کلاسیکی موسیقی اور گھرانے: تو کیا یہ روایت بھی مر جائے گی؟

 

(ڈاکٹر جواز جعفری)

گھرانہ کا لفظ گھر سے نکلا ہے جس کے معانی ہیں، خاندان یا کنبہ۔ گھرانہ کا لفظ سنتے ہی ہمارے تصور میں افراد کا ایسا مجموعہ طلوع ہوتا ہے جو ایک چھت تلے ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا ہو مگر موسیقی میں گھرانہ ایک قدرے مختلف چیز ہے اور یہ لفظ کلاسیکی موسیقی میں ایک معروف علمی و تہذیبی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ برصغیر کی کلاسیکی موسیقی میں لفظ ’’گھرانہ‘‘ خالصتاً مسلمان موسیقاروں کی دین ہے۔ ہندو پنڈت اس کے لئے سنسکرت زبان کا لفظ ’’سمپردائے‘‘ استعمال کرتے رہے ہیں مگر جو علمی و ثقافتی سطح لفظ ’’گھرانہ‘‘ کے ساتھ وابستہ ہے کوئی اور لفظ ان اقدار اور مفاہیم کا حق ادا کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ موسیقی کی دنیا میں گھرانہ سے مراد کسی مخصوص نسل یا خاندان کے افراد نہیں بلکہ یہاں کسی خاص استادِ فن کے خاندان کے موسیقی کے فن سے وابستہ افرادِ خانہ اور اس کے شاگردوں کا وہ سلسلہ ہے جنہوں نے مل کر اس خاندان کی فنی روایات و اقدار کو محفوظ اور مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہو(1)۔ موسیقی کے اس سلسلے کا باضابطہ اور اعلیٰ اقدار کا حامل ہونا شرط ہے۔ موسیقی کا کوئی بھی گھرانہ ہو وہ استاد اور شاگرد کے سنجوگ سے وجود میں آتا ہے۔ علم دان کرنے والے استاد اور علم وصول کرنے والے خدمت گزار شاگرد کی موجودگی گھرانے کو جنم دیتی ہے(2)۔

پاک و ہند کی موسیقی میں گھرانہ ایک سماجی تنظیم کی شکل میں سامنے آیا ہے جو موسیقار استاد، اس کے خاندان کے گوّیوں اور شاگردوں کے گانے کے مخصوص انداز و اسلوب کے ذریعے اپنا اظہار کرتا ہے۔ گھرانہ کے ذریعے مخصوص موسیقی کے حوالے سے گھرانے کی موسیقی کے مخصوص نظریات بھی سامنے آتے ہیں اور یہ نظریات بڑے ٹھوس طریقے سے ایک گھرانے کو دوسرے گھرانے سے مختلف کرتے چلے جاتے ہیں۔ موسیقی کے حوالے سے یہ مخصوص اپروچ کسی بھی گھرانے کی موسیقی کی تیکنیک، ادائیگی، اسلوب اور تحسین پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ موسیقی کی علمی زبان میں لفظ گھرانہ اس جگہ یا مقام کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں ایک مخصوص گائیکی کی بنیاد رکھی گئی ہو، اور اس موسیقار کی طرف بھی جس کی گائیکی کے منفرد انداز نے کسی گھرانے کے خدوخال ابھارنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہو۔

شاگرد اپنے استاد کے تخلیقی اورمنفرد انداز کو گائیکی کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں۔ گویا گھرانے کے وجود اور بقا کی ضمانت اس کی گائیکی کے انداز کے تسلسل پر منحصر ہے۔ کسی بھی گھرانے کا بانی ارادی یا غیرارادی طور پر اپنی آواز اور فنیّ اقدار کی خصوصیات کو اپنے شاگرد کی آواز میں شامل کر دیتا ہے۔ گھرانے کے تصور میں فنکار کا کسی نہ کسی استاد گھرانے سے وابستہ ہونا شرط ہے یعنی بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی گھرانے کے فن سے فیض یاب ہونا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ فنکار کے فن کی طرزِ پیشکش ہی سے اس کی گھر سے وابستگی کا اظہار ہو جاتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی گھرانے کی تشکیل اور تعین کا اختیار کس کے پاس ہے؟ اور اس سے بھی زیادہ وضاحت طلب بات یہ ہے کہ کسی بھی گھرانے کے تعین کا فیصلہ اس کی قدامت پر منحصر ہے یا گائیکی کے انداز پر؟ ان سوالات پر گفتگو کرنے سے پہلے آئیے ہم معروف کلاسیکل گائیک استاد بدر زمان کے خیالات پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو کسی بھی گھرانے کی تشکیل اور تعین کرتے ہوئے چند شرائط کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ:

1: فنکاروں کا اپنا خاندان ہو جن کا پشت در پشت ذریعہ معاش فنِ موسیقی ہو۔ 2: یہ خاندان نسل در نسل ایک کے بعد ایک شاگرد کے ذریعے
فن منتقل کرتا رہا ہو۔ 3 : ہر گھرانے کا کوئی بانی ہو جس کی شخصیت تاریخی ہو 4: گھرانے کی موجودگی کے لیے اصل گھر کے افراد (فنکار) لازماً موجود ہوں۔ 5: گھرانے کا فن اپنا انفرادی انداز رکھتا ہو۔ 6:گھرانے کی پشت پر کم از کم تین نسلوں سے نامور فنکار موجود ہوں جو اپنی فنیّ روایات قائم رکھے ہوئے ہوں۔

