مظلومی کا کیا لکھیں؟

مظلومی

مظلومی کا کیا لکھیں؟

نصیر احمد

مظلومی تو بہت زیادہ ہے کیونکہ ظلم بہت زیادہ ہے۔ صوفیا کے عشق جیسا معاملہ ہے جس کی انتہا یہ بتائی جاتی ہے کہ دوئی مٹ جائے کہ معلوم ہی نہ ہو کون کیا ہے؟ عشق میں تو یہ دوئی مٹی کبھی نہ دیکھی لیکن ظلم اس قدر زیادہ ہے کہ  کسی کا نہیں پتا چلتا کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟

بے حد رمزاں دسدا ڈھولن ماہی

ہم کہاں کے رماز رموز ہیں لیکن جو بھی رمزیں ابھی تک پلے پڑی ہیں وہ ظلم کو جواز ہی فراہم کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

ایک دن پتا چلتا ہے کہ عذیر نے جمیلہ کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے، ہم عذیر کی سفاکی کی ملامت کرنے لگتے ہیں اور جمیلہ کے دکھوں کی گٹھڑی سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن دوسرے دن خبر ہوتی ہے کہ اصل میں تو جمیلہ بڑی ڈائن ہے، عذیر بے چارہ تو بہت ہی دُکھیا اور ستم زدہ ہے اور ہم بھی سوچے سمجھے بغیر سب کچھ مان لیتے ہیں کہ کہنے والا سچا آدمی ہے کیونکہ اپنا آدمی ہے اور پھر اپنے آدمی کی بات ٹھکرائی تو کہیں خود ہی مظلوم نہ بن جائیں۔

ہمیں تو لگتا ہے دونوں ہی مظلوم ہیں کہ معاشرے میں ظلم کی اس طرح تقسیم ہوئی ہے سب کا

ظلم سہنے کا ایک حصہ مقرر ہے۔ جس پر اس حصے سے زیادہ ظلم ہو رہا ہے وہ بے وقوف ہے اور جس پر اس حصے سے کم ہو رہا ہے، وہ دانا۔

اور اگر ظلم سہنے کے حصے مقرر ہیں، تو ظلم کرنے کے حصے بھی مقرر ہیں، ہر کسی کو کچھ نہ کچھ دستیاب ہے، ظلم کرتے کرتے حکمرانی ملتی ہے ، پھر حاکم مہربان کیسے ہو، وہ وزیروں پر ظلم کرتا ہے، وزیر افسروں پر، افسر عوام پر، عوام ایک دوسرے پر، مرد عورتوں پر، عورتیں بچوں پر اور جس کا کسی پر بس نہیں چلتا وہ چڑیا کے گھونسلے توڑنا شروع کر دیتا ہے۔ آخر میں سب کچھ الٹا سیدھا، گھناونا ڈراونا مکافات کے کھاتے میں ڈال کر سجدہ شکر بجا لاتے ہیں کہ دو وقت کی روٹی تو میسر ہے۔

بنیادی سوال ہے ظلم کیا ہے؟ اس کا جواب اقوام عالم کی دانائی دے ہی چکی ہے کہ ظلم فرد اور گروہ کے انسانی اور جمہوری حقوق کا انکار ہے۔اور یہ دانائی صدیوں کی محنت کے بعد میسر آئی تھی۔لیکن ہمارے ہاں روح و عشق کے ہنگامے میں ہزار وعدوں کے باوجود اس دانائی کا شب و روز انکار کیا جاتا ہے۔

ہم نےعشق تو طاری و ساری نہیں دیکھا ، ظلم بہر حال طاری وساری دکھائی دیتا ہے، ہر جگہ موجود ہے کراچی سے لے کر خیبر تک اور ہمہ دم فزوں ہوتا رہتا ہے۔ شاید ظلم کو ہی یاران نکتہ دان عشق کہتے ہیں یا ہم کچھ پگلا سے گئے ہیں۔ لیکن اوروں کو بھی ایسے ہی دکھتا ہے مگر پاس سب کی نظر کچھ کمزور ہو جاتی ہے، ظلم کو عشق کہنے لگتے ہیں۔ جب مار رہے ہوں تو سب کچھ مجاہدہ اور تزکیہ لگتا ہے اور جب مار پڑ رہی ہو پھر ظلم کا احساس ہوتا ہے۔ اور پھر ظلم کرنے کو حق کا بھی درجہ حاصل ہے کہ زندگی میں تھوڑی سی ترقی ہو جائے تو یارانِ با صفا لمحوں میں چرواہے بن جاتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کو ریوڑ جان لیتے ہیں اور مال مویشی کو پیٹنا بھی بھلا کوئی ظلم ہوتا ہے؟

