ہندوستانی اور ایرانی موسیقی کا امتزاج : امیر خسرو

لکھاری کی تصویر
ٰیاسر اقبال

ہندوستانی اور ایرانی موسیقی کا امتزاج : امیر خسرو

از، یاسر اقبال

لفظ موسیقی وسط ایشیا،جنوب ایشیا،عرب اور شمال افریقہ تک سمجھا اور بولا جاتا ہے۔تحقیق سے متفقہ رائے یہی سامنے آتی ہے کہ لفظ موسیقی کی اصل یونانی زبان ہے اوریہ یونانی سے عربی میں آیا ہے۔اسطرح پھر تمام اسلامی دنیا میں اس کی تشہیرہو ئی ہے۔ ایک محققّانہ رائے یہ بھی دی جاتی ہے کہ جب عربوں نے فلسفہ اور منطق کی کتابوں کے عربی زبان میں تراجم کیے تو اس لفظ کو معمولی سی تبدیلی کے ساتھ عربی میں شامل کر لیا۔یعنی کاف سے ق میں بدل دیا۔انگریزی میں اسے Music) (فرانسیسی میں میوزقMusiqu اور لاطینی میں میوزیکا (Musica)جرمنی میں میوزیکے سمجھا اور بولا جاتا ہے۔

اس کے معنی وہ آہنگ اور منظم آواز جو سماعت کو سوزو گداز اور لذت بخشتی ہے۔آواز کا ترتیب سے پیدا ہونا جس میں نغمگی پائی جائے اور الاپ کانوں میں رس گھولتا ہوا دل و دماغ پر اثر کرے موسیقی کہلاتا ہے۔زمانہ جاہلیت یا ابتدائے اسلام میں موسیقی کا لفظ عربی میں نہیں ملتا البتہ نشید اور غناء کے لفظ ضرورملتے ہیں۔عربوں نے اسے بحثیت مستقل علم کبھی مرتب بھی نہیں کیا تھا۔یونانی تاریخ سے ہی موسیقی کے ماخذات کا پتہ چلتا ہے۔یونانیوں کے اسلاف کے کارناموں اور قصص و حکایات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں قدیم الایام سے حلقی Vocalاور سازگی Instrumental کا رواج عام تھا۔اپالو Apollo دیوتا کو بڑی عظمت اور تقدس حاصل تھااس کی حمدوثناء میں گیت گائے جاتے تھے اور عبادات میں خوش الحان لڑکے اور لڑکیاں ہم آواز ہوکر نہ صرف
دعا و مناجات گاتی تھیں بلکہ طنبور اور’’ نے ‘‘وغیرہ بھی بجایا کرتے تھے۔اس کے علاوہ یونانی موسیقی میں بربط اور بانسری کا بھی استعمال سامنے آتا ہے۔
یہ حقیقت تو مسلم ہے کہ خوش الحانی ایک فطری چیز ہے۔جو انسان کے دل و دماغ پر گہراثر ڈالتی ہے۔ویسے تو جملہ فنون کا انسانی نفسیات سے گہرا تعلق ہے جس کا تجزیہ ہمارے دماغ میں ہوتا ہے۔مصوری،مجسمہ سازی، فنِ تعمیر،خوش نویسی اپنی اپنی جگہ فنونِ لطیفہ میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں لیکن فنِ موسیقی کا جو اثرنفسِ انسانی پر پڑتا ہے اُس کی اہمیت سے انکار نہیں۔اس فنِ لطیف میں جو معنویت اور اثر انگیزی ہے وہ محتاج بیاں نہیں۔ انسان کے دل و دماغ پر تصرف کر کے خیالات و جذبات میں ایک انقلاب برپا کرنا صرف موسیقی کا ہی کام ہے۔ اعصاب کو حساسیت بخشنے ا و ر ہیجانی کیفیت پیدا کرنے میں فنِ موسیقی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جیسا کہ تاریخی مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ فنونِ لطیفہ کو تہذیب کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔اور اس کا فروغ اور سر پرستی ہر سطح پر جاری رہی ہے۔