اساتذہ سوال کرنے کے رویہ کو فروغ دیں

اساتذہ سوال کرنے کے رویہ کو فروغ دیں
ہمارے سوال میں ہماری فکری وسعت، علمیت، ہمارا شعور،ذہنی رویہ اور کردار سب پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ہمارے سوالات ہماری شخصیت کی کہانی بیان کرتے ہیں۔

اساتذہ سوال کرنے کے رویہ کو فروغ دیں

(محمد ریحان) ریسرچ اسکالرجامعہ ملیہ اسلامیہ

ہمارے تعلیمی اداروں میں سوال کرنے سے زیادہ جواب دینے کی صلاحیت کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اساتذہ سوال کرنے والے طالب علم کے مقابلے میں جواب دینے والا طالب علم کو زیادہ قابل اور با صلاحیت سمجھتے ہیں. یہ رویہ صرف نرسری اور اسکول کے اساتذہ تک محدود نہیں بلکہ یہ ہمیں اعلی تعلیمی اداروں کے مدرسین کے یہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

اسکول میں پڑھانے والے اساتذہ عام طور پر زیادہ سوال کرنے والے بچے کو بے ادب تصورکرتے ہیں.کبھی کبھی سوال کئے جانے پر اساتذہ اپنی بےعزتی محسوس کرنے لگتے ہیں.اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سوال کرنے کے “جرم” میں بچوں کو سزا بھی دیدی جاتی ہے. وہیں دوسری طرف اگر کوئی بچہ استاد کے پوچھے گئے کسی سوال کا جواب دے دے تو وہ بچہ نہ صرف ذہین تصور کیا جاتا ہے بلکہ وہ استاد کا محبوب اور منظور نظر طالب علم  ہو جاتا ہے۔

یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اسکول میں خاص طور پر سرکاری اسکولوں میں اساتذہ وسیع الذہن نہیں ہوتے۔ وہ بچوں کی نفسیات سے واقفیت نہیں ہوتے۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار بھی نہیں ہوتا کہ بچے کیا سوچتے ہیں.انہیں لگتا ہے کلاس میں سوال کرنا بے ادبی ہے.وہ ایسا اس لئے سوچتے ہیں کہ وہ خود بھی ایک ایسے سماج کے پروردہ ہوتے ہیں جہاں سوال کرنا ایک گناہ سمجھا جاتا ہے.اگر اسکولوں تک یہ بات محدود ہوتی تو زیادہ افسوس کی بات نہ تھی.حالانکہ یہ زیادہ افسوس کی بات ہے. کیونکہ اس مرحلے میں سوال کرنے کی پابندی سے  بچے کی شخصیت کی تشکیل پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

لیکن میں نے محض اعلی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں رکھ کر یہ بات کہی ہے۔ ورنہ میں اس رویے کی ہر صورت اور ہر سطح پر تردید کرتا ہوں اور اسے طلبہ کے حق میں بہتر نہیں سمجھتا. اسکولوں میں سوال کرنے پر اساتذہ کے بپھر نے کو ہم ایک دانستہ رویہ کہنے کے بجائے ان کی کم علمی اور کم نظری کہہ سکتے ہیں. لیکن یہی مسئلہ اگر اعلی تعلیمی ادارے میں در پیش ہو تو پھر ہمیں فکرمند ہونا پڑےگا. کیونکہ یہاں اساتذہ کی کم علمی کا عذر ہم پیش نہیں کر سکتے.یہاں سبھی اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں.ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھے ہوتے ہیں.یہ درس و تدریس کے اصول سے واقف ہوتے ہیں. لیکن بڑی بڑی علمی دانشگاہوں اور جامعات میں تدریس سے جڑے پروفیسرس سوال کرنے کے کلچر سے گھبراتے ہیں یا سوال کرنے کی اہمیت سے نا آشنا ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب طلبہ سوال کرتے ہیں تو اساتذہ فورا اس کی قابلیت پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ اسے کم ذہن کا خیال کرنے لگتے ہیں۔ یہ بات میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ یہ واقعہ میرے ساتھ پیش آ چکا ہے۔

2009 کا واقعہ ہے ۔ دہلی کی ایک مشہور و معروف یونیورسیٹی میں میرا داخلہ ہوا.میں بے حد خوش تھا۔ پہلے دن کی پہلی کلاس انگریزی کی تھی۔ یہ میرا آپشنل سبجیکٹ تھا.اس وقت تک میں نے انگریزی کے چار پانچ  ناول اور کچھ  ہی افسانے پڑھے تھے. اس لئے انگریزی ادب سے اتنی واقفیت نہیں تھی. (اب بھی نہیں ہے).بہر کیف جو ٹیچر انگریزی پڑھانے آئے میں ان کی طرف رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا.ان کے پڑھانے کا انداز مجھے بے حد پسند آیا۔ بغیر کتاب کھولے آدھے گھنٹے تک لیکچر دیتے رہے جو کافی معلوماتی تھا۔

