بر صغیر کی موسیقی میں عوامی موسیقی کا چلن

یاسر اقبال

بر صغیر کی موسیقی میں عوامی موسیقی کا چلن

از، یاسر اقبال

لوک موسیقی (عوامی موسیقی) کی تخلیق بھی ایک ایسی روایت ہے جو ہمیں ہر ملک و قوم کے ہاں نظر آتی ہے۔ ہماری موسیقی میں بھی اِس روایت کا خو ب صورت چلن موجود ہے۔ لوک موسیقی کی بیش تر اصناف (لوریاں، بولیاں، گیت، ٹَپّے، بیت، ہیمڑی، وغیرہ)کے بول کسی فردِ واحد کی تخلیق نہیں ہوتے بَل کہ ان کا وجود خود رو پھولوں کی طرح ہوتا ہے۔ یہ اصناف پوری قوم کا قیمتی ثقافتی سرمایہ ہوتی ہیں۔

لوک موسیقی کے سُر گھر کے آنگن سے لے کر کھیت کھلیانوں تک بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس موسیقی کا براہِ راست تعلق عوام کے جذبات و احساسات سے ہوتا ہے۔ لوک گیتوں کا دائرہ بچوں، عورتوں اور دو شیزاؤں تک ہی نہیں بَل کہ بوڑھوں اور جوانوں تک پھیلا ہوتا ہے۔ ماں کی لوری بچے کی نیند کو پُر سکون بناتی ہے تو پنگھٹ پر دو شیزاؤں کی پازیبوں کی چَھنکار ان کے خوابیدہ احساسات کو جگاتی ہے۔ خود بخود ان کے لبوں پر گیتوں کے بول لہرانے لگتے ہیں۔

چَراہوں کی تانیں انھیں فطرت سے ہم آہنگ کر کے تازگی بخشتی ہیں تو ٹَپّوں کے بولوں کا مخصوص لب و لہجہ بوڑھوں کے فکر و افکار کو تازہ کرتا ہے۔ غرض لوک موسیقی میں رقص و آہنگ اور شعریت کی مٹھاس دونوں شامل ہوتے ہیں۔ اس میں عوام کے جذبات و احساسات کا اظہار بڑی بے ساختگی سے ملتا ہے۔

لوک موسیقی کی ابتداء کیسے ہوئی یا کس طرح کے گانے کو ہم لوک موسیقی میں شمار کر سکتے ہیں؟ یہ معلوم کرنا اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنا لوک ادب کی ابتدا کے بارے میں جاننا مشکل ہے۔ لیکن اہلِ علم کی متفقہ رائے کے مطابق یہ غیر متمدن آبادیوں کے عوام کے جذبات کا طریقۂِ اظہار ہے۔ بر صغیر کی موسیقی میں اِسے دیسی یا عوامی موسیقی سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ یہ موسیقی سیدھی سادی اور مختصر سُروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ سُروں پر بولوں کو مقدم سمجھ کے گایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس موسیقی میں لفظ اور معانی کا رشتہ زیاہ مضبوط اور واضح ہوتا ہے۔

پنڈت متنگ جنھوں نے بر صغیر کی دیسی موسیقی (لوک موسیقی) پر مفصل اظہارِ خیال کیا ہے ان کے مطابق کوئی نغمہ چار یا چار سے کم سُروں سے ترتیب نہیں پا سکتا۔ ایسے نغمات جو چار یا چار سے کم سروں سے تالیف ہوتے ہیں، جنگلوں میں رہنے والے قبائل میں مقبول ہیں جیسے ساور، پلندہ، کام بھوج، ونگا، کیرت، اندھیرا وغیرہ۔ ہندوستان میں ایسے سادہ تالیف کیے گئے نغمات جو عورتیں، بچے، گوالے، کسان اور چرواہے اپنے اپنے علاقوں میں گاتے تھے دیسی موسیقی میں شمار کیے جاتے تھے۔

