کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ دو از دہم)

کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر
Base illustration courtesy thePlayer.org

کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ دو از دہم)

ترجمہ، نصیر احمد

ڈینفورتھ: خاموش ہو جا، اے شخص، خاموش۔

ہیتھورن: اس بات کا مگر جناب سوال پر اثر نہیں پڑتا۔ وہ قتل کے منصوبے کا الزام عائد کر رہا ہے۔

ڈینفورتھ: (وہ ایبی گیل کو بغور جائزہ لیتا ہے، پھر کہتاہے) اپنی بات جاری رکھو، مسٹر پراکٹر۔

پراکٹر: میری گورنر صاحب کو اب بتاؤ کہ تم لوگ جنگل میں ناچ کیوں رہی تھیں؟

پیرس: (جلدی سے) جب سے میں سیلیم آیا ہوں، یہ آدمی میرا نام تیرہ کر رہا ہے۔

ڈینفورتھ: تھوڑا صبر کرو، جناب۔ (حیران ہو کر سختی سے میری سے پوچھتا ہے) یہ کس ناچ کی بات چل رہی ہے؟

میری وارن: (ایبی گیل پر نگاہ ڈالتی ہے جو اس کی جانب بَہ غیر کسی ندامت کے دیکھتی ہے، اور پراکٹر کی منت کرتی ہے) مسٹر پراکٹر، مسٹر پراکٹر۔

پراکٹر: (بات اٹھا لیتا ہے) ایبی گیل ان لڑکیوں کو جنگل میں لے گئی تھی اور یہ جنگل میں ننگا ناچی تھیں …

پیرس: جنابِ عالی یہ …

پراکٹر: (جھٹ سے) مسٹر پیرس نے انھیں رات کی خاموشی میں دیکھ لیا تھا۔ ایسی بچی ہے یہ۔

ڈینفورتھ: (اس کے لیے معاملات اب برے سپنے کی مانند ہو گئے ہیں۔ وہ حیرت زدہ ہو کر پیرس کی طرف پلٹتا ہے) مسٹر پیرس …

پیرس: جناب میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کسی کو ننگا نہیں دیکھا تھا مگر یہ آدمی …

ڈینفورتھ: لیکن تم نے انھیں جنگل میں ناچتے دیکھا تھا۔ (پیرس پر نظریں جماتا ہے، پیرس ایبی گیل کی طرف اشارہ کرتا ہے) ایبی گیل؟

ہیل: عالی مرتبت، جب میں بیورلی یہاں آیا تھا تو پیرس نے یہ بات مجھے بتائی تھی۔

ڈینفورتھ: تم اس سے انکار کر سکتے ہو، مسٹر پیرس؟

پیرس: نہیں کر سکتا مگر جناب انھیں ننگا میں نہیں دیکھا۔

ڈینفورتھ: لیکن ایبی گیل ناچی تھی؟

پیرس: (نہ چاہتے ہوئے بھی) ہاں جناب۔

(ڈینفورتھ کو جیسے نئی آنکھیں مل گئی ہوں، ایبی گیل پر نگاہیں ڈالتا ہے۔)

ہیتھورن: عالی مرتبت، مجھے اگر اجازت دیں … (میری وارن کی طرف اشارہ کرتا ہے۔)

ڈینفورتھ: (بہت زیادہ پریشان ہو جاتا ہے) اجازت ہے، جناب، پوچھو۔

ہیتھورن: تم کہتی ہو کہ تم نے کوئی آتما نہیں دیکھی، میری۔ تمھیں شیطان کے کسی بہروپ نے یا شیطان کے  کسی چیلے نے نہ تو کوئی تکلیف دی اور نہ ڈرایا دھمکایا؟

میری وارن: (دھیمی سی آواز بھی) نہیں جناب۔

ہیتھورن: (فتح کی اک چمک اس کے چہرے پر ابھرتی ہے) پھر بھی جادو ٹونے کے ملزم جب تمھارے سامنے آتے تھے، تم بے ہوش جاتی تھیں اور یہ کہتی تھیں کہ ان کے جسموں سے روحیں نکل کر تمھارا گلا دبا لیتی تھیں۔

