پانچ نسلوں کی داستان

شہر مدفون

پانچ نسلوں کی داستان : خالد فتح محمد کے ناول شہر مدفون پر ایک نظر

تبصرۂِ کتاب از، حفیظ تبسم 

کسی زمانے میں ادب کو صرف دل لگی اور وقت گزارنے کی چیز سمجھا جاتا تھا، لیکن آج کے زمانے میں ادب زندگی کا ترجمان ہے یعنی انسانی زندگی کے مسائل اس کا لازمی جزو بن گئے ہیں۔ ادب بَہ راہِ ادب کے زمرے سے نکل کر ادب بَہ راہِ زندگی کے مرحلے سے جڑ گیا۔ معاصر زمانے میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حلقۂِ اربابِ ذوق جو ادب بَہ راہِ ادب کے پیرو کاروں کا گروہ تھا، وہ حلقۂِ اربابِ ذوق بھی ادب بَ راہِ زندگی کے فارمولے پر عمل پیرا ہے۔

میرا بھی یہ ادبی تیَقّن ہے کہ بڑا ادب ہمیشہ کسی ایشو سے جڑا ہوتا ہے اور ہر بڑے ادیب کے لیے کسی نظریے کا ہونا ضروری ہے جنھیں وہ ادب کی صورت میں سامنے لاتا ہے۔ ایسے ہی ایک ادیب خالد فتح محمد ہیں جس کا ناول شہر مدفون اپنی مثال آپ ہے۔

شہر مدفون پانچ نسلوں کی داستان ہے۔ ناول کے آغاز میں ہی خالد فتح محمد کا اکثر بیش تر بولا جانے والا جملہ ذہن میں گونجنے لگا، ’’ہر انسان کی اپنی اساطیر ہوتی ہیں جو اپنے آپ میں نہ صرف متنوع اور مختلف ہیں بَل کہ کائنات میں موجود پیچ کی طرح پیچ دار اور گہرائی کی طرح عمیق ہیں۔ یہ ذہنی سر گرمی اور تخیلی کار کردگی کو ایک وسیع علاقہ عطا کرتی ہے۔‘‘

خالد فتح محمد صاحب یہ بھی کہتے ہیں، ’’ہندو اساطیر، بدھ اساطیر وغیرہ کے ساتھ تعلق صرف تخیلی دنیا کے ذریعے جوڑا جا سکتا ہے جب کہ ہماری اپنی اساطیر ہمارے بدن میں خون کی طرح شامل ہوتی ہے۔‘‘

میں خالد صاحب کی بات پر اثبات میں سرہلاتا ہوں اور شہر مدفون اسی تناظر میں ایک وسیع کینوس کا ناول ہے۔

ناول کا آغاز رائے بوچہ مل سے ہوتا ہے جو مہا رانا کی فوج میں شامل ہے اور اس سے پہلے بھی کئی لشکروں کے ساتھ اپنی خدمات سر انجام دے چکا ہے۔ بوچہ مل میں عام سپاہیوں کی بہ نسبت کئی اہم خوبیاں ہیں جو اسے دوسروں سے ممتاز بناتی ہیں۔ وہ ہوا کے رخ سے بتا دیا کرتا کہ لشکر کس طرف سے آ رہا ہے اور کتنی بڑی تعداد میں ہے۔

وہ آسمان کی طرف دیکھ کر بارش برسنے کی پیشین گوئی کرتا جو ہمیشہ پوری ہوتی تھی۔ ایک روز مہا رانے نے اسے الوادع کہا اور دہلی کی طرف لشکر کشی کے لیے چلا گیا۔ اس روز بوچہ مل کو اپنا آپ بے وقعت لگا اور اس نے بٹھنڈا کی طرف اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوئے اپنی تلوار ایک درخت کے سپرد کر دی۔

بوچہ مل نے نئی زندگی کا آغاز دریائے بیاس کے کنارے کاشت کاری سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی لوگ ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ وہیں ایک اونچے ٹبے پر ماڑی بوچیاں نام کی ایک بستی آباد ہوئی۔ اس کے بعد بوچہ مل نے اسلام قبول کر لیا۔ رائے بوچہ مل نے مسلمان ہونے فیصلہ زمین داری کے مفادات کی خاطر کیا تھا نہ کہ اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر… ۔

