مشعال سے معنون شہر مردان اور سوات کا سفر

سرکس سے باہر گُزرے دو دن

Khizer Hayat
خضرحیات

 مشعال سے معنون شہر مردان اور سوات کا سفر

از، خضر حیات

رواں ہفتے مشعال خان کے شہر مردان جانے کا اتفاق ہوا۔ مشعال خان کا مردان اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یری  سے پہلے یہ شہر میرے ذہن میں کسی خاص یاد (اچھی یا بری) کی وجہ سے کبھی بھی آباد نہیں رہا۔ اس کے بارے میں اتنا ہی پتہ تھا کہ نقشے میں پشاور کے نواح میں ایک نقطہ اس نام کا بھی آتا ہے اور یہ خیبرپختونخوا صوبے میں پشاور کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے اور بس۔

اپریل 2017ء کے بعد اس شہر کا نام ذہن میں آتے ہی ایک خاص طرح کی وحشت پیدا ہونے لگتی ہے، خوف کے سایے اردگرد منڈلانے لگتے ہیں اور میرے ذہن میں پُرپیچ گلیوں والا ایک ایسا شہر نمودار ہوتا چلا جاتا ہے جس کا چپہ چپہ پشیمان ہو اور مشعال  کی یاد میں آنسو بہا رہا ہو۔

مشعال  کے بعد مردان میرے ذہن میں ایک مسلسل مغموم یاد کی صورت میں رقم ہو گیا ہے اور شاید یہ یاد ہمیشہ یونہی تڑپاتی رہے۔ شاید اسی پسِ منظر کا اثر تھا کہ مردان مجھے حقیقت میں بھی اتنا ہی سنسان اور مغموم نظر آیا جتنا میرے ذہن میں نظر آتا تھا۔ ایک مسلسل ہراس کی زد میں دُبکا ہوا، گھُٹ گھُٹ کے سانسین لینے والا اور ہمہ وقت کسی کی یاد میں سسکیاں بھرنے والا مردان مجھے بھی اپنی اسی مخصوص فضا کے اثر میں لیتا چلا گیا۔ چنانچہ ارادے اور کوشش کے باوجود عبدالولی خان یونیورسٹی جانے کی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی (اگر پیدا ہو بھی جاتی تو شاید اُس خونی جگہ کو دیکھنے کا حوصلہ دل میں پیدا نہ ہو پاتا) لہٰذا اس ہراساں فضا میں محض چند سانسیں لے کر ہی دل کو تسلی دے لی اور آگے بڑھ گیا۔

ہماری اگلی منزل سوات طے پائی اور سامان باندھ کر مردان سے بٹ خیلہ کے راستے سوات پہنچ گئے۔ مردان سے سوات تک کا راستہ خاصا پیچدار تھا۔ سڑک نے کسی خاص منصوبہ بندی کے تحت ہماری گاڑی کو زیادہ دیر تک ایک سیدھ میں نہیں چلنے دیا، یہ کبھی ایک تنگ قوس کی شکل میں دائیں کو مڑ رہی ہے اور کبھی بائیں پھسل جاتی ہے۔

سانپ نما اس راستے کے دائیں جانب گہرائی میں آبادی کا ثبوت دیتی روشنیان ٹمٹا رہی تھیں اور بائیں جانب سڑک کے ساتھ ساتھ کٹے ہوئے پہاڑ چل رہے تھے۔ میں اس دوران کھڑکی والی طرف بیٹھ کے یہی سوچ رہا تھا کہ ابھی کل کی بات لگتی ہے جب ان پہاڑوں اور ان ہواؤں پر طالبان نام کی ایک سوچ کا غاصبانہ قبضہ تھا۔ اُس وقت یہاں کس قسم کا ماحول ہوگا کہ پہاڑوں پر بھی خطرہ ہے اور میدانوں میں بھی۔ پہاڑوں کا سینہ چاک کرکے بنائی گئی اس سڑک پر اسی طرح کی سوچوں میں ڈبکیاں کھاتے ہم سوات پہنچ گئے۔ ہمارا قیام مینگورہ شہر کو چھُو کر گزرتے دریائے سوات کے بالکل کنارے پر واقع ایک ہوٹل میں تھا۔ دریا تو بہت دھیرے دھیرے گھِسٹ گھِسٹ کے بہہ رہا تھا مگر مجموعی طور پر جو ماحول اس نے پیدا کر رکھا تھا اس پہ لاکھ نظارے قربان کیے جا سکتے تھے۔