میری وارن: وہ بناوٹ تھی جناب ۔

ہیتھورن: میں نے سنا نہیں۔

میری وارن: بناوٹ جناب۔

پیرس: لیکن تم ٹھنڈی ہو جاتی تھیں۔ میں نے خود کئی دفعہ فرش سے تمھیں اٹھایا۔ تمھارا پنڈا برف ہو جاتا تھا۔ مسٹر ڈینفورتھ، آپ نے بھی…

ڈینفورتھ: میں نے بھی کئی بار یہ سب دیکھا تھا۔

پراکٹر: یہ سب بے ہوشی کی بناوٹیں کرتی تھیں۔ عالی مرتبت، یہ سب اعلی بناوٹیں کرتی ہیں۔

ہیتھورن: تو پراکٹر، یہ پھر بے ہوشی کی بناوٹ کر سکتی ہے۔ ابھی اسی وقت؟

پیرس: کیوں نہیں؟ اب تو کوئی آتمائیں اس پر جھپٹ نہیں رہیں۔ اس کمرے میں تو کسی پر جادو ٹونے کا الزام نہیں ہے۔ اب یہ ٹھنڈی ہو جائے، بناوٹ کرے کہ بد روحیں اس پر جھپٹ پڑی ہیں، اور بے ہوش جائے۔ (میری وارن کی طرف پلٹتا ہے) ہو جاؤ بے ہوش۔

میری وارن: بے ہوش ہو جاؤں؟

پیرس: ہاں بے ہوش ہو جاؤ تا کہ ہم پر یہ واضح ہو جائے کہ عدالت میں تم اتنی بار کیسے بے ہوش ہو جاتی تھیں۔

میری وارن: (پراکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے) اب میں بے ہوش نہیں ہو سکتی، جناب۔

 پراکٹر: (دھیرے سے) تم کیا اب بناوٹ نہیں کر سکتیں۔

میری وارن: میں … (بے ہوشی لانے والے جذبات کی جیسے متلاشی ہے) وہ سینس ہی نہیں ہے اب مجھ میں۔ میں …

ڈینفورتھ: کیوں؟ اب کیا کمی ہو گئی ہے؟

میری وارن: میں… نہیں بتا پا رہی، جناب، میں …

ڈینفورتھ: یہ بھی  تو ہو سکتا ہے کہ اب یہاں کوئی ضرر رساں بد روح آزاد نہیں ہے۔ لیکن عدالت میں کچھ تھیں۔

میری وارن: میں نے کوئی بد روحیں نہیں دیکھیں،جناب۔

پیرس: اب بھی نہ دیکھو پھر۔ بے ہوش ہو جاؤ کہ ہمیں تمھارے اس دعوے کا یقین ہو جائے کہ تم جب چاہو بناوٹ کر سکتی ہو۔

میری وارن: (خلا میں تکتی ہے، بے ہوشی لانے والا جذبہ ڈھونڈتی ہے، پھر سر نفی میں ہلا دیتی ہے) میں نہیں کر سکتی۔

پیرس: پھر یہ اقرار کر لو کہ یہ بد روحیں تھیں جو تمھیں بے ہوش کرتی تھیں؟ کرو گی یہ اقرار؟

میری وارن: نہیں جناب میں …

پیرس: عالی مرتبت، یہ عدالت کو اندھا کرنے کا ایک  شعبدہ ہے۔

میری وارن: کوئی شعبدہ نہیں ہے۔ (کھڑی ہو جاتی ہے) میں بے ہوش ہوجاتی تھی کیوں کہ میں مانتی تھی کہ میں بد روحیں دیکھتی تھی۔

ڈینفورتھ: مانتی تھیں کہ تم نے دیکھیں۔

میری وارن: لیکن میں نہیں دیکھتی تھی۔

ہیتھورن: دیکھے بنا تم وہ بد روحیں کیسے دیکھتی تھیں؟

میری وارن: میں یہ نہیں بتا سکتی کیسے، مگر میں دیکھتی تھی۔ میں … میں دوسری لڑکیوں کی چیخیں سنتی تھی۔ جنابِ عالی، ان پر تو آپ بھی یقین کرتے تھے۔ اور میں… شروع میں یہ سب کھیل تھا جناب پھر پوری دنیا بد روحیں بد روحیں چلانے لگی۔ اور میں۔ میں مسٹر ڈینفورتھ، آپ کو یقین دلاتی ہوں میں محض یہ مانتی تھی کہ میں انھیں دیکھتی تھی مگر میں نہیں دیکھتی تھی۔