دوسری نسل کی کہانی بوچہ کے بیٹے شکر اللہ سے شروع ہوتی ہے اور تیسری نسل تک آتے آتے بوچہ مل کا خاندان معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط ترین ہو چکا تھا۔ محمد مالک اپنے قصبے کا چودھری ہونے کے ساتھ ساتھ انگریز حکومت کا نمائندہ بھی تھا۔ انھیں دنوں برِّ صغیر کی تقسیم کے مسئلے نے زور پکڑ لیا۔ محمد مالک بھی تقسیم کا مخالف تھا وہ اپنی دھرتی کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔

یہاں ناول کا ایک اقتباس دیکھیے:

اس کا نظریہ اپنے صرف علاقے پر اپنی برتری قائم رکھنا تھا جس کا آغاز تو بوچہ مل نے یہاں آباد ہو کر ہی کر لیا تھا۔ اس نے اس بے آباد اور نا قابلِ کاشت زمین کو آباد کر کے دو لوگوں اور ایک جھونپڑی سے یہاں زندگی کی بنیاد رکھی تھی۔ کیا وہ دونوں ان کے لیے آدم اور حوا تھے؟ کیا وہ دونوں آسمان سے اترے تھے؟ وہ نئے ملک میں جانے کے بعد کیا لوگوں پر اپنی بر تری قائم رکھ سکے گا۔‘‘

 اسی ایک سوچ میں محمد مالک آخری جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا حالاں کہ اس کے پاس کوئی ڈانگ بھی نہیں تھی۔ کئی ماہ تک اسلحہ جمع کیا گیا تھا۔ محمد مالک سوچتا تھا کہ اگر ڈوگرہ فوج بھی ماڑی بوچیاں پر حملہ کرے وہ تب بھی مقابلہ کرے گا۔ وہ نئے آنے والوں کے لیے ایک کہانی یا مثال چھوڑ کر جانا چاہتا تھا کہ حاکم اپنے علاقے کے لیے کس طرح جنگ لڑتے ہیں۔ آخر 14 اگست کو پاکستان اور ہندوستان بن گیا مگر حملے کے لیے اکتوبر تک انتظار کرنا پڑا۔ محمد مالک نے حملہ آوروں کا اپنے قصبے کے لوگوں کے ساتھ مل کر مردانہ وار مقابلہ کیا اور مکمل فتح کے بعد پاکستان آ گیا…۔

چوتھی نسل عبدالرشید ہے جس نے روایتی خاندانی نظام کو توڑتے ہوئے زمین جائیداد بیچنا شروع کی اور اپنی اولاد کو پڑھایا اور اس کی نسل کا اگلا سر بَہ راہ محمد مجاہد شہر جاکر بڑا افسر بنا… ۔

اب میں ناول کے حوالے سے اپنی کچھ رائے پیش کرنے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔

اساطیر کی بنیاد ہمیشہ علامتوں پر بنتی ہے۔ تقریباً ہر ایک تخلیق کار نے اساطیری کرداروں کی مدد سے جو کہانی تخلیق کی وہ اس کے معاشرے پر مبنی تھی۔ لیکن ایسا کرنے سے کہانی، کہانی نہ رہی؛ کہانی ایک پہیلی بن کر رہ گئی۔ جو لفظیات استعمال کی گئیں وہ زبان سے شناسائی رکھنے والوں کے لیے بھی با معنی ادائیگی پر مبنی نہیں تھیں۔

کیا ہر نسل یا خاندان کی اپنی اساطیری کہانیاں نہیں ہوتیں؟ آج یہ سوال اہم ہے جو شہر مدفون میں بہت حد تک موجود ہے۔

شہر مدفون کا دوسرا بڑا موضوع برِّ صغیر کی تقسیم ہے۔ تقسیمِ ہند اپنی نوعیت کے اعتبار سے برِّ صغیر کا ایک بہت بڑا سانحہ ہے جہاں ایک طرف انگریز سے آزادی ملی، وہیں ایک دھرتی کے سینے پر لکیر کھینچ کر دو الگ ملک بنائے گئے؛ گویا تقسیمِ ہند ایک المیہ بن کر سامنے آیا۔ مذہب کے نام پر خون کی ہولی کھیلی گئی جس کے چھِینٹے آج تک نسلِ انسانی کے مُنھ پر ہیں۔