استاد بدر زمان کی طرف سے عائد کی گئی دیگر شرائط پر تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے البتہ ان کی آخری شرط پر گفتگو کی گنجائش موجود ہے اور ان کے تھیسس کے حوالے سے یہی شرط گھرانہ سازی کے حوالے سے شرطِ اول کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ موسیقی کے بہت سے سکالرز گھرانہ سازی کے لیے کسی خاندان کی گذشتہ تین نسلوں کا موسیقی کے فن سے وابستہ ہونا ضروری خیال کرتے ہیں۔ گذشتہ دنوں پٹیالہ گھرانے کے ممتاز گائیک استاد فتح علی خان نے بھی اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں گھرانے کے قیام کے سلسلے میں کسی خاندان کی گذشتہ تین نسلوں کا موسیقی کے فن سے وابستہ ہونا گھرانہ سازی کے لیے ضروری قرار دیا۔ اس سلسلے میں استاد بڑے غلام علی خان کے پوتے نقی علی خاں بھی گھرانہ کے قیام کو گذشتہ تین نسلوں ہی سے مشروط کرتے ہیں۔ جبکہ گوالیار گھرانے کے ممتاز گائیک استاد فتح علی خان (حیدر آبادی) ایک طرف گھرانہ سازی کے سلسلے میں تین نسلوں کے اس تصور کے قائل نہیں ہیں اور دوسری طرف وہ ان گھرانوں کی نفی کرتے ہیں جو پشت در پشت دُھرپد گاتے رہے ہیں مگر ان دنوں خیال گائیکی سے وابستہ ہو چکے ہیں(3)۔ موسیقی کے معروف سکالر استاد غلام حیدر خان گھرانوں کے تصور کے سرے ہی سے خلاف ہیں ان کے نزدیک تحریری موسیقی گھرانوں کے تصور میں یقین نہیں رکھتی۔(4)

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ گھرانہ سازی کے تصور میں گھرانے کی قدامت اہم کردار ادا کرتی ہے یا پھر گائیکی کا انداز؟ میرے خیال میں دونوں چیزیں مل کر کسی بھی گھرانے کو عظمت کے درجے پر فائز کرتی ہیں۔ جہاں تک قدامت کا تعلق ہے یہ تو تقریباً سبھی گھرانوں کو میسر ہو سکتی ہے لیکن گھرانے کے قیام اور اسے شہرت و عظمت کی بلندیوں پر پہنچانے کا فریضہ اس گھرانے کی گائیکی کا اسلوب ہی ادا کرتا ہے۔ یہاں یہ اہم ترین سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب راگ راگنیاں مشترک ہیں اور سُر بھی یکساں ہیں تو پھر وہ کونسی چیز ہے جو ایک گھرانے کی گائیکی کو دوسرے گھرانے سے الگ یا ممتاز بنا دیتی ہے؟ یقیناًجو چیز گھرانہ سازی میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے وہ گانے کا اسلوب ہے۔ سُر کا لگاؤ، راگ کی بڑھت، تانوں کی تقسیم، فنکار کا لہجہ، آواز کی تراش خراش، الاپ کا انداز، لے کاری اور سب سے بڑھ کر راگ کے رس اور مزاج کے مطابق تخلیقی بندشیں کسی بھی گھرانے کی پہچان قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ موسیقی میں ایسا تو نہیں ہوتا کہ گھرانے راگ راگنیوں کو آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں اور ایک گھرانے کی میراث سمجھے جانے والے راگوں کو دوسرا گھرانہ ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ایک راگ کو گاتے وقت فنکار ارادی طور پر بعض باتوں کا خیال رکھتا ہے۔

اگرچہ سارے گوّیے ان باتوں سے اپنے طور پر آگاہ ہوتے ہیں مگر پھر بھی ہر گھرانے میں ان فنیّ نکات کی اہمیت الگ الگ ہوتی ہے۔ ہر گھرانے کا فنکار راگوں کو اندر اورباہر سے خوبصورت بنانے اور انہیں اپنے سُروں کے لگاؤ سے سجانے اور راگ میں شائستگی، رس اور تاثیر پیدا کرنے کے لیے اپنے طور پر نئے نئے طریقے ایجاد کرتا ہے۔ وہ راگ کی پیش کاری کرتے وقت اپنے وژن، اپنی تخلیقی اپروچ اور اپنی سوجھ بوجھ سے کام لیتا ہے۔ بعدازاں اس گھرانے کے دوسرے فنکار بھی گاتے وقت نسل در نسل ان نکات پر زور دیتے ہیں اور یہی وہ نکات ہیں جو نہ صرف گھرانے کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں بلکہ انہی کی بنیاد پر ایک گھرانہ دوسرے گھرانے سے الگ پہچانا جا سکتا ہے۔ مثلاً کیرانہ گھرانے کے فنکار دُرت اور ترانے میں زور آزمائی کرنے کی بجائے راگ کے بیشتر امکانات بلمپت ہی میں تلاش کرتے ہیں اس کے برعکس آگرہ گھرانے کی گائیکی کا انداز جارحانہ ہے اس گائیکی کا ایک ممتاز وصف بول تان ہے جو آگرہ اسلوب پر قواّل بچوں کی گائیکی کے اثرات کا پتہ دیتی ہے۔ ادھر پٹیالہ گائیکی میں زیادہ زور تانوں پلٹوں اور دُرت لے پر نظر آتا ہے یہاں بلمپت پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ جبکہ پٹیالہ کے برعکس شام چوراسی گھرانے میں بلمپت پر قیام نہ صرف زیادہ ہے بلکہ بلمپت کا دورانیہ بے حد خوبصورت اور وسیع بھی ہے۔

گوالیار گھرانے کی گائیکی میں کھلا گلا استعمال کیا جاتا ہے یہاں آواز میں زور کے ساتھ ساتھ کنٹرول بھی نظر آتا ہے۔ دلّی گھرانے کی گائیکی کا اہم نکتہ، آکار اور صحیح خوانی ہے جبکہ اندور گھرانے کی گائیکی کا ممتاز وصف لے کاری پر زور ہے۔ دیکھا جائے تو یہی وہ نکات ہیں جن کی ہر گھرانے میں نہ صرف اہمیت الگ الگ ہے بلکہ انہی سے مختلف گھرانوں کے انفرادی خدوخال بھی جنم لیتے ہیں۔

