برٹرینڈ رسل نے کہا علم عمومی خیر خواہی اور دانائی کا نام ہے

برٹرینڈ رسل کی وفات
Betrand Russel via BBC Radio 4

برٹرینڈ رسل نے کہا علم عمومی خیر خواہی اور دانائی کا نام ہے

ترجمہ از، غُلامِ شبیر

نو جوان لوگ جو کسی طور پر غیر اہم نہیں، جو اس لائق ہیں کہ آج کی دنیا میں اپنے لیے کچھ پا سکیں جن کی خیر خواہی کی خواہشات مایوسی کا شکار ہیں کہ وہ کسی واضح راہِ عمل کو پانے میں نا کام ہو سکتے ہیں جس کے ملنے سے ہی وقت کے اندیشوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔

میں یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ ان کے اضطراب کا یہاں کوئی آسان اور سیدھا سا جواب ہے، لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ مناسب تعلیم نو جوان لوگوں کو یہ احساس دے سکتی ہے کہ وہ مسائل کو سمجھنے کے زیادہ قابل ہوں جن کا تنقیدی طور پر وہ جائزہ لے سکیں جو ان کو مناسب حل دے سکے۔

یہاں پر کئی وجوہات ہیں جو مسائل کے حل کو مشکل بناتی ہیں، اس وقت تک جب ہم انھیں سمجھتے۔ ان میں سے پہلی یہ ہے کہ جدید معاشرہ اور جدید امورِ مملکت کی عمل داری مشکل مہارتوں کے ذریعے کی جاتی ہے جن کو بہت کم لوگ سمجھتے ہیں۔

سائنس کا انسان جدید طبعی انسان ہے۔ وہ تمام قسم کی جادو گری بجا لا سکتا ہے۔ وہ کہہ سکتا ہے، ‘یہاں پر روشنی ہو،’ یا یہ کہے یہاں پر روشنی ہے۔ وہ آپ کو موسمِ سرما میں گرم، اور اسی طرح موسمِ گرما میں آپ کی خوراک کو گرم رکھ سکتا ہے۔ وہ آپ کو ہوا کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ اتنی جلدی لے جا سکتا ہے جیسا کہ عرب کہانیوں میں ایک جادوئی قالین۔ وہ آپ کے  دشمنوں کو چند سیکنڈوں میں مٹا دینے کا یقین دلاتا ہے، اور آپ کو نا امید کر دیتا ہے جب آپ اسے کہتے ہیں کہ ہمیں یقین دلاؤ کہ ہمارا دشمن ہمیں نہیں مٹا پائے گا۔

وہ یہ تمام کچھ سائنس کے ذریعے حاصل کرنے میں کام یاب ہوتا ہے۔ اگر آپ میں یہ سائنسی انداز نہیں ہے تو یہ تمام کچھ آپ سے پُر اسرار رہتا ہے۔ جب پُر اسراریت سے پردہ اٹھانے والے آپ کو مستقبل سے جڑے حیرت انگیز واقعات پر مبنی طویل کہانیان سناتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان پر یقین کریں یا نہ کریں۔

دوسری چیز تکنیکی ارتقاء ہے جو جدید دنیا کو سمجھنے میں الجھاوے کا سبب ہے جس نے ایک مختلف سماجی نفسیات کو اہم بنا دیا ہے۔ اوائلِ تاریخ سے لے کر موجودہ صدی تک کام یابی کا راستہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانا تھا۔

ہم صدیوں در صدیوں سے ان جدِّ امجد کی نسل سے ہیں جنھوں نے دشمنوں کو نیست و نا بود کیا، ان کی زمینوں پر قبضہ کیا، اور یوں مال دار بن بیٹھے۔

انگلستان میں یہ اِستِیصال Hengist اور Horsa حکم رانوں کے دور میں ہوا جب کہ امریکہ میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران۔ اس لیے ہم ایک مخصوص قسم کے کردار کو سراہتے ہیں جسے اس کردار کے ہم نام قرار دیا جا سکتا ہے جو آپ میں ایسی تخریبی قوت پیدا کرتا ہے کہ آپ بَہ غیر کسی پچھتاوے کے بڑی ہنر مندی سے قتل کر سکیں۔