چونکہ ہمارا موضوع ہندوستانی اور ایرانی موسیقی کے امتزاج سے متعلق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق سے یہ امر واضح ہے کہ برِصغیر کا خطہ مختلف تہذیبوں کا سنگم رہا ہے۔بیرونی اقوام کا اس خطے میں آنا اور اسے اپنا مستقل مسکن بنانا شروع کیا تاہم یہ بتانا تقریباً مشکل معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے اصل باشندے کون تھے۔دراوڑی اقوام پھر سینتھین،پھر آریا، پھریونانی ،پھرراجپوت اقوام ان کے بعد مسلمان یعنی عرب،ترک،پٹھان اور مغل اور سب کے آخر میں اہلِ یورپ نے اس خطے کو اپنا مسکن بنایا۔یہ جملہ اقوام یکے بعد دیگرے اس خطے میں وارد ہوتی رہیں اور یہاں اپنی حکومتیں بناتی رہیں اور ساتھ ساتھ یہاں کی مقامی آبادی سے گھل مل کر ایک نئی تہذیب کی شکل بناتی رہیں۔سب سے زیادہ جس قوم نے اس خطے میں اپنی تہذیب و تمدن کے اثرات مقامی تہذیب پر مرتب کیے وہ مسلمان ہیں۔مسلمان حکمران جب اس خطے میں آئے تواپنے ساتھ نہ صرف اپنا اثر انگیز کلچر لائے بلکہ کئی علماو فضلااور شعراء اور فنکاران کو بھی ساتھ لائے۔جس سے اس خطے کے اندر علوم و فنون میں بامعنی اوراثر انگیز تبدیلیاں سامنے آئیں۔جہان مسلمانوں کی آمد سے لسانی تبدیلیوں کا آغاز ہواوہاں فنونِ لطیفہ میں بھی دو تہذیبوں کے سنگم سے تجربات نظر آنے لگے۔ان تجربات سے فنون لطیفہ کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا گیا۔دیگر فنون کی طرح اس خطے کی موسیقی بھی تجربات و تغیرات سے دو چار ہوتی رہی۔ان تجربات و تغیرات سے ہندوستانی موسیقی کا دائرہ کار نہ صرف بڑھتا چلا گیا بلکہ باقاعدہ طور پر علمی و عملی سطح پر اسے سمجھنا جانے لگا۔اس سے پہلے برِصغیر کی موسیقی مندروں میں مقید تھی چنانچہ مسلمانوں کی آمد سے نہ صرف موسیقی مندروں سے باہر نکلی بلکہ سنگیت کے ماہرین اس فن کی عملی سطح کے ساتھ ساتھ علمی سطح پربھی ترویج کرنے لگے اس طرح فنِ موسیقی بطور علمِ موسیقی سمجھا جانے لگا۔موسیقی میں وقوع پزیر ہونے والے وہ تغیرات و تجربات جو فن موسیقی میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ان کا سہرا امیر خسرو کے سر بندھتا ہے۔امیرخسرو کے یہ تجربات موسیقی کے لیے اصول وضوابط ٹھہرے جن کی اہمیت آج بھی مسلم ہے
صدیوں سے امیر خسرو کا نام فنِ موسیقی میں اتنا ہی بلند سمجھا جاتا رہا ہے جتنا کہ شاعری میں۔انھیں ستار اور طبلے کے ساتھ ساتھ کئی نئے راگوں کاخالق سمجھا جاتا ہے۔امیر خسرو کے یہ نئے راگ عجمی اور ہندی موسیقی کے حسین امتزاج سے تخلیق ہوتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ گائیکی میں امیر خسرو نے دکن کے مشہور گائیک گوپال کو بھی ہرا دیا تھا۔