برصغیر کی کلاسیکی موسیقی میں گھرانوں کا تصور قدامت سے زیادہ فقہی طرز پر قائم ہوا۔ فقہ میں اجتہاد کا تصور یہ ہے کہ اگر کوئی دینی سکالر کسی مجتہد کی فقہی تشریح کو قبول کر لیتا ہے تو وہ ہمیشہ مقلّد ہی رہے گا اور اگر وہ اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق کوئی نیا رستہ نکالتا ہے تو ایسی صورت میں وہ خود مجتہد کے درجے پر فائز ہو سکتا ہے۔ موسیقی میں گھرانے بھی اسی اصول کی بنیاد پر وجود میں آئے۔ ہمارے ہاں بہت سے راگ ایسے ہیں جن میں اختلاف کی گنجائش نہیں اور ان کے حوالے سے سبھی گانے والے گھرانوں میں اتفاق رائے موجود ہے۔ ان راگوں میں بھیروں، جونپوری، مالکونس، بھیرنویں، پُوریا، ماروا، ایمن، بھوپالی، درباری، جے جے ونتی، کانڑا، بہاگ اور کیدارا وغیرہ شامل ہیں جبکہ چند راگ ایسے بھی ہیں جن میں گائیکی کے حوالے سے گھرانوں کے اندر اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ مثلاً للت گاتے ہوئے بعض گھرانے کومل دھیوت اور بعض صرف شُدہ دھیوت استعمال کرتے ہیں۔ ایک دلچسپ رائے پُوربی کے حوالے سے بھی سامنے آتی ہے۔ پُوربی گاتے وقت بعض گھرانے کومل دھیوت کو درست سمجھتے ہیں اور چند گھرانے کومل شُدہ کو جبکہ بعض دونوں کا استعمال جائز تصور کرتے ہیں۔ پوربی اور للت کے علاوہ بندرا بنی سارنگ کے حوالے سے بھی فنکار گھرانوں میں اسی قسم کا اختلاف رائے موجود ہے۔ بعض گھرانوں کے فنکار ان فنیّ اختلافات کو ذاتی اختلافات میں بھی بدل لیتے ہیں مگر تخلیقی آزادی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہی اختلافِ نظر فنکار کی آزادی ہے۔ دستوری موسیقی میں جہاں فنکار سخت ضابطوں، فنیّ فارمولوں اور فنیّ تراکیب کی سختی سے پابندی کرتا ہے وہیں کئی مقامات پر وہ اپنی تخلیقی آزادی کا علم بھی بلند کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اسے پورا حق ہے کہ وہ لکیر کا فقیر بننے کی بجائے اپنی مرضی سے کسی ترکیب کو پہلے یا بعد میں اپنی تصنیف میں شامل کرے۔ یہی وہ آزادی ہے جس سے مختلف فنکاروں کے ذاتی اسلوب جنم لیتے ہیں اور یہی وہ گائیکی کا انداز ہے جس پر کسی گھرانے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلاسیکی موسیقی کے مختلف گھرانے کیسے وجود میں آئے اور گھرانہ سازی کے تصور کے پیچھے کیا محرّکات تھے اور اس سے بھی اہم سوال کہ گھرانے کے تصور سے پہلے کلاسیکی موسیقی میں کیا تصورات رائج تھے؟ آئیے ہم ان سوالوں پر غور کرتے ہیں۔ برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کی تحریری تاریخ تین ہزار سال سے زائد عرصے پر پھیلی ہوئی ہے۔ موسیقی کی تاریخ کے اس طویل دورانیے میں موسیقی میں بہت سی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ مثال کے طور پر راگوں کے موجودہ تصور سے پہلے کلاسیکی موسیقی میں جاتیوں کا چلن تھا۔ راگوں کا موجودہ تصور گذشتہ دو ہزار سال سے مروّج ہے اس سے پہلے جاتیاں ہوا کرتی تھیں(5)۔ اسی طرح ویدک عہد میں سام گانا بہت اعلیٰ اور مقبولیت کے لحاظ سے بلند درجے پر فائز تھا۔ مناجات کے لیے مخصوص اس گانے کو صرف مخصوص خاندان ہی گا سکتے تھے اور عوام کو اس گانے سے دور رکھنے کے لیے باقاعدہ سخت قسم کے قوانین بھی موجود تھے(6)۔ ایک عرصے بعد جب سام گانا غیرمقبول ہوا تو اس کی جگہ ستمرا موسیقی نے لے لی اور اب دھرو موسیقی عوامی موسیقی کے درجے پر فائز ہو گئی۔ ایک وقت آیا جب دھروموسیقی پر قواعدو ضوابط کی پابندیاں لگنے کے نتیجے میں وہ خواص کے حلقے تک محدود ہوگئی تو گندھرو موسیقی کو عوامی موسیقی کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ مگر اب تو یہ تصورات صرف کتابوں میں موجود رہ گئے ہیں۔ آگے چل کر چھٹی سے بارہویں عیسوی کے دوران موسیقی کی ایک نئی شکل پر بندہ کو عروج حاصل ہوا مگر پندرہویں صدی تک آتے آتے ضابطوں کی بھرمار نے اسے بھی عوام کی رسائی سے باہر کر دیا اور اب دُھرپد اس کی جگہ لینے کے لیے پوری طرح تیار تھا جو اٹھارہویں صدی آتے آتے معبدوں، مندروں اور درباروں میں قید ہو کر رہ گیا تو خیال گائیکی نے آگے بڑھ کر موسیقی کا تاج اپنے سر پر سجا لیا۔ گویا گائیکی کے کئی انداز سامنے آئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے فنا کے گھاٹ اُتر گئے۔ اسی طرح راگ کی ہیئت کے حوالے سے بھی کئی قسم کی تکنیکی تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں۔ان میں سے چند تبدیلیاں یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔ مثلاً:

1۔ موسیقی کی قدیم کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی
زمانے میں ہمارا سکیل بھی اوپر سے نیچے کی طرف آتا تھا۔ یعنی پہلا سُر (کھرج) سب سے اوپر تھا اور آخری سُر (نوٹ) سب سے نیچے۔ سام گانا اسی سکیل کے مطابق گایا جاتا تھا۔

2۔ وہ زمانہ بھی تھا جب سکیل کا پہلا سُر (کھرج) چوتھی سُرتی پر قائم تھا مگر موجودہ موسیقی میں یہ سُر پہلی سُرتی پر قائم کیا گیا ہے۔