یونیسکو کا بین الاقوامی ادارہ انٹرنیشنل فوک میوزک کونسل عوامی یا لوک موسیقی پر ایک عرصے تک کام کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ:

لوک موسیقی وہ موسیقی ہے جس کی ترسیل زبانی ہو۔ یہ ارتقاء کا نتیجہ ہے اور اس کا انحصار تسلسل، تنوع اور انتخاب پر ہے۔                                                                                                                                                                  (کارپلز)

اس تعریف کی وضاحت کرتے ہوئے رشید ملک کہتے ہیں کہ:

’’اس تعریف سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ عوامی موسیقی ایک ایسی روایت ہے جو تحریر میں نہیں آتی۔ اس روایت کی تشکیل کرنے والے عناصر میں پہلے نمبر پر تسلسل ہے جو ماضی کو حال سے ملاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر تنوع ہے جو کسی فرد یا گروہ کی تخلیقی قوت کا مظہر ہے اور تیسرے نمبر پر انتخاب ہے جو کسی عمرانی گروہ کے ذریعے نغمے یا دُھن کی اس وضع کی تشکیل کرتا ہے جس میں وہ معاشرے میں زندہ رہتی ہے۔‘‘                                                                            (راگ درپن کا تنقیدی جائزہ۔ ص:۴۳۲)


مزید و متعلقہ: لوک موسیقی اور منصور علی ملنگی کا فن  از، یاسر اقبال

شاہد احمد دہلوی، فنِ موسیقی اور مضامینِ موسیقی  از، یاسر اقبال

بر صغیر کی موسیقی  از، اقدس علی قریشی ہاشمی

ہندوستانی اور ایرانی موسیقی کا امتزاج: امیر خسرو  از، یاسر اقبال


عوامی موسیقی کا اطلاق ایسی موسیقی پر بھی کیا جا سکتا ہے جو اپنے ارتقائی عمل میں کلاسیکی موسیقی سے متاثر نہ رہی ہو، یا جس کی دھن یا بندش کو کسی فرد نے تو مرتب کیا ہو لیکن آنے والی نسلوں میں یہ دھن یا غِنائی بندش عوامی موسیقی میں جذب ہو گئی ہو۔

عوامی موسیقی کے نمایاں امتیازات میں ایک اہم عُنصر اس کی تشکیلِ نو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی موسیقی ایک متحرک فن ہے جو نئے نئے اضافوں کے ساتھ نسل در نسل پروان چڑھتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں فن موسیقی کو تین بنیادی درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

عوامی موسیقی

کلاسیکی موسیقی

نیم کلاسیکی موسیقی

ان میں کلاسیکی موسیقی ایک مُنضبط فن ہے جسے اس کے مُتعین کردہ اصول و ضوابط کے تحت گایا جاتا ہے۔ اس موسیقی میں جذبات و احساسات کے اظہار کا سارے کا سارا انحصار سُر پر ہوتا ہے۔ الفاظ کو سروں کی نسبت کم اہمیت دی جاتی ہے۔ پربندھ، دھروپد، خیال، ترانہ وغیرہ اس کی اہم اصنافِ گائیکی ہیں۔ کلاسیکی موسیقی کا اپنا ایک الگ مزاج ہوتا ہے۔ اس میں جو مشہور تالیں رائج ہیں ان میں چند کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے جن میں تین تال سولہ ماترے جس کے بول یہ ہیں:

دھا۔ دھن۔ دھن۔ نا۔، دھا۔ دھن۔ دھن۔ نا۔ تا۔ تن۔ تن۔ نا۔ دھا۔ دھن۔ دھن۔ نا۔

یہ زیادہ برتا جانے والا تال ہے جس میں تین ضربیں ہیں اور ایک حصہ خالی ہے۔

جھپ تال دس ماترے جس کے بول یہ ہے:

دھن۔ نا۔ دھن۔ دھن۔ نا۔ تن۔ نا۔ دھن۔ دھن۔ نا

اس میں تین ضربیں ہیں اور دو خالی ہیں۔ جھومرا ۱۴ ماترے کا تال جس کے بول یہ ہیں:

دھن۔ دھاگے۔ ترکٹ۔ دھن۔ دھن۔ دھاگے۔ ترکٹ۔ تن۔ تاگے۔ ترکٹ۔ دھن۔ دھن۔ دھاگے۔ ترکٹ۔

اس میں تین ضربیں ہیں اور ایک خالی ہے۔

اکتالہ ۱۲ ماترے جس کے بول یہ ہیں:

دھن۔ ترکٹ۔ دھن۔ نا۔ دھن۔ دھن۔ نا۔ ترکٹ۔ تُو۔ نا۔ کَت۔ تا

اس میں ۴ ضربیں ہیں اور تین خالی ہیں۔ اسی طرح کئی اور تالیں ہیں جو کلاسیکی موسیقی میں مُستَعمل ہیں۔ ہر تال کا اپنا ایک نام ہے۔ ماتروں کی تعداد متعین ہے اور ہر تال اپنے اندر ایک خاص انفرادیت رکھتا ہے۔

کلاسیکی موسیقی میں گانے والا تالوں کے نظام اور ان کے وزن و چلن سے خوب آگاہ ہوتا ہے اور یہ آگاہی کلاسیکی موسیقی کی بنیادی شرط ہے جو گائیک پر عاید ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر کلاسیکی گائیک ایسے گزرے ہیں جو نہ صرف راگ داری کے نظام سے بخوبی واقف تھے بَل کہ طبلے کے فن سے بھی آراستہ تھے۔ دوسری اہم بات کے اس کے لیے سامع کا تربیت یافتہ ہونا بھی ضروری ہے۔ سامع فن موسیقی کی مُبادیات سے واقف ہو گا تو اس حَظ اٹھا سکے گا۔

نیم کلاسیکی موسیقی کلاسیکی موسیقی کی کوکھ سے نکلنے والا فن ہے۔ لیکن یہ عوامی موسیقی کی نسبت زیادہ منضبط فن ہے۔ اس میں لفظ اور معانی کا رشتہ مُعطل نہیں ہوتا۔ بَل کہ الفاظ کو سروں پر مقدم سمجھ کے گایا جاتا ہے۔ لفظوں کی ادبی اور شعری حیثیت کا خاص اِلتزام برتا جاتا ہے۔ ٹُھمری، غزل، قول وغیرہ اس کی معروف اصناف ہیں۔

اس فن کو نبھانے کے لیے گانے والے کے اندر اُتنی ہی پختگی در کار ہوتی ہے جتنا کلاسیکی موسیقی میں ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے کلاسیکی گائیکوں نے نیم کلاسیکی کو دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر انداز سے گایا ہے۔ اس میں جو تالیں مُستَعمل ہیں ان میں کہروا، ۸ماترے، مغلی، ۷ ماترے، دادرا، ۶ ماترے، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس موسیقی میں طبلے والے کو اپنا فن دِکھانے کا بھی خوب موقع ملتا ہے۔ وہ ٹھیکے کو طرح طرح کی خوب صورت شکلوں کے ساتھ پھیلا کر بجاتا ہے۔

جہاں تک عوامی موسیقی اور کلاسیکی موسیقی کا تعلق ہے تو کلاسیکی موسیقی اور عوامی موسیقی دو الگ الگ زُمروں میں شامل ہیں۔ کلاسیکی موسیقی ایک منضبط فن ہے جس میں قواید و ضوابط کی پابندی لازم ہوتی ہے اور اس کی پیش کش میں سر، تال اور راگ کی پوری شکل کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اس موسیقی کی اپنی ایک متعین کردہ ساخت پرداخت ہے جسے اس کے مقررہ کردہ اصول و ضوابط کے ساتھ نبھایا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس عوامی موسیقی کا انحصار اس کی سادگی، بولوں کی غِنائیت اور عوام کے جذبات کے سچے اظہار پر ہے جس میں عوام کی محبتیں، آرزوئیں، امیدیں اور درد و الم کی کیفیات شامل ہوتی ہیں۔

