آج کی کب بات ہے؟ ہجرت تو انسانی تاریخ کا آنسو ہے

ایک روزن لکھاری
فارینہ الماس، لکھاری

 

(فارینہ الماس)

 

انسان اور چرند پرند دونوں ہی مہاجرت کے عذاب سہتے ہیں۔پرندوں کی مہاجرت کی وجہ کسی ایک جگہ سے دانہ دنکا کی دستیابی میں کمی، پت جھڑ کے موسم کی بے سر و سامانی یا پھر بدلتے موسموں کی وہ یخ بستگی ہے جو ان کی جان کے درپے ہوجاتی ہے۔ کتنے خوش رنگ اور دلکش پرندے ہر سال سائبیریا کی یخ ہواؤں کی شدت سے بچتے ہوئے ہمارے ملک میں بھی آتے ہیں۔ ان لاکھوں پرندوں میں سے بہت سے ننھے منے پرندے انجان رستوں کی کٹھن صعوبتیں نہ سہار پاتے ہوئے رستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں ،تو کئی، وطن لوٹنے سے پہلے ہی کسی سنگ دل شکاری کے شوق کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

انسانی ہجرت کے اسباب بھی لگھ بھگ کچھ ایسے ہی ہیں۔ ملکوں اور ریاستوں کے تصور نے انسان کو متنوع ثقافتوں ، تہذیبوں اور معاشی اسباب و ذخائر کی تقسیم کے سبب سرحدوں کی باڑوں اور خار دار تاروں میں مقید کررکھا ہے۔لیکن جب اپنے ہی برپا کئے گئے دگرگوں معاشی و تہذیبی حالات سے انسان بے بس ہونے لگتے ہیں یا اپنے ہی وطن کی شوریدہ حالی ان کی سانسوں کو محبوس کرنے لگے تو وہ بہتری کی امید دل میں لئے راہ کی صعوبتوں اور ہجرت کے آزار کو ذہن میں لائے بغیر سفر کی جانب نکل پڑتے ہیں۔ اگر ہم اپنی بے کار کی انا اور احساس برتری کے زعم میں خدا کی زمین کی تقسیم نہ کرتے تو یہ زمیں ہم پر کبھی تنگ نہ پڑتی۔ اور ہجرت بھی ایسی دل آزار نہ ہوتی جیسا کہ ازل سے رہی ہے۔ جس زمیں سے انسان کا خمیر اٹھتا ہے اس سے دل میں لگاؤ پیدا ہوجانا ایک فطری عمل ہے۔ لیکن جب اپنے اس چمن کو جسے سینچنے میں خون جگر درکار ہوتا ہے کو اپنے دل فگار حالات کے سبب چھوڑنا پڑ جائے تو جسم کے زخموں سے زیادہ روح کے گھاؤ تنگ کرتے ہیں۔ کتنا رنج ہے بیگانے رستوں پر چلنے اور بیگانوں سے سائبان طلب کرنے کی التجاؤں میں۔

آپ(صلعم) نے ہجرت مدینہ کے وقت فرمایا ’’اے مکہ تو خدا کا شہر ہے۔ تو مجھے کس قدر محبوب ہے۔ اے کاش! تیرے با شندے مجھے نکلنے پر مجبور نہ کرتے تو میں تجھ کو نہ چھوڑتا۔‘‘ ہجرت مدینہ کے وقت مدینہ میں یہودیوں کے کئی قبائل آباد تھے جو شروع میں تو خاموش اور غیر جانبدار رہے لیکن بعد ازاں وہ آپؐ اور اسلام کے خلاف ہوگئے اور اپسی نفرتوں کا اظہار مختلف سازشوں سے کرنے لگے یہاں تک کہ آپؐ کو شہید کرنے اور آپؐ کے کھانے میں زہر ملانے کی بھی سازش رچائی گئی۔

اس روئے زمیں پر ہجرت کی کہانیاں اتنی ہی پرانی اور گھمبیر ہیں جتنی کہ خود انسانی تاریخ۔ ماضی کو کھنگالیں تو بے شمار داستانیں مل جائیں گی جو ہجرت کے زخموں سے چور انسان کی بے بسی کا منہ چڑاتی نظر آئیں گی۔ شکست اندلس کے بعد مسلمانوں کی بدترین نسل کشی نے لاکھوں مسلمانوں کو وطن چھوڑ کر بیگانے علاقوں کی طرف رخ موڑنے پر مجبور کیا۔ یہاں تک کہ اندلس میں ایک بھی مسلمان نہ بچا۔ یہ بھی تاریخ کی بدترین ہجرت تھی۔ جو مسلمانوں کی سخت ترین اعصاب شکنی کا باعث بنی۔

