لارڈز سے اولڈ ٹریفورڈ براستہ کاکول: کهیڈ، جنگ نئیں ہوندی

سلمان حیدر
سلمان حیدر
سلمان حیدر
کهیل اور جنگ دونوں اپنی اصل میں مقابلہ ہیں، شرائط بھلے دونوں کی کتنی ہی مختلف کیوں نا ہوں۔ اگر خود سے جنگ کو گولف کی طرح مستثنیات میں شامل سمجھ لیا جائے۔ ساتھ میں یہ کہا جائے کہ یہ دونوں بهاڑ اکیلا چنا جهونک سکتا ہے۔ تو کهیل اور جنگ دونوں کو اکیلے آدمی کے لئے شروع اور ختم کرنا آسان نہیں۔ بلکہ ان دونوں کی گنجائش اگر کسی طرح نکال بهی لی جائے تو انہیں جاری رکهنا تو کم سے کم اکیلے بندے کے بس کی بات نہیں۔
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی یہ تو سب سے سنا ہو گا، لیکن گالی دینے کے لیے بهی ہما شما کے سامنے کم سے کم ایک آدمی کا ہونا ضروری ہے۔ پروفیشنل “گالی کار” کی بات البتہ اور ہے۔ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں سے ہوا، پانی، مٹی اور موسم، سب کو حبالہ دشنام میں لے کر ان کے نسب میں حسب توفیق  داخل ہو سکتا ہے۔
کهیل اور جنگ کی اس مشترکہ نوعیت نے ہماری اجتماعی نفسیات میں ان دونوں کو کچھ ایسا گڈ مڈ کر دیا ہے کہ ہم ان میں تفریق کرنا بالکل بھول ہی گئے ہیں۔ جنگ ہار کے ہم اسے ایسا بھول جاتے ہیں جیسے میچ ہارے ہوں؛ اور میچ ہاریں تو کھلاڑیوں کو توپ دم کر دینے کے مطالبے یوں سامنے آنے لگتے ہیں جیسے کرکٹ حق و باطل کا وہ معرکہ تها جس میں محمد بن قاسم نے ٹرافی خلیفہ کو بهیجنے کے بجائے اپنے پاس رکھ لی تهی۔
اینٹی ائیر کرافٹ چپلیں تو ابهی حال ہی کی ایجاد ہیں،ابھی حال ہی میں ان کا زمین سے فضا میں کامیاب مارا ماری کا مظاہرہ اسلام آباد کے دھرنا نگر میں کوئی مہینے دو پہلے ہی ہوچکا ہے۔ لیکن 65 کی جنگ کے حالات پڑهیں تو بهی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے زندہ دلانِ لاہور واہگہ میچ دیکهنے جا رہے تهے۔ دروغ بر گردن ٹیکسٹ بک بورڈ، لوگوں نے ہاتھ میں لاٹھیوں اور ہاکیوں کے ساتھ ساتھ پتنگیں لوٹنے کے جدید ہتهیار یوں تهام رکهے تهے جیسے ایف سولہ لُوٹ کے آئیں گے اور اگلی بسنت تک اڑائیں گے۔
65 کی جنگ تو ہم نے تاریخ کی ان کتابوں میں پڑهی جن میں پاکستان بننے کی تاریخ بهی اپنی مرضی سے رکھ لی ہوئی تهی۔ لیکن کارگل کی جنگ کے وقت ہم کشمیر آزاد کروانے کی عمر میں داخل ہو چکے تهے۔ اس لیے ہماری گواہی معتبر جانئے۔ اس جنگ سے پہلے ستر کی دہائی کے کرکٹ کھلاڑیوں جیسے بال رکهے۔ کچھ نوجوان کهلی جیپوں پر، تم جیتو یا ہارو سنو، کی طرز کا کوئی جنگی نغمہ بجاتے کندھے پر بندوقیں یوں رکهے گھوم رہے ہوتے تهے جیسے ابهی میچ شروع ہو گا تو رنز اگلنے کی یہ مشینیں مخالف ٹیم کے بالر کی دهلائی میں استعمال ہوں گی۔
اس جنگ کو بهی ریاست کے انداز کی کمنٹری کرتے ہوئے محلے کے لڑکے کهیل رہے ہیں۔ یہ ٹیم بھی کہہ کہہ کر اور خاص فعل انجام دے دے کر اسے کلب لیول کا میچ ثابت کرتی رہی اور جب بین الاقوامی افق پر بادل دیکھ کر میچ  ختم کرنا پڑا تو ہم نے قومی ٹیم کے دو کھلاڑیوں کو میں آف دا میچ کے ایوارڈ سے نواز کر ان کے کارنامے اسی دروغ بر گردن راوی والے ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں میں شامل کر دیئے۔
