میں وی جاناں ڈھوک رانجھن دی

Nausheen Qamar logo
base illustration by Asim Shah

میں وی جاناں ڈھوک رانجھن دی : ممتازمفتی سے لبیک پہ خیالی مکالمہ

از، نوشین قمر

آؤ مفتی بیٹھو ۔ عرصہ ہوا رُوبہ رُو گفتگو کیے۔ سنا  تھا جسے تم کوٹھے والا کہتے ہو اس نے بڑی ریاضت کے بعد تمہیں دعوت دی۔ لگتا تو ایسے تھا کہ جیسے تم اس پہ احسان کرو گے۔ مگر نہیں وہ تو اس وقت تمہارے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار ہوا کہ بقول تمہارے تم اس کے وجود سے منکر تھے۔ ایک بات بتاؤ یہ کسی کے وجود سے انکار کر کے اسی کے بلاوے پہ جانا کیسا لگتا ہے۔ تم تو اپنا ایک اور خدا تخلیق کرنے والے تھے نا۔  لیکن پھر ایک ہی ”لبیک ”پہ اپنا آپ اسے سونپ آئے۔ دل کے سوتوں کو سرشار کر گزرے۔ کتنے عجیب ہو نا تم۔ اوپر سے کہتے ہو یہ ایک انجان، جاہل اور مخلص زائر کی آپ بیتی ہے۔ حد ہے مفتی حد۔ میری باتوں پہ تم ہمیشہ ایسے ہی ابہام زدہ ہنسی ہنستے ہو۔

اس سفر میں تم کتنوں سے ملے۔ تمہیں جگہ جگہ اس کی نشانیاں بکھری ملیں۔ تم قدرت سے بگڑتے بنتے رہے۔ ہر جگہ کو اپنے مطلب کی جگہ سے جوڑنا تمہارا پسندیدہ کھیل ہے نا۔ جیسے کالے کوٹھے کی منڈیر سے تمہارا محبوب جس سے تم چہرہ چھپائے پھرتے تھے تمہیں  مسکراتا دکھائی دیا۔ ارے جب تم اسے جان ہی گئے تھے تو دوسروں پہ سودا گری کا ٹھپہ کیوں لگا دیا۔ بھئی ان کی مرضی وہ اپنے خدا کو جیسے چاہے استعمال کریں۔

تم کیا کرتے رہے جب جب تمہیں موقع ملا۔ کبھی تمہیں خود سے بو آنے لگی۔ کبھی عورتیں تمہیں کسی اور ہی سیارے کی معلوم ہوئیں۔ کبھی تم نے مسجد نبویﷺ سے دوڑ لگا دی۔ تو کبھی حجرِ اسود کو چومنے سے انکار کر دیا۔ ارے کالے کوٹھے کے جھرنے تلے ہو جاتے نا تم بھی گیلے۔

نہیں تمہیں تو جمرہ بننے کا شوق تھا ناں۔ کیا یار بڑے بنے پھرتے ہو تم بھی۔ اپنے لیے جمع کیں بھی تو کیا چھوٹی چھوٹی کنکریاں۔ تمہیں کنکریاں نہیں گولوں کی ضرورت تھی۔ دیکھو تم نے کوئی ایسا ویسا بڑا تیر نہیں مارا تھا۔ ہاں تمہارے لیے ضرور ہو گا۔ میں تمہارے سفر کے راگ نہیں الاپوں گی کہ تم نے کب، کہاں، کیسے کیا کیا۔ کس سے ملے اور کہاں ششدر رہ گئے۔ کون سی مخلوق نے تمہیں دنگ کر دیا اور کہاں تم اکیلے رہے۔ عورتوں کی بو تمہیں کب اور کہاں آئی اور اپنے آپ کو تم نے کیسے پہچانا۔

وہ جو ذوالفقار احمد تابش کہتا پھرتا ہے ناں کہ یہ تمہاری معافی کی داستان ہے۔ ارے کاہے کی داستان صاحب۔ تمہارا بھانڈا تو تمہارے دوستوں نے پھوڑ ڈالا۔ ارے کیا کیا کہہ گئے۔ اور تم مُنھ ہی تکتے رہ گئے۔ ابنِ انشا کی بات میں دہرانا نہیں چاہتی البتہ اقبال نے اچھا شکرانہ ادا کیا کہ چلو اچھا ہوا جیسے گئے تھے ویسے ہی آگئے۔

ایک بات سے بس ایک بات سے اختلاف ہے مجھے مفتی۔ تم جیسے گئے تھے ویسے تو بالکل نہیں لوٹے۔ تمہارے ساتھ تمہارا کالے کوٹھے والا لوٹا۔ وہ جس کا گھیرا تم اپنے گرد محسوس کرتے ہو۔ ہاں وہی کہ جس کے گرد تم چکر کاٹنے کو بے تاب رہے کہ کہیں تم وہیں کے ہی نا ہو جاؤ۔

لیکن پتا ہے جو ممتاز تھا نا وہ وہیں رہ گیا تھا۔ اور مفتی اپنے پورے جوبن سے لوٹا۔ لبیک اس کے لیے فقط خدا سے ملنے کی ایک کہانی تھی۔ ایک خواب جسے اس نے کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا۔