ہندوستان میں عوامی موسیقی کی روایت کلاسیکی موسیقی کے بِالمُقابل چلتی رہی ہے۔ لیکن ماہرینِ موسیقی اسے غیر متمدن لوگوں کی موسیقی سمجھ کے نظر انداز کرتے رہے۔ ماضی قریب تک اسے علم موسیقی کی تاریخ سے خارج سمجھا جاتا رہا۔ آرٹ موسیقی کی اجارہ داری اور دربار کی سرپرستی کے آگے عوامی موسیقی کو بہت کم اہمیت دی جاتی تھی۔ اس کی مثال ایسے ہی تھی جس طرح ابتدا میں زبانِ فارسی کے آگے زبانِ اردو کی اہمیت تھی۔ ابتدائی دور میں اردو کو بھی گنوار اور جاہلوں کی زبان سمجھ کر شعراء دہلی نظر انداز کرتے رہے۔

مغرب نے بھی ایک عرصے تک عوامی موسیقی کو نظر انداز کیے رکھا۔ تاہم اٹھارویں صدی میں پہلی بار اس کے لیے فوک میوزک اور فوک سانگ جیسی اصطلاحوں کو وضع کیا گیا تا کہ ثقافتی نقطۂِ نظر سے نام نہاد پس ماندہ عوام کے رسم و رواج اور توہمات کا احاطہ کیا جا سکے۔

اٹھارویں صدی میں عوامی موسیقی کو آرٹ موسیقی کے پہلو بہ پہلو احترام کا درجہ اس وقت ملنے لگا جب مغربی دانش وروں نے دیہاتی زندگی کی تعریفیں شروع کیں۔ چوُں کہ عوامی موسیقی عوام کے مشترکہ تجربات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ کسی قبیلے یا قومی گروہ کی نمائندہ موسیقی کہلاتی ہے۔

یہ اَمر ملحُوظ رہے کہ عوامی موسیقی کا مقبول موسیقی سے بھی بڑا گہرا تعلق رکھتی ہے۔ لیکن مقبول موسیقی کو ہم عوامی موسیقی نہیں کہہ سکتے۔ مقبول موسیقی سے میری مراد فلمی موسیقی اور تھیٹر کی موسیقی ہے۔ جس کی مقبولیت ایک عرصے تک رہتی ہے اور اس کی تخلیق موسیقاروں کی مرہونِ منت ہوتی ہے اورکار و باری نقطۂِ نظر سے اس کے بول اور دُھنیں ترتیب دی جاتی ہیں؛ اور اس کو مخصوص تناظر میں سنا جا سکتا ہے۔

جب کہ لوک موسیقی یا عوامی موسیقی ایک روایت ہے جس میں آفاقیت پائی جاتی ہے۔ جو کسی بھی معاشرے میں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ لوک موسیقی کی کمپوزیشن اور اس کے بولوں کو تصنیف کرنے والوں کا کچھ پتا نہیں ہوتا البتہ لوک گیتوں کے الفاظ میں نسل در نسل اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ عوامی موسیقی کا ایک اور نمایاں وصف یہ ہے کہ یہ گھرانوں کی نمائندہ نہیں ہوتی اس کا تعلق کسی قبیلے یا عوامی گروہ سے ہوتا ہے۔

عوامی موسیقی میں لفظ اساسی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ الفاظ اور معانی کا رشتہ بڑا واضح اور اہم ہوتا ہے۔ کلاسیکی موسیقی میں جذبات کے اظہار کی بنیاد سُر اور راگ کے پھیلاؤ پر رکھی جاتی ہے جب کہ عوامی موسیقی لفظ کی ادبی حیثیت کو نظر انداز نہیں کرتی۔ اس کا سارا سفر لفظوں کے سہارے ہی مکمل ہوتا ہے۔ یہاں تک کے تال کا انتخاب بھی الفاظ کے پیش نظر ہوتا ہے۔ یعنی گائے جانے والے لوک گیتوں میں شعری وزن کی مناسبت سے تال کا انتخاب ہوتا ہے۔ عوامی موسیقی کا نغمہ چند سروں پر مرتب ہوتا ہے اور اُنھِی سروں کے گرد گھوم کر اور بار بار کی تکرار سے اپنا غنائی چکر مکمل کرتا ہے۔ سروں اور لفظوں کی تکرار عوامی موسیقی کا خاصا ہے اگر ایسا نہ ہو تو نغمہ غِنائی تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔

پاکستان کے چاروں صوبوں کی عوامی موسیقی کا اپنا ایک خاص تَشخُّص ہے۔ اپنے خاص طرح کے لب و لہجے کے ساتھ رنگ بکھیرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ذیل میں عوامی موسیقی کی ان اصناف کا جائزہ لیا جاتا ہے جو پاکستان میں رائج ہیں اور جِنھیں عوامی سطح پر مقبولیت حاصل ہے۔

۱۔ ٹَپّہ: ٹپہ ایک پنجابی صنفِ گائیکی ہے۔ ابتدا میں پنجاب کے سار بان ہیر رانجھا کی منظوم کہانی کو ٹَپّے کے شکل میں ترتیب دے کر گاتے تھے۔ بعد میں آصفُ الدَّولہ کے ایک درباری پنجابی گائیک شوری نے اپنے مخصوس اسلوب کے ساتھ اسے درجہ کمال تک پہنچایا۔

ٹپے کا اپنا ایک خاص غنائی اُسلُوب ہوتا ہے۔ اس میں چند بولوں کو تکرار کے ساتھ گایا جاتا ہے۔ اس میں استہائی انترہ نہیں ہوتا۔ بَل کہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر ہر بند مشتمل ہوتا ہے۔ اور ہر بند کا غنائی تسلسل ایک جیسا ہوتا ہے۔

عشق و محبت کی جُملہ کیفیات کا اس میں اظہار پایا جاتا ہے۔ شاعری میں ایک خاص طرح کا مقامی لہجہ موجود ہوتا ہے۔ ہر خطے کا ٹپہ اپنی مقامیت کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ دیہی کلچر کے عناصر اس میں زیادہ ہوتے ہیں۔ ٹپے کی صنف پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔

ٹَپّہ کی صنف ویسے تو اہلِ پنجاب کی میراث سمجھی جاتی ہے لیکن پاکستان کے چاروں صوبوں کی عوامی موسیقی میں اس کا وجود پایا جاتا ہے۔ صوبہ خیبر پختون خواہ کی عوامی موسیقی کا زیادہ حصہ ٹَپّوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح سندھ میں اسے بولیوں کی شکل میں بھی گایا جاتا ہے۔ اس طرح دیگر خطوں میں بھی اس کا کسی نہ کسی شکل میں وجود ملتا ہے۔ کچھ احباب نے تو اس کے لیے مخصوص نوٹیشنز notations کی پابندی عاید کر رکھی ہے۔ میرے خیال میں یہ غلط ہے۔ کیوں کہ عوامی موسیقی ایک متحرک فن ہے اور اس کی جملہ اَصناف کے غنائی اسالیب نئے نئے اضافوں کے ساتھ نئی نسل کو منتقل ہوتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اہلِ پنجاب میں ٹَپّوں کی دُھنیں کئی راگوں میں نظر آتی ہیں۔ بھیرویوں، پہاڑی، جوگ، بھِیم پلاسی میں بھی مقبول دھنیں عرصے سے رائج ہیں۔

اسی طرح خیبر پختون خواہ میں بھی ٹَپّے کئی انداز سے گائے جارہے ہیں۔ لہٰذا کسی قسم کی مخصوص سُروں میں اس کی دُھن کو پابند کرنا درست نہیں۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ کچھ دھنیں وقتی طور پر مقبول تو ہو جاتی ہیں لیکن کچھ عرصہ زندہ رہنے کے بعد ان کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ وہ عوامی موسیقی کا حصہ نہیں بن پاتیں۔ اس کی بنیادی وجہ ایک یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں عوامی موسیقی کی روایت بہت کمزور ہوتی ہے اور کسی بھی نئی مقبول دھن کو عوامی موسیقی میں جذب ہونے میں عرصہ لگ جاتا ہے۔

