دیہات اور ہماری ماحولیاتی جمالیات

Ashraf Javed Malik اشرف جاوید ملک

دیہات اور ہماری ماحولیاتی جمالیات

میں اپنے آبائی گاؤں، والدین اور تعلق رشتہ داروں، اپنے آبائی گھر، سکول کے ہم جماعت دوستوں، اور اپنے آبائی گاؤں کے ان ہم عمروں سے جڑا ہوا ہوں کہ جن میں سے اب اکثر دکان دار، کار و باری سیٹھ، زراعت پیشہ، یا پھر ملازمت کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔ ان سب کے بہانے سے مجھے بار بار شادی، دعوت یا دکھ کے مراحل میں اپنے گاؤں کی طرف آنا پڑتا ہے۔ تیز موسیقی، آم اور فالسہ کے باغات، بہتی ہوئی نہروں اور سر سبز مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گاڑی چلانے کا ایک الگ ہی مزہ ہے۔

سنہ دو ہزار ایک سے پہلے کے اردو اور سرائیکی لوک گیت مجھے میرے اس دور میں واپس لے جاتے ہیں جب رَتّے لال خون میں زندگی کی مختلف سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ گرمیاں بھی ہوا کرتی تھی۔ ان روشن دنوں میں اکثر جی چاہتا تھا کہ میں کھیتوں اور آم کے باغات کے اوپر سے اڑ کر آگے ہی آگے گزرتا چلا جاؤں۔

آج گزری ہوئی زندگی کے گرم و سرد ایام کی حدت مجھے اپنے پاس واپس بلا رہی تھی۔ چالیس سالہ عمر سے بیس سالہ عمر کی طرف مراجعت کا ایک تخلیقی عمل، میں نے retrospection کی کیفیات کا ایک  ہلکا سا تاثر اپنے چہرے پر سجاتے ہوئے بینک آفیسر سے تحریر شدہ دعوی’ داری پرچہ طلب کیا اور کہا کہ میں خود آپ جا کر یہ پرچہ گاؤں کے بینک میں دے آتا ہوں۔ چلو اس بہانے سے ایک بار پھر اماں اور بابا کی کا حال احوال پوچھ لوں گا۔

گزشتہ پندرہ دنوں میں گاؤں کے لیے یہ میرا  تیسرا چکر تھا۔ میں گھر سے ہوتا ہوا اپنی بیوی اور چھوٹے بیٹے کے ساتھ گاؤں جا پہنچا۔ سسرالی گھرانے سے قصبہ کے بینک کی متعلقہ برانچ تک کا سفر اور پھر بینک سے واپسی پر سیدھا اپنے گاؤں اماں اور بابا کے پاس۔

بابا کی طرف سے  بوسے عطا ہوئے، ماں تو پھر ماں ہے بابا سے دو گنے بوسے اور دعائیں۔ بہت سی باتیں بھی اور حال احوال بھی۔ ایسے محسوس ہوا جیسے میں کئی سال بعد یہاں آیا ہوں حالاں کہ ابھی تین دن پہلے ہی میں یہاں سے ہو کر گیا تھا۔ ماں نے مجھے کچھ کھجوریں کھانے کو دیں۔ ایل پی جی گیس کے چولہے پر دو منٹ میں چائے تیار ہو گئی تھی۔ میں نے کچھ وقت گزارنے کے بعد بابا جان سے کہا کہ آؤ آپ کو کہیں گھما پھرا لاتے ہیں۔ اس بہانے سے آپ کا جی اچھا ہو جائے گا۔

میرے اصرار پر اماں بھی ساتھ چل پڑیں۔ کار گھر سے دور کھڑی تھی۔ بابا نے آدھا سفر پیدل طے کیا اور پھر موٹر سائیکل کی مدد سے میں انہیں کار تک لے گیا۔ اماں کچھ فاصلہ پیدل چلیں اور پھر سانسیں بَہ حال کرنے کے لیے ایک جگہ رک گئیں۔

میں نے اپنی بانہوں کی جھولی بنائی اور انہیں کندھے پر اٹھا لیا۔ کچھ دیر بعد ہم گاؤں سے شہر روانہ ہو گئے تھے۔ ہم نے کھانے پینے کی اشیا خریدیں۔ خوب گھومے اور پھر شہر سے واپسی پر ایک نزدیکی دیہات میں  اپنی بہنوں کے گھروں کی طرف آ گئے۔ گندم کی ڈھیریوں پر تھریشر مشینیں لگی ہوئی تھیں فضا میں ہر طرف گرد ہی گرد تھی۔ ہمیں اچانک وہاں موجود پا کر بچوں اور بڑوں کا میلہ سج گیا۔

اب کی بار میں نے جب گاڑی اس طویل راستے کی طرف موڑ دی جو ہمارے آبائی گاؤں کی طرف جاتا تھا۔ تو اماں جان بول پڑیں۔ ایڈوں کیوں ویندا پیں؟ پتر ایں پاسوں ونجنڑ نال پٹرول ودھ خرچ تھیسی۔