اصل میں انسانیت کی یہ معطلی ہی ظلم کی بنیاد ہے کہ جسے فیض صاحب درد کا رشتہ کہتے تھے وہ ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ رشتہ تو جانوروں سے بھی ہے لیکن یہ مغربی طرز گفتگو ہے، اس لیے نہ ہی کریں تو اچھا ہے اور ہمارے ہاں دیکھے سنے کو نظریے کے ذریعے مسترد کرنے میں بہت مہارت ہے۔نظریہ، آنکھوں والوں کا ایک چشمہ جس کے ذریعے وہ بینائی کا انکار کرتے ہیں، اندھوں کی لاٹھی بھی۔ لیکن انسانیت کی معطلی صداقت کی معطلی کے بغیر کہاں ممکن ہو پاتی ہے؟

اب ظلم بڑھے تو بڑھے، پُرکھوں کو شفیق الرحمان کی حکومت آپا کی طرح سب کچھ پہلے ہی پتا تھا، ان کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن انسانیت کی یہ معطلی ان گنت مظوم پیدا کرتی ہے، اور ان کے دلوں میں غصہ پلتا رہتا ہے اور کسی دن کوئی اس غصے کو کوئی دشا دکھا دیتا ہے اور وہ بھی انسانیت معطل کرتے ہوئے ظلم وستم کرنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں ظلم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

سب سے بڑی زیادتی یہ ہوتی ہے کہ مظلوم کو اس کا احساس ہی نہیں رہتا کہ ظلم سے بہتر بھی کوئی صورتحال ممکن ہے، اس لیے جب اس کے پاس جمہوریت، آزادی، احترام، دوستی، محبت اور مسائل کے حل لیے آئیں وہ بگڑے ہوئے بیل کی طرح ٹکریں مارنے لگتا ہے۔

اب تو مظلومی کے گرد اس قدر دھندا ہونے لگا ہے کہ اصل مظلوموں تک اقوام متحدہ کی بھی رسائی ممکن نہیں رہی اور جب مظلوموں تک رسائی ہی ممکن نہیں تو ان کے مسائل سے کہاں آگاہی ہو گی، اس وجہ سے اقوام متحدہ کافی برسوں سے کسی کو نجات نہیں دلا سکی، بس چارٹ شارٹ دکھا کر، تھوڑے آنسو بہا کر خانہ پری کرتی رہتی ہے اور دھندا چلتا رہتا ہے۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کو اپنے چارٹر پر اصرار کرنا چاہیے اور کم از کم آئینی طور پر تو کسی ملک کو انسانیت معطل کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

مظلومی ہے تو احساس مظلومی بھی ہو گا۔ احساس مظلومی کی اپنی ایک سیاست ہے جس کی آڑ میں اکثر ظالم اپنے جرائم چھپا لیتے ہیں۔بس میڈیا چاہیے اور بہت سارا شور شرابہ اور اس شور میں سب کچھ کنفیوز ہو جاتا ہے۔ اس کا حل صداقت ہے لیکن صداقت تو انسانیت کی معطلی کا شکار ہو گئی۔اس لیے اس شور شرابے کا کچھ کیا نہیں جا سکتا۔

اب پڑھے لکھوں کا کام یہی بنتا ہے جہاں بھی موجود ہیں، وہاں انسانیت اور صداقت کی بحالی کی کوشش کریں کہ یہ راستہ جمہوریت کی طرف لے جاتا ہے اور جمہوریت کی برقراری کا دارومدار بھی صداقت اور انسانیت پر ہے۔ پھر آزادی، برابری اور خوشی کی تلاش کے امکان کچھ واضح ہوں گے۔ اس پڑھائی لکھائی کا کیا فائدہ جو تعصب افزا اور ستم انگیز ہو۔

موجودہ زمانے میں جمہوریت کے حالات خراب ہی ہیں لیکن پھر بھی ہر قسم کے متبادل سے بہتر ہے، خود ہی جمہوریتوں اور آمریتوں کا موازنہ کر کے دیکھ لیں، جستہ جستہ ہی سہی لیکن فرق صاف ظاہر ہے، فرق فرد، شہری، انسان اور سائنسدان اور مظلوم، غلام اور ظالم کا ہے۔ اور یہ فرق امت کی تقدیس کے گیت گانے سے نہیں مٹتا، نکتہ نگاہ کی تبدیلی سے ہی مٹتا ہے اور جو صداقت ہے اس کو تسلیم کرنے سے مٹتا ہے۔