امیر خسرو کی تحاریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فنِ موسیقی پر مکمل دسترس رکھتے تھے انھیں عجمی موسیقی پیچیدگیوں مثلاً چار اصول،بارہ پردے وغیرہ پر مکمل عبور حاصل تھا۔نہ صرف فن موسیقی کوعلمی لحاظ سے سمجھتے تھے بلکہ موسیقی کی فنی باریکیوں کا بھی مکمل ادراک تھااور اپنے دور میں موسیقی کے معرکوں میں عملاً حصہ لیتے تھے۔ اس پسِ منظر میںیہ بعیداز قیاس نہیں کہ امیر نے ہندوفارس کے نئے کلچر سے متاثرہو کرعجمی اور ہندی موسیقی کے سنگم سے نئے نئے اسلوب وضع کرکے رائج کیے ہوں۔لیکن ان جدتوں کی نوعیت اورمقدار کا تعین کرنا مشکل ہے۔ہندوستانی موسیقی کی ایک دیرینہ فارسی کتاب(جو کہ راجہ مان سنگھ کی ایک اور کتاب کا ترجمہ ہے)کے مطابق امیر خسرو نے مندرجہ ذیل نئے راگ اور اصنافِ موسیقی ایجاد کیے۔
مجیر،ساز گری،غزل، ایمن، فرغانہ،سرپردہ،فرودست،قول،ترانہ،خیال،نگار،شاہانہ۔
تمام راگ اور اصناف موسیقی کی فنی تفصیلات میں جا کر ان کی ایجاد و دریافت کا صحیح تعین کرنا ایک الگ اور جامع موضوع ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ امیر خسرو ہی نے سب سے پہلے غزل اورقول کے اسلوب کو ہندی موسیقی میں رائج کیا آج بھی تمام ہند میں قوال حضرات قول کی وجہ سے انھیں اپنا استاد مانتے ہیں۔امیر خسرو نے ہندی موسیقی کے اس قدیمی جمود کو توڑ کر اسے فرسودہ و منجمد قیود سے آزاد کرایا۔
آلات موسیقی میں ستار جسے سہ تار کہا جاتا تھا ،پرانے ہندی ساز وینا(جو مہادیو کی ایجاد سمجھی جاتی ہے )کی سادہ صورت ہے،کو بھی امیر خسرو سے منسوب کیا جاتا ہے۔امیرخسرو کا دور ایسی تبدیلیوں کے لیے موزوں نظر آتا ہے لیکن خسرو کی تحریروں میں ستار کا نام کہیں نظر نہیں آتا حتیٰ کہ کئی دیگر سازوں کے نام ملتے ہیں۔یہاں تک کہ ہند کا خاص ساز عجب رود بھی ستار سے نہیں ملتا۔یہ نام کہیں بھی نہیں ملتا ماسوائے جدید ہندی و فارسی ادب کے۔ستارنام کا ساز اصل میں فارس یا کاکیشیا میں مروج تھااور ہندوستان میں اس کے بعد آیا۔ستار کاکیشیا اور جارجیا کا اب بھی قومی ساز ہے۔غالب خیال یہی ہے کہ انھی خطوں سے یہ سازمغربی ممالک میں گیا جہاں پہ زنتھار یا گٹار کہلایا۔
تاہم مستند محقق ستار کی ایجاد کا سہرا امیر خسرو کے سر ہی پر باندھتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ ساز دیرینہ مروجہ سازوں سے اس دور میں ایجاد ہوا جب عجمی اور ہندی کلچرایک دوسرے کے قریب آیا۔ستارکی شکل عجمی’’طنبورہ‘‘ یا ’’غُود‘‘ سے ملتی ہے اور ہندی وینا سے ترتیب مکمل طور پر ہند و فارس کی تہذیبوں کی مرکب ہے۔ستار کی اصل کیا ہے؟اور کس طرح وجود میں آیا؟اس بحث سے قطع نظراس بات پر تمام محقیقین کا مکمل اتفاق ہے کہ امیر خسرونہ صرف فنِ موسیقی کے شاہسوار تھے بلکہ انھوں نے پرانی گائیکی میں منفرد تبدیلیاں لا کر اسے ایک نئے اسلوب سے روشناس کرایا اور اپنے لیے نائیک کا لقب پایا۔