جن معاشروں میں عوامی موسیقی کی روایت مضبوط ہوتی ہے وہاں کی نئی مقبول دھنیں جلدی عوامی موسیقی کی روایت میں جذب ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا ٹَپّے کے حوالے سے اس کی کوئی ایک مخصوص دھن مقرر کر لینا کہ بس اسی دھن میں ہی ٹَپّہ گایا جا سکتا ہے۔ میرے نقطۂِ نظر سے درست نہیں۔ دھن میں اضافوں کی پوری گنجائش نہ صرف موجود ہے بَل کہ ٹپے کے لیے کئی اور نئی دھنیں بھی تخلیق کی جا سکتی ہیں۔

ہاں البتہ ٹپے کی گائیکی کا جو خاص امتیازی رنگ ہے وہ اس کا غنائی لب و لہجہ ہے۔ جو کسی بھی دھن سے ہم آہنگ کرکے گایا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ٹَپہ عوامی موسیقی کی وہ صنف ہے جس کی گائیکی کے دو رنگ ہیں ایک کلاسیکی موسیقی کا رنگ اور دوسرا عوامی رنگ۔ کلاسیکی رنگ کے ٹپے میں لفظوں کی تکرار کو ایک خاص غنائی چکر میں ادا کیا جاتا ہے۔ بہلاوے او ر مُرکیوں کے ساتھ اس کے بولوں کو مُزیّن کر کے گایا جاتا ہے۔

ہندوستان میں ابھی بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اسی انگ میں ٹپے کی گائیکی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اساتذہ نے بھی ٹپے کے کلاسیکی رنگ کو اپنایا ہے۔ اس کی ایک مثال ہمیں اردو میں ’’باغوں میں پڑے جھولے‘‘ راگ پہاڑی میں گائی گئی بولیوں میں بھی نظر آتی ہے۔

۲۔ لوک گیت: لوک گیت ہمارے مقامی کلچر کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اس میں مقامی سطح پر جذبات و احساسات کا بے ساختگی سے اظہار ہوتاہے۔ پاکستان میں لوک گیتوں کی گائیکی کافی مقبول گائیکی سمجھی اور جانی جاتی ہے۔ اس کی شعری ہیئت میں مَطلع اور مَقطع کی پوری گنجایش موجود ہوتی ہے۔

لوک گیت میں مطلع کو مکھڑا کہتے ہیں۔ پاکستان کے سرائیکی علاقوں میں لوک سرائیکی گیتوں کا ایک خاص چلن موجود ہے۔ ان گیتوں میں عشق و محبت کے ساتھ ساتھ صوفیانہ مزاج بھی پایا جاتا ہے۔ کچھ گیت ایسے ہیں جو بولیاں نُما ہیں جن میں:

ساوی مورا کین تے بوٹا کڈھ ڈے چولے تے

رٹھی نہ منیساں بہوں ناراض ہا ں ڈھولے تے

اج ٹک پو سویلے لگا ونج جانی

ڈینہہ تپا ای ڈوپاراں بھن جانی

بے درد ڈھولا اِنج نیں کریندا

ڈِکھیاں کُوں پُنلا گل چا لویندا

خان گھڑا دے بند وے خاناں

میں ڈھولے دی منگ وے خاناں

ان گیتوں میں جذبات کا اظہار عورت کی طرف سے ہوتا ہے۔ اور ایک خاص طرح کا کرب، کسک اور سوز و گداز ان گیتوں کا شعری تلازمہ ہے۔

