پاکستان میں آبی وسائل کا ضیاع : مسئلہ اور اس کا حل

ایک روزن لکھاری
محمود حسن، صاحبِ مضمون

پاکستان میں آبی وسائل کا ضیاع : مسئلہ اور اس کا حل

از، ڈاکٹر محمود حسن

پاکستان کا شمار اس وقت دنیا کے اُن چند ممالک  میں ہوتا ھے جو شدید ماحولیاتی مسائل  سے دوچار ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اس وقت  پاکستان میں  ایک ایسے ہمہ جہت مسئلہ کی حیثیت حاصل کر چُکی ہے جس سے صرفِ نظر غفلتِ مجرمانہ سے کم نہیں۔ مُلک میں ماحول کے متعلق آگاہی دلانے والے لکھاری اوراس طرز کی تحاریر کی پاکستانی قارئین کو اشد ضرورت  ہے۔

میرے نزدیک ماحول کی بہتری کے لیے بھی رائے عامہ  کو اُسی طرح  ہموار کیا جانا چاہیے جیسے  پانامہ لیکس  کے بعد کرپشن  حالیہ سیاست کا مسئلہ نمبر ون بن کر ابھرا ہے، حالانکہ قوم پچھلے ستر سالوں سے کرپشن کے ناسور سے دوچار ہے۔

لیکن کیا صِرف ماحولیاتی آلودگی کی جانب  توجہ دلاناہی کافی ہے؟ یا اس  کے حل  کے لیے کچھ تجاویز پیش کرنا اور عملی اقدام  اٹھانا بھی ضروری ہیں؟ اس مختصر مضمون میں میری کوشش ہوگی کہ نہ صرف اس مسئلہ کو زیادہ  سے زیادہ اجاگر کروں بلکہ اس کے حل کے چند تجاویز بھی قارئین کو پیش کر سکوں تاکہ وہ اس کے حل کے لیے کچھ عملی اقدام بھی اٹھا سکیں۔

پہاڑ کی چوٹی سے سرکنے والا برف  کا ایک گولا جب وادی کی جانب سفر (snow balling  effect) ماحولیاتی تبدیلیوں کا سفر”  سنو بالنگ ایفیکٹ شروع  کرتا  ہے تو کوئی گمان بھی نہیں کرسکتا کہ  وادی میں پہنچ کر یہ کس طرح کی ہولناک تباہی کا باعث بنے گا۔ بالکل اسی طرح ماحول میں ہونے والی منفی تبدیلیوں کا عمل اگر ایک  مرتبہ شروع ہو جائے تو اس کے حل میں جس قدر تاخیر سے کام لیا جائے یہ اُسی قدر تباہی کا باعث بنتا ہے۔

موجودہ دھائی میں ہونے والی  مُلکی موسمیاتی تبدیلیاں اس کی واضح علامت  ہیں۔ پاکستان میں آنے والے سیلابوں پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ  یہ صرف پری مون سون اور مون سون کی لمبی بارشوں کا نتیجہ ہی نہیں، بلکہ شمالی علاقہ جات میں پھیلے برفیلے میدانوں اور برف پوش پہاڑی علاقوں میں گرمی کی شدت میں ہونے والے اضافہ کا نتیجہ بھی ہیں۔  گرمی کی شدت میں جس قدر اضافہ ہوگا اُسی قدر گلیشیئر کے پگھلنے کی رفتار  بڑھے گی اور مزید سیلابوں کا سامان بنے گی۔ چونکہ اس مختصر مضمون میں  گرمی کی شدت میں اضافے کی وجوہات بیان کرنا ممکن نہیں،  اس لیے آج  صرف آبی ضیاع کے متعلق   چند گزارشات پیش  ہو جائیں تو بہت سمجھیں۔

