بھوک، ننگ، افلاس اور بے روز گاری کا رقص حرام ہوتا ہے

Yasser Chattha, the writer

بھوک، ننگ، افلاس اور بے روز گاری کا رقص حرام ہوتا ہے

یہ آج کی ہی بات نہیں؛ لیکن آج کی بھی بات ہے۔

سنیے!

کپتان جب ابھی خلیفہ کے منصب پر فیض (اَن پڑھ اسے فائز بھی جان سکتے ہیں) نہیں ہوئے تھے، بے شک ان کی شجاع وصفی کے چرچے رہے، تو اس وقت کی جمودی طاقتوں، یعنی status quo forces نے عوام کو دن دگنا اور رات چو گنا جاہل رکھا ہوا تھا؛ وہ عوام 22 برس تک ووٹ ضائع کرتے رہے تھے۔ یہ ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکی تھی۔

کپتانی جد و جہد نے دھرنا کے چِلّے سے وہ شعور دے دیا کہ عوام کا جِہل ختم ہوا؛ فطرتِ ثانیہ، اب فطرتِ اُولیٰ پر واپس رجوع کر چکی تھی۔

آفتابِ تبدیلی سوا نیزے پر آنے والا تھا۔ وہ دن آنے والا تھا کہ جس کا وعدہ احتشام کے ضمیر نے کیا، لیکن تعبیر کا فیض عصرِ باجوہ میں ہوا۔

واہ تیرا وعدہ…

بالآخر ان نصیبوں مارے عوام کو ایک بار پھر ووٹ دینا آیا۔

نازک وقت تو جیسے وطنِ عزیز کی گُھٹّی میں پڑا ہے۔ اور تبدیلی بھی تو فِی حقیقت وطنِ عزیز ہی کی تجسیم ہے ناں؛ وقت اس پر بھی نازک ہی رہتا ہے۔

اب جب کہ تبدیلی کی بجلی گرجی اور عوام کے نصیبے کا لاشہ تڑپا تو سوا نیزے پر موجود سورج کی روشنی سے چاروں اور جگ مگ ہونے ہی والا تھا؛ کسی نے کہا قیامت ہے، کوئی بولا نہیں احمق یہ تبدیلی ہے۔

تو اس عصرِ نازک کے soap opera میں بھی جمودی طاقتوں نے  اپنی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ دراز کرتے ہوئے خلیفہ کو گھٹیا ٹیم دی۔

ہائے، نصیبا…

[کہیں سے کسی رقص کی، گھنگھروؤں کی آواز آتی ہے…]

خلیفہ چونکتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟

وضاحت ہوتی ہے، جواب ارزاں ہوتا ہے۔

سنیے!

تو اے نو جوان، اے جوان! آپ سوچیے مت، آپ صرف جان رکھیے کہ مسئلہ قطعی طور پر رقص کا نہیں، اب خلیفہ کو ملی ٹِیم کے آنگن کا ہے۔

پر ایک پہلو اور بھی ہے؛ جب کا خلیفہ کو معلوم ہوا ہے کہ رقص، یہ ناچ اور یہ گانا وغیرہ تو حرام ہیں، اب وہ رقص نہیں کرتے، اور اس کے ہونے کا نوٹس سامنے رکھتے ہیں۔

البتہ جن بد نصیبوں کی اپنی ہی بچپن کی غلط کاریوں کے باعث ان کے گھر میں بھوک و ننگ، افلاس اور بے روز گاری رقص کر رہی ہے تو یہ تو ان کی جانب سے کھلا گناہ ہے۔

اپنے اپنے گھر میں رقص کو روکنا عوام کی ذمے داری ہے۔ بَہ قولِ فواد ح چ، وزیرِ علومِ سائنسیہ و تکنیکیہ و ماہتابیہ کے، ریاست کا کام بھوک، ننگ، افلاس اور بے روز گاری کے رقص کو روکنا نہیں ہے۔

تو ابھی کے ابھی بس اتنا باور کر لیجیے کہ خلیفہ اس رقص کے گناہ کو دل سے بہت برا جانتے ہیں؛ آپ بھی ایسا ہی جانیں۔

اور ساتھ میں اس بنڈل سیل میں خلیفہ کی ٹیم کی ایک کردار نگاری کو دیکھ لیجیے:

خلیفہ کی ٹیم کے مسائل کا بیان اور اس کی بادی خواری

خلیفہ کی ٹیم میں واقعی بہت مسائل ہیں:

1. پانی کم ہے، پر گیس زیادہ بھری ہوئی ہے

2. اتنی گیس ہے کہ ہر وقت بُلبُلے نکلتے رہتے ہیں، جسے وہ بَلّے بَلّے کہنے پر بَہ ضد رہتے ہیں

3. ٹیم کے ڈھکن زیادہ tight ہیں

4. تھوڑا سا ہِلاؤ جلاؤ تو ڈھکن کھلتا ہے، اور بس وہ آپے سے باہر

5. مزاح و کلام کا نمک پاس سے بھی گزارو تو وہ اُڑے ڈھکن، اور سنگ اُچھل چلی مُنھ سے جھاگ…

پس ثابت ہوا کہ خلیفہ کی ٹیم میں ہی مسائل ہیں، خلیفہ کا خود کوئی مسئلہ نہیں:

Khalifa stinks, long live the Khalifa

از، یاسر چٹھہ 

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