مادی قطعیات اور مذہبی فکریات 

Tayyab Usmani Fb
Tayyab Usmani

مادی قطعیات اور مذہبی فکریات

از، طیب عثمانی

آج کل، conspiracy theories یعنی سازشی نظریات، مہدویات و دجالیات کے ضمن میں نا صرف عام ہو رہے ہیں، بل کہ مخصوص فکری زاویوں میں معاصر سائنسی مادی عُلُوم کے نتائج بَہ راہِ راست دجال سے متعلقہ مذہبی فکریات کے ساتھ جوڑ کر بَہ طورِ تاویلِ نُصُوص بیان کیا جا رہا ہے۔

معاصر مادی عُلُوم کے حاصل ہونے والے نتائج، یقیناً مذاہب کے فکریات سے کش مکش میں صدیاں گزار چکے ہیں۔

مسیحیت کے غیر فطری ہونے پر مادی عُلُوم نے شواہد پیش کیے تو ہمارے علمی حلقات میں ان نتائج کو مسیحیت کے مُحرَّف ہونے کی دلیل بتایا۔

مادی عُلُوم کے تسلسل، نُدرت و تخلیق، اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج کو ہر دور میں اسلامی فکریات کے لیے بَہ طورِ دلیل پیش کیا جاتا رہا۔

بالآخر وہ آن بھی آ گئی کہ اسلامی فکریات اور مادی عُلُوم مقابل ہوئے، اور مادی نتائج بَہ طورِ چیلنج پیش آنے لگے تو مسلم علمی حلقات میں مندرجہ ذیل روَیّے سامنے آئے:

1۔ مغربی عُلُوم، چُوں کہ الحادی نظریات کا نتیجہ ہیں، سو مذہبی فکری بیانیے کا اپنا دائرۂِ کار ہے __ اور ان عُلُوم کا اپنا__ دونوں میں افتراق و اتحاد کی بحث کی ضرورت ہی نہیں۔

2۔ جدید عُلُوم کے حاصلات 1400 سال قبل نُصُوص میں آ چکے۔ لہٰذا اِنھیں قبول کرنا چاہیے۔

3۔ مخصوص دائروں میں رَد و قبول کا مزاج، یعنی اگر علاماتِ قیامت سے متعلقہ فکرِ اسلامی ہو گی تو اس کے مظاہرِ جدید سائنسی علوم ہیں۔ اور یہ نتائج قطعی و یقینی ہیں، باقی دیگر معاملاتِ فکرِ اسلامی میں ان عُلُوم کے نتائج کی کوئی حیثیت نہیں۔

اس مزاج والوں نے دورِ فِتن، بالخصوص مسیحُ الدّجال سے متعلقہ روایات کی ایسی تعبیراتِ نو پیش کی ہیں، جو مکمل طور پر شارحینِ حدیث کی تشریحاتی تراث سے رُو گردانی نظر آتی ہے۔

آئیے ذیل میں ایسی چند احادیث کی تعبیرات پر روشنی ڈالتے ہیں:

  • صحیح بخاری میں حضرت حذیفہؓ سے مَروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دجال کے متعلق فرمایا کہ اس کے پاس آگ اور پانی ہوں گے۔
  • صحیح بخاری میں مغیرہؓ بن شعبہ سے منقول ہے کہ دجال کے پاس روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کا دریا ہو گا۔
  • مسلمؓ میں نواس بن سمعان سے  مروی ہے کہ صحابی نے دریافت کیا:

“اے اللہ کے نبیﷺ! وہ اس زمین پر کتنی تیزی سے چلے گا؟”

آپﷺ نے فرمایا کہ جس طرح ہوا بادلوں کو اڑا لے جاتی ہے۔”

  • مسندِ احمد میں روایت ہے کہ وہ دجال ایک گدھے پر سوار ہو گا۔ اس کے کانوں کے درمیان چالیس ہاتھوں کا فاصلہ ہو گا۔

مہدویات، مسیحیات اور دجالیات کے ماہر علماء ان اَحَادیث کی عصری تطبیق یوں کرتے ہیں کہ معاصر ملٹی نیشنل کمپنیاں در حقیقیت دجالی جال بچھا رہی ہیں۔

ٹِن پیک کھانے اور فاسٹ فوڈ کی چلت عام کرنا در حقیقت غذا کو اپنے ہاتھ لے کر مغرب دجال مسیح کے لیے راہ ہم وار کر رہا ہے۔

دجال کی سواری کو معاصر آلاتِ حرب کے ساتھ تطبیق دے کر  یہ کہا جاتا ہے کہ اس جدید دور کے ایئرکرافٹ اور اُڑن طَشتریاں ہیں۔

ان رویوں کے حوالے سے راقم کے ذہن میں چند سوال ہیں:

1۔ ایک اہم  مسئلہ ہے کہ ہمیں طے کرنا ہو گا کہ سائنسی نتائج قطعی ہیں، یا ظنّی؟ اگر قطعی ہیں، تو سب میں قطعی، ورنہ سب نتائج جھوٹے مفروضے!

2۔ اگر سائنسی نتائج، مفروضات کا نام ہے حقائق نہیں، تو پھر ہم ان کی ان سازشی باتوں کو بھی حقیقت/قطعی کیوں سمجھ لیتے ہیں؟

3۔ ہمیں سائنس کے بارے میں اپنے اصول متعین کرنے ہوں گے کہ فکریات میں کہاں ان نتائج کو قبول کریں گے، اور کہاں نہیں؟

4۔ یہ بھی طے کرنا ہو گا کہ اسلامی فکر  کے مقابل قطعی نتائج میں ہمارا معقول رویہ کیا ہونا چاہیے۔