1933_39 کے دوران جرمنی میں نازیوں نے یہودیوں کو گرفتار کرنے ،شہریت سے محروم کرنے اور ان کے معاشی بائیکاٹ کے علاوہ حراستی کیمپوں میں قید کر کے تشدد کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے منظم طریقے سے ان کا قتل عام کیا۔بچوں ،جوانوں اوربوڑھوں پر سائنسی تجربات کرنے کی غرض سے جانوروں کی طرح ان کی چیر پھاڑ کی گئی۔ اسی وحشیانہ سلوک سے بچنے کے لئے انہوں نے ان علاقوں سے ہجرت کو اپنایا۔ بہت سوں نے تو راستے میں ہی جان کی بازی ہار دی اور کچھ امریکہ اور برطانیہ میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے۔

اسی طرح کی ایک ہجرت تحریک خلافت کے دوران بھی ہوئی۔ برصغیر کے مسلمانوں کے انگریزوں کے خلاف ترکی کا ساتھ دینے پر جب حکومت برطانیہ نے مسلمانوں کے اس اقدام کو ناپسندیدگی سے دیکھا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیئے تو اس عتاب سے چھٹکارے کے لئے لاکھوں مسلمان، افغانستان کی طرف ہجرت کرنے کو اٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن افغانستان نے ان بے گھر مہاجروں کی مدد کرنے کی بجائے اپنی سرحد بند کر کے انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا اس طرح کئی مہاجرین راستے میں ہی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی اس ہجرت میں اپنا سب کچھ لٹا بیٹھے۔

1944 میں کریمیائی تاتاریوں کو روس کے خلاف نازی جرمنوں کا ساتھ دینے کے الزام میں جانوروں کی طرح جبراً ٹرینوں میں لاد کر ازبک سوویت اشتراکی جمہوریہ میں منتقل کر دیا گیا۔ اس ہجرت میں ایک لاکھ ترانوے ہزار مسلمان تاتاری شریک تھے جو بعد ازاں بیس لاکھ کی تعداد کو پہنچ گئے جن میں سے دس ہزار بھوک اور موسم کی شدت سے جاں بحق ہوگئے ایک سال کے اندر اندر جان کی بازی ہار جانے والوں کی تعداد تیس ہزار ہوگئی۔

یہ اور ایسی بہت سی تاریخی ہجرتیں اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ ہجرت کرنے والوں کی زندگی کی قدر محض جانور کی زندگی کی قدر کے ہی موافق سمجھی جاتی ہے اور کبھی کبھی تو انہیں جانور سے بھی زیادہ ابتر سلوک کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ ہجرت کرنے والوں کا اصل امتحان راہ کی صعوبتوں کا سامنا کرنے سے نہیں بلکہ کسی ٹھکانے پر پہنچ چکنے کے بعد نئے سرے سے اپنی زندگی کے آغاز کی جدوجہد سے شروع ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہجرتوں کے مسافر کہیں بھی دل سے قبول نہیں کئے جاتے بلکہ یہ تاحیات مسافر ہی سمجھے جاتے ہیں۔

ہجرتوں کی ایک تکلیف سے بھری کہانی وہ بھی ہے جو ہماری کہانی ہے، تقسیم ہندوستان کے وقت کی ہجرتیں۔ دو عالمی جنگوں میں انسانی ہجرت سے کہیں ذیادہ تکلیف دہ ہجرت تقسیم ہندوستان کے وقت سامنے آئی۔ جس تقسیم میں تقریباً ایک کروڑ افراد کو ہجرت کے زخم اٹھانا پڑے اور اس ہجرت نے 20 لاکھ جانیں نگلیں۔ اس انسانی ہجرت کے زخم تاحال اس خطے کے انسان چاٹنے پر مجبور ہیں۔

یہ صدی جسے خرد مندی اور انسانی دانش اور تحقیق کے عروج کی صدی کہا جاتا ہے جس میں انسانیت، رواداری اور جمہوریت کے چرچے عام ہیں۔ انسان اس صدی میں بھی مہاجرت کے عذاب سے بچ نہیں پایا۔ نہ صرف یہ کہ بہتر طرز زندگی کے حصول کی خاطر انسان دیگر ترقی یافتہ ممالک کا ذیادہ سے ذیادہ رخ کرنے لگے ہیں۔ ہر سال اوسطاً پاکستان سے ہی 14 ہزار لوگ ہجرت کر جاتے ہیں۔ ملک میں عدم استحکام کی فضا اور اہل تشیع، ہزارہ ، اسماعیلی اور بوہری فرقوں کے علاوہ احمدی مذہب کے حامل لوگوں کے خلاف پر تشدد واقعات نے بھی لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر رکھا ہے۔