اس مسلک میں معتدل معتقد خود کو طبعی موت کی نسبت معاشی قتل میں مبتلاء کیے خوش رہتے ہیں۔ لیکن دونوں کی نفسیات بہت حد تک ایک جیسی ہیں۔

جدید دنیا میں، علم میں مہارت میں اضافے کے سبب، ایسا استیصال اب خاطر خواہ ممکن نہیں ہے۔ جدید جنگ میں فاتح کو اتنا ہی نقصان ہوتا ہے جتنا کہ جب کوئی جنگ نہ ہو۔ اس کی مثال برطانوی ہیں جنھوں نے دو عالمی جنگوں میں مکمل فتح کے نتائج کو سمیٹا۔

جو چیز جنگ میں لاگو ہوتی ہے، وہی چیز معاشی دائرے پر بھی لاگو آتی ہے۔ ایک مقابلے میں فاتحین اس قدر نہیں پھلتے پھولتے جس قدر کہ دو پارٹیز باہم تعاون سے ترقی کرتی ہیں۔

ان حقائق کی ادھوری جان کاری کا اندازہ ذہین نو جوان لوگوں میں عمومی خیر خواہی کے کاموں بارے تحریک پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہ تحریک طاقت ور گروہوں کی باہمی مخاصمت کی بَہ دولت رائیگاں چلی جاتی ہے۔ عمومی خیر خواہی ____ جی ہاں؛ مخصوص خیر خواہی _____ نہیں۔

ایک ہندو انسانیت سے محبت کر سکتا ہے پر لازمی نہیں کہ وہ پاکستانی سے محبت کرتا ہو۔ ایک اسرائیلی کا یہ اعتبار ہو سکتا ہے کہ تمام انسان ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن کسی عرب کو اس خاندان میں شا مل کرنے کا حوصلہ نہیں کرتا؛ ایک عیسائی یہ فرض سمجھتا ہے کہ وہ اپنے ہمسایے سے محبت کرے، لیکن صرف اپنے ہمسایے سے، نہ ایک کیمونسٹ سے۔

عام اور مخصوص لوگوں میں ان تنازعات کی وجہ سے یہ نا ممکن دکھائی دیتا ہے کہ وہ کسی ایک واضح عملی اصول کے حامل ہوں۔ یہ اضطراب عمومی خامی کا نتیجہ ہے جو انسانی فطرت کو ایک طرز کے طور پر اختیار کرنے میں رکاوٹ ہے۔

تعلیم کو اگر ہماری جدید ضروریات کے مطابق اپنایا جائے تو اسے نو جوان لوگوں کو اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ اس صورتِ حال سے پیدا ہونے والے مسائل کو سمجھ سکیں۔

تعلیم میں دیا گیا علم دو طرح کے مقاصد رکھتا ہے: ایک طرف ہُنر مندی دینا، دوسری طرف تشکیک کی وہ حالت سکھانا کہ جسے ہم دانائی کہتے ہیں۔ مہارت کا کردار اس کے استعمال سے بہت زیادہ ہو چکا ہے جو بڑھتا ہوا ایک ڈراوا ہے جو اس جزو کو چھین لیتا ہے جو دانائی کے لے مخصوص ہے۔

عین اس وقت پر یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ ہماری دنیا میں دانائی یا غیر یقینی حالت نا ممکن ہے مگر ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کا یہ ماننا ہے کہ کوئی بڑا کردار ہنر مندی کے ذریعے ہی ادا ہوتا ہے کیوں کہ یہ ہنر مندی کی ترقی ہی ہے جو ہماری دنیا کا امتیازی روپ ہے۔

سابقہ جنگ کے دوران مَیں نے اپنے کالج کے دوستوں کے ساتھ کھانا کھایا، میں نے یہ دیکھا کہ جو سائنسی ذہنیت رکھتے تھے حسبِ معمول غیر حاضر تھے۔ لیکن ان کی اس صورتِ حال سے ایک پُر اسرار کام کی جھلک مل گئی جسے چند زندہ دل ہی سمجھ سکتے ہیں۔