(ڈینفورتھ اسے نہایت غور سے دیکھتا ہے۔)

پیرس: مسکرا رہا ہے لیکن مضطرب بھی ہے کیوں کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈینفورتھ کو میری وارن کی کہانی پر یقین آ گیا ہے) یقیناً، جنابِ عالی مرتبت، اس سادہ جھوٹ کو نہیں مان رہے۔

ڈینفورتھ: (ایبی گیل کی جانب پریشانی سے مڑتا ہے) ایبی گیل، میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ اپنا دل کھوجو، اور خبر دار رہو کیوں کہ خدا کے نزدیک ہر جان قیمتی ہے اورجو کسی کیس کے بَہ غیر جان چھینتے ہیں ان پر ہول ناک عذاب اترتا ہے۔ بچی کیا یہ ممکن ہے کہ جو آتمائیں تم نے دیکھیں صرف واہمے ہیں؟ یا پھر کچھ فریب جو تمھارے دماغ سے گزرے ہیں؟

ایبی گیل: جناب یہ سوال بہت پست ہے، گھٹیا ہے، گرا ہوا ہے؟

ڈینفورتھ: میں تمھیں صرف اس پر سوچنے کے لیے کہہ رہا ہوں، بچی۔

 ایبی گیل: میں بدن دریدہ ہوں، مسٹر ڈینفورتھ۔ میں نے اپنا لہو بہتے دیکھا ہے۔ ہر گزرتے دن میں مرتے مرتے بچتی ہوں کہ میں شیطان کے لوگوں کو فاش کرنے کا فرض ادا کر رہی ہوں۔ اور آپ مجھے یہ صلہ دے رہے ہیں؟ مجھے پر اعتبار نہ کیا جائے؟ میرا انکار کیا جائے؟ مجھ سے پرشن پوچھے جائیں؟ مانند کسی …

ڈینفورتھ: (خستہ ہو جاتا ہے) بچی میں تم پر بے اعتباری نہیں کر رہا …

ایبی گیل: (کھلی دھمکی دیتے ہوئے) آپ بھی خبر دار رہیں، مسٹر ڈینفورتھ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟ توانا ہیں تو جہنم کی قوتیں آپ کو نہیں اوندھیا سکتی؟ خبر دار رہیں کہ کہ یہاں … (دوش دیتے اس کے چہرے کی رنگت تبدیل ہو جاتی ہے، اب وہ اوپر فضا میں دیکھ رہی ہے اور اس کے چہرے پر واقعی دہشت بکھری ہوئی ہے۔)

ڈینفورتھ: (فکرمندی سے) کیا بات ہے بچی؟

ایبی گیل: (فضا میں دیکھتے ہوئے اپنے ارد گرد اپنی بانہیں ایسے لپیٹ لیتی ہے جیسے سردی لگ رہی ہو) میں نہیں جانتی، سردیلے جھونکے آ گئے (اس کی نظریں میری وارن پر ٹھہرتی ہیں۔)

میری وارن: (دہشت زدہ ہو کر گڑگڑاتی ہے) ایبی۔

مرسی لیوس: (کانپتے ہوئے) جنابِ عالی، میرے وجود میں سردی جم گئی ہے۔

پراکٹر: پھر بناوٹ کر رہی ہیں۔

ہیتھورن: (ایبی گیل کا ہاتھ چھوتا ہے) یہ ٹھنڈی ہو گئی ہے، جنابِ عالی، چھو کر دیکھ لیں۔