میں نے مسکراتے ہوئے کہا، اماں میں ایں بارے ڈھیرنی سچیندا۔ لیکن اماں ٹھیک کہہ رہی تھیں۔ انہوں نے انیس صد چالیس سے انیس صد اسی تک ایک مشترکہ کنبے کی ہانڈی روٹی کا چِلّہ ہاتھ والی چکی پیستے ہوئے کاٹا تھا۔ ماہ و سال کے گرم و سرد موسموں میں کپاس کی چنائی اور گندم کی کٹائی سے گہائی اور وڈھ چنائی سے لے کر کڈھی میلائی تک۔

جانوروں کے گھاس کی کٹائی اور ٹکائی سے لے کر ان کا دودھ دوہنے اور فجر کی اذان سے پہلے دودھ بلوئی اور مکھن نکلائی تک کون سا کام تھا جو اماں نے نہیں کیا تھا۔ دادی ماں کا ان پر رعب تھا کہ فجر کی اذان کے بعد مکھن کم نکلتا ہے اور لسی میں وہ چَس نہیں ہوتی جو تہجد کے وقت کی برکت سے ہوتی ہے۔ گُھم گُھم مٹی چھا تیڈی کھٹی سونے دا نہیلا، مکھنڑ تیڈا پیلا، چھکا گیا پار، گِھن آیا کنوار، کنوار بیٹھی چھکے دے، چھکا پیا ترٹ، کنوار گئی رُس۔ مجھے اماں کے یہ اشعار آج بھی یاد تھے۔

پتا ہی نہ چلا سوچوں کے چرخے پر اپنے گاؤں کی یادیں کاتتا ہوا میں اپنے گاؤں تک آ پہنچا تھا۔ جہاں اب مکئی کی فصل پر مکئی کے بھٹوں کی شکل و شباہت والے طوطوں میں سے ایک طوطا بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گاؤں کی مسجد جو اخلاص و اتحاد کے نور سے فراواں ہوا کرتی تھی اور گاؤں کے سبھی چھوٹے بڑے لڑکے بالے اور مرد نماز پڑھا کرتےتھے، لوگوں سے قدرے خالی تھی، ٹاہلی کے بلند و بالا درخت نجانے کتنے برس پہلے کسی گھر کے ستون بنا دیے گئے تھے۔

نہ وہ باغات اور نہ ہی وہ کیکر اور نہ ہی ان پر بندھی ہوئی پینگیں۔ رہے نام اللہ کا۔ میں نے ماں اور بابا جان  کو اپنے آبائی گھر تک چھوڑا اور بہت سی محبتیں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے بیوی اور بیٹے کو ساتھ لیے شہر کی طرف روانگی کا قصد کیا۔

جگہ جگہ کھیتوں میں  کٹائی کے بعد جلائے جانے والے گندم کے ناڑ کی سیاہ چادریں تصاویر کی صورت کئی مربع اراضی تک پھیلی ہوئی تھیں۔ گندم کے ناڑ کو جلانے کے لیے بھڑکائی جانے والی آگ نے نہر کنارے کھڑے ہوئے دو سو سالہ قدیم کیکر کے اس درخت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جس کا بھاری بھرکم تنا اپنے قطر کی نصف لپیٹ سے زیادہ سوکھ چکا تھا؛ اور آگ کے شعلے اس کی کوکھ میں داخل ہوکر اسےتڑ، تڑاتڑ تڑ، جلائے جا رہے تھے۔ میں گاڑی روک کر کچھ دیر تک جلتے ہوئے اس زندہ درخت کی صورت میں زندگی کے پُر رونق چہرے، اپنے رشتوں اور خود اپنے آپ کو جلتا ہوا دیکھتا رہا۔

میری آنکھوں کے سامنے میرا سماج اپنی تمام تر ہریالی سمیت ایک دیو ہیکل درخت کی صورت میں جل رہا تھا جس کے نچلے دھڑ کی راکھ ہولے ہولے اوپر اٹھ کر کسی چھوٹے سے بگولے کی طرح نیچے گر رہی تھی، اور کوتاہ رفتاری سے جلتی ہوئی آگ کی تپش نے وہاں پر میری موجودگی کو قدرے مشکل بنا دیا تھا۔ درخت جل رہا تھا مگر اس کی بلند شاخوں پر زندگی کی نمو اور ہریالی ابھی تک موجود تھی۔ درخت کی ان شاخوں میں پرندوں کے گھونسلے بھی ہوں گے کیوں کہ کچھ پرندے روتے چیختے ہوئے اس کی شاخوں میں گھستے اور پھر آگ کی تپش برداشت نہ کر سکتے ہوئے دوسرے درختوں کی سمت آ جا رہے تھے۔