پاکستان  لا تعداد قدرتی وسائل سے مالا مال ایک  ملک ہے۔ انہی وسائل میں سے ایک  میٹھے پانی کی فراوانی بھی ہے۔ پاکستان  کا شمار ان  چند خوش قسمت  ممالک میں ہوتا ہے جو وسیع آبی ذخائر کے مالک ہیں۔ سارا سال بہنے والے  چشمے اور دریا، وسیع رقبے پر  پھیلی ہوئی جھیلیں،  ڈیمز،  بیراج اورخطے کا سب سے بڑا  نہری نظام اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انڈس  ریور سسٹم پاکستان کا تقریبا پینسٹھ فی صد حصہ سیراب کرتا ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ دریا پاکستان کے بائیس کروڑ انسانوں کے لیے واحد لائف لائن  ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ نہ تو ہم دریائی اور نہ بارانی  پانی  کو بہتر انداز میں استعمال یا ذخیرہ کرپاتے ہیں اور نہ ہی زمین میں موجود پانی کے ذخائر میں اضافہ کر پاتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہر سال  یہ پانی  زمینوں  اور انسانوں کی تبا ہی کے علاوہ کوئی اور کارِخیر انجام نہیں دیتا۔

جس طرح ہر قدرتی وسیلہ ملک کے عوام کی ملکیت ہوتا ہے بالکل اسی طرح صاف شفاف اور میٹھا پانی بھی ملک کے ہر باسی کا پیدایئشی حق ہے۔ لیکن  پاکستانی عوام کا المیہ یہ ہے کہ نہ تو وہ خود اپنے اس حق سے آگاہ ہیں اور نہ  ہی ان کے اِس حق ملکیت کی حفاظت کے لیے کوئی حکومتی نظام  موجود ہے۔ اِس عوامی المیے کو  واضح  کرنے کے لیے میں  اصل عنوان سے ذرا دور جانے کی اجازت چاہوں گا تاکہ قارئین کو  ریاست کے ایک  شہری  ہونے کے ناطے ان کے  اس حق سے آگاہ  کر سکوں۔

اس حق  کو  میں یہاں  فری پارکنگ لاٹ  کی ایک سادہ مثال سے  واضح کرنے کی کوشش کرونگا۔  فرض کریں کہ اپ کے گھر کے نزدیک  موجودمصروف مارکیٹ  میں فری کار پارکنگ کی سہولت موجود ہے۔ یہ فری پارکنگ چاہے کتنی ہی کشادہ کیوں نہ ہو تمام  کسٹمرز کو فری پارکنگ کی سہولت پھر بھی میسر نہیں ہوتی کیونکہ علاقہ مکین، یہاں سے  ذرا  دُور کے  رہائشی با اثر افراد  اور مارکیٹ کےتاجر اپنی گاڑیاں یہاں صبح سویرے پارک کردیتے ہیں اور رات گئے تک یہ گاڑیاں  “پہلے آئیں اور پہلے پائیں” کے مصداق یہیں پارک رہتی ہیں۔

مارکیٹ کھلنے پر گاہک (عوام) جب اس مارکیٹ تک پہنچتےہیں تو  وہ اپنی گاڑی پارک کرنے کے لیے پریشان نظر آتے ہیں۔ اب  معدودے چند خوش قسمت گاہکوں کے سوا تمام  افراد اپنی گاڑیاں کسی ایسےدور دراز مقام پر پارک کرنے پر مجبور ہیں جہاں انہیں مفت پارکنگ کی سہولت دستیاب  نہیں۔ ذرا سوچیے!  کیا صبح سے شام تک آنے والے ہر گاہک کا اس پارکنگ لاٹ پر حق نہیں؟  اور اگر ہرعام آدمی اس سہولت کا  حقدار ہے تو وہ اپنا حصہ کیوں وصول نہ کرسکا؟  کیا کوئی ایسا نظام  وضع کیا جاسکتا جہاں صبح  سے شام تک ہر آنے والے گاہک کو  فری پارکنگ کی سہولت میسر رہے؟ جی ہاں یہ ممکن ہے۔ لیکن کیسے؟ اس وقت یہ ھمارا  موضوع نہیں۔  آئیے دوبارہ موضوع کی جانب بڑھتے ہیں۔

آبی ضیاع اورآلودگی بھی ایسا ہی ایک عوامی المیہ ہے جس کو اجتماعی کوشش اور ایک منصفانہ نظام حکومت ترتیب دیے بغیر حل کرنا ناممکن ہےتاہم یہاں حالات مندرجہ بالا  پارکنگ لاٹ کی مثال کے برعکس ہیں۔ ہر وہ شخص جسے آبی وسائل میسر ہیں وہ ان کو  جائع  اور آلودہ کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کل  خود اُسے یا اُس کی آنے والی نسل کو یہ وسائل  میسر ہونگے یا  نہیں؟ یا اس کی وجہ سے کوئی دوسرا  فرد اپنے اس پیدائشی حق سے محروم ہو رہا ہے ۔  بظاہر   اپنی جِبلّی  خصوصیات کے باعث اسے اس معاملے سے کوئی سروکار ہونا بھی نہیں چاہیے کہ کسی دوسرے فرد  کو صاف پانی مل بھی  رہا ہے یا نہیں۔