مرسی لیوس: (اس کے دانت بج رہے ہیں) میری، یہ سایہ سا کیا تم نے اتارا ہے؟

میری وارن: خداوند، مجھے بچا لے۔

 سوزانا والکاٹ: میں جم گئی ہوں، جم گئی ہوں۔

ایبی گیل: (بَہ  ظاہر سردی سے کانپ رہی ہے) جھونکا ہے جھونکا۔

میری وارن: نہ کرو ایسے نہ کرو۔

ڈینفورتھ: (ایبی گیل کے سحر کا اسیر ہو گیا ہے) میری وارن، کیا تم اسے ڈائن بن کر ڈرا رہی ہو؟ کیا تم اپنی  آتما ان پر اتار رہی ہو؟

(دیوانی سی ہو کر میری وارن چیختی ہے اور دروازے کی طرف بھاگتی ہے کہ پراکٹر اسے پکڑ لیتا ہے۔)

میری وارن: (نیم جان ہوتے ہوئے) مجھے جانے دیں مسٹر پراکٹر، میں نہیں … میں نہیں …

ایبی گیل: (فلاک کو پکارتی ہے) اے پدرِ افلاکی، یہ سایہ سا ہٹا دے۔

(خبر دار کیے بنا اور تامل کیے بَہ غیر پراکٹر ایبی گیل پر جھپٹ پڑتا ہے، اس کے بال پکڑ کر کے اسے پاؤں پر کھڑا کر دیتا ہے۔ وہ درد میں چیختی ہے۔ ڈینفورتھ حیران ہو کر پکارتا ہے۔ تم کرنا کیا چاہتے ہو۔ ہیتھورن اور پیرس چلاتے ہیں، لڑکی کو اپنی گرفت سے آزاد کرو۔ اور اس شور میں پراکٹر کی گرجتی آواز گونجتی ہے۔)

پراکٹر: گشتی، گشتی، بہشت کا نام لیتی ہے۔ (ہیرک ایبی گیل کو پراکٹر سے آزاد کرا لیتا ہے۔)

ہیرک: جان۔

ڈینفورتھ: آدمی، آدمی، تم چاہتے …

پراکٹر: (سانسیں بے قابو ہیں اور بہت اذیت میں ہے) ڈینفورتھ یہ گشتی ہے۔

ڈینفورتھ: (طاقت گویائی کھونے لگا ہے) تم الزام …

ایبی گیل: مسٹر ڈینفورتھ، یہ جھوٹ بک رہا ہے۔

پراکٹر: دیکھ لینا، ابھی یہ چیختی ہوئی مجھ پر جھپٹ پڑے گی، مگر …

ڈینفورتھ: تمھیں ثابت کرنا ہو گا یہ بات آسانی سے نہیں جانے دوں گا۔

پراکٹر: (کانپتے ہوئے کہ اندر سے وہ ٹوٹ رہا ہے) اس سے میں آشنا ہوں جناب کہ  اس کا آشنا ہوں۔

ڈینفورتھ: تو تم بد کار ہو۔

فرانسس: (دہل جاتا ہے) جان، ایسا مت کہو۔

پراکٹر: آہ فرانسس، کاش تم میں کچھ بدی ہوتی تو شاید مجھے جان لیتے۔ (ڈینفورتھ سے) میں اپنا نام کچرے میں پھینک رہا ہوں، سمجھ رہے ہو ناں۔