یہ کام اس قسم کے آدمیوں کا تھا جو جنگ میں فیصلہ کن ثابت ہوا۔ ایسے لوگ یقیناً اشرافیہ ہی ہیں، جن کی ہنر مندی قیمتی ہے اور قیمتی بھی رہنی چاہیے جب تک کہ نئے انسانی طبعی استعداد کے قاعدے پروان نہ چڑھیں: مثال کے طور پر یہاں پر کچھ اہم بڑے کام ہیں جو صرف ایسے لوگوں کے ذریعے سر انجام دیے جا سکتے ہیں جو علمِ ریاضی میں اونچے مقام پر ہیں اور انسانوں کی بہت بڑی اکثریت علمِ ریاضی میں اس مقام تک نہیں پہنچ سکتی، اگر چِہ ان کی تمام تر تعلیم اسی راستے پر ہی کیوں نہ ہوں۔

تمام انسان طبعی استعداد میں برابر نہیں، اور کوئی تعلیمی نظام جو یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ اس بات کے ضامن ہیں، ممکنہ طور پر یہ ہلاکت خیزی ہے، لوگوں کا زیاں ہے۔

تاہم سائنسی علم ضروری ہے؛ یقیناً اس کی ضرورت ہے پر سائنسی لوگوں پر مشتمل آمریت عَن قریب خطر ناک ہو جائے گی۔ ہنر مندی بَہ غیر دانائی کے بے شک تباہ کن ہو سکتی ہے، اور غالباً بہت جلد ثابت ہو بھی جائے گی۔ اس وجہ سے، گویا کہ کوئی دوسری وجہ نہ ہو، یہ بہت اہم بات ہے کہ وہ لوگ جو سائنسی تعلیم حاصل کرتے ہیں انھیں صرف اسی سائنسی علم پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بل کہ دانائی پر مبنی کچھ فکری علم بھی حاصل کرنا چاہیے؛ اگر چِہ یہ علم دیا جا سکتا ہے تو ایسا صرف تعلیم کے ثقافتی پہلو سے ہی ممکن ہے۔ سائنس ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ کسی بھی منتخب حل کو سمجھ سکیں، لیکن یہ فیصلہ کرنے میں ہماری مدد نہیں کرتی کہ کس حل پر چلیں۔

اگر آپ کی تمنا نسلِ انسانی کو تباہ کرنا ہو، تو یہ آپ کو بتائے گی کہ کیسے تباہ کرنا ہے۔ اگر آپ کی تمنا نسلِ انسانی کو بپیش روفت دینا ہے، جو فاقہ کشی کے دھانے پر کھڑی ہے، تو یہ آپ کی مدد کرے گی کہ آپ اسے کیسے کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کی تمنا پوری نسلِ انسانی کی قابلِ قدر خوش حالی کو محفوظ کرنا ہو، سائنس آپ کو بتائے گی کہ آپ کو کیا کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ نہیں بتائے گی کہ ان میں سے کون سا حل کسی دوسرے سے زیادہ اہم ہے۔ نہ یہ آپ کو انسانوں سے متعلق وہ طبعی تفہیم دے گی جو ضروری ہے تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کی تدبیریں تُند و تیز مزاحمت کو ابھار پائیں جسے صرف سفاک جابرانہ حکومت ہی مٹا سکتی ہے۔ یہ آپ کو ثابت قدمی سکھاتی ہے نہ ہی درد مندی؛ نہ یہ آپ کو انسانی تقدیر کا شعور دیتی ہے۔ ان تمام باتوں کو وہ رسمی تعلیم کی صورت میں سیکھ سکتے ہیں، جو زیادہ تر عظیم ادب اور تاریخی اسباق سے ابھر کر سامنے آتی ہیں۔

عظیم ادب سے دوستی ایتھنز کے حکم ران Peisistratus کے وقتوں سے تعلیم کا ایک نام زد مقصد رہا ہے۔ ایتھنز والوں نے اس مقصد کو نہایت دانائی سے جاری رکھا: انھوں نے دل سے ہومر کو سیکھا، اور اپنے عظیم ڈرامہ نگاروں کی قدر کو پہنچانا اگر چِہ وہ ان کے ہم عصر تھے۔ آج جدید ادب نے اسی ہی بنیاد پر ترقی کی ہے۔