جب تک کسی فرد کے لیے آبی  وسائل کو صاف رکھنے کی بجائے اسے استعمال اور آلودہ کرنا معاشی طور پر نسبتاً آسان  رہے گا وہ ضرور ایسا ہی کرے گا اور  جب تک ایک عام یہ محسوس کرتا  رہے گا کہ اُس کے  گھر، فیکٹری، بازار  اور کھیت کے نزدیک بہتے ہوئے   ندی نالے،  نہر اور دریا  میں  اس کا فضلہ، اس کی ملوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے نقصان دہ کیمیائی اجزاء اور فصلوں میں استعمال ہونے والی کھادیں اور حشرات کُش ادویات کو آبی ذخائر میں انڈیلنا اس کا بنیادی حق ہے وہ ضرور  ایسا ہی کرتا رہے گا تا آنکہ ایک ایسا منصفانہ نظام وضع کیا جائے جو ہر فرد کے حقِ ملکیت کی حفاظت کرے۔ یعنی ہر اس فرد کا حق   جس کو آج پانی میسر نہیں یا مستقبل میں آنے والی اس کی اپنی نسلیں۔

دنیا کے تمام جیتے جاگتے معاشرے اِن مسائل کا حل وسائل کی منصفانہ تقسیم  اور  ایسے جدید سماجی نظام   کو تلاش اور وضع کرکے  آگے بڑھ رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی ایسے ہی قوانین وضع کریں جو پانی  کو ضائع اور آلودہ کرنے والے افراد کی سرکوبی کر سکیں اور ان کے لیے تازہ پانی کے ذخائر کو  صاف  رکھنا انہیں آلودہ کرنے کی بجائے آسان ہو۔ آبی آلودگی کو کم  کرنے کے لیے اگر یہ پالیسی قانونی طور پر اپنا لی جائے کہ “پانی گند ا کرنے والا ہی اسے صاف کرے  گا اور ضائع کرنے والا قیمت ادا کرے گا” تو تھوڑے ہی عرصہ میں آبی آلودگی اور ضیاع میں خاطر خواہ کمی واقع  واقع ہو سکتی ہے۔ آبی ذخائر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے باقی تجاویز درج ذیل ہیں۔

ا۔  تمام بڑے شہروں میں ٓابادی کی تناسب سےسیوئیج واٹر  ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب کیے جائیں۔

ب۔ برساتی پانی کو  ذخیرہ کرنے کی استعداد پیدا کی جائے  لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس  کے لیے  بڑے یا چھوٹے ڈیمز ہی بنائے جائیں بلکہ اس کے اور بھی راستے موجود ہیں۔

ج ۔ تمام ندیوں، برساتی نالوں اور دریاوں کے دونوں کناروں کے اطراف کم از کم  ایک  کلو میٹر لمبی پٹی  میں موجود آبادیوں کو وھاں سے دوسری جگہوں پر منتقل جائے اور اس پٹی میں شجرکاری کی جائے۔

د۔ مائع صنعتی فضلہ، کیمیائی اجزا، کھاد اور حشرات کش ادویات  کے ذریعے  آبی گزرگاہوں کو  آلودہ  کرنے والی  مل  اور فیکٹری کے مالک اور زمیندار  پرنہ صرف پالیوشن ٹیکس عائد کیا جائے بلکہ آلودہ پانی کو صاف  کرنے  کے تمام اخراجات بھی انہی سے وصول کیے جائیں ۔

ح۔  ایسے تمام ڈیٹرجینٹس، صابن  اور شیمپو جن میں نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاشیم کے اجزا پائے جائیں فی الفور بند  کردے جائیں۔

About ڈاکٹر محمود حسن 2 Articles
محمو د حسن پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں، اور پوسٹ گریجوایٹ ڈپلومہ ان انوائرمینٹل مینیجمنٹ، کینیڈا سے حاصل شدہ ہیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر تدریس و تحقیق سے منسلک رہے ہیں۔ آپ اس وقت مسسی ساگا، کینیڈا میں مقیم ہیں۔

5 Comments

  1. پاکستان میں آبی ضیاع اس ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن بدقسمتی سے حکمران طبقے کی ترجیحات کچھ اور ہیں. اس مضمون میں اتنے اہم مسئلے کی سنگینی کو بہت خوبصورت انداز میں اجاگر کیا گیا ہے. شاید کہ کبھی حالات کی سنگینی حکمران طبقے کو اتنے اہم مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرنے پر مجبور کر دے.