ڈینفورتھ: (حیرت کی انتہاؤں سے) کس وقت؟ کس جگہ؟

پراکٹر: (اس کی آواز بکھرنے لگتی ہے اور وہ بہت زیادہ شرمسار ہے۔) صیحیح جگہ پر، جہاں میرے  مویشیوں کے بچھونے بچھے ہیں۔ میری خوشی کے آخری دن، کوئی آٹھ مہینے پہلے۔ یہ میرے گھر میں کام کرتی تھی جناب۔ (وہ گریہ تھامنے کے لیے اپنے جبڑے نوچنے لگتا ہے) اب میں جان چکا ہوں کہ آدمی سوچتا ہے کہ خدا خوابیدہ ہے مگر خدا سب کچھ جانتا ہے۔ میں آپ کی بِنتی کرتا ہوں، جناب، بِنتی کرتا ہوں۔ اس کو ایسے دیکھیں جیسی یہ ہے۔ میری بیوی، میری پیاری اور اچھی بیوی نے کچھ دنوں بعد اس لڑکی کو  گھر سے باہر کا رستہ دکھلا دیا تھا۔ اور جیسی یہ ہے، نَخوَت کا ڈھیر، جناب (وہ زار زار ہو نے لگتا ہے) عالی مرتبت، مجھے معاف کر دو، مجھے معاف کردو (خود پر اسے بہت زیادہ غصہ ہے، وہ گورنر کی جانب سے پلٹ جاتا ہے اور پھر اپنی بچی ہوئی تقریر کیے بغیر رہ نہیں سکتا) یہ میری بیوی کی قبر پہ یہ میرے سنگ رقص کی آرزو مند ہے۔ یہ شاید ٹھیک سوچتی ہے کہ میرے دل میں بھی اس کے لیے نرمی موجود تھی۔ خدا میری مدد فرمائے، میں اس کے لیے اپنی شہوت تھام نہ پایا اور اس دھکم پیل میں کہیں کوئی وعدہ بھی خُفتہ تھا۔ لیکن یہ گشتی انتقام لے رہی ہے اور مجھے معلوم ہے، اب تم بھی جان لو گے۔

ڈینفورتھ: (گھن بھرے خوف میں، ایبی گیل کی طرف مڑتے ہوئے) اور تم  اس الزام کو حرف بہ حرف، لفظ بہ لفظ، نکتہ بہ نکتہ، مُو بہ مُو مسترد کرتی ہو۔

ایبی گیل: اگر اس بات کا مجھے جواب دینا پڑا تو میں چلی جاؤں گی اور لوٹ کر نہیں آؤں گی۔

(ڈینفورتھ بے توازن ہو جاتا ہے۔)

پراکٹر: میں نے اپنی عزت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اپنا اچھا نام خاک میں ملا دیا ہے۔ میرا یقین کرو ڈینفورتھ۔ میری بیوی بے گناہ ہے بس اس نے اس گشتی دیکھ کر ہی پہچان لیا تھا۔ یہی اس کا جرم ہے۔

 ایبی گیل: (ڈینفورتھ کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے) یہ آپ کیسی نظروں سے مجھے دیکھ رہے ہیں۔ (ڈینفورتھ بول ہی نہیں سکتا) مجھے یہ نظریں در کار نہیں ہیں (وہ جانے  کے لیے پلٹتی ہے۔)

ڈینفورتھ: وہیں کھڑی رہو، جہاں تم ہو۔ (ہیرک اس کے رستے میں مزاحم ہو جاتا ہے اور وہ بڑھ نہیں پاتی مگر اس کی آنکھوں میں آتش دہک رہی ہے) مسٹر پیرس، عدالت میں جا کر بیگم پراکٹر کو لے آؤ۔

پیرس: جناب عالی، یہ سب …

ڈینفورتھ: (تندی سے) مسٹر پیرس، اسے لے آؤ، اور رستے میں اسے یہاں جو کہا سنا گیا ہے، اس کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہنا۔ اور آنے سے پہلے دروازے پر دستک دو۔ (پیرس چلا جاتا ہے) اب ہم اس دلدل کی تہہ تک پہنچیں گے۔ (پراکٹر سے) تمھاری بیوی، تم کہتے ہو، سچی خاتون ہے۔

پراکٹر: اس نے زندگی بھر جھوٹ نہیں بولا۔ دنیا میں کچھ لوگ گا نہیں سکتے، کچھ لوگ رو نہیں سکتے، میری بیوی جھوٹ نہیں بول سکتی۔ بہت کچھ سہہ کر یہی جان پایا ہوں، جناب۔

ڈینفورتھ: اس نے جب اس لڑکی کو گھر سے نکالا تھا تو کیا اسے  قحبہ جان کر نکالا تھا۔

