کھوکھلے بُنیادی نظامِ تعلیم پر مضبوط اعلیٰ نظامِ تعلیم کی خواہش

ہمارا بنیادی نظام تعلیم
ٖٖفیاض ندیم ، صاحب مضمون

فیاض ندیم

کچھ عرصہ پہلے JICA کے ایک پروگرام ’’ بنیادی سائنسی تعلیم کی تربیت‘‘ کے سلسلہ میں جاپان کے پرائمری اور ثانوی سکولز سسٹم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ابتدائی تعلیم کے جاپانی ماڈل کو سمجھنے میں مدد ملی۔ بلا شعبہ اُن کا بنیادی تعلیمی نظام ہم سے کئی سال بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کئی دہائیاں آگے ہے تو کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال سے اُن کے طریقہء تعلیم کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اُن کے ہاں سات اور آٹھ سال کے بچوں کے لئے ایک ہفتے کا پراجیکٹ ہوتا ہے جس میں وہ بچے کو سیلز سے چلنے والی آٹو میٹک کھلونا کار یا کھلونا روبوٹ کے تمام پُرزے الگ الگ کر کے ایک پیکٹ سا بنا کر دے دیتے ہیں اور اُن بچوں کے لئے ٹاسک یہ ہوتا ہے کہ اِن پُرزوں کو جوڑ کر اُنہوں نے اس کھلونا کار یا روبوٹ کو چلانا ہوتا ہے۔ ٹیچر اس عرصہ میں اُن کی نگرانی کرتا ہے، اُنہیں جس چیز کی مذید ضرورت ہوتی ہے، مہیا کرتا ہے، لیکن پُرزوں کو جوڑنے میں اُن کی مدد نہیں کرتا۔
بچوں کو اپنا کام کرتے ہوئے بہت گہرائی سے مشاہدے میں رکھا جاتا ہے۔ پراجیکٹ کے ہر مرحلے کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اور مکمل کرنے کے عرصہ کو بھی ہر بچے کے لئے الگ الگ نوٹ کیا جاتا ہے۔ وہ بچے جوش، جذبے اور انہماک سے یہ کام کرتے رہتے ہیں اور تقریباََتین سے پانچ دنوں میں یہ پراجیکٹ مکمل کر لیتے ہیں۔ پھر اُنہیں اُس سے مُشکل پراجیکٹ دیا جاتا۔ اس سارے عمل کے دوران بچوں کی حوصلہ افزائی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ بچے اپنے کام کے دوران ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتے ہیں، کھیل کود میں بھی لگے رہتے ہیں اور خوب انجوائے کرتے ہیں۔ پراجیکٹ کی تکمیل پر بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے اور وہ مزید مشکل کام کے لئے اپنے آپ کو پُر جوش محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح کی سرگرمیوں سے وہ بہت کم عرصے میں ٹیکنالوجی کی ایسی ایسی پیچیدہ مہارتیں بھی سیکھ لیتے کہ نویں اور دسویں گریڈ تک پہنچتے پہنچتے وہ کمپیوٹرز بنانے، مشینوں کو سمجھنے بلکہ اُن کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے ترامیم کے بارے بھی سوچنے لگتے ہیں۔ اگر ہم وہاں سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سکول کے طالب علم کی مہارتوں کا جائزہ لیں تو بہت حیران کن معلومات ہمارے سامنے آئیں۔ ایسے طالب علم جب یونیورسٹی تک جاتے ہیں تو اُن کے دماغ میں دُنیا بدلنے کی خواہش ہوتی ہے اور وہاں عام زندگی میں ایسے ایسے ٹیکنالوجی کے نمونے دیکھنے کو ملے ہیں جنہیں عام لوگوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے وجود بخشا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ایک مدد گار نے جو سکول کی سطح کا تعلیم یافتہ تھا، ایک ایسا کولنگ سسٹم بنایا، جس میں وہ سردیوں کے دوران پیدا کی گئی برف سے ٹھنڈک پیدا کرتا تھا۔ سردیوں میں چونکہ کم استعمال کی وجہ سے توانائی وافر مقدار میں میّسر ہوتی ہے اور کم ٹمپریچر کی وجہ سے برف بنانے میں اس کا استعمال بھی بہت کم ہوتا ہے، لہٰذا وہ سردیوں میں برف بنا کر بڑے بڑے سٹورز میں ذخیرہ کر لیتا ہے جہاں برف کا پگھلا ؤ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ گرمیوں کے دوران جب تونائی کا استعمال بڑھ جاتا ہے اُ س دوران سردیوں کی ذخیرہ کی ہوئی برف سے اُس نے ایک سکول کے لئے سینٹرل کولنگ سسٹم تیار کیا۔ یہ تونائی کی بچت کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس کے علاوہ جاپانی مصنوعات اور ایجادات سے کون واقف نہیں ہے۔یہ سب اُسے مضبوط بنیادی تعلیمی ڈھانچے اور اُس سے مربوط اعلٰی تعلیم کے اداروں کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔
کھلونا گاڑی کے پرزوں کا ایک ویسا ہی بکس میں اپنے ساتھ بھی لے آیا۔ میں اسے اپنے آٹھ سالہ بھتیجے پر آزمانا چاہتا تھا۔ میں نے یہ بکس اُس کو دیتے ہوئے کہا کہ میں جاپان سے تمہارے لیے صرف یہ تحفہ لا سکا ہوں ، بس ان تمام پرزوں کو جوڑ کر تم اپنی گاڑی بنا لواور مجھے امید ہے تم یہ کام دو یا تین دن میں کر لو گے۔ وہ بہت خوش ہوا اور وہ ڈبہ خوشی خوشی لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اُس کے بعد میں نے اُسے تین چار گھنٹے نہیں دیکھا۔ شام کو وہ ایک مکمل کھلونا گاڑی لے کر میرے سامنے کھڑا تھا اور مجھے خوشی سے بتا رہا تھا کہ چچا یہ وائر اس جگہ پر فکس کرنے سے گاڑی چلنے لگتی ہے، اگر یہ ٹانکا لگ جائے تو یہ گاڑی مکمل ہو جائے گی۔ میں بے اختیار اُسے اپنے سینے سے لگائے بنا نہ رہ سکا۔
یہ سارا واقعہ سُنانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہمارے بچوں میں کوئی جینیاتی مسئلہ نہیں ہے اور نہ یہ ذہنی لحاظ سے کسی سے کم ہیں۔ بلکہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ہمارے بچے اپنی عمر کے ابتدائی سالوں میں کہیں زیادہ تخلیقی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں، لیکن ہمارا نظامِ تعلیم بڑی کوششوں سے ان صلاحیتوں کو مارنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہماری یونیورسٹیوں میں پہنچنے والا طالب علم ذہنی کاوشوں سے بھاگنے والا، کام چور، غیر تخلیقی اور ریسرچ کی صلاحیتوں سے عاری ہوتا ہے۔
میں پچھلے کئی دنوں سے ہمارے ہاں کی اعلٰی تعلیم کی حالتِ زار سے متعلق مضامین پڑھ رہا ہوں۔ پرویز ہود بھائی سے لے کر عاصم بخشی اور یاسر پیر زادہ نے ہائر ایجوکیشن کے اداروں میں موجود علمی کلچر کی حالتِ زار پر مفصّل گفتگو کی ہے او اس میں موجود خرابیوں کی سو فی صد درست نشان دہی کی ہے۔ ہمارے ہاں کلاس روم ٹیچنگ سے لیکر ریسرچ کے سٹینڈرڈز تک ہر پیرا میٹر اپنی انتہائی نچلی سطح کو چھو رہا ہے۔ جتنی بے ایمانی ہمارے ہاں علمی اورا نٹیلیکچوئیل لیول پر ہے کسی اور میدان میں اُس کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔ بوگس قسم کے ریسرچ پیپرز کی بھر مار، ڈگریوں کا لنڈا بازار اور علمی و عملی مہارتوں کی پسماندگی ہمارے اعلٰی تعلیمی کلچر کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ جس میں بلا شعبہ انتظامی بے ضابطگیوں کا بڑا ہاتھ ہے اور معیارات کا تعین کرنے والے عوامل سے غیر آگاہی غیر دیانتداری و بے ایمانی وغیرہ جن کی نشان دہی درست طور پر کی گئی ہے بجا ہے، مگر ہم اس حقیقت سے چشم پوشی کرنے پر کیوں تُلے ہوئے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیز میں اساتذہ، ریسرچرز اور طلبا آسمان سے نہیں اُتریں گے اور نہ دساور سے تشریف لائیں گے۔ یہ لوگ ہمارے ہی بنیادی تعلیمی نظام کی پیداوار ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسے شخص کو جسے بنیادی تعلیمی کیریئر میں ایک کام کے لئے تیار ہی نا کیا گیا ہووہ یک دم یونیورسٹی میں جا کر اعلٰی تخلیقی ریسرچر بن جائے۔ بنیاد کے بغیر ایک شاندار عمارت کی خواہش صرف یہیں پائی جاتی ہے، کسی معقول معاشرے میں ایسا ممکن نہیں۔