اسی طرح پوٹھوہار میں بھی اس طرح کے بولیاں نما گیت ملتے ہیں۔ پوٹھوہار میں بیت کی گائیکی کا بھی ایک خاص رنگ ہے جو گھڑے کے مخصوص گت میں پڑھے جاتے ہیں۔ بیتوں کو ایک خاص انداز میں گایا جاتا ہے اور ایک بیت سے دوسرے بیت کے درمیان جو وقفہ ہوتا ہے اسے ٹانٹے ہارمونیم، گھڑے اور چھوٹے ردھم (خنجری) کی سنگت سے بھرا جاتا ہے۔ اس کے بعد جب بیت گانا ہوتا ہے تو ہارمونیم کے علاوہ باقی ساز خاموش رہتے ہیں۔

۳۔ دوھڑے ماہیے: دوھڑے ماہیوں کی گائیکی بھی پنجاب کی عوامی گائیکی میں شامل ہے۔ اس گائیکی کا امتیازی رنگ یہ ہے کہ جو موضوعاتی تخیّل دوھڑے میں ہوتا ہے گانے والا دوھڑے کے بعد ماہیے میں بھی اُس کا پورا التزام رکھتا ہے۔

سرائیکی علاقوں میں جو لوک گیت گائے جاتے ہیں ان کی ابتدا دوھڑے ماہیوں سے کی جاتی ہے اور گانے والے کی شعوری کاوش یہ ہوتی ہے کہ لوک گیت میں جو تخیل ہے وہی تخیل دوھڑوں ماہیوں میں بھی قائم رہے تا کہ سامِع پر موضُوعاتی تسلسل برقرار رہے۔ تا کہ آغاز سے آخر تک ایک خاص طرح کی فضا میں رہ کر سماعت کر سکے۔

اسی طرح کچھ گیت ایسے بھی ہیں جو شادی بیاہ پر عورتیں گاتی ہیں ان گیتوں میں عموماً دُولہا اور دلہن کی مدحت سرائی کی جاتی ہے۔ سرائیکی خطے کے مُضافات میں اب بھی یہ روایت پوری طرح قائم ہے شادی سے چند دن پہلے شادی والے گھر اڑوس پڑوس کی عورتیں شام کے بعد جمع ہو جاتی ہیں اور پرات (تھالی) پر ہیمڑی (عورتوں کا گانا) اور بولیاں گاتی ہیں۔

۴۔ سار بانوں اور چرواہوں کے گانے: سار بانوں اور چرواہوں کے گانے بھی عوامی موسیقی میں شامل ہیں جو فطرت سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ ان گانوں کو بلند آواز میں اوپر والی سروں میں آلاپا جاتا ہے۔ سار بان یا چرواہے جب اپنے مال مویشی لے کے آبادیوں سے دور کھلے میدانوں اور کھیتوں کا رخ کرتے ہیں تو خود کو فطرت سے ہم کِنار کرنے کے لیے اور اپنے جذبات کا اظہار کچھ خاص طرح کی تانوں کو آلاپ کر کرتے ہیں۔

ہماری موسیقی (بر صغیر کی موسیقی) اپنے اندر ایسی جاذبیت رکھتی ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں میں چاہے وہ کلاسیکی پہلو ہے، نیم کلاسیکی یا عوامی، ایک خاص طرح کا تاثر پایا جاتاہے اور علمِ موسیقی کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے ہم کسی ایک پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ یہ فن اپنے اندر بہت سی جِہتوں کو سموئے ہوئے مستقبل کی طرف رواں دواں ہے۔ موجودہ دور میں کلچری کی یلغار کے آگے عوامی موسیقی بھی اپنے رنگ بدل رہی ہے۔ نئے نئے سازوں کی آمیزش سے نئے نئے غنائی اسالیب برتے جا رہے ہیں اور عوامی موسیقی جس کی ساخت پرداخت اپنے مقامی رنگ سے وابستہ ہوتی تھی اب اُس مقامیت سے اس کا دامن چھوٹتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پاپ میوزک کے آہنگ سے عوامی موسیقی کی بہت سی اصناف متاثر ہو رہی ہیں۔ جس سے عوامی موسیقی کا ایک نیا رنگ روپ سامنے آ رہا ہے۔