امیر خسرو نے اپنے عہد کی موسیقی میں نئی روایات قائم کر کہ ہندوستانی موسیقی کو ایک نیا آہنگ بخشا۔خسرو نے اس دور میں فنِ موسیقی کو جو نئی نئی چیزیں عطا کیں وہ آج تک یاد گار ہیں۔ہندوستانی اور ایرانی موسیقی میں ایک امتزاج پیدا کیا وہ خودجس طرح ایرانی طرزِ موسیقی کے ماہر تھے اور اسی طرح ہندوستانی موسیقی سے بھی واقف تھے اور زندگی بھر ہندی موسیقی کے مداح رہے۔وہ اپنی مثنوی ’’ نہ سُپہر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’ہندوستانی موسیقی ایک آگ ہے جوقلب اور روح دونوں کو جلاتی ہے اور تمام ممالک کی موسیقی سے بہتر ہے‘‘
اس کے علاوہ اپنی مشہور تصنیف ’’اعجازِ خسروی ‘‘ میں معاصر گویوں اور سازندوں کا بھی ذکر کیا ہے جن میں
محمد شاہ چنگی، حسینی اخلاق ،کنجشک اور عورتوں میں ترمتی خاتوں نمایاں نام نظر آتے ہیں اس کے علاوہ سازوں کی تفصیل کا کچھ اس طرح ذکر کیا ہے۔
چنگ،رباب،دف،طنبورہ،شہنائی،بعبلک،بطیرہ ، ڈھول اور غود سازوں کا ذکر ملتا ہے۔ہندی اور ایرانی راگ راگنیوں کے علاوہ سازوں میں بھی امیر خسرو نے نئی اختراعات کو عمل یں لایا مثلاً قدیم ہندی ساز مردنگ کو طبلے کی شکل میں بدل دیااور ہندوؤں کے ساز وینا اور ایرانیوں کے طنبورہ کو ملا کر ستار ایجاد کیا۔اس کے علاوہ سر پردہ ، ساز گری،مجیر،زیلف،عشاق،فرغانہ، غزان،فرودست منم،قول، ترانہ، نگار سخنہ اوربسیط راگ امیر خسرو کی اختراعات ہیں۔
امیر خسرو سے پہلے جس صنفِ موسیقی کو رواج حاصل تھا وہ دُھر پد تھی انھوں نے دھرپد کو چھوڑ کر خیال ایجاد کیا اور قوالی جیسی صنف کو ترقی دی۔جیسا کہ ہمارا موضوع ہندی اور ایرانی موسیقی کے امتزاج کے حوالے سے ہے اور اس بات سے بھی ہم آگاہ ہیں کہ امیر خسرونے ہندی اور ایرانی موسیقی کو ملاکر ایک نیا اسلوب وضع کر کہ نہ صرف فنِ موسیقی کے کینوس کو بڑھادیا بلکہ موسیقی میں کئی نئے ابواب کا اضافہ کر دیا۔امیر خسرو کی مزید فنی خدمات کو جاننے کے لیے ہمیں ایک مختصر سی نظرہندوستانی موسیقی پر ڈالنا ہوگی۔
دانشورانِ ہند موسیقی کو نغمہ ء خداوندی بتاتے ہیں اور اس کا موجد کرشن جی کو اور بعض مہادیو جی کو بتاتے ہیں اور ہندوستانی موسیقی ایرانی موسیقی سے بھی قدیم مانتے ہیں۔چنانچہ ہندوؤں کا یہ دعوی رہا ہے کہ ہندوستان زمانہء قدیم ہی سے علم و فن کا گہوارہ رہا ہے ان کے اس دعویٰ کے
مطابق یہیں سے تمام علوم و فنون ایجاد ہو کر دیگر ممالک میں پھیلے ہیں۔ہندوستان میں موسیقی کا مترادف لفظ سنگیت ہے۔سُر کو انفرادی طور پر گایا جائے یا اجتماعی طور پر،ساز کے ساتھ ہو یا بغیر ساز کے ان سب پر سنگیت کا اطلاق ہوتا ہے۔پس ہندوستانی موسیقی ہر شکل پر حاوی مانی جاتی ہے۔علم موسیقی میں آواز کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔صدائے موسیقی،یعنی وہ آواز جو فنِ موسیقی کے اصول و ضوابط کے مطابق ہوجو کانوں میں رس گھول کردل و دماغ کو سکون بخشے اور سننے میں بھلی معلوم ہو۔