pakistan-schools_1517085c1کیا ہم نے اپنے بنیادی تعلیمی نظام کے بارے میں کبھی سوچا ہے کہ یہ ایسے بانجھ ذہن یونیورسٹی طالبِ علم کیوں پیدا کر رہا ہے۔ ہمارے طریقہء تعلیم سے لے کر سلیبس کے میعار اور اساتذہ کی تربیت سے لے کر سکولوں میں سہولیات کی فرہمی تک، کسی بھی چیز پر درکار توجہ کا اگر ایک فی صد بھی حاصل ہو جاتا تو شاید حالات مختلف ہوتے۔اگر ہم اساتذہ کے میعار، سلیبس کی تیاری، ٹیچنگ کے طریقہء کار، لرننگ کے عمل کے ارتقاء، کتابوں کے سٹینڈرڈ اور مناسب سہولیات کی فرہمی میں سے کسی ایک فیکٹر کے بارے میں بات کرنا ہی شروع کر دیں تو شرمندگی کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا۔ کچھ ماہ پہلے پرویز ہود بھائی کا سندھ اور خیبر پختون خواہ میں ثانوی درجات میں پڑھائی جانے والی کتب کے میعار پر ایک آٹیکل پڑھنے کو ملا۔ گو کہ اُس میں ایک معقول جامعیت تھی، لیکن ان کتابوں کی تیاری میں کن کن مرحل پر بے ایمانی اور بد دیانتی ہوتی ہے، پرویز ہود بھائی اُس کا مکمل طور پر احاطہ کرنے میں ناکام رہے۔ یہاں پر کیوریکلم گائیڈ لائینز کس جزیرے میں بیٹھ کر کون سے فرشتے زمینی حقیقتوں سے ماورا ہو کر بناتے ہیں، یہ ایک الگ داستان ہے۔
اگر ہم اساتذہ کی مہارتوں کی بات کرتے ہیں تو بلا کسی مبالغہ آرائی سو فی صد یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ نوّے فی صد اساتذہ جو ہماری نئی نسل کو تعلیم دینے پر مامور ہیں، نچلے درجے کے کلرک کی پوسٹ کے لئے بھی کوالی فائی نا کر سکیں۔ ممکن ہے اُنہیں زمینی حقائق سے مُنطبق جدید بنیادوں پرمبنی ایک بھر پور ٹریننگ کے ذریعے کسی قابل بنایا بھی جا سکے، لیکن ایسی کوئی بھی ٹریننگ ہمارے ہاں گدھے کے سر سے سینگھوں کی طرح غائب ہے۔ انفرا سٹرکچر اور سہولیات کے نام پر جو کچھ ہمارے اداروں میں موجود ہے، کلاس روم سائز سے لے کر ، طلبا کی تعداد تک سب کچھ ایک انتہائی گھٹیا قسم کے قید خانے کے لئے تو شاید مناسب ہو، تعلیمی سر گرمیوں کے لئے ہر گز مناسب نہیں۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایلیمنٹری اور ثانوی درجوں میں تعلیم کی حالتِ زار پر کوئی معقول سوچ اور فکر بھی موجود نہیں ہے۔ ان کی بہتری اور خاص طور پر تعلیمی عمل کو جدید بُنیادوں پر اُستوار کرنے کی کوئی خواہش بھی ہمارے ہاں موجود نہیں ہے۔ ابھی تک ہم عالمی معیار کے تو کُجا کسی بھی معیار کے ٹیچر ٹرینرز پیدا نہیں کر سکے ہیں تو اعلٰی صلاحیتوں کے حامل اساتذہ کہاں سے آئیں گے۔ ہم اساتذہ کی سوچ میں نئے زمانوں کی طلب کو واضح نہیں کر سکے ہیں۔ ہمارا کوئی بھی اُستاد جو ابتدائی تعلیم سے وابستہ ہے ، جدید تعلیمی تھیوریز سے مکمل طور پر نابلد اور جاہلیت کی حد تک بے بہرہ ہے۔ چہ جائے کہ ان درجوں سے فارغ ا لتحصیل طالبِ علم کے معیار کو اس کی تخلیقی صلاحیتوں اور حاصل کی گئی مہارتوں سے جانچہ جائے، ہمارے یہاں ان درجوں کے لئے دستیاب ماہرین کو بھی کسی میعار پرنہیں رکھا جا سکتا۔ ان حالات میں بہتری کی توقّع کہاں سے کی جا سکتی ہے۔
اگر ہم اپنے ثانوی درجے کے فارغ التحصیل طالبِ علم کی skills کے سٹینڈرڈ اور تخلیقی صلاحیت کو عالمی میعارات کے مطابق جانچنا چاہیں تو اس میں کو مبالغہ نہیں کہ ہمارا ذہین و فطین سائنس کا طالب علم بھی زیادہ سے زیادہ ایک خط لکھنے، پیرا گراف پڑھنے، یا جو کچھ وہ رٹ چکا ہے اُسے سنانے، یا لکھ لینے کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔ اُس کے پاس تنقیدی مشاہدے کی صلاحیت، تجزیہ کرنے، مناسب مفروضے قائم کرنے، پرکھنے اور نئے حالات میں اپنے علم سے کوئی نئی تخلیق کی صلاحیت ہرگز نہیں ہوگی۔ اگر آپ ماہرانہ انداز سے تشخیص کر سکتے ہیں تو آپ ایک آٹھ سالہ بچے اور سترہ سالہ ثانوی درجہ پاس طالب علم کی تخلیقی صلاحیتوں کا موازنہ کر کے دیکھیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ کس طرح ہمارا بنیادی نظامِ تعلیم اں اعلٰی صلاحیتوں کے قتل میں ملوث ہے۔
ایسی صورتِ حال میں اگر اعلٰی تعلیمی اداروں میں ریسرچ کے نام پر چربہ سازی، plagiarism، علمی فراڈ اور غیر دیانتداری ہے تو جائز ہی ہے، اس پہ اتنا رونا کاہے کا۔ یہ وہی طالب علم ہی تو ہیں جن کی صلاحیتوں کو ہم نے بڑی کوششوں سے قومی سطح پر پائمال کیا ہے۔ بنیادی سطح پر تعلیمی میعار کو بہتر بنائے بغیر یونیورسٹی کی سطح پر علمی سٹینڈرڈز کو بہتر بنانا کسی بے و قوف کا خواب تو ہو سکتا ہے، ایک جیتی جاگتی قوم یہ توقع نہیں رکھ
سکتی۔
جاری ہے