3۔ قدیم موسیقی میں موجودہ کھرج اور پنچم اَچَل سُر (غیرمتحرک) نہیں تھے۔ یعنی باقی سُروں کی طرح متحرک تھے لیکن آج یہ خصوصی حیثیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔
-4 کسی زمانے میں مدھم اچل سُر سمجھا جاتا تھا (جیسے آج پہلا اور پانچواں سُر سمجھے جاتے ہیں) پھر اس کی امتیازی حیثیت ختم ہو گئی اور یہ موجودہ موسیقی میں غیرمتحرک نہیں رہا۔
-5 قدیم موسیقی میں راگوں کو مورچھناؤں کے تصور پر تقسیم کیا گیا تھا جو قدیم سکیل کے مطابق اوپر سے نیچے کی طرف آتی تھی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہ نظام ہماری موسیقی سے غائب ہو گیا اور بارہویں اور تیرہویں صدیوں میں اس کی جگہ جنک میل کا تصور آگیا۔ اس کے بعد یہ بھی متروک ہو گیا اور اس کی جگہ ٹھاٹھ سسٹم نے لے لی جو آج بھی غیر تسلی بخش سمجھا جاتا ہے۔ شمالی ہندوستان کی موسیقی میں دس ٹھاٹھوں کا تصور محض سہولت کے لیے رائج کیا گیا ورنہ ریاضی کی رو سے تو بہترّ ٹھاٹھ ہونے چاہیں۔
-6 سکیل اور فارمز کے علاوہ ہماری تانوں میں بھی مسلسل تبدیلیاں آرہی ہیں۔ کسی زمانے میں گرنتھ کی تانیں رائج تھیں مگر آج ان کی جگہ ایک تال، تین تال، جھپ تال اور تلواڑہ تال نے لے لی ہے۔
-7 ہماری موسیقی سے بہت سے راگ متروک اور معدوم ہو رہے ہیں (ان میں بعض تو ایسے ہیں کہ سننے والوں نے محض ان کے نام ہی سن رکھے ہیں)۔
-8 قدیم موسیقی میں تین گرام تسلیم کیے جاتے تھے۔ یعنی شٹر گرام، گندھار گرام اور مدھم گرام۔ ان کا تذکرہ بھرت کی ’’نٹ شاستر‘‘ کے علاوہ موسیقی کی دیگر اہم کتابوں میں بھی موجود ہے۔ حتیٰ کہ ان کے تعین کے تفصیلی طریقے بھی موجود ہیں لیکن عملی موسیقی سے یہ گرام صدیوں سے غائب ہیں۔یہ تبدیلی، کب، کیوں اور کیسے وجود میں آئی کوئی نہیں جانتا۔
-9 ہندوستانی موسیقی اس وقت بھی تبدیلیوں سے دوچار ہوئی جب مسلمان اس خطیّ میں وارد ہوئے۔ سچ پوچھیں تو مسلمانوں نے برصغیر کو اردو زبان اور موسیقی (جسے وہ ساتھ لائے تھے) جیسے دو خوبصورت تحفے دئیے(7)۔ مسلمان صوفیاء نے موسیقی کو نہ صرف مقامی آبادی کے ساتھ رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کیا(8) بلکہ مسلمان بادشاہوں کی سرپرستی کے متوازی یہ صوفیاء موسیقی کے بہت بڑے حمایتی کے طور پر بھی سامنے آئے(9)۔
مسلمانوں کے آنے سے ایران اور وسط ایشیا سے نہ صرف نئی موسیقی بلکہ نئے ساز اور نئی اصناف بھی ہندوستانی موسیقی میں شامل ہوئیں اور مسلمان بادشاہوں نے ہندوستانی موسیقی میں رونما ہونے والی ان تبدیلیوں کی سرپرستی بھی کی۔ مثلاً شہنشاہ اکبر کے دربار سے وابستہ راجامان سنگھ نے ہندوستانی، ایرانی اور وسط ایشیائی موسیقی کے ملاپ سے موسیقی میں جو فنیّ جھول پیدا ہو گیا تھا اسے ختم کرنے کے لیے اپنے عہد کے ممتاز گلوکاروں، نائیک محمود، نائیک بھنو، نائیک مچھو، نائیک لوہنگ اور نائیک کرن پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تھا جس نے دونوں خطّوں کی موسیقی میں ہم آہنگی پیدا کی۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہاں موسیقی میں متوں اور بانیوں کے تصورات رائج تھے۔ یہ چار مت دراصل موسیقی کے چار مستند نظام تھے اور ان میں سے ہر مت میں بیسیوں راگ اور راگنیاں شامل کر دی گئی تھیں تاکہ بے شمار راگوں کی مناسب تقسیم اور پہچان ہوسکے۔ یہ چار مت ہیں: -1 شیومت، -2 بھرت مت، -3 کرشن مت یا کلناتھ مت، -4 ہنومنت۔ وقت کے ساتھ ساتھ متوں کا نظام بے حد دشوار بلکہ بیکار ہو گیا کیونکہ اس نظام میں بہت سی پیچیدگیاں اور تضادات پیدا ہو گئے تھے۔ جب متوں کا نظام ناکارہ ہو گیا تو موسیقی سے وابستہ حلقوں کو کسی نئے نظام کی ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ بھات کھنڈے اور ٹھاکر نواب علی خان جیسے دانشوروں نے متوں کی جگہ ٹھاٹھوں کا نظام ترتیب دیا۔ یوں متوں کی جگہ ٹھاٹھ کے نظام نے لے لی اور آج کل برصغیر میں یہی نظام رائج ہے لیکن برصغیر کے مختلف حصوں میں ٹھاٹھوں کی تعداد مختلف ہے۔ مثلاً شمالی ہند میں دس ٹھاٹھوں کے تحت ہزاروں راگوں اور راگنیوں کو مربوط کردیا گیا ہے۔ لیکن جنوبی ہند میں ستر (70) ٹھاٹھوں کا نظام رائج ہے جبکہ بعض علاقوں میں سترہ(17) ٹھاٹھوں کے نظام کے تحت موسیقی آگے بڑھ رہی ہے(10)۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بانی کیا ہے؟ دراصل دھرپد کے عروج کے زمانے میں دُھرپد گائیکی سے وابستہ کئی گھرانے تھے جو اپنی گائیکی کے انداز یا اسلوب کو بانی کہتے تھے۔ مثلاً کھنڈار بانی، شُدہ بانی، گوڑی بانی اور ڈاگر بانی وغیرہ۔ مسلمان گوّیوں نے بانیوں اور متوں کے انہی تصورات کی جگہ گھرانے کا تصور پیش کیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ دھرپد کے عروج پر بانیاں وجود میں آئیں جبکہ خیال گائیکی کی مقبولیت نے گھرانوں کے تصور کو جنم دیا۔ متوں اور بانیوں کے مقابلے میں گھرانہ ایک جدید تصور ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر کی موسیقی میں گھرانے کا تصور اپنی مقبولیت کے نکتئہ عروج پر جا پہنچا۔ یہ تصور خالصتاً مسلمانوں کی دین ہے یہی وجہ ہے برصغیر کے ممتاز گھرانوں میں ایک بھی گھرانہ ایسا نظر نہیں آتا جس کی بنیاد کسی ہندو گوّیے نے رکھی ہو بلکہ اکثر ہندو گوّیے کسی نہ کسی مسلمان گھرانے ہی سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ جہاں تک گھرانوں کے تاریخی ارتقاء کا تعلق ہے میرے خیال میں گھرانوں کے دُھندلے نقوش تو عہد اکبر ہی سے نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔ اگر ہم گھرانہ سے مراد کلاسیکی گانے والے فنکاروں کا گھرانہ مراد لیں اور اس میں دھرپد اور خیال گائیکی کی تخصیص نہ کریں پھر تو گھرانے کے تصور کی جڑیں ماضی میں دور تک تلاش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن گھرانے کا تصور چونکہ خیال گائیکی کے ساتھ وابستہ ہے اس لیے موسیقی کے بیشتر سکالرز گھرانہ سے مراد خیال گائیکی سے وابستہ فنکاروں کا گھرانہ ہی لیتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے گھرانے ایسے بھی ہیں جو نسل در نسل دھرپد گاتے چلے آرہے تھے مگر بعد ازاں وہ خیال گائیکی کی طرف آگئے اس لیے ان گھرانوں کے فنکاروں کو کٹرّ نقاد خوش دلی سے قبول نہیں کرتے اور ان پر مسلسل ’’دھرپدیے‘‘ ہونے کی پھبتی کستے رہتے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ گھرانے کے ابتدائی نقوش عہد اکبری سے سامنے آنا شروع ہوگئے تھے مگر گھرانوں کی ترویج میں اٹھارہویں صدی انتہائی زرخیز سمجھی جاتی ہے۔ اسی عرصے میں نہ صرف موسیقی کے کئی ایک گھرانے سامنے آئے بلکہ اس ماحول نے گھرانوں کے فروغ اور استحکام میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ جیسے جیسے مغل سلطنت کمزور ہوتی گئی خود سر راجے، مہاراجے، نواب اور صوبیدار اپنی الگ چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کرنے لگے۔ تقسیم ہندوستان کے زمانے تک ان چھوٹی بڑی ریاستوں کی تعداد ساڑھے تین سو کے قریب تھی۔ ہر ریاست کے حکمران کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنے دربار سے بہترین علماء، دانشوروں، مصوروں، شاعروں، پہلوانوں، سنگ تراشوں، رقاصوں اور گلوکاروں کو وابستہ کرے تاکہ دوسروں کے دلوں پر اس کی علم دوستی اور فن سے محبت کی دھاک بیٹھ جائے۔ چنانچہ بیشتر فنکار گھرانے کسی نہ کسی دربار سے وابستہ ہوگئے۔
ادھر ریاستی حکمران بھی ان فنکاروں کی دل کھول کر سرپرستی کرتے، ان کی ضرورت کا خیال رکھتے، انہیں بڑے انعامات و خطابات سے نوازنے کے علاوہ اپنے پسندیدہ فنکاروں کو بڑی بڑی جاگیریں بھی عطا کرتے۔ خوشحالی اور دوسرے فنکاروں سے مقابلے کی اس فضا نے گھرانوں کے تصور کو پھلنے پھولنے کے لیے انتہائی سازگار ماحول فراہم کر دیا تھا۔

