عالم کا عالم

سکواڈرن لیڈر زاہد یعقوب عامر کی کتاب ایئر کموڈور ایم ایم عالم سے اقتباس

عالم کا عالم

عالم کا عالم

از، زاہد یعقوب عامر

چھ اور سات ستمبر ۱۹۶۵، ایم ایم عالم نے ایک سات ستمبر کو ایک منٹ سے کم وقت میں دشمن کے پانچ طیاروں کو تباہ کر کے تاریخ ساز باب رقم کیا۔ ایک بے مثال کار نامہ سر انجام دیا۔ شاید ایک فائٹر پائلٹ کے لیے اس سے بڑھ کر احساسِ تفاخر اور کامیابی کیا ہو سکتی ہے کہ وہ عددی برتری، تکنیکی لحاظ سے طاقت ور دشمن کے زعم اور دشمن پاکستان کی نا پاک جسارت کو ایک سبق سکھا دے۔ نہ صرف سبق سکھا دے بَل کہ وہ سبق دشمن ساری زندگی اپنی نسلوں کو بھی دُہراتا رہے کہ پاک فضائیہ میں عالم اور رفیقی جیسے سپُوت موجود ہیں، یونس اور سیسل چوہدری جیسے جانثار و وفا دار ہیں۔

ایم ایم عالم کے کار ناموں کا تذکرہ مشرقی پاکستان میں ایم ایم عالم کے خاندان کو بذریعہ اخبار چلا۔ ڈھاکہ کے عظیم پورہ میں موجود آفیسرز فلیٹس میں مقیم ایم ایم عالم کا خاندان فرطِ جذبات اور خوشی سے نہال تھا۔ بہنیں اپنے بھائی کے لیے دُعائیں کر رہی تھیں۔ آج وہ پوری قوم کا بھائی، بیٹا اور ہیرو تھا۔ اُس بھائی کی شفقت اور محبت یاد آ رہی تھی۔

سب کا جی چاہ رہا تھا کہ ایم ایم عالم سے ملاقات ہو۔ جلد از جلد وہ اپنی بانہوں میں لے کر بہنوں کے ماتھے پر بوسا دے۔ مگر وہ تو اپنی commitment نبھا رہے تھے۔ جنگِ ستمبر کے بعد بھی اُن کی ضرورت تھی۔ مختلف ذرائع ابلاغ میں اُن کے انٹرویو اور ریڈیو کے ترانوں میں اُن کا ذکر تھا۔

والد صاحب کے چہرے پرایک لا زوال فخر اور خوشی تھی۔ وہ مختلف اخبار نویسوں کے درمیان ایم ایم عالم کے بچپن کے قصّوں اور باتوں کا تذکرہ کرتے۔ لوگ مبارک باد کے لیے آتے تو وہ عظیم باپ محبت اور فخر کے جذبات میں اپنے عالم کو یاد کرتے جس نے ایک عالمی ریکارڈ قائم کر دیا تھا۔ عالمی ریکارڈ کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے ہمارے دشمن کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ بے شک وہ بیٹے سے جلد از جلد ملنے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ مگر بیٹا تو پاک فضائیہ اور دھرتی ماں سے کیا گیا وعدہ نبھا رہا تھا۔

******

یہ ۱۹۶۶ کی ایک پُر سوز رات تھی۔ ایک بیٹا اپنے باپ سے ملنے جا رہا تھا۔ وہ بیٹا جس کے مقدّر میں ایک عالمی ریکارڈ لکھا گیا تھا۔ اُس نے پاک فضائیہ پاکستان اور اپنے والد محترم کا نام روشن کیا تھا۔ باپ اور ایک عظیم بیٹے کی یہ جنگ ستمبر ۱۹۶۵ کے بعد پہلی ملاقات تھی۔ مگر نہ بیٹا آگے بڑھ کر باپ کا ہاتھ چوم سکتا تھا اور نہ ہی باپ بیٹے کو اپنے بازؤں کے حصّار میں لے کر سینے سے لگا سکتا تھا۔

ایم ایم عالم کے والد محترم محمد مسعود عالم انتقال کر گئے تھے۔ قارئین، صرفِ چشمِ تصّور سے دیکھیں اور گوشِ تصّور سے سُنیں کہ وہ باپ اور بیٹے کی گفتگو کیا ہوتی جس نے ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ جس نے دشمن کے نو جہازوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ جس نے ایک تاریخ رقم کی تھی۔ جو اپنے فرائض کی ادائیگی کے سبب باپ سے ملنے نہیں آ سکا تھا۔ جب وہ باپ بیٹا آپس میں ملتے تو کیا سماں ہوتا۔


مزید و متعلقہ:  جنگ ستمبر اور ہمارا ٹی وی ڈرامہ  از، حسین جاوید افروز


باپ کو محسوس ہوتا کہ یہ دُنیا کا سب سے ہونہار بیٹا ہے اور بیٹا یقیناً محسوس کرتا کہ اُس نے باپ کی زندگی بھر کی تھکان کو فخر و انبساط میں تبدیل کر دیا ہے۔ صد افسوس کہ وہ دونوں زندگی میں نہ مل سکے اور بیٹا اپنے مرحوم باپ کو کندھا دینے کے لیے مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان پہنچ گیا۔

******

ایم ایم عالم والد صاحب کی تدفین سے واپس لوٹے۔ دل نہایت مُضطرب اور پریشان تھا۔ ایک پریشانی لاحق تھی۔ تمام بہن بھائی پڑھ رہے تھے۔ بہنوں کی ذمّہ داری علیحدہ سے تھی۔ والدہ ضعیف تھیں۔ وہ اکیلی یہ بوجھ کیسے اُٹھا سکتی تھیں۔ تمام بھائی بھی تعلیم کے مختلف مراحل میں تھے۔

ایم ایم عالم واپس لوٹے۔ چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ گھر میں ایک خط موصول ہوا۔ یہ خط چودہ صفحات پر مشتمل تھا۔ ایم ایم عالم کی محبت اور جذبہ ہر ہر لفظ سے عیاں تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے خونِ دل اور آنسوؤں سے لکھا گیا ہو۔ اس خط نے جہاں سارے خاندان کو ایک تسلّی اور دلاسا دیا وہیں ایم ایم عالم کی ذات اُن کے لیے ایک نہایت مقدم و معتَبر بھی بن گئی۔

خط اب موجود تو نہیں مگر اُس کے ایک ایک لفظ کی حدّت آج بھی تمام بہنوں اور بھائیوں کے دل میں گھر کیے ہوئے ہے۔ آپ نے لکھا کہ:

’’والد صاحب کے انتقال کے بعد میں آپ تمام لوگوں کی ذمّہ داریوں اور ضرورتوں کا ذمّہ دار ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میں آپ لوگوں کودُنیا کی ہر سہولت اور ضرورت کے لیے اپنا کردار ادا کروں گا۔ ہر چیز دے پاؤں گا مگر ایک چیز شاید میرے بس میں نہ ہو، وہ ہے والد صاحب کی موجودگی اور اُن کا حقیقی پیار۔‘‘

ایم ایم عالم نے تمام عمر اپنے بہن بھائیوں کو ایک باپ کا پیار دیا۔ ایک بڑا بن کر پالا، پڑھایا، لکھایا۔ جب بھی شادی کی بات ہوتی تو کہتے کہ پہلے میری بہنوں کی شادیاں ہو جائیں تب میں شادی کروں گا۔ اور پھر اسی پر قائم رہے۔ تحائف خریدتے تو سب بہنوں کے لیے نہایت شاندار اور قیمتی اشیاء کا انتخاب کرتے۔