ماحولیات:پاکستان میں بڑھتی فضائی آلودگی

 
 (عثمان عابد)

بریکنگ نیوز۔۔۔ پنجاب کے تمام ہسپتالوں کو الرٹ کر دیا گیا۔ کہر یا دھواں ؟ لاہور میں کیا چھا گیا ؟ باغوں کے شہر کی فضا آلودہ ہو گئی ۔ سانس لینا بھی دشوار۔ گھر سے باہر نکلنا محال ہوگیا۔ لاہور والے پریشان ! پنجاب حکومت کا اسکولوں کو چھٹیاں دینے پر غور۔۔۔ ٹی وی پر اینکر چیخ چیخ کر عوام کو ہراساں کر رہی تھی۔ 

شہری سمجھ رہے ہیں کہ شاید سردی کی شروعات کی وجہ سے دھند چھائی ہوئی ہے۔ لیکن کہانی کچھ اور ہے محکمہء موسمیات کچھ اور ہی خبر دے رہا ہے۔دراصل یہ دھند نہیں بلکہ آلودگی کے بادل ہیں جنھیں سموگ کہا جاتا ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ بھئی یہ سموگ کس بلا کا نام ہے ؟ سموگ دراصل دھوئیں اور دھند کے ملاپ سے بنتا ہے ۔ جس کا موجب فضائی آلودگی ہے ۔ ماہرین کے مطابق سموگ بننے کی وجہ فضا میں نامیاتی مونو آکسائیڈ او ر سلفر ڈائی آکسائیڈ کا شامل ہونا ہے ۔ جس کی وجہ سے گردوغبار کی یہ دھند چھائی ہوئی ہے ۔ یہ بہت خطرناک صورتحال ہے ۔ ایسی صورتحال میں شہریوں کو احتیاط کی ضرورت ہے۔ جو لوگ سیر کرنے کے عادی ہیں انھیں چاہیے کہ وہ آج کل سیر نہ کریں کیونکہ سموگ کی وجہ سے نا صرف آنکھوں کا مسئلہ بلکہ سانس کے مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں ۔ گھروں کے اند ر ہی رہیں اور بلا ضرورت باہر نہ نکلیں۔ باہر جانا بھی پڑے تو ماسک لگا کر جائیں۔ 

 صاحب مضمون، عثمان عابد
صاحب مضمون، عثمان عابد

یہ سب آخر ہو کیا رہا ہے ؟ کیا یہ قدرتی عمل ہے ؟ کہیں اس کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ تو نہیں؟نہیں ۔۔۔ یہ قدرتی عمل بلکل نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے دشمن ملک کی سازش ہے ۔ یہ سب لغو باتیں ہیں۔ دراصل اس صورتحال کو خراب تر کرنے میں ہمارے اربابِ اختیار کا کافی حد تک عمل دخل ہے جنہوں نے حالیہ چند مہینوں میں ہی دو ہزار سے زائد درختوں کو مختلف میگا پروجیکٹس کے نام پر کاٹ کر رکھ دیا ہے اور تقریباً اتنے ہی مزید درختوں کی کٹائی کا پروگرام بھی بنا لیا گیا ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے پہلے اور نج ٹرین لائین پراجیکٹ کے لیے دو ہزار درختوں کی بَلی (قربانی) دی اور پھر اس کے نتیجے میں جب فضائی آلودگی بڑھی تو اسے قدرتی عمل قرار دے دیا ۔ اور ٹھیک ایک سال بعد نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ ماحولیاتی صورتحال شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ 

آیئے اب ذرا دیکھتے ہیں حبیب جالب کے جانشین جناب میاں محمد شہباز شریف صاحب اس تمام صورتحال کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔ تو آپ سب کے لیے خوشخبری ہے کہ ہمارے دور اندیش خادمِ اعلیٰ کی ہدایت پر قائم خصوصی ٹیم نے اس سموگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال سے نپٹنے کے لیے ابتدائی منصوبہ مرتب کر لیا ہے ! جی ہاں ۔۔۔ ابتدائی منصوبہ ۔۔ ۔ صحیح پڑھا آپ نے ۔ وہی منصوبہ جو سیلا ب کے دنوں میں ٹانگوں پر بڑے بڑے بوٹ چڑھا کر بنایا جاتا ہے۔ دوسری طرف بڑے میاں صاحب نے اپنی انقلابی تقاریر کے دوران مجال ہے جو فضائی آلودگی کو ایک مرتبہ بھی موضوع سخن بنایا ہو ۔ میٹروبس سروس کے بعد اب پیش خدمت ہے اور نج ٹرین لائین کا شاندار منصوبہ ! جی ہاں اور آپ کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ اس منصوبے کے ساتھ فضائی آلودگی ” بلکل مفت ” حاصل کریں ۔

ایک اندازے کے مطابق لاہور کے شمالی علاقوں میں سات سو سے زیادہ کارخانوں کے یونٹس موجود ہیں۔ اس کے علاوہ لاہوری قلعے اور بادشاہی مسجد کے مضافات میں بھی چھوٹے پیمانے پر کارخانے کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال بھی لاہور کے شہریوں نے خادم اعلیٰ سے مودبانہ گزار ش کی تھی کہ وہ اس اہم صورتحال پر تھوڑی سی توجہ دیں کہ جس کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد متاثر ہو رہی ہے۔ شہریو ں کا مطالبہ ہے کہ انڈسٹریل، کمرشل اور رہائشی علاقوں کی فی الفور تقسیم کی جائے اور چھوٹے بڑے تمام کارخانوں کو انڈسٹریل زون یعنی آبادی سے باہر منتقل کیا جائے۔

دوسری طرف اس مسئلے کا سامنا صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ ہندوستان اور چین کو بھی ہے لیکن چین نے احتیاطی تدبیر کے طور پر سموگ فری ٹاورز لگانے شروع کر دیئے ہیں۔ جو کہ ہوا کو لگاتار صاف کر رہے ہیں۔ تیئس فٹ لمبا یہ ٹاور ایک گھنٹے میں تیس ہزار کیوبک میٹر سموگ کو صاف کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اور مزے کی بات کہ یہ پانی کے بوائلر سے زیادہ بجلی بھی خرچ نہیں کرتا۔ آخر میں شہباز شریف صاحب سے التماس ہے کہ زرداری صاحب کا پیٹ پھاڑنے کی بجائے زمین کا پیٹ پھاڑ کر اس میں درخت لگائیں۔ بطور عوام میں تو اس جماعت کو ووٹ دوں گا جس نے اپنے علاقے میں زیادہ درخت لگائے ہونگے۔آپ کا کیا خیال ہے؟

About عثمان عابد 10 Articles
عثمان عابد نے حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ڈاکٹر آف فارمیسی کی ڈگری مکمل کی ھے۔ ابلاغ کے مثبت اور تعمیری امکانات پر پُختہ یقین رکھتے ہیں۔ فارماسسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ موٹیویشنل سپیکر اور رائٹر بھی ھیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہیں جن کے لیے وہ تحریری اور مشاورتی شراکت رکھتے ہیں۔ فارماریڈرز نامی میگزین کے چیف ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نجی تنظیم کے چیف ایگزیکیٹو بھی ہیں۔