ویمن کرکٹ کی روایت ڈال کر اگرچہ ہم نے 1965 کی فاتح میڈم نور جہاں کے سُر میں ادا کئے ہوئے زریں قول کی خلاف ورزی کر دی ہے لیکن مردانہ کرکٹ کو جنگ سمجهنے میں ہم میڈم کے ہم خیال ہیں۔ سڑکوں پر میچ کے دوران کرفیو کا سماں ہوتا ہے دفاتر میں بھی چھٹی دے دی جاتی ہے اور نا دی جائے تو تو چھٹی کر لی جاتی ہے۔ ویسے بھی سرکاری دفاتر میں لوگ روز چھٹی پر ہی ہوتے ہیں۔ وظیفوں اور دعاؤں کا سلسلہ یوں شروع ہوتا ہے جیسے بی آر بی پر بم کیچ کرنے والے سبز پوش بزرگ کو بتایا جا رہا ہو کہ حضرت وہ پریکٹس تهی اصل جنگ آج ہے۔
ایک میچ ہارنے پر سپہ سالار کو معطل کرنا ہو، یا تحقیقات کے لیے کمیشن بٹھانا، ہم کهیل کو اس سنجیدگی سے لیتے ہیں جیسے ہمیں جنگ کو لینا چاہئے۔ اطمینان کا باعث اگر کچھ ہے تو بس یہ کہ ان تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹ بهی کبهی ہندوستان میں چهپ کے سامنے آ ئے تو آئے ورنہ ناکامی پر بٹھایا گیا کمیشن کئی ناکامیوں کے بعد بهی رپورٹ پر بیٹها رہتا ہے۔
سٹیڈیم میں جانے والے ہوں یا ٹی وی پر میچ دیکهنے والے گیند باؤنڈری سے باہر جاتے ہی سب آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ ساری پاکستانی ٹیم نے مل کر بهی نوے ہزار کیچ نہیں گرائے ہوں گے لیکن آخری اوورز میں کیچ گرانا ہماری کرکٹ کی لغت میں ہتهیار پھینکنے کے مترادف ہے۔
ٹیم ایک جنگ ہار جائے تو پی سی بی کے سربراہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر دیا جاتا ہے۔ شاید اسی ڈر سے کہ پی سی بی کی سرپرستی بهی صدر کو سونپی جاتی ہے کہ اگر خدا نخواستہ قوم زیادہ جذباتی ہو گئی تو سیریز ہارنے پر نئے الیکشن ہی نا کروانے پڑ جائیں۔
اگر پی سی بی کی سربراہی کسی سویلین کے پاس ہو تو میچ ہارنے کا ردعمل بورڈ میں مارشل لاء کے مطالبے کی صورت میں بهی سامنے آ سکتا ہے؛ اور ہمارے پاس ایسے جرنیلوں کی بهی کمی نہیں جو پیڈ باندھےاس کام کے لیے تیار بیٹهے ہوتے ہیں۔
آج کل چونکہ سویلین حکومت کی ڈنڈ بیٹھکیں نکلوانے کا کام بهی کاکول اکیڈمی میں تربیت پانے والوں کے پاس ہے۔ اس لئے ہم نے بهی تازہ انتظام کرکٹ کو بہتر کرنے کے لئے یہی کیا ہے کہ اپنی گیارہ رکنی کابینہ کو کاکول لے جا کر مارچ پاسٹ کروایا جائے۔ اس سے شاید انہیں کرکٹ کے میدان پر حکمرانی کرنا آ جائے۔
 ہم کهیل کو کهیل اور جنگ کو جنگ سمجهنا کب شروع کریں گے، معلوم نہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ یہ روایت بدلے اتنا جان لیجئے کہ اس ساری اٹهک بیٹهی کے بعد بهی ہم پرانی تاریخ میں جتنے سپاہیوں کے ساتھ جنگ جیت جایا کرتے تهے کل کی تاریخ میں اتنے رنز سے میچ ہار گئے ہیں۔
About سلمان حیدر 10 Articles
سلمان حیدرفاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں؛ با معنی اور جرات اظہار سے تابندہ شاعری کرتے ہیں؛ سماجی اورتنقیدی شعور سے بہرہ ور روشن خیال اور ترقی پسند آدرشوں کے حامل انسان ہیں۔ اس سے پہلے ڈان اردو کے لئے بلاگز لکھتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تنقید ڈاٹ آرگ کے اردو سیکشن کے مدیر ہیں- "تھیئٹر والے' کے نام سے ایک سنجیدہ تھیئٹر گروپ کا اہم حصہ ہیں۔ اعلی درجے کی سماجی و سیاسی طنز ان کی تخصیص ہے۔

1 Comment

Comments are closed.