استنبول : یہ رشتہ و پیوند

aik Rozan writer
ڈاکٹر شاہد صدیقی، صاحبِ مضمون

استنبول : یہ رشتہ و پیوند

ڈاکٹر شاہد صدیقی

ترکی کاشہراستنبول، باسفورس کے کنارے ہوٹل کے کمرے کاخوبصورت ٹیرس؛ ٹیرس سے اُس طرف خوش نما منظروں کاایک جمگھٹا۔ دائیں بائیں اورسامنے حد نظرتک پانی کا پھیلاو اورسطح آب پرتیرتے ہوئے رنگ برنگ بجرے اورکشتیاں۔ ٹیرس سے بائیں طرف نگاہ کریں توایک طویل پل دکھائی دیتاہے جو ایشیا اور یورپ کو ملاتا ہے پل کیا ہے محراب کی صورت ایک قوسِ قزح ہے جس نے مشرق اور مغرب کے کناروں کو اپنے رنگوں میں باندھ رکھا ہے یہاں سے دیکھیں تویورپی حصے میں واقع بلندیوں پر واقع عمارتوں پر دھوپ کا اُجلا پن ہے۔ پُل کے اِس طرف ایشیائی حصے میں دھوپ کجلائی ہوئی ہے۔
ٹیرس میں دوسفید کرسیاں جن کے درمیان سفید گول میز۔ کرسیوں پر آمنے سامنے میں اورمیرا بیٹا۔ وہ جوآٹھ برس پہلے گھرسے آنکھوں میں خواب سجا کر سات سمندر پار گیا تھا جلد واپس آنے کے لیے۔ لیکن خوابوں کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ان کا سفرکہیں تمام نہیں ہوتاجہاں ایک خواب کی سرحد ختم ہوتی ہے وہیں سے ایک نئے خواب کا آغاز ہوتا ہے وہ اب بھی سات سمندر پار خوابوں کے نئے جزیرے دریافت کر رہا ہے۔ ہم باپ بیٹا کچھ دنوں کے لیے ترکی میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ پھر اسے واپس سات سمندر پار چلے جانا ہے اور مجھے پاکستان۔ ٹیرس پر بیٹھے سمندر کی نم ہوا ہمارے چہروں کو چھو رہی ہے اور ہم ایک دوسرے کو اپنا احوال سنا رہے ہیں پھر ہم ہوٹل کے قرب و جوار میں نکل جاتے ہیں۔ قریب ہی باسفورس کے ساحل پر واقع ایک مارکیٹ اور ایک قدیم مسجد ہے سمندر کا پانی جس کی دیواروں کو چومتا ہے۔
استنبول روایت اور جدت کا خوبصورت سنگم ہے جہاں قدم قدم پر ماضی اور حال گلے ملتے نظر آتے ہیں۔ روایت سے رابطہ ان تاریخی عمارات کی بدولت ہے جہاں دن بھر سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ ایسی ہی ایک عمارت توپ کاپی محل ہے جسے پندرھویں صدی میں تعمیر کیا گیا اس کے فنِ تعمیر میں ترکی کے مشہور معمار سنان کے دستِ ہنر کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ محل سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد عجائب گھر بنا دیا گا ہے۔ محل کے مختلف حصے ہیں اور وسعت اتنی کہ سارا محل دیکھنے میں پورا دن گزر جاتا ہے۔ محل کے در وبام پر نقوش نگاری اور خطاطی کے خوبصورت نمونے نظر آتے ہیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے مشہور خطاط مصطفی عزت آفندی کے نقش جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ محل کے مختلف حصے دیکھتے دیکھتے اب ہمیں تھکان کا احساس ہو رہا ہے ہم قلعے کی حدود کے اندر سیڑھیاں اتر کر باسفورس کے کنارے ایک خوبصورت ریستوران میں جاتے ہیں۔ یہاں سے پانیوں اور اُجلے آسمان پر چلتے ہلکے دُودھیا بادلوں پر نگاہ کریں تو لگتا ہے حسن مجسم ہو کر رہ گیا ہے۔ میں سوچتا ہوں محل کے مکینوں نے یہ منظر کتنی بار دیکھا ہوگا پھر میں دور تک پھیلے ہوئے پانیوں کو دیکھتا ہوں، وقت کا بہاو بھی پانی کی طرح ہے جو اپنی رو میں بہہ رہا ہے اور جاکر کبھی واپس نہیں آتا۔