دریا کی بغل کے ساتھ ساتھ بڑی سڑک بچھی ہے جس کی دوسری جانب سیاحوں کے لیے ہوٹل بنائے گئے ہیں اور جہاں رات کا منظر روشنیوں میں نہا کر نہایت اجلا لگنے لگتا ہے۔ ہمارا قیام بھی ایسے ہی ہوٹل میں تھا لیکن کمرے میں جانے سے پہلے ہم نے کچھ دیر دریا کنارے رکنے اور اس کی باتیں سننے کا فیصلہ کیا۔ شام میں جو دریا اردگرد کے شور کی وجہ سے نہایت چپکے سے بہتا جا رہا تھا اب کہانیاں سنانے لگا تھا۔ رات یہاں کچھ جلدی ہی سکون کے پہر میں داخل ہو گئی تھی اور یہی وہ وقت ہے جب اس ماحول پر دریا کی حکمرانی قائم ہو جاتی ہے۔ ہم نے سڑک پر ادھر ادھر چلتے ہوئے دیر تک دریا کی باتیں سنیں۔ اس لمحے میں دریا کسی پھنکارتے ہوئے ناگ کی صورت میں بہتا چلا جا رہا تھا جس کو اپنی مستی کے علاوہ کسی کی خبر نہیں ہوتی۔ چھوٹے چھوٹے پتھروں کو اپنے نیچے روندتا ہوا دریا وقت کے دھارے کی مانند بہتا چلا جا رہا تھا اور پورے ماحول کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا۔

دریائے سوات کی دوسری جانب وادی سوات کا علاقہ تھا جب کہ اِس جانب مینگورہ شہر اور سیدو شریف آباد تھے۔ صبح ہوئی تو اس سمسیا میں پڑگئے کہ کہاں کی سیر کی جائے۔

  2مشعال سے معنون شہر مردان اور سوات کا سفر

بحرین، مالم جبہ اور کالام یہاں سے کافی فاصلے پر تھے اور ہمارے پاس دن بھی محض آج کا ہی تھا۔ آخرکار ہم نے فیصلہ کیا کہ ان وادیوں کی سیر کو کسی دوسرے وقت پر اٹھا رکھتے ہیں آج اس علاقے کی گلیوں، بازاروں، لوگوں، دکانوں، ہوٹلوں کو پیدل چلتے ہوئے قریب سے دیکھا جائے اور لوگوں سے بات چیت کی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا۔ مینگورہ فضاگاٹ بائی پاس پر واقع اپنے ہوٹل ریلیکس ہلٹن پیلس سے ہم نے پیدل سفر کا آغاز کیا اور مینگورہ کے گلی کوچوں اور بازاروں سے ہوتے ہوئے سیدو شریف تک چلتے گئے۔ سیدو شریف سوات کا دارالحکومت ہے۔

اس مٹرگشت میں ہمیں دیکھنے کو بے پناہ قابل دید مناظر ملے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، جگہ جگہ گندگی، اداس چہرے، سیوریج کا ٹوٹا پھوٹا نظام تصویر کو ایک خاص رنگ دے رہا تھا۔ ہمیں بازاروں میں مکمل طور پر مقامی چہرے نظر آئے۔ خواتین کی تعداد جو ہمیں نظر آئی وہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ جو دو چار خواتین نظر آئیں انہوں نے جالی دار ٹوپی والے برقعے اوڑھ رکھے تھے۔ اس کے علاوہ سکول جانے والے بچوں کی چھٹی کا وقت تھا پینٹ شرٹ میں ملبوس چمکتے دمکتے چہروں والے یہی بچے یہاں کے مستقل کے امین ہیں اور ان کے چہرے دیکھ کر محسوس ہوا کہ یہاں کا مستقبل بہت روشن ہے۔ مینگورہ شہر کے بازار میں جگہ جگہ پرانی عمارتیں بھی نظر آئیں جو جزوی طور پر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے تھیں وگرنہ اکثر کے بازو کاٹ کر نئی طرز کی عمارتیں ان کے ساتھ جوڑ دی گئیں تھیں۔