تقسیمِ ہند کے موضوع پر دونوں طرف کے ادیبوں نے فوری ردِّ عمل دیا؛ مگر اس وقت کے سارے ادیب فساد کی اصل کہانی کی تہہ تک نہ پہنچ سکے، کیوں کہ سب سے زیادہ فسادات مذہبی تعصب کی بَہ جائے زمین جائیداد پر ہوئے تھے۔ مذہب کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی ہر کوئی اپنی سماجی و سیاسی ساکھ بچانے کے لیے خون بہا رہا تھا۔

اسی تناظر میں شہر مدفون کے مصنف خالد فتح محمد نے بھی ٹھنڈے دماغ اور تعصب سے بالا تر ہو کر لکھا کہ اس کا کردار محمد مالک کبھی مسجد نہیں گیا تھا اور مذہب اس کے دل میں ذرا برابر اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اس نے ماڑی بوچیاں میں قتل و غارت کا سامان صرف اپنی بڑائی دکھانے کے لیے کیا تھا جس کے نتیجے میں ہندو، سکھ بھی مارے گئے اور مسلمان بھی۔

خالد فتح محمد کا یہ ناول پڑھ کر فسادات کے موضوع پر لکھے گئے ادب کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے انسان کے مختلف چہروں سے رُو شناس کرایا ہے کہیں ہَوَس ناکی ہے، تو کہیں شفقت و ہم دردی، کہیں مکاری و عیاری تو کہیں اخوّت و جاں ثاری۔

ناول پڑھتے ہوئے ایک قسم کی طمانیت محسوس ہوتی ہے اور یہی اچھے ادب کی پہچان بھی ہے کہ وہ کسی نہ کسی جذبے کے توسط سے روح تک پہنچ جائے۔ شہر مدفون میں تاریخی شعور اور ایک عہد کی نفسیات کی جھلک بھی ملتی ہے۔

گُتھا ہوا مربوط پلاٹ کسی ناول کی کام یابی کا ضامن ہوتا ہے۔ شہر مدفون میں بھی واقعات کو ایک مربوط کڑی میں جوڑا گیا ہے۔ کرداروں کی نفسیاتی تحلیل، تجزیہ اور جذبات کے اظہار کے وقت بھی ناول کے مرکزی خیال اور تسلسل سے بھٹکتے نہیں۔

کردار نگاری با کمال ہے۔ سارے کردار حقیقی زندگی کے کردار ہیں اور زندگی کی حقیقتوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ حقیقت نگاری کی وجہ سے اپنے فن میں آفاقیت یا عمدیت پیدا کرتے ہیں اور اپنے کرداروں کو زندہ اور متحرک پیش کرنے میں بہت زیادہ قدرت رکھتے ہیں۔ وہ افراد کو نہیں بَل کہ ان کے احساسات اور جذبات کو بھی اس درجہ یقین آفرینی اور حقیقی انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ہر کردار جیتا جاگتا ہمارے سامنے چلنے پھرنے لگتا ہے۔

پورے ناول کے مکالموں میں کوئی جُملہ بھی فاضل، یا، غیر ضروری استعمال نہیں کیا گیا۔ الفاظ کے استعمال میں کفایت اور جامعیت ہے۔ جملے بے باک تو ہوتے ہیں مگر جچے تُلے؛ ان کے ذریعے کردار کی ذہنی کیفیت تک پہنچنا بہت سہل ہو جاتا ہے۔ مکالموں کے ذریعے وہ تنقید بھی کرتے جاتے ہیں اور اپنے نقطۂِ نظر کی محتاط انداز میں وضاحت بھی۔ وہ لوکیل کی مطابق مقامی لفظیات کا بھی استعمال کرتے ہیں مگر اس انداز میں کہ وہ سارے لفظ جانے پہچانے اور اردو زبان میں نئے ڈھنگ سے ڈھل جاتے ہیں اور قاری لطف اٹھاتا ہے۔

یہ تحریر ناول کے سنجیدہ قارئین کو شہر مدفون پڑھنے کا دعوت نامہ ہے اور ان ناقدین کے ذہنی در پر ایک دستک بھی۔ آئیے اور دیکھیے کہ خالد فتح محمد ناول نگاری کی دوڑ میں کہاں کھڑے ہیں۔

شہر مدفون سانجھ پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کیا ہے اور اچھی طباعت کے لحاظ سے 700 روپے قیمت انتہائی مناسب ہے جس کے نصف صرف 350 روپے ہی بنتے ہیں۔