  2. ماحولیاتی تبدیلیوں کا سفر” (Snow balling Effect) سنو بالنگ ایفیکٹ کی طرح ہوتا ہے – پہاڑ کی چوٹی سے سرکنے والا برف کا ایک گولا جب وادی کی جانب سفرشروع کرتا ہے تو کوئ گمان بھی نہیں کرسکتا کہ وادی میں پہنچ کر یہ کس طرح کی ہولناک تباہی کا باعث بنے گا ۔ باالکل اسی طرح ماحول میں ہونے والی منفی تبدیلیوں کا عمل اگر ایک مرتبہ شروع ہو جائے تو اس کے حل میں جسقدر تاخیر سے کام لیا جائے یہ اُسی قدر تباہی کا باعث بنتا ہے

  3. سر میرے خیال سے یہ ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کیوں کے اس سنگین صورتحال کو کنٹرول کرنے کی استطاعت وہ ہی رکھتے ہیں صرف دو چار پاکستانی لوگوں کے سوچنے سے یہ مسلہ حل نہیں ہو سکتا ۔جیسے کہ ایک ڈیم کو بنانے کے لیے کم سے کم دس سال کا عرصہ چاہیے ہوتا اور ہماری حکومت کا دورانیہ 5 سال ہوتا ہے صرف ایک کریڈٹ کی خاطر کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرتا اور ہمارے ملک میں نواب زادوں کا راج چل رہا ہے جو پاکستان کے زوال کی وجہ بن رہا ہے ۔کسی کے نا اہل ہو جانے سے یا تبدیلی لانے کا کھ دینے سے کچھ نہیں بدلتا ۔اور رہی آبی مسائل کی بات تو وہ ہم خود ہی اپنے وسائل کو کم کر رہے ہیں انکا بے جا استعمال کر کے یا ان کا استعمال نا کر کے ۔میرا اندازہ یا علم تھوڑا ناقص بھی ہو سکتا ہے کیوں کے میں صرف ابھی BS honors کا سٹوڈنٹ ہوں اور میں نے اپنے ایک سبجیکٹ واٹر شیڈ مینجمنٹ میں پڑھا تھا کہ پاکستان کو جتنا پانی قدرتی طور پر فراہم ہو رہا ہے اگر اس سے ہم 1سال پوری طرح فائدہ اٹھا لیں تو 50 سال تک بجلی پیدا کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی تو میرا یہ بیان کرنے کا مقصد ہے کہ اگر واقعی ایسا ہو سکتا ہے تو ہمارے ملک کے صاحب اختیار لوگ کیوں اپنی جیب بھر رہے ہیں جس پانی کا استعمال نہیں کر سکتے اسی پانی میں غریبوں کو کیوں ڈبو رہے ہیں ہر سیلاب میں لاکھوں لوگوں کا نقصان ہوتا ہے اسکا ذمدار بھی ہر کوئی نہیں ہے صرف وہی لوگ اس کے ذمدار ہیں جو اس کو کنٹرول کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ہمیں آبی وسائل کے ضیاع سے نمٹنے کے لیے صرف احتیاتی تدابیر ہی نہیں چاہیے بلکہ اس کو روکنے اور اس کے پورے استعمال کا سسٹم چاہیے کیوں کے پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کا زیادہ انحصار پانی پر ہے ۔

  4. میرے نزدیک ماحول کی بہتری کے لیے بھی رائے عامہ کو اُسی طرح ہموار کیا جانا چاہیے جیسے پانامہ لیکس کے بعد کرپشن حالیہ سیاست کا مسئلہ نمبر ون بن کر ابھرا ہے، حالانکہ قوم پچھلے ستر سالوں سے کرپشن کے ناسور سے دوچار ہے۔

Comments are closed.