موسیقی جب معبدوں اور مندروں سے نکل کر درباروں اور محلوں میں پہنچی تو فنکاروں نے فطری طور پر خود کو نہ صرف مذہبی جکڑ بندیوں سے آزاد محسوس کیا بلکہ ہر فنکار اپنے گائیکی کے انداز کو دوسروں سے الگ اور ممتاز بھی محسوس کرنے لگا۔ ہر فنکار کی یہ کوشش ہوتی کہ وہ اپنے فن کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ انفرادیت کاحامل بنائے۔ اسی انفرادیت کو بادشاہوں، راجوں، مہاراجوں، امراء اور بعدازاں تنظیموں کی سرپرستی نے مزید چار چاند لگا دئیے۔ یوں راگوں کو پیش کرنے کے الگ الگ اندازسامنے آتے چلے گئے اور انہی انفرادی انداز و اسالیب نے گھرانہ سازی میں بنیادی کردار ادا کیا۔

کلاسیکی موسیقی میں گھرانے کے تصور کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ کیا گھرانے صرف گانے والوں ہی کے ہوتے ہیں یا سازندوں اور رقاصوں کے گھرانے بھی ہوسکتے ہیں؟ جی ہاں موسیقار گھرانوں کی طرز پر طبلہ نوازوں، سارنگی نوازوں، ستار بجانے والوں اور رقص کرنے والوں کے گھرانے بھی موجود ہیں۔ ان میں سے بعض گھرانے تو گانے والے گھرانوں کے ساتھ ہی وابستگی اختیار کر لیتے ہیں جبکہ بیشتر گھرانے گانے والے گھرانوں سے الگ اپنا تشخص قائم کرتے ہیں۔ اس وقت انڈو پاک میں طبلہ بجانے والے ممتاز گھرانوں میں دہلی گھرانہ ، اجراڑا گھرانہ، لکھنؤ گھرانہ، پنجاب گھرانہ، فرخ آباد گھرانہ اور سواپن گھرانہ شامل ہیں جبکہ ستار بجانے والے مشہور گھرانوں میں امداد خانی گھرانہ، سیتا گھرانہ، اندور گھرانہ، صہار گھرانہ، جے پور گھرانہ، بشنو پور گھرانہ اور پونچھ گھرانہ زیادہ قابل ذکر ہیں۔ موسیقی کی دنیا میں طبلے، سارنگی اور ستار کے انداز پر رقص کے گھرانے بھی موجود ہیں جن میں جے پور گھرانہ، لکھنؤ گھرانہ، بنارس گھرانہ اور رئی گھڑھ گھرانہ امتیازی شان کے مالک سمجھے جاتے ہیں۔