ہماری اگلی منزل ایک اور تاریخی عمارت ہایا صوفیا (Hagia Sophia) ہے۔ یہ کسی زمانے میں کلیسا کی عمارت تھی۔ اس انتہائی پرشکوہ عمارت کی تعمیر چھٹی صدی میں مکمل ہوئی۔ عمارت کے دروازے اور کھڑکیاں بہت بڑی ہیں جو ہوا اور روشنی کی فراہمی کو یقینی بناتی ہیں۔ دیواروں پر صلیبوں کے ڈیزائن ہیں۔ پندرھویں صدی میں جب ترکی سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنا تو کلیسا کو مسجد میں بدل دیا گیا۔ عمارت کے اوپر مینار تعمیر کیے گئے۔ امام کے لیے منبر بنایا گیا۔ بیسویں صدی میں مصطفی کمال اتاترک نے عمارت کو عجائب گھر میں بدل دیا اب یہ عمارت عیسائیوں اور مسلمانوں کی ایک مشترکہ میراث بن گئی ہے جہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آتے ہیں اور وقت کی افتادگی پر غور کرتے ہیں۔ ہایا صوفیا کی سیدھ میں سلطان کی بنائی ہوئی خوبصورت مسجد ہے جسے نیلی مسجد بھی کہتے ہیں۔ مسجد کی تعمیرکاایک مقصد ہایا صوفیا کلیسا کے مقابل اتنی ہی شاندار عمارت کا قیام تھا۔ ترکی کے مشہورشاہی معمارسنان کا انتقال ہوچکاتھا لیکن وہ اپنی زندگی میں ہی حسنِ تعمیرکافن اپنے ہونہارشاگرد صدف کار مہمت آغا تک منتقل کرچکا تھا۔ شاگرد نے اپنے استاد کی لاج رکھ لی۔ نیلی مسجد کے دروبام پرسنان کے فنِ تعمیرکی چھاپ نظر آتی ہے۔ مسجد کے گنبد اورمینار اوران کے درمیان فاصلہ اور توازن۔ سنان عالمِ بالا سے نیلی مسجد کودیکھ کرمیں اپنے شاگرد کی ہنرمندی پرخوش توہوتا ہوں گا۔
اب ہم ماضی کے جزیروں سے نکل آتے ہیں اور جدید ترکی کے اہم مرکز تقسیم سکوائر کی طرف چلتے ہیں یہیں سے کسی زمانے میں پانی کی لائنوں کے ذریعے مختلف علاقوں کوپانی سپلائی کیاجاتا تھا آج کل یہ ترکی کی مارڈن تاریخ کااہم نشان ہے جہاں ترکی کی جنگ آزادی کی یادگاربھی ہے کچھ ہی فاصلے پراستنبول کی سب سے مصروف سٹریٹ استقلال سٹریٹ ہے جوتقریباً ڈیڑھ کلو میٹر طویل ہے دونوں طرف سے آتے جاتے لوگ ایک بہاومیں چل رہے ہوتے ہیں۔ استقلال سٹریٹ کے دونوں طرف مٹھائی، موسیقی، کپڑوں اور کتابوں کی دکانیں ہیں خاص طور پر آئس کریم کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کی گھنٹیاں آنے والوں کواپنی جانب متوجہ کرتی ہیں آئس کریم والے اپنے کرتبوں سے گاہکوں کومحظوظ کرتے ہیں کون آئس کریم کے منتظر گاہکوں کو آئس کریم دینے سے پہلے کئی بار چکمہ دیتے ہیں یوں آئس کریم کے ہمراہ کھیل تماشا مفت ملتا ہے۔
استنبول کا ایک اور سیاحتی مرکز یہاں کا گرینڈ بازار ہے جہاں بے شمار دکانیں اور بھول بھلیوں جیسے راستے ہیں۔ یہاں پر بھاو تاو ضروری ہے لیکن سیاحوں کے پاس اتنا وقت ہی کہاں ہوتا ہے ان کا تو جوگی والا پھیرا ہوتا ہے۔ اِدھر آئے اُدھر جانے کا نقارہ بج اٹھا۔اور اب ترکی کے ایئرپورٹ پر بیٹھے ہمیں بھی ایسے ہی لگا جیسے دِن پر لگا کر اُڑ گئے۔ اِس وقت ایئرپورٹ کے ایک ریستوران پر ہم دونوں بیٹھے ہیں۔ میں اور میرا بیٹا۔ ابھی کچھ دیر میں اس کی فلائٹ کا وقت ہو جائے گا اور وہ اپنے خوابوں کے نگر لوٹ جائے گا اور اس کے دو گھنٹے بعد میں پاکستان کے لیے روانہ ہو جائوں گا۔ کافی کے کپ رکھے ہم آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔ میں اس کے چہرے کو دیکھتاہوں اورسوچتاہوں اگلی بار جانے ہم کب ملیں گے۔ ابھی وہ میرے سامنے بیٹھا ہے کچھ دیر بعد وہ چلا جائے گا اور میں اکیلارہ جاوں گا۔ فراز نے شاید اسی صورت حال کے لئے کہا تھا ؎

