میرا شہر کہاں گیا؟

میرا شہر کہاں گیا؟

میرا شہر کہاں گیا؟

از، آدم شیر

محمد سلیم الرحمن صاحب کے گھر سے دو گلیوں کے فاصلے پر میری سسرال ہے۔ سو سسرال جاؤں تو بیوی بچوں کو سسرال چھوڑ کر اُدھر پہنچ جاتا ہوں۔ اسی طرح خالد فتح محمد صاحب کے گھر سے چند منٹوں کی دوری پر میری ددھیال ہے سو گوجرانوالہ جاؤں تو خالد صاحب سے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت مل جاتی ہے۔

ایک دو روز پہلے ددھیال حاضری سے پہلے راستے میں خالد فتح محمد صاحب سے کتب کا لین دین کرنا تھا سو وہ گاڑی لے کر لاری اڈے پہنچے اور تبادلۂِ کتب وہیں ہو گیا۔ اس کے بعد خالد صاحب کے گھر گئے اور پُر تکلف ناشتہ کیا۔ پھر بازار گردی کو نکل پڑے۔ خالد صاحب نے گیارہ کے گیارہ بازار پیدل گھمائے اور یہ دیکھے بھی پیدل ہی جا سکتے ہیں۔

وہ قدم قدم پر رکتے کہ فلاں کردار یہاں سے اٹھایا، فلاں کو یہاں بٹھایا، میرا سارا فکشن میرے گیارہ دروازوں میں ہے۔ یہ دیکھو جالندھر سویٹ، یہ سب سے پرانی مٹھائی کی دکان ہے، یہاں کڑاہی سے نکلتے ہوئے گلاب جامن زبر دستی کھلائے گئے کہ اگر یہ نہ کھائے تو پاپ ہو جائے گا۔ یہ نکا چوک ہے، یہ کمپنی باغ ہے، وہ بڑا چوک آ گیا، یہ گلہ قصائیاں مشہور تھا جہاں نیچے چار ٹانگوں اور اوپر دو ٹانگوں والے گوشت کی دکانیں تھیں۔ اب اس بازار میں قصاب ہیں نہ بالا خانے۔ اس کا نیا نام جناح بازار ہے۔

ہر پرانے شہر کی طرح یہاں اردو بازار بھی ہے مگر یہ بازار لاہور کے اردو بازار سے بالکل مختلف ہے۔ لاہور کے اردو بازار میں کتابوں کاپیوں کا کار و بار ہوتا ہے مگر گوجرانوالہ کے اردو بازار میں دوسری اشیاء کی دکانیں ہیں۔ پورے بازار میں کتب سے متعلق ایک دو دکانیں ہیں، وہ بھی درسی کتب کی۔

خالد صاحب نے ہری سنگھ نلوا کی حویلی خصوصی طور پر دکھائی۔ وہی ہری سنگھ نلوا جس کے نام پر ہری پور شہر آباد ہے، مگر اس کی اپنی حویلی خستہ حال ہے کہ اس کے مکینوں کو حویلی کی تاریخی اہمیت سے کوئی غرض نہیں، اس حویلی کی بیرونی دیوار پر جہاں ہری سنگھ نلوا لکھا ہوتا تھا، وہاں سیمنٹ پھیر کر ماشاء اللہ لکھ دیا گیا ہے۔ یہ بھابھڑیوالہ مندر ہے، جین مندر، اس میں موجود تمام اشیاء لاہور عجائب گھر کو منتقل ہو گئی تھیں، اور اس مندر کی باقیات میں شمار مینار کے نیچے مدرسہ ہے جس کے سامنے بیٹھے چار مولوی صاحبان عجیب نظروں سے ہمیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر کھڑے دیکھ رہے تھے۔ جہاں ہم نے لیمن اپ پیا، وہاں سے سیالکوٹی دروازہ شروع ہوتا ہے۔


مزید دیکھیے: بوڑھا فوٹوگرافر اسلام آباد کے بِیتے دنوں کو یاد کرتا ہے  از، زاہد یعقوب عامر


انگریز بہادر نے اس دروازے کو برانڈرتھ گیٹ کا نام دیا، مگر گوجرانوالیے اس بات کے لیے سراہے جانے چاہییں کہ وہ اب تک اسے سیالکوٹی دروازہ ہی کہتے ہیں کہ یہاں سے سیالکوٹ کو لاری جاتی تھی کبھی۔ یہاں لاہوری دروازہ بھی ہے جہاں پر نئی ٹائلیں لگی ہوئی ہیں مگر یہ دروازہ سارے کا سارا چھتریوں، ترپالوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔

یہاں سے چند قدم کی دوری پر بر لبِ جی ٹی روڈ مہا راجہ رنجیت سنگھ کے باپ سردار مہا دیو کی مڑھی ہے اور مڑھی کے سامنے ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کا دفتر ہے اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے دفتر سے نوے کے زاویہ پر دور دیکھیں تو سابق وزیر تجارت کا پٹرول پمپ ہے۔ مڑھی کے بالکل سامنے گوجرانوالہ کا پرانا ریلوے سٹیشن ہے جس کے سامنے گوجرانوالہ کا ٹی ہاؤس تھا، اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ گوجرانوالہ شہر کے مرکزی علاقے میں رنجیت سنگھ کے باپ کی مڑھی ہے جس پر کسی نے قبضہ کیا ہوا ہے جس کے چمچے چانٹے مڑھی دیکھنے نہیں دیتے؛ کہتے ہیں کہ ہماری رہائش ہے اور چرس کے نشے میں دُھت یہ بھی سناتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے بچے ہیں، ہمیں اس سے کیا؟

اس باب میں تفصیل پھر سہی لیکن خالد صاحب جس طرح قدم قدم پر آگاہی دے رہے تھے، مجھے یہی محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مجھے نہیں بتا رہے بَل کہ خود سے پوچھ رہے ہیں کہ میرا شہر کہاں گیا؟ اور یہ بات ہر پرانے شہر کا ہر پرانا آدمی خود سے پوچھتا ہے جس طرح میں سوچتا ہوں کہ میرا لاہور کیا ہوا؟

یہی سوال مجھے اس وقت بھی خود سے پوچھنا پڑاجب میں خالد صاحب سے رخصت لے کر دادی گھر پہنچا اور وہاں جاتے ہی میں نے چچا زاد سے کہا کہ چلو نہر پر نہانے چلتے ہیں مگر، اپر چناب سے نکلی اور گوندلانوالہ پنڈ سے گزرتی جس نہر میں مَیں ہر بار گوجرانوالہ پہنچنے پر بچپن میں بھی نہاتا تھا، اب اس نہر میں کوئی نہیں نہاتا کیوں کہ اس نہر میں اب نئی بننے والی رہائشی سکیموں کے گٹروں اور ہسپتال کا زہریلا پانی بھی بہایا جاتا ہے، سو مجھے اب یہ پوچھنا چاہیے کہ میرا شہر کیا ہوا؟ میرا پنڈ کیا ہوا؟