کلاسیکی موسیقی میں گھرانوں کے حوالے سے یہ اہم سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ کیا کسی دوسرے گھرانے کا انداز اپنانے کے نتیجے میں فنکار کا اپنا گھرانہ ختم ہو جاتا ہے؟ بنیادی طور پر کلاسیکی موسیقی ضابطوں اور قوانین کی موسیقی ہے، اور یہ ضابطے اور قوانین گانے پر پوری سختی سے لاگو ہوتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ فنکاروں کے روّیے بھی بعض اوقات لچک سے خالی نظر آتے ہیں اور ان کے گھرانوں میں عجیب و غریب روایتیں اور قدریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بیشتر گھرانے بعض دُھنوں اور بندشوں کو اپنی خاندانی میراث سمجھتے ہیں۔ مثلاً ایک گھرانے کے فنکار کو اگر کسی دوسرے گھرانے کی کوئی بندش پسند آجائے اور وہ اسے گانا چاہے تو سب سے پہلے فنکار کا استاد ہی اسے اپنے ناموس کا مسئلہ بنا لے گا اور اگر کسی طرح اجازت مل بھی جائے تو اب بندش والا گھرانہ اس وقت تک اپنی بندش گانے کی اجازت نہیں دے گا جب تک اس فنکار سے ’’نذر‘‘ وصول نہ کرلے۔ بات یہاں تک ہی رہتی تو بھی قابل قبول ہو سکتی تھی مگر کیا جائے بات تو مزید آگے بڑھے گی اور اس وقت خطرناک صورت حال اختیار کر جائے گی جب بندش کی ملکیت کا دعویدار گھرانہ اپنی بندش گانے والے فنکار کو اپنا شاگرد کہلوانے کا اعلان بھی کر دے گا۔ حتیٰ کہ اس کی گزری ہوئی نسلیں بھی شاگرد شمار کی جائیں گی۔ یہی وہ غیر تخلیقی روّیہ ہے جس کے باعث فنکار ایک دوسرے کے اندز اپنانے اور بندشیں گانے سے گریز کرتے تھے۔

تاہم ایسی بہت سی مثالیں بھی موجود ہیں جب ایک فنکار نے بیک وقت کئی گھرانوں کی گائیکی سے استفادہ کیا۔ اس کی بہترین مثال پٹیالہ گھرانہ ہے جس کے ممتاز ترین گائیک استاد فتح علی خان اور علی بخش خان نے بیک وقت چار گھرانوں سے اکتسابِ فیض کیا۔ ایک طرف وہ حدو حسّو خان (گوالیار گھرانہ) کے شاگرد ہوئے تو دوسری طرف انہوں نے دہلی گھرانے کے تان رس خان سے بھی استفادہ کیا، تیسری طرف سینی گھرانے کے بہادر حسین کے سامنے زانوئے تلمذّ طے کیا اور چوتھی خیال گائیکی کے معتبر گلوکار استاد بڑے محمد خان کے بیٹے استاد مبارک علی خان سے بھی فیض حاصل کرتے رہے۔ اس حوالے سے ایک اور خوبصورت مثال استاد امیر خان کی ہے جن کا اپنا گھرانہ تو اندور ہے مگر ان کی ساری گائیکی پر استاد عبدالوحید خان (کیرانہ گھرانہ) کا بے پناہ اثر موجود ہے۔ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے جیسے استاد امیر خان نے اپنی خاندانی روایات کی طرف مکمل طور پر پشت کرلی ہے۔ حالیہ زمانے میں اس کی ایک اور عمدہ مثال استاد راشد خان ہے جن کا اپنا گھرانہ تو سہسوان ہے مگر ان کی گائیکی اوّل و آخر استاد امیر خاں کے رنگ ہی میں رنگی ہوئی ہے۔ ان تمام مثالوں میں اگرچہ استاد فتح علی خان، استاد علی بخش خان (پٹیالہ)، استاد امیر خان (اندور) اور استاد راشد خان (سہسوان) نے دوسرے گھرانوں سے اکتسابِ فیض کیا مگر اس عمل سے ان کے اپنے گھرانے ختم نہیں ہوئے بلکہ مذکورہ بالا سارے فنکار آج بھی اپنے ہی گھرانوں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔

گھرانوں کے تصور کے حوالے سے یہ حیران کن سوال بھی سامنے آتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے گھرانہ سازی کے سلسلے میں کسی ایک بھی ہندو فنکار نے سرے سے کوئی کردار ادا نہیں کیا؟ اس حوالے سے میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ موسیقی سے وابستہ ہندوؤں نے گانے کے مقابلے میں اپنی بیشتر توجہ موسیقی کے علمی پہلو پر مرکوز رکھی اور اس حوالے سے انہوں نے شاندار کتابیں تحریر کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کلاسیکی موسیقی کے عملی میدان میں اعلیٰ پائے کے ہندو گوّیے خال خال ہی نظر آتے ہیں جبکہ موسیقی کے علمی میدان میں ہندوؤں نے ایک سے بڑھ کر ایک سکالر پیدا کیے۔ یہ بات اپنی جگہ حیران کن ہے کہ ہندو فنکار گھرانہ سازی پر توجہ دینے کی بجائے اُلٹا مسلمان گھرانوں کے سامنے زانوئے تلمذّ تہہ کرتے رہے۔
پاک و ہند کی موسیقی کے تخلیقی منظرنامہ پر نظر ڈالی جائے تو اکثر گھرانوں کے بانی مسلمان فنکار ہی نظر آتے ہیں ہندو گوّیوں نے انہی سے اکتسابِ فیض کیا۔ پنڈت ویشنو ڈگمبر اور بھات کھنڈے جیسے ہندو فنکار بھی مسلمانوں ہی کے شاگرد تھے۔ ویشنو نے گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود مسلمان اساتذہ سے تعلیم جاری رکھی۔ اُس کے استاد گوروبال کرشن بوابھی استاد حدو حسّو خان کے شاگرد تھے۔ بھات کھنڈے نے استاد محمد علی خان (کوٹھیوال) سے سیکھا جو من رنگ گھرانے کے نامور استاد تھے۔ دور جدید کے اکثر ہندو گوّیے بھی مسلمانوں ہی کے شاگرد ہیں۔ مہاراشٹر کا معروف ہندو گوّیا کیرانہ گھرانے کے ممتاز استاد، عبدالکریم خان کا شاگرد تھا۔ ایک اور ممتاز ہندو گائیک بھاسکر راؤ آگرہ گھرانے کے نامور استاد نتھن خان کے شاگردہوئے۔ اسی طرح ستار نواز روندرا شنکر اور موسیقار تیمربرن نے استاد علاؤ الدین خان سے کسبِ فیض کیا۔ موگوبائی کوڈیکر، شالگ رام بابو، نیواروتی بُوا،لیلیٰ وتی شیر گاونکر، گوند راؤ ٹیمے اور کیسربائی کیریکر نے استاد اللہ دیا خان سے علمِ موسیقی حاصل کیا۔ اسی طرح پنڈت شنکر او ر اس کا بیٹا کرشن راؤ دونوں گوالیار گھرانے کے، رتن دیوی کپورتھلہ گھرانے کے استاد عبدالرحیم خان اور دیپالی تعلقدار، دلیپ چندر ویدی اور ایس کے چوبے، استاد فیاض خان کے شاگرد ہوئے۔ پاکستان اور ہندوستان کے ان مستند گھرانوں میں گوالیار گھرانہ، آگرہ گھرانہ، دہلی گھرانہ، کیرانہ گھرانہ، جے پور گھرانہ، اندور گھرانہ، قصور گھرانہ، تلونڈی گھرانہ، پٹیالہ گھرانہ، شام چوراسی گھرانہ، سہسوان گھرانہ، بھنڈی بازار گھرانہ اور ہریانہ گھرانہ، عظیم روایات اور ممتاز حیثیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ ان گھرانوں نے اپنی اپنی روایات پر کاربند رہتے ہوئے موسیقی کی عظیم روایت میں قابل قدر اضافے کیے اور برصغیر کے مو سیقی کے حلقوں کے لیے درجنوں نامور فنکار بھی پیدا کیے۔

یہاں یہ سوال خاصا اہم ہے کہ گھرانوں کے تصور نے کلاسیکی موسیقی کو فائدہ پہنچایا یا نقصان؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ گھرانوں کے تصور سے موسیقی میں گائیکی کے کئی طرح کے انداز و اسالیب پیدا ہوئے۔ مختلف بادشاہوں اور مہاراجوں کی سرپرستی نے موسیقی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا اور مختلف گھرانوں کے فنکاروں کی باہمی مقابلہ بازی کی فضا نے موسیقی کو نئی زندگی بخشی مگر موسیقی میں گھرانوں کے تصور کے جنم لینے سے موسیقی کو بعض نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ پہلا نقصان تو یہی ہوا کہ ہر گھرانہ اپنا الگ انداز ایجاد کرلینے کے بعد اسے دوسروں سے چھپاتا تھا اور کسی دوسرے کو سکھانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ان گھرانوں کا روّیہ عملاً ان قدیم حکیموں اور فلسفیوں جیسا تھا جو خاندان سے باہر اپنے علم کی کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دیتے تھے۔ اس طرح بہت سے فلسفیانہ رموز اور طبّی نسخے سینوں ہی میں دفن ہو کر رہ جاتے تھے۔ یونانی فلسفی اسقلیبوس کے خاندان میں فن طب نسل در نسل چلا آرہا تھا حتیٰ کہ بقراط تک آتے آتے اس کے ناپید ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا تب بقراط نے اپنے گھرانے میں اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے تحریری شکل دینے کا فیصلہ کیا۔

ہمارے کلاسیکل فنکار بھی موسیقی کو سینے کا علم بنانے پر مُصر رہے وہ اسے تحریری شکل دینے کے لیے تیار نہ تھے اور موسیقی کو کتابی صورت میں پیش کرنے والوں کو اکثر و بیشتر حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے۔ وہ خاندان سے باہر لوگوں کو شاگرد تو بناتے تھے مگر ان شاگردوں کو اپنے علم میں سے کچھ دینے کے لیے ہرگز تیار نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی فنکار کئی کئی گھرانوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتا نظر آتا ہے۔
ہر گھرانے میں تین طرح کی تعلیم کا طریقہ رائج تھا۔ -1پہلا طریقہ تعلیم وہ تھا جو گھر کی ڈیوڑھی سے باہر رائج تھا یعنی یہ معمولی نوعیت کی تعلیم تھی جو غلاموں جیسی زندگی بسر کرنے والے شاگردوں کو دی جاتی تھی۔ استاد حدو حسّو خان والا واقعہ تو آپ کے سامنے ہے کہ کس طرح انہوں نے استاد سے چھپ کر گانا سیکھا، اور جب استاد کو علم ہوا تو وہ ناراض ہوئے۔-2 دوسرا طریقہ تعلیم بھتیجوں، بھانجوں اور دامادوں کے لیے تھا تاکہ وہ اپنا پیٹ پال سکیں۔ -3 یہ خاص تعلیم تھی جو صرف استاد اپنی اولاد کو دیتا تھا اور یہی اصل تعلیم تھی۔ گھرانوں کے پیشہ ور فنکاروں نے اپنی اولاد کے علاوہ یہ فن شجرِ ممنوعہ بنا رکھا تھا اور یہ اَن پڑھ گوّیے نہیں جانتے تھے کہ ایسا کرنے سے فن کا یہ گھنا پیڑ ایک دن سُوکھ جائے گا اور یہ ایک ندی کی بجائے جوہڑ میں تبدیل ہو جائے گا۔ گھرانے کے تصور نے موسیقی کو ایک یہ بھی نقصان پہنچایا کہ ہر گھرانے کے مورث اعلیٰ نے ایک سٹائل ایجاد کیا اس کے بعد اس گھرانے کے فنکار لکیر کے فقیر بن کر اسی کنویں کے مینڈک بن کر رہ گئے جس کے نتیجے میں گھرانے کے فنکاروں کی اپنی صلاحیتیں بروئے کار نہ آسکیں اور ان کا وژن محدود ہو کر رہ گیا۔ فنکار کا وژن جب محدود ہو جاتا تھا تو کسی گھرانے کی فنی روایات کا اگلی نسلوں تک ٹھیک ٹھیک پہنچنا مشکل ہو جاتا تھا۔