یہ قُرب کیا ہے کہ تو سامنے ہے اور ہمیں
شمار ابھی سے جدائی کی ساعتیں کرنی

ہم سوچتے ہیں اس مختصر وقت کا بھرپور استعمال کیسے کیا جائے؟ باتیں بہت ساری باتیں۔ استنبول کی باتیں یہاں گزارے شب وروزکی باتیں۔آنے والے وقتوں کی باتیں۔ میں اسے جلد جلد گھر فون کرنے کی نصیحت کرتا ہوں وہ مجھے روزانہ باقاعدہ سیر کرنے کو کہتا ہے ہم دونوں ایک دوسرے کی بات ماننے کاعہد کرتے ہیںمگر دِل میں جانتے ہیں یہ جھوٹ موٹ کے وعدے ہیں اب اس کی فلائٹ کا وقت ہوگیا ہے ہم گلے ملتے ہیں۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ وہ میری آنکھوں کی نمی نہ دیکھ سکے۔ وہ کندھے پر بیگ ڈال کر مڑتا ہے اور اپنے لاونج کی طرف چلنے لگتا ہے۔ میری آنکھوں کی نمی منظر دھندلا دیتی ہے۔

اسی دھندلاہٹ میں دیکھتا ہوں کہ محراب کی صورت ایک قوس قزح ہے جس نے مشرق اور مغرب کے کناروں کو اپنے رنگوں میں باندھ رکھا ہے۔ وہ اس دھنک پر قدم رکھتا چلتا جا رہا ہے جس کے آخری سرے پرواقع عمارتوں پر دھوپ کا اُجلا پن ہے۔ کتنے ہی خواب بانہیں پھیلائے اُسے اپنی طرف بلا رہے ہیں اور وہ ان کی جانب کھنچا جا رہا ہے لیکن اپنے خوابوں تک پہنچنے کی سرشاری میں اسے نہیں معلوم کہ پُل کے اِس طرف میں ںجانے کب سے اسے دور جاتے دیکھ رہا ہوں اس امید پرکہ شاید وہ ایک بار پلٹ کر واپس دیکھے۔

About ڈاکٹرشاہد صدیقی 57 Articles
ڈاکٹر شاہد صدیقی، اعلی پائے کے محقق، مصنف، ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں۔