۲۔صدائے محض،یہ وہ آواز ہوتی ہے جو کانوں کو بھلی معلوم نہیں ہوتی یعنی بے ہنگم و بے ترتیب آواز جس سے محض شور و غل کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔سنگیت کا براہ راست تعلق اول الذکر قسم یعنی صدائے موسیقی سے ہے۔ہندی سنگیت کاروں نے ہندوستانی موسیقی کو سات سروں میں تقسیم کیا ہے۔سروں کے اس نظام کو سمجھنے کے لیے ایک او ر وضاحت کو سمجھنا موسیقی کے طالب علم کے لیے ضروری ہے۔موسیقی کی اصطلاح میں سر کی آواز بتدریج آہستہ آہستہ بڑھتی ہے۔مثلاً کبھی ایسا نہیں ہوا نہ سناکہ اچانک اونچی اورزوردار آواز پیدا کرکے پھر اسے بتدریج آہستہ آہستہ نیچے لایا گیا ہو۔اگر ایسا کیا جائے تو وہ سر کی آواز نہیں ہو گی کچھ اور بے ہنگم آواز ہو گی۔جس میں موسیقیت نظر نہیں آئے گی۔اسی اصول کو بنیاد مان کر سات سروں کا نظام وضع کیا گیا ہے۔اسطرح اگر پردوں والا ساز یعنی ہارمونیم یا ایسی کوئی وضع کا اورساز ہے توبائیں سے دائیں بجایا جائے گا۔اس قاعدے کے مطابق کسی بھی ساز کی سروں کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
۱۔مَدھ یعنی بھاری آواز یہ آواز قدرے ہلکی ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی ’’ہا‘‘ سے ہوتی ہے
۲۔مندر (درمیانی آواز،یہ حصہ ساز کے درمیان میں ہوتا ہے۔اس حصے میں آواز ’’آ‘‘کہہ کر گلے سے ادا ہوتی ہے)
۳۔ٹیپ یا تار ( اس حصے کے سر کی آواز اونچی ہوتی ہے اور آواز کی ادائیگی نتھنوں یعنی ناک اور گلے کے ذریعے ہوتی ہے۔
ہر حصہ سپتک کہلاتا ہے۔اس طرح ہر سپتک میں کل بارہ سر ہوتے ہیں۔یہ بارہ سر بنیادی طور پر سات سروں سے بنتے ہیں یعنی ہر سر کے دو حصے ہوتے ہیں ماسوائے کھرج اور پنچم کے۔ان سات سروں کو سرگم کہا جاتا ہے۔ان سات سروں کا خاکہ کچھ اس طرح ہے
آغاز
نی دھا پا ما گا رے سا
سروں کے صوتی آہنگ کے بتدریج بڑھنے کے عمل کوسمجھنے کے لیے ان حروف پرلکیریں کھینچ دی گئی ہیں۔پہلے حروف یعنی سا کو اگر مقام مانا جائے تو دوسرے سر رے کا بڑھنا دو گنا ،تیسر ے سر کا تگنااور اس طرح دھا تک چھ گنا اور نی تک سات گنا سر بتدریج بڑھتا جائے گا۔ان سروں کی شرح مندرجہ ذیل بتائی جاتی ہے۔
کھرج(سا) طاؤس یا مور کی آواز
رکھب (رے) پہیے کی آواز
گندھار (گا) بکری کی آواز
مدھم (ما) کلنگ کی آواز
پنچم (پا) کوئل کی آواز
دھیوت(دھا) مینڈک کی آواز
نکھاد (نی) ہاتھی کے چنگھاڑنے کی آواز
انھی سات سروں سے راگ اور راگنیاں وجود میں آتی ہیں اور پھر انھی راگوں سے مختلف نغمے اور دھنیں ترتیب پاتے ہیں۔موسیقی میں ایک اور اصول جسے بنیادی اہمیت حاصل ہے وہ تال کی ’’لَے‘‘( Tempo)ہے۔گانے بجانے کی رفتار کو لے کہتے ہیں۔ لے کو تین قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