لیکن میں اس وقت حیرت زدہ رہ گیا جب وہ میرے ایک سوال پر بپھر گئے۔ میرا سوال ناول کی تکنیک پر تھا۔ آخر ناول لکھنے کے لئے مختلف تکنیک کی کیوں ضرورت پڑتی ہے. سوال کرتے ہی وہ مجھے کہنے لگے آپ اپنا سبجیکٹ بدل لیں یہ آپ کے لئے بہتر رہے گا. اس طرح کا سوال آپشنل پیپر رکھ کر نہیں کرتے.میں نے اسی وقت ان سے کلاس روم میں ہی سارے طلبہ کی موجودگی میں یہ بات کہی تھی “سر میں اٹھارہ سال کا ہوں اور مجھے معلوم ہے میرے لئے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں. حالانکہ دوسرے دن جب وہ کلاس روم میں آئے تو باضابطہ مجھے بلا کر اگلی صف میں بیٹھنے کو کہا.اس دن کا لیکچر خاص طور پر ناول کی تکنیک پر مرکوز رہا. میں بعد میں ان سے بہت قریب ہو گیا. لیکن ان سے انسیت پیدا ہو جانے کے باوجود مجھے یہ سوال بار بار پریشان کرتا رہا کہ آخر وہ پہلے دن کیوں بپھر گئے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ اردو ادب کی کلاس میں پیش آیا۔

ایک مختلف زاویہً نظر سے اس لنک پر مضمون دیکھئے: ہمارا بنیادی نظام تعلیم اور اس کا مستقبل

غالبا یہ بی اے سال دوم کی بات ہے. ایک استاد جدید شاعری کی کلاس لینے آئے۔ اخترالایمان کی نظم “ایک لڑکا” کی تشریح کرتے ہوئے نظم کی تعریف بیان کی.انہوں نے یہ کہا کہ نظم میں کسی ایک ہی خیال کو منظم اور مربوط طریقے سے شروع سے آخر تک پیش کیا جاتا ہے. نظم کی تشریح سے میں مطمئن نہ ہو سکا. میں ان سے یہ سوال کر بیٹھا کہ مذکورہ نظم میں تو کئی خیالات ہیں. مثلا گاوں کا ذکر ہے. اللہ کی نعمتوں کا بیان ہے. ہجرت کا احساس ہے.مجبوری کی کیفیت ہے.ان سب کو آپس میں کس بنیاد پر ایک خیال سے جوڑا جائے.؟

میرا یہ سوال کرنا تھا کہ موصوف ایک دم سے مجھ پر برس پڑے۔ کہنے لگے تم اتنی معمولی سی نظم نہیں سمجھ سکتے۔ میں نے کہا کہ اگر نہیں سمجھ سکا تو اس میں میرا قصور نہیں. آپ نے نظم کی تشفی بخش تشریح نہیں کی ہے. میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں اس دن جس طرح کی تشریح انہوں نے پیش کی تھی اس سے کوئی متفق نہیں ہو سکا تھا لیکن میرے سوا کسی نے سوال کرنے کی کوشش نہیں کی.یہ من گھرت کہانیاں نہیں ہیں.یہ ایک حقیقت ہے. اس طرح کے تجربے سے ممکن ہے آپ بھی کبھی نہ خبھی گزرے ہونگے۔

ہمارے بچے کلاس میں سہمے ہوئے رہتے ہیں.بچے کلاس روم سے کچھ سیکھنے کے بجائے شکوک و شبہات اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں.آپ کسی ادارے میں کوئی علمی پروگرام پیش کریں اور اخیر میں سوال و جواب کا بھی سیشن رکھیں. اس پروگرام میں بچے ضرور شریک ہوں گے. آپ کی بات ہمہ تن گوش ہوکر سماعت بھی کریں گے.لیکن آپ کے سوال و جواب کا سیشن بغیر کسی سوال و جواب کے ختم ہو جائےگا. ہم نہ سوال کرنے والے طلبہ کے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ وہ سب کچھ سمجھ رہا ہے۔

ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ سمجھ میں آنے والی بات پر بچہ سوال کیوں کریگا. یہ سوچنا ہماری بہت بڑی غلطی ہے. ہم کسی چیز کے بارے میں سوال اس وقت تک نہیں کرتے جب تک ہم سمجھ نہیں لیتے. ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہمارے یہاں سوال کرنے کا کلچر کیوں نہیں ہے. ہمارے یہاں تہذیب اور ادب کا اتنا پاٹھ پڑھایا جاتا ہے کہ وہ اساتذہ کی غلطی پکڑ لینے پر بھی خاموش ہی رہتے ہیں.کیونکہ انہیں خطائے بزرگاں گرفتن خطا است کی تعلیم دی جاتی ہے.اساتذہ اور بڑوں کا احترام ضروری ہے.لیکن سوال کرنا اور بڑے بزرگوں کی خامیوں کی نشاندہی کرنا بے ادبی نہیں.ادب اور اخلاق کے دائرے میں بچے سوال کرتے ہیں تو اس میں کون  سی قباحت ہے۔