جب میں نَو عمر تھا تو مجھے ایک کتاب ملی جس کا نام تھا A Child’s Guide to Literature اس کتاب میں قدرتی ذہانت سے آگے بچے کی رہ نمائی کی گئی تھی، جس میں ابتدائی درست تاریخ وار ترتیب سے انگریزی مصنفین کے نام بتائے گئے تھے: Chaucer کون تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کتاب میں اور کچھ بھی نہیں تھا۔ اگر میرے بس میں کچھ ہوتا، تو میں صرف ایک چیز کہنے کے قابل ہوتا کہ ممتحن آپ سے یہ چاہتا ہے کہ کسی بھی متعلقہ مصنف کا ایک بھی لفظ پڑھے بغیر کچھ بھی کہہ دیں۔

میں خوف زدہ ہوں ہے کہ امتحانات کی ضروریات اور حد سے بڑھے ہوئے درسی متنوں نے ادبی مطالعہ کے اس انداز کو عام کر دیا ہے۔ آپ Chaucer کو پڑھنے میں بہتر ہو سکتے ہیں، ان کے تاریخ وار کاموں کو جان سکتے ہیں لیکن اگر آپ ان کے کام میں سے ہو کر نہیں گزرتے اور جو نمایاں نقادوں نے ان کے متعلق کہا اس بارے نہیں جانتے تو ایسی جان کاری آپ کو کسی بھی آدمی کے کام کی تاریخوں کے علاوہ کوئی بہتر جان کاری نہیں دیتی۔

سچائی جو عظیم ادب سے ماخوذ ہوتی ہے، جو کسی بھی اور طرح سے بھر پُور انداز میں ماخوذ نہیں ہوتی یا سوائے ان لوگوں کے جو اس قدر اس سے شناسا ہوتے ہیں کہ یہ ان کے روزمرہ کے خیالات میں سرایت کر جاتی ہے۔

میرے خیال میں یہ قابلِ تعریف بات ہے کہ جب بچے سکول میں شیکسپیئر کے کھیل، play، کو کھیلیں۔ پھر یہاں اس بات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لے ایک واضح وجہ موجود ہے، وہ یہ کہ یہ کھیل کا کھیلنا باہمی تعاون سے درست انجام دیا جا سکتا ہے نہ کہ مقابلہ بازی سے۔

میرا یہ ماننا ہے کہ شیکسپیئر کے کسی اچھے کھیل میں بَہ طور ادا کار حصہ لینا اکتساب کا ایک بہتر انداز ہے جو یہ معلوم کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے کہ پوری کتاب تیز رفتاری سے پڑھنے کی نسبت ادبی تعلیم میں کیا مفید ہے۔

پچھلی نسلوں میں انگریزی بولنے والے لوگ بائبل کے مستند نسخے کی واقفیت سے نثر میں اس قسم کی ٹریننگ کا اکتساب کرتے تھے، لیکن جب سے بائبل غیر مانوس ہوئی ہے تو اس کی جگہ اس کے برابر کا کوئی شان دار نسخہ نہیں لے پایا۔

ادب کے مقابلے تدریسِ تاریخ میں ایک سطحی سے علم کا واضح استعمال ہو سکتا ہے۔ ایسے لوگ جو پیشہ ور تاریخ دان نہیں ہیں اور  اس قسم کا معیار جو امریکہ میں ہے اسے سروے کورس کہا جا سکتا ہے، اگر یہ بَہ طورِ احسن کیا گیا ہو، تو یہ کسی بھی ایک بڑے عمل کا مفید ادراک دیتا ہے جس سے جُڑی چیزیں معلوم ہوتی ہیں اور شناسائی حاصل ہوتی ہے۔

