائی جامع،پر کشش اورمختصر انداز میں پیش کیا یے۔ان تھیوریز کو سمجھنے والے کے لے سنہری موقع ہے

  2. درویش صاحب کی تحریر سے مجھ جیسے ان پڑھ کو ان latest concepts کی کچھ سدھ بدھ ہوئی ہے،دوسری اور تیسری خواندگی کے بعد میں اس مضمون کو deconstruct کرنے کی position میں ہوں گا

  3. درویش صاحب کا انداز سب سے جدا ہے مجھے جیسے کم علم آدمی کو بھی بات سمجھا جانے کا ہنر جانتے ہیں سلامت رہیں سر

  4. ما بعد جدیدیت ترقی یافتہ معاشروں کا علمی ڈسکورس ھے جو سماجی تضادات کو بھی زیر بحث لاتا ھےمگر ہمارے بر صغیر کے سیاسی و سماجی ڈسکورس جہاں افرد کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ھے ان کو ما بعد جدیدیت سے کیا لینا ہمیں ما بعد جدید نظریہ کو استحصالی قوتوں کے خلاف اور اصلاحات کے لئے استعمال کرنا چاہیے

  5. ڈاکٹر صلاح الدین درویش اپنی نوعیت کے فکری مباحث پر نقطہ نظر رکھنے والے دانشور ہیں۔ جو خالصتا ان کے اپنے خیالات و افکار پر مبنی ھوتے ھیں ، لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ھے کہ ایسے علمی مباحث کی ستم نمائ میں کہیں کہیں چذباتی پن اور انارکسسٹ عناصر در آتے ہیں۔ جو اصل موقف سے ہٹا کر کچھ اور بھی سوچنے پر مجبور کرنے ہیں۔ scattered images poem میں بھی ایک وحدت تاثر ہوتا ھے لیکن جب فکری مباحث کو موضوع کیا جاۓ تو یہ ہنر کار گر ثابت نہیں ھوتا۔
    مذکورہ مضموں پر دوستوں نے بہت تعریف کی اور حق بھی ھے کہ کی جانی چاہیۓ کہ اس انداز میں اردو میں لکھنے کا رواج مفقود ھے۔ یہاں چند معروضات پیش خدمت ھیں
    یہ مضمون چھٹے پیراگراف سے درست انداز میں شروع ھوتا ھے ۔ اس سے قبل کے چھے پیراگراف میں کی جانے والی باتوں پر مچھ طالب علم کے کچھ تحفظات ھیں جو کہ درج ذیل ھیں :
    1۔ “سکولوں، کالچوں، یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں تحقیق و جستجو کو خالص نظریاتی بنیادوں کو غیر ضروری قرار دے دیا ” جب کہ سرمایہ دارانہ نظام خود ایک نظریہ ہے جو طبقاتی اسحتصالی بنیادوں، بے پناہ منافع خوری اور عوام کی جیبوں میں موچود رقم کو نکالنے کا واحد ذریعہ ھے۔ اس نظام میں اشیا کی اشتہا کر ضرورت بنا دیا جاتا ھے ۔
    2۔ “نظریاتی شناخت ” لبرل علوم عالمی اثاثہ اس کیے قرار پاۓ کہ سرمایہ دار کو پورے عالم پر معاشی سطح پر حکمرانی کرنا تھی ۔ یورب اور امریکہ کا نوآبادیات کے سلسلہ میں کردار تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ عصری صورت حال میں ملٹی نیشنل کمپنیز، کارپوریٹ سیکٹر، فری مارکیٹ اکانومی، ڈبلیو ٹی او نے عالمی معشیت کو کس قدر محدود ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا دیا ہے یہ مضمون نگار خود بھی جانتے ھیں ۔