پراکٹر: جی جناب۔

ڈینفورتھ: تو کیا وہ جانتی تھی، یہ قحبہ ہے۔

پراکٹر: جی جناب، وہ جانتی تھی کہ یہ فاحشہ ہے۔

ڈینفورتھ: ٹھیک۔ (ایبی گیل سے) اور بچی اگر وہ بتاتی ہے کہ اس نے تمھیں تمھاری بے راہ روی کے باعث گھر سے باہر کیا تھا تو تم پر خدا ہی رحم فرمائے۔ (دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ وہ دروازے کی طرف پکارتا ہے۔) ٹھہرو (ایبی گیل سے) تم پلٹ جاؤ۔ تم پلٹ جاؤ (پراکٹر سے) تم بھی ایسا ہی کرو (وہ پلٹ جاتے ہیں۔ ایبی گیل حقارت سے آہستگی سے پلٹتی ہے،) اس کمرے میں اب کوئی ایک لفظ بھی نہیں بولے گا اور نہ ہی کوئی نفی یا اثبات میں اشارہ کرے گا۔ (دروزے کی طرف پلٹتا ہے اور پکارتا ہے) اندر اندر آ جاؤ (دروازہ کھلتا ہے اور ایلزبیتھ  پیرس کے ساتھ اندر آتی ہے۔ پیرس پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ایلزبیتھ کی آنکھیں پراکٹر کو ڈھونڈتی ہیں) مسٹر چیور، اس شہادت کو لفظ بہ لفظ تحریر کرنا۔ تم تیار ہو؟

چیور: تیار ہوں، جناب۔

ڈینفورتھ: خاتون، ادھر آؤ۔ (ایلزبیتھ اس کے پاس آتی ہے۔ پراکٹر کی پشت کی طرف دیکھتی رہتی ہے) اپنے شوہر کی طرف نہیں، میری طرف دیکھو۔ صرف میری آنکھوں میں۔

ایلزبیتھ: (دھیرے سے) اچھا جناب۔

ڈینفورتھ: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم نے اپنی ملازمہ ایبی گیل ولیمز کو برخاست کر دیا تھا۔

ایلیزبیتھ: سچ ہے جناب۔

 ڈینفورتھ: کس وجہ سے تم نے اسے برخاست کیا تھا؟ بد تمیزی کرتی تھی وہ کیا؟ تم صرف میری آنکھوں میں دیکھو، اپنے شوہر کی طرف نہیں۔ جواب تمھاری یاد داشت میں ہے اور اس کے لیے تمھیں ادھر ادھر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایبی گیل ولیمز کو تم نے کیوں برخاست کیا تھا؟

ایلزبیتھ: (معاملہ اس کی سمجھ میں آ رہا ہے۔ ہونٹ ترکرنے کے لیے تھمتی ہے) میں اس سے نا خوش تھی، میرا شوہر بھی۔

ڈینفورتھ: اور اس نا خوشی کا سبب کیا تھا؟

ایلیزبیتھ: وہ … (سرے کی تلاش میں پراکٹر کی سمت دیکھتی ہے۔)

ڈینفورتھ: خاتون میری طرف دیکھو (ایلزبیتھ دیکھتی ہے) کیا وہ بد تمیز تھی؟ کام چور تھی؟ اور اس نے کیا فساد کیا تھا؟

ایلیزبیتھ: جناب عالی، میں … ان دنوں بیمار تھی۔ اور میں … میرا شوہر ایک  نیک اور اچھا آدمی ہے۔ وہ چند اور لوگوں کی طرح شرابی نہیں ہے اور نہ شاول بورڈ پراپنا وقت ضائع کرتا ہے۔ بس اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ لیکن اپنی بیماری کے باعث جناب … قابلِ غور بات ہے … اپنے آخری بچے کے بعد میں ایک طویل عرصہ بیمار رہی تھی … مجھے ایسے لگا کہ میرا شوہر میری طرف سے نظریں پھیرنے لگا ہے۔ اور یہ لڑکی … (ایبی گیل کی طرف دیکھتی ہے)۔

ڈینفورتھ: میری طرف دیکھو۔

ایلیزبیتھ: (وہ دل گرفتہ ہو جاتی ہے) ایبی گیل ولیمز، جناب۔

ڈینفورتھ: ایبی گیل ولیمز کیا؟

ایلیزبیتھ: میں یہ سمجھنے لگی کہ وہ ایبی گیل ولیمز کو چاہنے لگا ہے۔ اور ایک رات میں اپنے اوسان کھو بیٹھی اور میں نے اسے گھر سے باہر کا راستہ دکھا دیا۔