اسی دوران بازاروں میں ہی واقع پرانی مساجد بھی نظر آئیں جن کے بارے میں لوگوں کا کہنا تھا کہ پتہ نہیں کب سے ہیں، ہم تو جب 3 مشعال سے معنون شہر مردان اور سوات کا سفر سے آئے ہیں انہیں یہیں دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں یہاں بازار میں ایک سینما بھی نظر آیا جو ہمارے لیے خاصا حیرت انگیز منظر تھا۔ یہ باقاعدہ آباد سینما ہے اور یہاں پشتو فلمیں چل رہی ہیں۔ خوشی ہوئی کہ طالبان کے خلاف دوبدو لڑائی تو خاصی کامیاب ہو گئی ہے، اس کے علاوہ ذہنی لڑائی بھی لڑی جا رہی ہے۔ دوسری خوشگوار تصویر وہ تھی جب ہم نے ایک کھلے میدان میں نوجوانوں کو فٹ بال کھیلتے ہوئے دیکھا۔ یقین مانیں کہ خوشی سے نہال ہی ہو گئے کہ دہشت گردی سے شدید طور پر متاثر ہونے والے علاقے میں اب کھیلوں کی واپسی ہو گئی ہے۔ فٹ بال کے پیچھے بھاگتے نوجوان ہی اس وادی کا اصل چہرہ ہیں اور یہی یہاں کی درست صورت حال ہے۔

اس دوران بازاروں میں چلتے پھرتے ہم نے کئی دکانوں پر رک کر بھاؤ تاؤ بھی کیا۔ ان میں سے بیشتر دکانیں ڈرائی فروٹ کی تھیں۔ اور کچھ گرم کپڑوں والی بھی تھیں۔ ایک الیکٹرونکس کی دکان کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں جس میں بڑی بڑی بندوقیں کھلونوں کے طور پر بیچی جا رہی تھیں۔ ہمارے ہاں تو اب کھلونے کے طور پر پستول کا استعمال بھی خاصا خطرناک سمجھا جاتا ہے لیکن وہاں ابھی بھی بندوق کو کھلونا سمجھ کے بیچا جا رہا ہے۔ قبائلی روایات میں اسلحہ ویسے بھی بہت خاص مقام رکھتا ہے۔

گھومتے گھومتے ہمیں سیدو شریف میں ایک پبلک لائبریری کا بورڈ نظر آیا جس پر لائبریری کے نام کے ساتھ پاک فوج کا شکریہ بھی درج تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقامی طور پر کھیلوں کے میدان آباد کرنے اور لائبریریاں بنوانے پر پاک فوج کو خراجِ تحسین پیش کیا جانا چاہئیے۔ دیارِ غیر میں کتابوں کی رفاقت کا نصیب ہونا بھی ایک خوش قسمتی تھی چنانچہ بنا سوچے ہم نے اس جہانِ علم میں ڈبکی لگا دی۔ پبلک لائبریری کتابوں کے ایک بیش قدر خزانے سے بھری ہوئی تھی۔ طلبہ اور عام شہری تھوڑی سی سکیورٹی کے عوض یہاں ممبرشپ حاصل کر سکتے ہیں اور ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ لائبریری کے دونوں ہالز میں تحقیق و مطالعہ کرنے والے دو درجن سے زیادہ لوگ موجود تھے۔

مشعال سے معنون شہر مردان اور سوات کا سفر 4

لائبریری میں تین گھنٹے کیسے گزرے پتہ ہی نہیں چلا۔ یہاں سے نکلے تو سوات میوزیم قریب ہی تھا اور ہماری منزل بھی وہی تھی لائبریری تو بیچ میں بغیر کسی خبرگیری کے آن کودی تھی۔ پانچ بج چکے تھے چنانچہ جب میوزیم پہنچے تو وہاں کے حفاظت گیر جو ہمیں نہایت محبت سے ملے، نے معذرت کی کہ میوزیم بند ہو چکا ہے۔ آپ کو پھر کسی دن آنا پڑے گا چنانچہ صحن میں ہی بیٹھ کے کچھ دیر سستانے لگے۔ میوزیم نہ دیکھ سکنے کے دکھ کو لائبریری میں اتنے محبوب لوگوں سے ملاقات کی خوشی نے مغلوب کر لیا اور پوری شام ہمیں لائبریری والے معرکے نے مسحور کیے رکھا۔ خیر یہاں سے نکلے تو سوات مرغزار جانے کا قصد کیا۔ پوچھنے پہ پتہ چلا کہ وین میں آدھے پونے گھنٹے کا راستہ ہے جبکہ رکشہ تین گھنٹے لگائے گا۔

