جوش صاحب سے ذرا مسخری کر کے دکھاؤ؟

Naseer Ahmed
نصیر احمد

 جوش صاحب سے ذرا مسخری کر کے دکھاؤ؟

از، نصیر احمد 

ارے ہم سے اب یہ ہو نہیں پائے گا۔ ہم کہاں سے لائیں گے وہ حسنِ بیاں، وہ قدرتِ کلام اور وہ طناز طنطنے۔ دو تین کی مہلت دو۔ جوش صاحب کی کوئی چیز پڑھ لیں۔ پھر کوشش کرتے ہیں۔ اب تو برس بیتے اس طرح کی نثر پڑھے ہوئے، اور خود بھی مَیٹر آف فیکٹ میں قیام سا ہو گیا ہے۔

پھر بھی؟

اچھا ایک فریم ورک آ رہا ذہن میں جسے ہم نے کہیں صحافیوں کے خلاف برتا تھا۔ جوش صاحب بھی کبھی کبھار ایسی باتوں کے گرد بہت انشاء پردازی کرتے ہیں جو تقریباً سبھی کو معلوم ہوتی ہیں۔

تو شروع ہو جاؤ۔

تو تمھیں بتا ہی دوں کہ آفتاب مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔ حالاں کہ سارے عالم کو دمکاتی، چمکاتی، جلاتی، مسکراتی، تڑپاتی، صبح کے شانے پر زلفیں پھیلاتی، ف ج کی بارگاہِ حسن میں سجدے کر کر اتراتی، اپنی تمازتوں سے ن ع کو ہنساتی، شبیر حسن خان کے تذکرے کرتی م ل کا دل گرماتی یہ شعاعیں یہی تو کہہ رہی ہیں کہ آفتاب مشرق سے ہی نکلتا ہے مگر جاڑ جھنکار داڑھوں، برقعوں میں بندھی، حجابوں میں گُندھی، پردوں میں جکڑی، جہالت کی نَخوَت میں اکڑی، تمھاری یہ آنکھیں دلیلِ سحر نہیں مانتی، بل کہ مفتیوں کے خطبات، واعظوں کی خُرافات، ملاؤں کی واہیات میں مشرق سے طلوعِ آفتاب کے شواہد و دلائل ڈھونڈتی ہے  اور جب وہاں رتی بھر حقیقت نہیں پاتی تو اس بوڑھے نا بینا جوش کی طرف لپکتی ہیں، جھپکتی ہیں اور بے حیا فاحشاؤں کی طرح ٹھن ٹھن ٹھمکتی ہیں کہ یہ رند آوارہ، نحیف و نزار بے چارہ، س ش کا پیارا ، شبِ حُزن و ملال کا تارا، اجداد کے بیتے ہوئے جاہ و جلال کا بنجارہ انھیں یہ بتا سکے کہ آفتاب مشرق سے ہی طلوع ہوتا ہے۔

آہ میاں، آپ تو میرے دل میں دھنسے بیٹھے ہیں۔ اب اس بدلتے زمانے کے لُچوں اور لفنگوں، شورہ پشتوں، سطحیت کی دلدل میں پھنسے عیاروں اور مکاروں کو کیسے بتاؤں کہ وقتِ طلوع آپ کے کیا تیور ہوتے تھے۔ آہ میرے باپ کی نا شاد بہو تم تو جانتی ہو کہ میاں کے کیا تیور ہوتے تھے۔

ہائے وہ رئیسوں کے رئیس، شریفوں کے شریف، اشرفوں کے اشرف، عظَماء کے عظیم، ہمیشہ صدر نشین میرے میاں وقت طلوعِ آفتاب کی طرف پشت کر لیتے تھے۔ ایک دن میں نے وجہ پوچھی تو میاں تلملا کر کہنے لگے۔

شبیر، مت بھولو کے ہم پٹھان ہیں اور ہماری پٹھنولی کے سامنے یہ آگ کا گولہ بیچتا ہی کیا ہے۔ جب سے ہم نے دیکھا کہ اس وقت ہر قسم کے کنجڑے، سقے، بزاز، حلال خور، ملا زادے اور جولاہے اس کی طرف دیدے جھپکا جھپکا کر، سرین لہرا لہرا کر، بازو اٹھا اٹھا کر، کولھے مٹکا مٹکا کر دیکھے جاتے ہیں تو ہم نے اس کی طرف سے پشت کر لی۔

ہائے یہ لکھنوے تیور، ہائے یہ پٹھنولی، میاں نے گوارا ہی نہیں کیا کہ دیکھ لیں کہ یہ کم بخت آگ کا گولہ نکلتا کدھر سے ہے اور اس عروسِ ہزار داماد جسے دنیا کہتے ہیں اس کی طرف بھی آخرِ کار پشت کر لی۔