ہجرت کا ایک بنیادی سبب ملک کے نامساعد معاشی حالات بھی ہیں۔ ان قانونی و غیر قانونی ہجرتوں کے دکھ یونان کے جزیروں کے قریبی قبرستانوں میں مہاجرین کی لاشوں سے اٹی قبروں کو دیکھ کر محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ بہت سے تو وہ ہیں جو سمندر میں ڈوب کر مر جاتے ہیں اور کچھ وہ جو اپنی بے سرو سامانی کے سبب سردیوں کے یخ بستہ موسموں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ملکی خانہ جنگیاں اور بڑی طاقتوں کی طاقت آزمائی آج دنیا کی بڑی بڑی ہجرتوں کا باعث ہیں۔ بارود اور دھوئیں کے مرغولے انسانوں کی ایسی اعصاب شکنی کا باعث بن رہے ہیں کہ اپنے گھروں میں کبھی آباد و شاد رہنے والے لوگ وطن چھوڑ کر بن باس کاٹنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ افغانی اور عراقی آج ایسی ہی ہجرتوں کے عذاب سے گزر رہے ہیں جبکہ جنگ عظیم دوم کے بعد شام کے مہاجرین کی ہجرت کو سب سے بدترین بحران کا نام دیا جا رہا ہے۔

شام ، عراق، افغانستان اور دیگر شورش زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے کی تعداد رواں برس میں دس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ترکی سے یونان کے ساحل کو رواں ہونے والے مہاجرین آٹھ لاکھ 31 ہزار سے زائد ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد 8 لاکھ ہے۔ یونان کے راستے یورپ جانے والے شامیوں کی تعداد ساڑھے 4 لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ لیکن ان مہاجرین کا ایک بڑا حصہ ہجرت کے دوران سمندر کی لہروں کا شکار ہوجاتا ہے جس کی بڑی وجہ کمزور اور ناقص کشتیاں اور کشتیوں میں ان کی استطاعت سے بہت ذیادہ مسافر ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے ’’بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین‘‘ کے مطابق تقریباً 3600 افراد دوران ہجرت جاں بحق یا لا پتہ ہوئے۔ نو لاکھ ستر ہزار کشتیوں کے زریعے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ اپریل 2015 میں پانچ کشتیاں حادثے کا شکار ہوئیں تقریبًا ً1200 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔لیبیا سے اٹلی جانے والے تقریباً 2800 افراد موجوں کی نذر ہوئے۔ تین سالہ شامی بچے میلان کردی کی بحیرہ روم کے پانیوں پر تیرتی لاش نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ اس سلسلے میں مسلم ممالک کا رویہ انتہائی معاندانہ رہا ۔ایران تو شام کی جنگ کا فریق ہے سو اس کی طرف سے شامی مہاجرین کو پناہ دینا تو اک خواب ہی تھا۔ وہ پہلے بھی پناہ گزین افغانیوں کے معاملے میں انتہائی سنگدلانہ رویے کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ جس نے بیس یا تیس سالوں سے رہنے والے افغانیوں کو بھی کبھی شہری حقوق نہیں دئیے۔سعودیہ عرب ،متحدہ عرب امارات ، اور دیگر مسلم ممالک کی بے حسی بھی کسی سے چھپی نہیں۔ مسلم ممالک کے مقابلے میں یورپ نے کئی لاکھوں افراد کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے اور نہ صرف پناہ دی بلکہ انہیں تمام تر شہری حقوق بھی ادا کئے۔

حالیہ صورتحال میں جر منی کی چانسلر انجیلا مرکل کو مہاجرین کے معاملے میں نرم پالیسیوں کی وجہ سے خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ جرمنی کی طرف سے مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کی ایک وجہ خود جرمنی میں افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنا تھی۔طلیکن اب قدامت پرست حلقے مسلمانوں کی وجہ سے بڑھتی دہشت گردی اور اسلامائزیشن کے خطرے کے پیش نظر حکومت کی اس پالیسی کی بھرپور مخالفت کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اسی دباؤ کے باعث حکومت کو اپنی پالیسی میں ردو بدل کرنا پڑا۔ اسی طرح یورپ کے دوسرے ممالک بھی مسلمانوں کو خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں پناہ دینے سے گریزاں ہیں۔ جمہوریہ چیک کے صدر میلوس زیمان کے اس حوالے سے انتہائی مضحکہ خیز خیالات منظر عام پر آئے کہ مسلمانوں کی آمد سے وہ لوگ نسوانی جمالیاتی پہلو سے محروم ہو جائیں گے کیونکہ مسلم خواتین سر سے پاؤں تک با پردہ ہوتی ہیں۔سلواکیہ نے محض 200 شامیوں کو پناہ دینے کی حامی بھری۔ لیکن وہ بھی صرف شامی عیسائیوں کو۔