About فیاض ندیم 14 Articles
پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حیاتیات میں گریجویشن اور ماسٹرز کیا۔بعد ازاں انھوں نے اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ’’ تعلیمی انتظام و انصرام‘‘ میں ماسٹرز بھی کیا اور آج کل ’’تعلیمی انتظام و انصرام ‘‘(EPM) میں ایم ایس کر رہے ہیں۔فیاض ندیم کری کولم ونگ(curriculum) سے بھی گاہے گاہے وابستہ رہے ہیں۔ انھوں نے سکول اور کالج کی سطح کے حیاتیات کے مضمون کے نصاب کی تیاری میں بھی حصہ لیا اُن کی لکھی اور نظر ثانی کی ہوئی درسی کتابیں کے پی کے اور وفاقی تعلیمی اداروں میں پڑھائی جا رہی ہیں فیاض ندیم اسلام آباد کے ایک سرکاری کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔ اُن کا شعبہ حیاتیات اور نباتیات ہے۔

1 Comment

  1. بہت خوب۔فیاض صاحب اصل میں ہمارا نظام تعلیم بچوں کے بیگ سے شروع ہوتا ہے اور بچوں کے بیگ پر ہی ختم ہوتا ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ بچوں میں سیکھنے کے عمل کو ہمارے نظام تعلیم نے نظر انداز کیا ہوا ہے۔رٹی رٹائی باتیں نصاب میں دہرائی جاتی ہیں ۔طلبا کو سرے سے ایسا ماحول مہیا نہیں کیا جاتا جس میں استاد صرف نگرانی کرے۔انتظامیہ اپنی ذاتی ترجیحات بدل لے شاید سکولوں کالجوں یا یونیورسٹیوں میں بہتری آ سکتی ہے۔

Comments are closed.