۱۔بلمپت (دھیمی اور آہستہ لے )
۲۔مدھ (درمیانی لے)
۳۔دُرّت (انتہائی تیز لے)
علمِ موسیقی کے تین اہم شعبے سُر،لَے اور تَال کے ہیں۔انھیں تین شعبوں پر مشتمل آواز کے مجموعے کو موسیقی کہتے ہیں۔
موسیقی سے متعلق بنیادی باتیں جاننے کے بعد امیرخسرو کے عہد کی طرف آتے ہیں۔یہ بات تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے فنونِ لطیفہ کو فروغ ملاخصوصاً فن موسیقی کودرباروں کی بڑی سرپرستی حاصل رہی۔اسلامی دور سے قبل کی ہندی موسیقی سے متعلق زیادہ معلومات تو حاصل نہ ہوسکیں کیونکہ وہ تمام معلومات سنسکرت کی کتابوں میں درج ہیں جن کا مکمل طور پر سمجھنا آسان نہیں۔صرف اتنا کہا جاتا ہے کہ سام وید کے بھجن، مناجاتیں اور ترانے زیادہ تر رائج تھے۔اور اب بھی مندروں میں ان کا رواج عام ہے۔
پوری دو صدیاں گزرنے کے بعد جب مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں،ایک دوسرے کی زبانوں کے الفاظ بولتے اور سمجھتے ہیں اور اپنی اپنی زبانوں میں استعمال کرتے ہیں تو ایک تیسری زبان کی تخلیق ہوتی ہے۔جسے اردو کہا جاتا ہے۔یہی وہ زمانہ ہے جب ہندوستان میں امیر خسرو پیدا ہوتے ہیں امیر خسرو کی تاریخِ پیدائش۶۵۱ھ ہے۔
مسلمانوں کے عہدِ حکومت میں فنِ موسیقی نے بڑی ترقی کی اوربادشاہوں نے بھی ماہرین موسیقی اور اہلِ فن کی قدردانی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔۔ہمیشہ علوم و فنون کی سر پرستی کرتے رہے۔بعض بادشاہ تو خود بھی علمِ موسیقی کا مکمل ادراک رکھتے تھے۔
امیر خسرو عالم،فاضل اور شاعر تھے ہی مگر اسکے ساتھ وہ موسیقی کے رموزواوقاف سے بھی مکمل آگاہ تھے۔ایسے باکمال انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں جن کی نظیر رہتی دنیا تک نہیں ملتی۔اگر خسرو کی صرف شاعری کو ہی لیا جائے تو ان کی جامعیت اور معنویت دیکھ کرعقل دنگ رہ جاتی ہے۔وہ نہ صرف فارسی کے شاعر تھے بلکہ عربی اور سنسکرت زبان پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔موزونی طبع کا یہ عالم تھا کے جس آواز کو چاہتے نظم کر دیتے مثلاً دہل کی آواز کو کس طرح نظمیہ انداز میں برتا ہے
دہل زن دہل زو بہ تحسین او
کہ دیں،دین او،دین او دین او
دوسری نقل دھنیے کی ہے ملاحظہ کیجیے۔
درپئے جاناں جاں ھم رفت، جان ھم رفت جان ھم رفت رفت رفت،جان ھم رفت
اینہم رفت و آنہم رفت آنہم رفت آنہم رفت، اینہم آنہم اینہم آنہم آنہم رفت
رفتن ،رفتن ،رفتن دہ دہ دہ رفتن دہ رف رف رفتن دہ رفتن دہ
کس قدر حاضر دما غی ہے کہ بے تکلف جچے تُلے حرفوں سے مختلف آلات کی صدا پیدا کر دی جو سنتا ہے ایک دفعہ تو مبہوت ہو جاتا ہے۔
امیر خسرو ہندوستان کی موسیقی کے ایسے کامیاب غوطہ زن تھے کہ موسیقی کو حدِکمال تک پہنچا دیا۔ہندوستانی اور ایرانی موسیقی کے اسالیب کو ملا کر ایک تیسرا اسلوب ایجاد کیا۔جس سے فنِ موسیقی میں ایک تازہ روح پیدا ہوگئی جو پہلے سے زیادہ پُر لطف اور اثر انگیز ثابت ہوئی