مہاجرین کو ہر ملک خود پر ایک بوجھ سمجھتا ہے اور اپنے حالات کی خرابی کا سبب بھی۔ ادھرخود پاکستان نے بھی افغانی مہاجرین کی ان کی وطن واپسی کی جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کا دوٹوک بیان اس کا عکاس ہے ان کا کہنا ہے کہ 31 دسمبر 2016 کو اندراج شدہ افغانی پناہ گزینوں کی مدت ختم ہو جائے گی اور اس کی توسیع کا کوئی امکان نہیں۔ گو کہ اس میں پاکستان کو ممکنہ طور پر بڑھتی دہشت گردی کے سیلاب سے بچانے کی سوچ کارفرما ہے۔ لیکن بہت سے مہاجرین جنہوں نے اس ملک کو اپنا وطن مانا جو اس کے دکھ سکھ کے سانجھی بن گئے ان 15 لاکھ انسانوں کے لئے کس قدر مشکل ہے کہ 20 یا تیس سال جہاں آباد ہونے میں لگے یکدم اس سائبان سے انہیں جدا کر دیا جائے۔ بات خانہ جنگیوں کا شکار ملکوں کی ہو یا نسلی تشدد کا شکار بنگلہ دیش میں پناہ گزین برمیوں کی یا 44 سال سے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں گلنے سڑنے والے پاکستانیوں کی۔ ہمیں انسانوں کے آباد کئے گئے ملک جنگل اور مہاجرت کے زخم چاٹتے انسان جانوروں سے بھی بد تر ہی دکھائی دیتے ہیں۔

یورپ میں بھی یہ تارکین وطن پہلے سے بھی ذیادہ نا مساعد حالات کا شکار ہونے کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ کیونکہ اب ان پر حملوں کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ اسی طرح پناہ دینے والے ممالک کے شہری بھی مہاجرین سے شدید نفرت کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ مثلاً یونان میں مہاجرین کے بچوں کو درسگاہوں میں بھیجنے کے حکومتی فیصلے کے بعد مقامی والدین احتجاج کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہیں مہاجرین کے بچوں کا اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہیں تھا۔ مہاجرین کی کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ شامی والدین اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ ایسے حالات نے مہاجرین کو بہت سے نفسیاتی اور ذہنی عارضوں میں بھی مبتلا کر رکھا ہے ۔آج کی تمام تر صورتحال سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ ہجرت کرنے والے زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مسلم ممالک سے ہے۔ جس کی وجہ کچھ اور نہیں خود ان ممالک کی کسمپرسی اور دگرگوں معاشی ، سیاسی اور معاشرتی حالات ہیں ۔ اگر ان بے بس انسانوں کو خود ان کے اپنے بھی قبول کرنے کو تیار نہیں تو دوسروں سے کوئی امید باندھنا درست نہیں۔ اگر آج دنیا نے ان مہاجرین کے درد کو نہ سمجھا تو ان کی بھٹکتی روحوں جیسے وجود زندگی کے آزار سہتے سہتے جو بے حس ہو چکے ہیں یہ دنیا کے لئے کرب و ابتلاء کا باعث بننے لگیں گے۔ دنیا میں لا قانونیت اور وحشت کا وہ بھونچال اٹھے گا کہ جسے سمیٹنا بھی ممکن نہ رہے گا کیونکہ ماضی کی نسبت اب دنیا کی صورتحال اس کے گلوبل ویلج بننے سے کافی حد تک بدل چکی ہے۔ اب مسائل خواہ کسی بھی خطے میں ابھریں ان کی شدت اور اثرات تمام خطوں میں محسوس کئے جاتے ہیں۔

آج کی مہذب دنیا پر یہ ذمہ داری لاگو ہوتی ہے کہ وہ اب اگر مہاجرین کا بوجھ سہارنا نہیں چاہتی تو اسے غریب ممالک کو اپنی معاشی صورتحال کو بہتر کرنے میں معاونت کے علاوہ انہیں ان کی سیاسی و معاشی بدحالی یا خانہ جنگی کی صورتحال سے نپٹنے میں بھی مدد دینا ہوگی۔ اور دوسری طرف خود ان ممالک کے حکمرانوں کو بھی اپنی ذمہ داری ایماندارانہ طور پر نبھاتے ہوئے اپنے شہریوں کے تحفظ کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہیں اپنے ملک کی سیاسی و معاشرتی بدحالی کے خاتمے میں ہر ممکنہ جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانا بھی انتہائی ضروری ہے تاکہ ہجرت کے اس بحران پر قابو پایا جاسکے۔