گاؤں سے شہر کی طرف واپسی کے اس طویل سفر کے درمیان میں سڑک کی دونوں اطراف موجود درختوں کے جھنڈ جب باہم گلے ملتے ہوئے دکھائی دیتے تو سڑک دور تک جاتی ہوئی سرنگ کا ایک ایسا منظر پیش کرتی، جیسے کوئی بڑا مین ہول ہو، یا پھر ایک بگ بینگ، جہاں سے ہم کسی دوسرے جہان کی طرف منتقل ہو رہے ہوں۔ ہلکی موسیقی اور خود کلامی خود سے ملنے اور بچھڑنے جیسے دو الگ الگ زاویے، یہ دنیا اور اگلی دنیا، سفر در سفر، بہت سے جاننے والے عزیز، رشتہ دار اور ہم نفس، بھیدوں بھرے اس جہان میں آ کر بعد از بہشت ہم کسی سے ملے اور کسی سے نہ مل سکے۔

کسی سے ادھورے ملے یا پھر ملنے کے سبھی امکانات کے با وُجُود بھی بہت سوں کو ہم ان کی یا اپنی انا داریوں یا کچھ خدشات کی وجہ سے نہ دیکھ پائے۔ یہ اس دنیا کی بھیڑ اور زندگی کے بازار کا سفر ہے۔ بہت ہی مختصر جہاں ہم اس لیے بھی مختصر ملتے ہیں کہ ہم جسم، کششِ ثقل اور ایک الگ کمیت رکھتے ہیں، اور پھر ہم بہت جلد ملنے والے ہیں۔

آنے والی اس ساعت میں جب ہم فضا میں ایک نرم ہیولے کی طرح سے تیر رہے ہوں گے اور وقت کی گرفت سے مکمل طور پر آزاد ہوں گے۔ ان سب رشتوں کے ساتھ ہماری نوعیت اور اہمیت نجانے تب کیسی ہو گی اور یہ اماں اور میرے بابا جان؟ کئی سوالات ذہن میں جاگ آئے تھے، اور پھر ایک طویل مسافت کے بعد میں شہر کے ماحول میں داخل ہو گیا۔

دروازہ کھلا، میں نے کار، کار پورچ میں کھڑی کر دی ، اور تھکن کی وجہ سے سیدھا اپنے کمرے میں جا کر سو رہا۔ بڑا بیٹا چپکے سے کمرے میں داخل ہوا۔ میرے پیروں کے تلوؤں پر سرسوں کا تیل لگایا۔ مالش کی اور پاؤں دبانے لگا۔ بڑی بیٹی نے مجھے چائے بنا کر پیش کی۔ میں نے دونوں بچوں کو پیار دیا۔ اور پھر سونے کی کوشش کرنے لگا۔

رات کچھ اور گہری ہوتی چلی گئی اور پھر میں زندگی کے ہنگاموں سے اکتا کر تھکے قدموں  ایک بگ بینگ میں جا داخل ہوا۔ ایک ایسا مین ہول جہاں پر وقت وہی تھا مگر میں بہت ضعیف اور نا تواں ہو گیا تھا۔

بچے بڑے ہو گئے تھے۔ سب کی شادیاں ہو چکی تھیں اور اب سبھی اپنے اپنے بال بچوں والے تھے۔ پھر منظر بدلا۔ میرے اس گھر میں اب میرا ایک بیٹا اور ایک بہو رہ گئی تھی۔ کیوں کہ اس آبائی گھر کے علاوہ ان کا کوئی اور گھر بھی تو نہیں بن سکا تھا۔ بڑے بیٹے نے بھاگ دوڑ کر کے شہر ہی میں اپنا ایک علیحدہ گھر بنا لیا تھا، جب کہ ہم دو بزرگ میاں بیوی ایک کمرہ، تنہائی اور ہمارے ساتھ کھیلتے ہوئے ہمارے پوتے پوتیاں۔ وہ نیا گھر جو ہم نے کبھی بڑے چاؤ سے بنایا تھا، اب خستہ حال ہو چکا تھا۔ سانس کی ڈوری پنشن کی رقم سے مضبوط تو تھی مگر موت کے گھڑیال کی سوئیاں کبھی کبھی وقت کو کئی سالوں تک کے لیے آگے بھی تو کر دیتی ہیں۔

رات اور زیادہ گہری ہوتی گئی اور پھر اچانک میرے دل کا بوجھ بڑھا۔ گلا خشک ہوا اور میں ہڑبڑا کر جاگ اٹھا۔ شکر گزاری کے نیم خوابیدہ احساس کے ساتھ میں نے اپنے کمرے کا جائزہ لیا۔ کتابوں کی الماری میں رکھی ہوئی کتابیں پوری ترتیب سے موجود ہیں۔ کپڑے، استری ہو کر کھونٹی پر بڑی نفاست سے لٹکے ہوئے ہیں۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا ہے میں نے خود کلامی کی، مگر میرے اندر خانے بہت کچھ بدل چکا تھا جیسے وقت بہہ کر آگے ہی آگے کہیں دور چلا گیا ہو۔

از، ملک اشرف جاوید

پی ایچ ڈی سکالر، شُعبۂِ اردو، بہاء الدین زکریا یونی ورسٹی، ملتان