ڈینفورتھ: اور تمھارے شوہر نے … کیا واقعی تم سے آنکھیں پھیر لی تھیں؟

ایلیزبیتھ: (کرب سے) میرا شوہر ایک نیک آدمی ہے جناب۔

ڈینفورتھ: تو وہ تم سے نہیں پھرا؟

ایلیزبیتھ: (پراکٹر کی طرف دیکھنے لگتی ہے) وہ …

ڈینفورتھ: (اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھام لیتا ہے) میری طرف دیکھو۔ تمھارے علم کے مطابق جان پراکٹر کبھی بد کاری کے جرم کا مرتکب ہوا ہے؟ (فیصلے کے اس بحران میں وہ بول نہیں پاتی) میرے سوال کا جواب دو؟ کیا تمھارا شوہر بد کار ہے؟

ایلیزبیتھ: (بہت دھیمے لہجے میں) نہیں جناب۔

ڈینفورتھ: اسے یہاں سے ہٹا دو مارشل۔

پراکٹر: ایلیزبیتھ، سچ بتا دو۔

ڈینفورتھ: بتا چکی ہے، اسے ہٹا دو۔

پراکٹر: (پکارتے ہوئے) ایلزبیتھ، میں اقبال کر چکا ہوں۔

ایلزبیتھ: آہ، خدایا (دروازہ اس کے عقب میں بند ہو جاتا ہے۔)

پراکٹر: وہ محض میرا نام بچا رہی تھی۔

ہیل: عالی مرتبت، یہ ایک فطری جھوٹ ہے۔ میں آپ کی منت کرتا ہوں کہ کسی اور کو سزا دینے سے پہلے یہ سب بند کر دیں۔ میں اور اپنے ضمیر کے روزن بند نہیں کر سکتا۔ اس شہادت کی رگوں میں ذاتی انتقام دوڑ رہا ہے۔ مجھے تو شروع سے ہی یہ آدمی سچا لگا تھا۔ افلاک سے میں اپنے پیمان کی قسم دیتا ہوں کہ میں اس آدمی کا یقین کرتا ہوں۔ اور آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اس کی بیوی کو واپس بھلا بھیجیں، اس سے پہلے کہ ہم …

ڈینفورتھ: اس خاتون نے بد کاری کے بارے میں کچھ نہیں کہا اور اس آدمی نے جھوٹ بولے ہیں۔

ہیل: مگر میں اس کایقین کرتا ہوں (ایبی گیل کی طرف اشارہ کرتا ہے) اور یہ لڑکی تو شروع سے ہی مجھے بناوٹی لگی ہے۔ اس نے …

(ایبی گیل چھت کی طرف دیکھتے ہوئے ایک بھدی سی، یخ کرنے والی، ایک وحشیانہ چیخ مارتی ہے۔)

ایبی گیل: تم نہیں کر پاؤ گے۔ دور ہو جاؤ، دور ہو جاؤ۔

ڈینفورتھ: کیا ہوا بچی؟ (مگر ایبی گیل ڈر کے مارے، اپنی وحشت زدہ آنکھیں اور اپنا خوف زدہ چہرہ اوپر اٹھاتے ہوئے، چھت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ لڑکیاں اس کی پیروی کرتی ہیں۔ اور اب ہیتھورن، ہیرک، ہیل، پٹنم، چیور اور ڈینفورتھ بھی چھت کی طرف دیکھنے لگتے ہیں) کیا ہے وہاں؟ (وہ چھت سے نظریں ہٹا لیتا ہے اور دہشت زدہ ہے اور اس کی آواز میں تناؤ بھی ہے) بچی (ایبی گیل تو جیسے لڑکیوں کے سنگ کسی اور جہان میں ہے۔ وہ سسکیاں بھرتے، مُنھ کھولے چھت کی طرف دیکھتی ہے۔) لڑکیو تم کیوں؟

مرسی لیوس: (اشارہ کرتے ہوئے) وہ شہتیروں کے پیچھے ستون پر ہے۔