    3۔ ڈیکارٹ، لاگ، ڈیوڈ ہیوم، والٹیر، نظشے، مارکس اور ڈارون سے لے کر سارتر تک کوئ بھی مفکر ماڈرنسٹ نہیں تھا بلکہ اپنے خصوصا مارکس اور سارتر کے نظریات سرمایہ دارانہ نظام کے متوازی عام انسان کی فلاح کے لیے تھے جن کے بارے بار بار مضمون نگار “نظریاتی شناخت” کی اصطلاح استعمال کر رھے ھیں ۔ نظریہ بلا وجہ جنم نہیں لیتا خصوصا سولویں صدی کے بعد، وہ اپنے عہد کی پیداوار ہوتا ہے اور اکثریت کا سچ، جسے” تعصب ” قرار دیا جا رھا ھے وہ دراصل ان پسماندہ طبقات کے تحفظات ہوتے ہیں کیوں کہ ان کے وسائل زندگی پر ناجائز انداز میں قبضہ کیا جا رہا ہوتا ھے اس لیے پیداشدہ نفرت کو” تعصب” قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ “نظریانی شناخت” کے معنی رنگ، نسل، جغرافیہ یا مذہب سے بلند ھو کر صرف سرمایہ دار کی ناجائز منافع خوری سے تحفظ حاصل کرنا ھے۔ دیا رھے کہ دنیا بھر میں سرمایہ دار قلیل ہیں جب کہ عام انسان بہتات سے پاۓ جاتے ہیں۔
    4۔ “عدم رواداری، تسلط پسندی، نفرت اور تشدد” سماج میں غیر مساویانہ تقسیم اور بنیادی انسانی حقوق کی بامالی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی لیے نظریہ سازی کی ضرورت جنم لیتی ھے۔
    5۔ “خیر سے مراد معاشی اور سماجی خوشحالی” آپ سب جانتے ہیں کہ سرمایہ داری جس کی فیضوض و برکات سے مضمون نگار آگاہ کر رھے ھیں انہوں نے کس قدر خوشحالی کو جنم دیا ھے۔۔۔۔ کہ آج بھی دنیا میں بہت سے انسان غربت کی لکیر سے نیچے جانوروں والی زندگی بسر کر رھے ھیں ۔
    6۔ فرد کو افراد یا سماج کے نظام سے کاٹ کر اکای کے طور پر دیکھنا اور ترغیب دینا گویا اسے تنہا کرنے کے مترادف ہے اور تنہا فرد کا شکار بہت آسانی سے کیا جا سکتا ھے۔ فرد کی بحیثت فرد شناخت کے قیام کو کبھی بھی کسی نظریے نے چیلنج نہیں کیا۔
    7۔ “جمہوریت” کا آزادانہ ہونا خاصے کی بات ہے لیکن اکیسویں صدی میں بھی امریکہ جیسا جمہوریت کا چمپین سرمایہ دار کی منشا کے تابع ہے۔ اس انداز کی جمہوریت کو جارہ جمہوریت کہا جاتا ہے، جنوبی ایشیا کی جمہوریت تو جیر سے جمہوریت کر تمسخر ہے جہاں جیالے ہیں جو جاگیرداروں اور ساہوکاروں کی آف شور کمپنیز کے معلوم ہو جانے پر بھی بلے بلے بلے کے نعرے لگاتے ہیں ۔
    8۔ اس مضمون میں حیات، کائنات، خیر، شر، گناہ ، بیماری، تشکیک، خدا، دیوتا پر جو بحث کی گئ ھے وہ قدیم فلسفیانہ افکار ہیں اور جن مفکرین کارل مارکس، ڈارون اور سارتر کا ذکرکیا گیا ہے ان کا بنیادی مسلہ عام انسانوں کو درپیش مسائل اور ان کی زندگی کو آسان بنانا رہا ھے جب کہ ثانوی سطح پر ان مسایل پر بھی گفتگو موجود ہے۔ حیات و کائنات پر سوالیہ نشان نہ ہوتا تو آج نہ نیوٹن ہوتا نہ آٰئن سٹائن نہ سٹفن ہاگنگ۔
    9۔ میڈیکل سائسنز اب انڈسٹری بن گئ ہے جب کہ لویز پاسچر کسی انڈسٹری کا ملازم نہیں تھا جب کہ دنیا جنگ عظیم میں مبتلا تھی اور وہ انٹی سپٹک کی فکر میں تھا۔ اب جب کہ مضمون نگار کے بقول یہ ایک انڈسٹری ہے تو اسے بھی سرمایہ دار نے خرید کر حقوق اپنے نام محفوظ کر رکھے ہیں ورنہ کلوننگ اور جنیٹیکل انجیرنگ میں تحقیق ریاستی ادارے کرتے ہیں اور ان کو پبلک نہیں کیا جا سکتا نہ ہی پریکٹس کیا جا سکتا ہے ورنہ ڈی این اے سے اگر تمام بیماریاں پاک کی جا سکتی ھیں تو بیمار کو شفا کیوں نہیں مل سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    • محترم ڈاکٹر صلاح الدین درویش اور ڈاکٹر ارشد معراج دونوں کے خیالات پڑھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

  6. میں اس مضمون پر جناب عمران شاہد بھنڈر صاحب کے خیالات کا منتظر ہوں

Comments are closed.