ایسا کورس تاریخ انسانی سے متعلق ہونا چاہیے، نہ کہ اس یا اس ملک کی تاریخ سے متعلق، کم از کم اپنی تاریخ بارے۔ سب سے پرانے حقائق سے اس تاریخ کا آغاز ہونا چاہیے جس کا ادراک ہمیں علمِ بشریات اور علمِ آثارِ قدیمہ سے ہوا، اور انسانی زندگی میں ان چیزوں کے بَہ تدریج ظہور کا ادراک دینا چاہیے، جو انسان کو ہماری نظر میں وہ مقام دیتی ہے جس کا وہ مستحق ہے۔

اسے ان لوگوں کو دنیا ہیروز کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہیے جنھوں نے دشمنوں کو بڑی تعداد میں مار ڈالا، بل کہ خاص کر ان لوگوں کو بَہ طور ہیروز پیش کرنا چاہیے جو دنیا کے علم، خوب صورتی اور دانائی کے اثاثے میں خاطر اضافہ کرنے میں بہت نمایاں رہیے ہیں۔

اسے جو کچھ انسانی زندگی میں مفید ہے اس کی غیر معمولی جی اٹھنے والی طاقت کو نمایاں کرنا چاہیے، وقت کو شکست دینی چاہیے، اور ابتدائی ممکنہ موقع کے طور پر وحشت، نفرت اور تباہی کو صحرا میں بارش کے بعد نظر آنے والی گھاس کی طرح بے نقاب کرنا چاہیے۔

اسے چاہیے، جب نو جوان نسل امیدیں کھو دیں اور خواہشات خاموشی کا روپ دھار لیں، تو ان امیدوں اور خواہشات کو رام کرے، اور انھیں دوسرے انسانوں پر غالب نہ آنے دے، لیکن ان قوتوں پر غلبہ ضرور دے جنھوں نے اب تک زندگی کو دکھ اور غم سے بھر دیا ہے … میرا مطلب ہے، فطری قوتیں جو اپنے نتائج دینے میں مزاحم ہیں، جنگ جُوانا جہالت کی قوتیں، نفرت کی قوتیں، اور غلامی کا خوف جو ہمارا ورثہ ہے جس سے انسانیت میں نا امیدی نے جنم لیا ہے۔

یہ تمام کچھ تاریخ کے سروے کو دینا چاہیے۔ یہ تمام کچھ، اگر انسانوں کے روزمرہ خیالات کے دائرے میں دا خل ہو جاتا ہے، تو یہ انھیں کم بد مزاج اور کم جنونی بنائے گا۔

ایک بڑا کام جو تعلیم کر سکتی ہے اور جو کچھ اسے دینا چاہیے وہ عام کو خاص میں دیکھنے کی استعداد ہے، احساس کی قوت ہے، گو کہ میرے ساتھ ایسا کچھ ہو رہا ہے جو کچھ اسی طرح دوسروں کے ساتھ ہوتا ہے، جو کئی ادوار سے ہو چکا ہے، اور اگلے آنے والے ادوار میں ہونے جا رہا ہے، یہ بہت مشکل ہے کہ اس بات کا احساس نہ کیا جائے کہ کسی کی ذاتی بد احوالی کی کوئی خاص وجہ ہے، یعنی اس ظلم کو محسوس نہ کیا جائے جو کوئی سہتا ہے، اس عدوات کا علم نہ ہو جس کا کوئی نشانہ ہے، اور اس کا اطلاق کسی فرد کا اپنی ذات تک نہیں، بل کہ کسی ایک کے خاندان، کسی ایک کے  طبقے اور کسی ایک کی قوم سے ہے، بل کہ کسی کے ایک برِّ اعظم سے ہے۔

ایسے معاملات کو غیر شخصی انصاف سے تعلیم کے نتیجے کے طور پر دیکھنا ہی ممکن ہے، لیکن کسی قسم کے دوسرے ذرائع سے اس کا امکان بہت مشکل ہے۔ یہ تمام کچھ تعلیم کر سکتی ہے، یہ تمام کچھ تو تعلیم کو ہی کرنا چاہیے، اس کا بہت تھوڑا تعلیم ہی کرتی ہے۔


برٹرینڈ رسل کی کتاب Fact and Fiction سے ایک مضمون Education for the difficult world کا ترجمہ