استاد کی عزت اور ان کا ادب و احترام ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ لیکن ہم نے اس تہذیب کا بہت غلط استعمال کیا ہے۔ اس تہذیب کے اطلاق میں ہم سے بھول ہوئی ہے.تہذیب کی آڑ میں ہم نے بچوں سے ان کے فطری پن کو چھین لیا ہے۔ اسی تہذیب نے ہمارے استاذہ کے اندر یہ غلط فہمی پیدا کر دی کہ سوال کرنا ایک قسم کی بے ادبی ہے. اس لئے ہمارے اکثر اساتذہ سوال کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بھی اسے پسند نہیں کرتے. اکثر تو اس کی اہمیت سے ہی نا واقف ہوتے ہیں۔

اساتذہ سوال کرنے کے رویہ کو فروغ دیں
فرانسیسی سیاستدان پیئر مارک گاستوں نے یہ بلیغ بات کہی تھی کہ کسی انسان کی ذہنی سطح کا اندازہ اس کے جواب کے مقابلے میں اس کے ذریعہ کئے گئے سوال سے کرنا نسبتا زیادہ آسان ہے

نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ زیادہ سوال کرنے والے بچوں کے سوچنے اور سمجھنے کا معیار زیادہ بلند ہوتا ہے۔ وہ تخلیقی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ سوال کرنے کا عمل یہ بتاتا ہے کہ انسان کا ذہن ساکت و جامد نہیں. ویسے بھی سوال کرنا علم میں مزید اضافے کا باعث ہوتا ہے. سوال کرتے وقت ادب اور تہذیب کا لحاظ ضروری ہے.اساتذہ کو چاہئے کہ وہ سوال کرنے کے کلچر کو اہمیت دیں.کیونکہ جب تک بچہ سوال نہیں کریگا ہم اس کی نفسیات اور اس کے ذہنی رویے سے واقف نہیں ہو سکتے۔

ایک استاد کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے طالب علم کی نفسیات سے واقف ہو۔ وہ کیا سوچ رہا ہے اور کس سمت میں سوچ رہا ہے یہ اسی وقت واضح ہوگاجب وہ سوال کرے گا۔ اس کے ذہنی رویے سے واقف ہوئے بنا ہم نہ تو اس کی تربیت کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی علمی فائدہ کر سکتے ہیں۔ کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ اساتذہ سوال کرنے کے رویے کو فروغ دیں اسے اپنی بے ادبی نہ سمجھ کر طلبہ کی ذہنی وسعت کی پیمائش کا ذریعہ بنائیں.

سوال کرنا معلوم علم میں اضافے اور پختگی کا دوسرا نام ہے۔ ہم سوچتے ہیں اس لئے سوال کرتے ہیں۔ سوال کرنے سے علم کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔ سوال کرنے کا رجحان یہ بتاتا ہے کہ جو کچھ معلوم ہے وہ کافی نہیں. یعنی سوال کرنا مسلسل علم میں اضافہ کرنا ہے۔ سوال کرنا زندہ رہنے کی علامت ہے۔

ہمارے سوال میں ہماری فکری وسعت، علمیت، ہمارا شعور،ذہنی رویہ اور کردار سب پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ہمارے سوالات ہماری شخصیت کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ شاید سوال کرنے کی اسی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرانسیسی سیاستدان پیئر مارک گاستوں نے یہ بلیغ بات کہی تھی:

Il est encore plus facile de juger de l’esprit d’un homme par ses questions que par ses reponses.

یعنی کسی انسان کی  ذہنی سطح کا اندازہ اس کے جواب کے مقابلے میں اس کے ذریعہ کئے گئے  سوال سے کرنا نسبتا زیادہ آسان ہے۔ سوال کرنے کی آزادی نہ صرف کلاس روم میں ہونی چاہئے بلکہ گھر کے اندر بھی والدین بچوں کو سوالات کرنے کی آزادی دیں۔ کچھ سوالات الجھن پیدا کرتے ہیں۔ کبھی کبھی جھلاہٹ بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے میں بڑے ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری یہ ہونی چاہئے کہ ہم بچوں کو گائیڈ کریں نہ کہ اس کو ڈانٹ پلائیں۔ یہ یاد رکھیے کہ سوالات کرنے کے رویے کا گلا دبانا متحرک ذہنوں کو مارنا ہے۔