ہر گھرانے کا فن اور اس کی روایات سے متعلق روّیہ کم و بیش اجارہ داری پر مشتمل تھا۔ جس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ایک ایسا فن جو انہوں نے نہایت مشکل سے حاصل کیا تھا اور جس سے کسی بھی گھرانے کی عزت اور روزی وابستہ تھی وہ اسے اتنی آسانی سے کسی اور کے سپرد کیسے کرسکتے تھے؟ ادھر ریاستی سرپرستی نے بھی جہاں موسیقی کے فن کو بہت سے فوائد پہنچائے وہاں کچھ نقصانات بھی سامنے آئے۔ مثلاً مختلف گھرانوں کے فن کار اپنے سرپرست راجوں مہاراجوں کی شہ پر ایک دوسرے کے مقابل آن کھڑے ہوتے۔ ہر وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر، اس پر مستزاد مختلف ریاستوں سے وابستہ فنکاروں کے وہ مقابلے تھے جو (بالکل پہلوانوں کی طرز پر) مہاراجے اپنی سرپرستی میں کراتے تھے۔ یہیں سے تیاری کا گانا شروع ہوا اور تانوں پلٹوں کی کثرت نے راگ کے رس کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ حتیٰ کہ آج بھی گوّیوں کا یہ حال ہے کہ اگر مد ِمقابل گوّیا میسر نہ آئے تو طبلہ نواز اور سارنگی والے ہی سے ٹھن جاتی ہے۔ اس کھینچا تانی سے راگ کی سُندرتا کو نقصان پہنچتا ہے۔ آج کلاسیکی موسیقی (پاکستان کی حد تک) اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ بڑے بڑے گوّیے ناقدرئ زمانہ کے زخم سینے پر سجائے زیرِ زمین جا سوئے جو منظر پر موجود ہیں ان میں سے کتنے ہیں جن کے پاس ان کے گھرانے کی ساری روایات موجود ہیں؟ حتیٰ کہ کئی گھرانوں میں اگلی نسل اپنے آبا و اجداد کے فنی ورثے کا بوجھ اُٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے اور اس نسل کا یہ انکار محض بغاوت نہیں ہے کیونکہ ایک ایسا پیشہ جس سے روزی میسر آتی ہے نہ ہی سماجی عزت ایسے پیشے کو بھلا کون سینے سے لگائے گا؟

اب آخر میں یہ سوال کہ کیا گھرانے اپنا وجود برقرار رکھ پائیں گے؟ میرے خیال میں ایسا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ موسیقی کی عظیم روایات ناقدرئ زمانہ کے ہاتھوں دم توڑ رہی ہیں۔ چند موسیقی دوست افراد اور تنظیموں کے علاوہ موسیقی کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سرکاری میڈیا نے کلاسیکی موسیقی کو اپنے پروگراموں سے کب کا خارج کر دیا۔ نہ پہلے جیسے سیکھنے والے ہیں اور نہ ہی سکھانے والے ہیں۔ ایک نیا عنصر ریکارڈنگ سسٹم ہے جس نے گھرانوں کی پردہ داری کی خواہش پر پانی پھیر دیا ہے۔ اب کسی بھی گھرانے کی کوئی بھی مشکل سے مشکل چیز ریکارڈ کرکے سنی اور گائی جا سکتی ہے اور فنکار ایسا کر بھی رہے ہیں۔ وہ بندشیں جنہیں کوئی دوسرا فنکار ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا اور جنہیں کبھی کبھی کوئی گھرانہ اپنی بیٹی کو جہیز میں بھی دیا کرتا تھا اب ان بندشوں کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اب تو فنکار گاتے وقت دوسرے گھرانوں کے انداز اور تانیں لگا کر دکھاتے ہیں۔ کوئی حدو حسّو خان کی روشیں سناتا ہے تو کوئی جرنیل صاحب کی تان کاپی کرکے دکھاتا ہے جس کا ایک ہی مطلب ہے کہ گھرانوں کا نظام اور روایات ختم ہو رہی ہیں اور دوسروں کی بندشیں گانے پر نہ تو پابندی ہے اور نہ ہی یہ کوئی طعنے والا کام ہے گویا گھرانوں کی گائیکی اپنی بنیاد سے ہٹ رہی ہے۔ بعض گھرانوں میں استاد فتح علی خان (پٹیالہ)، استاد غلام حسین شگن اور استاد فتح علی خان (گوالیار) جیسے فنکار موجود تو ہیں مگر اب یہ چراغِ آخرِ شب ہیں۔ ان کی اگلی نسلیں اپنے پیشے تبدیل کر رہی ہیں۔ بڑی سیدھی سی بات ہے کہ جب کسی ثقافتی ورثے کے بوجھ کو فنکاروں کی اگلی نسل اٹھانے سے انکار کر دے تو ایسے فن کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
حواشی:
-1 استاد بدرالزمان، تال ساگر، ادارہ فروغِ فن موسیقی، لاہور، 1995ء، ص455
-2 پرویز پارس، بولتے سُر، ایف۔جی۔اے پبلشرز، لاہور، 1985ء، ص147
-3 تحریری انٹرویو (غیرمطبوعہ) استاد فتح علی خان حیدر آبادی، مورخہ 25 اپریل 2012ء
-4 رشید ملک، راگ درپن کا تنقیدی جائزہ، مجلس ترقیء ادب، لاہور، 1998ء، ص270
-5 تحریری انٹرویو (غیرمطبوعہ) استاد غلام حیدر خان، مورخہ 2مئی 2013ء
-6 رشید ملک، برصغیر میں موسیقی کے مآخذ، ادارۂ تحقیقات پاکستان پنجاب یونیورسٹی، لاہور، 1983ء، ص17
-7 ادیب سہیل، رنگ ترنگ، اردو سائنس بورڈ، لاہور، 2004ء، ص11
-8 عزیز احمد، برصغیر میں اسلامی کلچر، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور، 2005ء، ص221
-9 اورینٹل کالج میگزین، لاہور، شمارہ اگست 1927ء، ص74
-10 استاد اختر علی خان، استاد اکبر علی خان، نورنگ موسیقی، اردو سائنس بورڈ، لاہور، 1989ء، ص9