ہم سڑک کنارے کھڑے کافی دیر تک وین کا انتظار کرتے رہے لیکن ہم جہاں کھڑے تھے وہ پوائنٹ خاصا غیر مناسب تھا کیونکہ اس دوران قریب سے گزرنے والی ہر وین ہی سواریوں سے بھری ہوتی اور دور سے ہی معذرت کرتی ہوئی آگے نکل جاتی۔ قریب پون گھنٹہ ہم اسی آس پہ بیٹھے رہے کہ شاید دو سیٹ خالی والی کوئی وین آ جائے مگر ناکام ہو گئے۔ رکشے پہ جانے کا خطرہ یوں بھی مول نہ لے سکے کہ رات نو بجے واپسی کے لیے آخری بس ملنی تھی جس میں ہم بکنگ کروا چکے تھے لہٰذا رکشے میں بیٹھ کے تین گھنٹے میں تو وہاں پہنچنا تھا اور پھر واپسی کا ٹائم۔ ہمیں یہ سودا کچھ من بھاتا نہ لگا تو ہم رکشے میں بیٹھ کے فضاگھاٹ پارک کی طرف نکل آئے۔ یہ پارک بھی دریائے سوات کے عین کنارے پر آباد ہے اور اسی طرف ہے جہاں ہم نے رات گزاری تھی۔ جب ہم رکشے پہ واپسی کا سفر طے کر رہے تھے تو احساس ہو رہا تھا کہ صبح ہم نے پیدل چل کر اچھا خاصا فاصلہ طے کیا تھا۔

 مشعال سے معنون شہر مردان اور سوات کا سفر 5

فضا گھاٹ پارک برلبِ دریائے سوات ایستادہ ہے اور چیڑ کے لمبے لمبے درخت کانوں میں پڑے جھمکوں کی مانند اس کی شان میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ پارک حکومتِ جاپان کے تعاون سے اللہ جانے کیوں بنایا گیا ہے۔ شاید ہماری حکومت نے جاپان میں ایسا ہی کوئی پارک بنوایا ہو اور شکرانے کے طور پر جاپان نے یہ پارک بنوا دیا ہو۔ بہرحال بہت ہی پرسکون جگہ تھی۔ پارک کی وسعت کو دریائے سوات نے محدود کر رکھا ہے۔ عین پارک کی چار دیواری کے ساتھ رگڑ کھاتا ہوا دریا اس وقت ایک تھکا ماندہ مسافر لگ رہا تھا۔

شام کا منظر نہایت خوبصورتی اور مہارت سے مغربی آسمان پر پینٹ کیا جا چکا تھا۔ دریا کے دوسری جانب کھڑے بڑے بڑے پہاڑ مزید اداس لگ رہے تھے۔ میں نے ایک لمحے کے لیے یہ بھی سوچا کہ صدیوں سے اسی جگہ کھڑے یہ پہاڑ آج ہم دو اجنبیوں کو شہر میں دیکھ کر شاید ہم سے ملنا چاہ رہے ہیں اور شاید ایسا ہو کہ وہ اپنے پیروں پر چلتے ہوئے ہماری طرف بڑھیں اور ہمیں گلے لگا لیں۔ ان کے من میں کتنی ہی کہانیاں ہونگی جو وہ ہمیں سنانا چاہتے ہوں گے۔

یہی سوچ کر مجھے پہاڑوں کی اداسی کا سراغ مل گیا مگر میری انہیں گلے لگانے کی خواہش ادھوری ہی رہ گئی۔ سورج دن بھر کے سفر کے بعد تھکا ماندہ مغرب کی آغوش میں جا سویا تھا اور اپنے پیچھے شفق میں سرخی اور سرمئی دھول چھوڑ گیا تھا۔ اس منظر میں قیامت کا سکون اور بلا کی نرمی تھی جس نے بہت دیر تک مجھے اپنے سحر میں جکڑ کے رکھا۔ یہ منظر اس قدر جاذبِ نظر تھا کہ میں تب تک مسلسل اس پر نظریں جمائے بیٹھا رہا جب تک رات نے تاروں سے جڑی کالی سیاہ چادر سارے ماحول پہ اوڑھنی شروع کر دی۔ شام رخصت ہو گئی تھی اور اب رات کی حکمرانی قائم ہو چکی تھی۔ یہ شام اپنی ذات میں بہت خاص تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ کل جو شام لاہور میں مجھے ملے گی وہ اس سے کس قدر مختلف ہوگی۔