آہ، زمانہ ہائے زمانہ، اور آج اس جری کے فرزند کو ساری دنیا کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ آفتاب مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔

غنی، روز سیاہ پیر کنعان را تماشا کن

کہ نور دیدہ اش روشن کن چشم کنجڑا را

آج تو سنگ رونے والا بھی کوئی نہیں بچا۔ کہاں گئے میرے جواہر لال، کدھر چلی گئیں میری سروجنی نائیڈو، کدھر گئے میرے مہاتما۔ آؤ میرے سنگ ہنسنے والو، آج اس عیاش بڈھے کے سنگ رو تو لو۔

ہائے میرے چچا نواب اسحاق، ملیح آباد کے تعلقہ دار، تمول و تہور کا شاہ کار، ہزار لیلاؤں کے دل دار ایک دن تو بس اکھڑ ہی گئے۔ اکھڑے کیا بس بگڑ ہی گئے۔

ہوا یہ کہ میری ساتویں چچی ایک دن طلوعِ آفتاب کی سمت دریافت کرنے کی غرض سے نکلیں کہ چچا نے دیکھ لیا، بس آو دیکھا نہ تاؤ، وہیں دالان پر گرا لیا اور لگے گلے پر چھری پھیرنے کہ بے حیا بد کار ہو گئی ہے۔ پرایوں کی سمت دریافت کرنے کی آرزو مند ہو گئی ہے۔

چچی نے لاکھ دُہائیاں دیں، نواب صاحب مجھے اس موئے سے کیا لینا دینا۔ آخر دادی جان نے  چچا کی پیٹھ پر دو ہتڑ رسید کیے کہ اسحاق پگلا گیا ہے کیا؟ بہو کی جان لے گا کیا؟

تب چچا نے ساتویں چچی جان کی جان بخشی۔ لیکن فوراً ہی انھیں تین طلاقیں دے کر مائیکے رخصت کر دیا کہ جا اب مائیکے آفتاب سے اٹکھیلیاں کرتی رہ اور دیکھتی رہ کہ ادھر سے نکلتا ہے کہ ادھر سے نکلتا ہے۔ اور اس پر بس نہیں کیا۔ دو نالی نکال لائے اور آفتاب پر گولیاں برسانے لگے کہ بہو بیٹیوں پر بری نظر رکھتا ہے، جہاں سے نکلا ہے وہیں گھسیڑ دوں گا۔

ہائے میرے غیور چچا، اس ہنگامے میں بھی انھوں نے ذرا توجہ نہ کی آفتاب کس سمت سے طلوع ہوتا ہے۔

چچا، تمھارا شبیر، نئی روشنی کا گزیدہ، قدامتوں سے رنجیدہ، آج اس اجنبی دیار میں ساری دنیا کو بے شرمی سے بتا رہا ہے کہ آفتاب مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔ ہائے، ساتویں چچی جان، تمھاری عفت کی قسم، اس دبے ہوئے، رکے ہوئے، سہمے ہوئے، ٹھہرے ہوئے، جمے ہوئے، کچلے ہوئے سماج کو کچھ حقیقتیں بتانی تو پڑیں گی، کچھ حکایتیں سنانی تو پڑیں گی۔

آہ گوہر جان، گوہرم، گوہری، میرے سامنے نقشا سا کھنچ گیا ہے کہ میرے بازووں میں مچلتے، دمکتے، سسکتے، چمکتے، تڑپتے، تم نے دلار سے کہا تھا، خان صاحب ہمیں کیا خبر کہ آفتاب کدھر سے نکلتا ہے۔ نکلے جدھر سے نکلے موا۔ ہم تو تمھارے نینوں میں دیکھتے ہیں جن میں ہزار آفتاب دندناتے ہیں۔

اے گوہرم خوش ادا، با صفا، با حیا، تم تو طلوعِ آفتاب کی سمت جانے بَہ غیر ہی جہان سے گزر گئیں، ندی کے اس پار اتر گئیں اور آج تمھارے خان صاحب جن کی آنکھوں میں آفتاب دندناتے تھے، اب اتنی بینائی کھو چکے ہیں کہ سامنے گوشت کا کوہ گراں بھی بیٹھا ہو تو پوچھتے پھرتے ہیں کہ صنم سنتے ہیں تیرے بھی کمر ہے، کہاں ہے؟ کیسی ہے؟ کدھر ہے؟

اور ان بجھے ہوئے بوڑھے دیدوں کو  ساری دنیا کو بتانا پڑ رہا ہے کہ آفتاب مشرق سے نکلتا ہے۔ گوہری جان، تم مجھے دنیا میں ایسے رسوا ہونے کے لیے کوئی چھوڑ گئی ہو؟

سرو سیمینا بسوئے صحرا می روی

سخت بے مہری کی بے ما می روی