ذیل میں امیر خسرو کے ایجاد کردہ راگوں کی فہرست ہے جس کا تذکرہ مولانا شبلی نے بھی امیر خسرو کے حوالے سے کیا۔یہ امیر خسرو کے وہ راگ ہیں جو ہندوستانی اور ایرانی موسیقی کی امتزاجیت سے وجود میں آئے ۔
ایمن ہنڈول اور نیریز
عشاق سارنگ ،بسنت اور نوا
موافق توڑی و مالوی و دوگاہ حسینی
غم(غازاں) پوربی میں ذرا سی تبدیلی کر دی
زیلف کھٹ راگ میں شہ ناز کو ملایا
فرغانہ کنگلی اور گورا کی ملاوٹ
سراپردہ(سرپردہ) سارنگ،بلاول،اور راست کی آمیزش
فرودست(پہرودست) کانہڑا،گوری،پوربی،اور ایک اور فارسی راگ سے مرکب
صنم(منعم) کلیان میں ایک فارسی راگ شامل کیا ہے۔
ان کے علاوہ قول،ترانہ ،خیال،نگار،بسیط،شاہانہ،سہیلا یہ وہ راگ ہیں جو مرزا محمد صاحب نے اپنی تصنیف Llif and works of Amir Khusrau میں درج کیے ہیں۔ان راگوں میں قول ، غزل ،خیال،اور ترانہ کی بندشیں اب بھی مقبول ہیں۔
قوال تو آج بھی امیر خسرو کا نام نہایت عزت و تکریم سے لیتے ہیں۔
امیر خسرو نے پرانی موسیقی میں جوتراش خاش کر کے نئے اسلوب کو قائم کیا جہاں ان کی اس کاوش کو سراہا گیاوہاں قدامت پسندموسیقی کے دلدادگان نے ہمیشہ خسروی اختراعات کو نظر انداز کیے رکھا۔یہی وجہ ہے کہ مذکورہ راگوں میں سے جو امیر خسرو نے ہندوستانی اور ایرانی راگوں کی آمیزش سے نئے راگ پیدا کیے تھے ان میں سے صرف چند ہیں جو ہم تک پہنچے ۔باقی ناموں سے کوئی واقف بھی نہیں۔
چنانچہ واجد علی شاہ اپنی تصنیف ’’صوتِ مبارک‘‘ میں خسرو کو دھرپد کے نائیک خیال مانتے تھے۔ان کے مطابق امیر خسرو ترانہ، چھند،پند،قول، قلبانہ ،نقش اور گل کے بھی موجد ہیں۔
حاصل بحث یہ ہے کہ امیر خسرو نے ایرانی اور ہندوستانی موسیقی میں بڑا کمال حاصل کیا تھا وہ دونوں ممالک کی نہ صرف موسیقی سے آگاہ تھے بلکہ دونون ملکوں کی تہذیب سے بھی مکمل آشنا تھے۔تبھی تو ان کی شاعری میں کئی موضوعات ایسے ملتے ہیں جن میں واضح طور پر ہندوستانی معاشرت کی جھلک نظر آتی ہے۔ مثلاً بابل والی نظم جس میں خسرو نے ان جذبات کی عکاسی کی ہے جب لڑکی ماں باپ کے گھر سے رخصت ہوتی ہے تو پیدا ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ منڈھا ،میلہ وغیرہ وہ عنوانات ہیں جو ہندوستان کی تہذیب کا حصہ ہیں۔درحقیقت یہی اُن کا ایک بڑا کارنامہ ہے جو امیر خسرو کے بیدار مغز ہونے کا واضح ثبوت ہے۔انھوں نے اپنی اختراعات سے ہندوستان کے فنِ موسیقی کی ایک بڑی خلیج کو پُرکر دیا ۔وہ فنِ شاعری میں بھی بے مثل ٹھہرے اور فنِ موسیقی میں بھی یکتا ہوئے۔۔۔۔

1 Comment

  1. خوب۔ بس ایک چیز پہ نظر ثانی کر لیجئے کہ ایک سر سے اگلے سر تک آواز دگنی نہیں ہوتی بلکہ ایک سپتک کے کھرج سے اگلی سپتک کے کھرج تک دگنی ہوگی۔

Comments are closed.