صبحیں، دوپہریں، شامیں، راتیں، موسم، بارشیں، ہوائیں، بادل جو ایک دفعہ گزر گئے تو کبھی واپس نہیں آتے۔ ہر نیا لمحہ لمحات و واقعات کی نئے سرے سے صورت گری کر رہا ہوتا ہے اور اسی طرح ہر شام بھی کل والی سے بالکل مختلف اور انوکھا وجود رکھتی ہے۔ کبھی یہ کالے سیاہ بال کھولے آتی ہے، کبھی سرمئی چادر اوڑھے، کبھی چہرے پہ لالی ملے، کبھی سیندور اڑاتی ہوئی اور کبھی بالکل غیرمحسوس طریقے سے دبے پاؤں آ کے گزر جاتی ہے۔ یہ شام بھی ایک منفرد شام تھی۔

رات نے جب کمان سنبھال لی تو ہم نے بھی پارک کو رات کے حوالے کیا اور اگلے پڑاؤ کی طرف گامزن ہو گئے۔ فضا گٹ پارک سے کچھ قدم مزید آگے چلیں تو بچوں کے لیے بنایا ہوا جھولوں والا پارک نظر آتا ہے۔ ہم بھی ٹکٹ لے کر اس میں چلے گئے مگر اس وقت تک ہم کافی تھک چکے تھے اس لیے شور شرابے سے دور ایک کونے میں تنی چھتری کے نیچے پڑے دو بینچوں کو اپنے لیے منتخب کیا اور چائے کافی کے ساتھ گپ شپ کا دور شروع ہو گیا۔ رات کا ابتدائی کچھ حصہ یہاں گزارنے کے بعد جب وقت روانگی قریب آن پہنچا تو ہم یہاں سے نکل پڑے اور ایک بار پھر پیدل چلتے ہوئے ہوٹل تک گئے۔ اپنا سامان اٹھایا اور سیدھا بس اڈے پہنچ گئے۔ اندازہ لگایا جائے تو اس دن ہم کوئی 6 گھنٹے تک پیدل چلے ہوں گے اور اس کا مسلسل احساس ہمیں ہماری ٹانگیں دلا رہی تھیں۔

سوات سے ساڑھے نو بجے ہم لاہور کے لیے نکلے اور بٹ خیلہ سے ہوتے ہوئے مردان پہنچے۔

مردان کے بعد گاڑی اسلام آباد رکی مگر اسلام آباد کے بعد دھند کے آسیب نے پورے ماحول کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ ہماری گاڑی بھی ان بھول بھلیوں میں رینگنے لگی۔ کچھ گھنٹے ہم نے رینگتے گزار دیے اور پھر آگے پہنچ کر سڑک مکمل طور پر بند کر دی گئی۔ موٹروے پر لگے اس پھاٹک نے گاڑیوں کی بوچھاڑ کو روکنا شروع کر دیا اور لمبی لائنیں لگتی چلی گئیں۔ کہیں تین چار گھنٹے کے انتظار کے بعد راستہ کھلا اور گاڑیاں روانہ ہوئیں۔

ہم نے صبح چھ بجے لاہور پہنچنا تھا مگر دھند کا اصرار تھا کہ پوری رات اس کے ساتھ بسر کی جائے چنانچہ وہ جیتی اور ہم ہار گئے۔ اس رفاقت اور شب بسری کا معاوضہ ہمیں اس صورت میں چکانا پڑا کہ آٹھ گھنٹے کا سفر چودہ گھنٹے پر محیط ہوگیا اور ہم دن ساڑھے گیارہ بجے خشکی پر اتر سکے۔ اگرچہ ہم پیدل چل چل کر کافی تھک چکے تھے اور گاڑی میں بھی زیادہ دیر سوتے ہی رہے مگر اس کے باوجود سفر اتنا طویل ہوگیا کہ طبیعت بوجھل ہو گئی تھی۔ مگر چونکہ اس تھکن کو اپنے لیے ہم نے خود ہی منتخب کیا تھا اس لیے یہ تھکن کا بھی ایک خاصا فرحت بخش احساس تھا۔

یوں سیروسیاحت کا یہ دور عارضی طور پر ختم ہو گیا اور ہم ایک مرتبہ پھر روٹین کی زندگی کے سرکس میں آ پہنچے ہیں۔ دیکھیں پھر کب فرصت ملتی ہے!