کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ سیز دہم)

کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر
Base illustration courtesy thePlayer.org

کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ سیز دہم)

ترجمہ از، نصیر احمد

ڈینفورتھ: (اوپر دیکھتے ہوئے) کہاں؟

ایبی گیل: (تھوک نگلتی ہے) زرد پنچھی، تم کیوں آئے ہو؟

پراکٹر: کہاں ہے پنچھی۔ مجھے تو کوئی پنچھی نہیں نظر آ رہا۔

ایبی گیل: (چھت کی طرف دیکھتے ہوئے) میرا چہرہ، میرا چہرہ

پراکٹر: مسٹر ہیل۔

ڈینفورتھ: چپ ہو جاؤ۔

پراکٹر: (ہیل سے) آپ نے کوئی پنچھی دیکھا؟

ایبی گیل: (چھت کی طرف نگاہیں، واقعی پنچھی سے بات کر رہی ہے، جیسے کوشش کر رہی ہو کہ پنچھی  کو خود پر جھپٹنے سے روک لے۔) خدا نے میرا چہرہ تقویم کیا ہے۔ تم اسے نوچ نہیں سکتے۔ حسد اجلی گناہ ہے، میری۔

میری وارن: (اچھل پڑتی ہے اور ایک ہولناک خوف میں گڑگڑاتی ہے) ایبی۔

ایبی گیل: (پروا کیے بَہ غیر پرندے سے کلام جاری رکھتی ہے) آہ میری، اپنا روپ بدلنا کالا جادو ہے۔  میں اپنا مُنھ نہیں بند کر سکتی۔ میں خدا کا کام کرتی ہوں۔

میری وارن: ایبی، میں یہاں ہوں۔

پراکٹر: (طیش کی انتہا پر) یہ بناوٹ کر رہی ہیں، مسٹر ڈینفورتھ۔

ایبی گیل: (اب وہ پیچھے ہٹتی ہے۔ جیسے پنچھی اس پہ جھپٹ ہی تو پڑے گا)۔ میری نیچے آ جاؤ، پلیز نیچے آ جاؤ۔

سوزانا والکاٹ: اس کے پنجے دیکھو، وہ پنجے پھیلا رہا ہے۔

پراکٹر: جھوٹ، جھوٹ۔

ایبی گیل: (اور پیچھے ہٹ جاتی ہے، نظریں ابھی اوپر ہی جمی ہیں) میری پلیز مجھے مت مارو۔

میری وارن: (ڈینفورتھ سے) میں اسے نہیں مار رہی۔

ڈینفورتھ: (میری سے) تو پھر یہ رویا کیوں دیکھتی ہے۔

میری وارن: یہ کچھ نہیں دیکھ رہی۔

ایبی گیل: (دِیدے پھاڑے ایسے دیکھتی ہے جیسے سِحَر میں مبتلا ہو۔ اور میری کی پوری کی پوری نقل اتارتی ہے) یہ کچھ نہیں دیکھ رہی۔

میری وارن: (گڑگڑاتے ہوئے) ایسا  مت کرو ایبی۔

ایبی گیل اور دیگر لڑکیاں: ( جیسے سِحَر میں گرفتار) ایسا مت کرو ایبی۔

میری وارن: (سب لڑکیوں سے) میں یہاں ہوں، میں یہاں ہوں۔

لڑکیاں: میں یہاں ہوں۔ میں یہاں ہوں۔

ڈینفورتھ: (ہول آنے لگے ہیں) میری وارن، ان لڑکیوں میں سے اپنی آتما کھینچ لو۔

میری وارن: مسٹر ڈینفورتھ۔

لڑکیاں: (اس کی بات کاٹتے ہوئے) مسٹر ڈینفورتھ۔

ڈینفورتھ: تم نے شیطان سے کون سے پیمان باندھے ہیں؟ باندھے ہیں؟

میری وارن: کبھی نہیں، کبھی نہیں۔

لڑکیاں: کبھی نہیں، کبھی نہیں۔

ڈینفورتھ: (ہسٹریائی انداز میں چلاتے ہوئے) تو پھر یہ لڑکیاں تمھاری بات دُہرانے پر مجبور کیوں ہیں؟

پراکٹر: مجھے ایک چابک دو، یہ سب بند ہو جائے گا۔

میری وارن: یہ ناٹک کر رہی ہیں۔ یہ …

لڑکیاں: یہ  ناٹک کررہی ہیں۔

میری وارن: (چیختے چلاتے لڑکیوں کی طرف مڑتی ہے اور پاؤں پٹختی ہے) بند کرو یہ سب، ایبی۔

لڑکیاں: (پیر پٹختے ہوئے) بند کرو یہ سب ایبی۔

میری وارن: بند کرو

لڑکیاں: بند کرو۔

میری وارن: (پھیپھڑوں کا پورا زور صرف کر کے چیختی ہے اور اپنی ہتھیلیاں اوپر اٹھاتی ہے) اسے بند کرو۔

لڑکیاں: (ہتھیلیاں اوپر اٹھاتے ہوئے) اسے بند کرو۔

(میری وارن بری طرح بوکھلا جاتی ہے۔ اور ایبی گیل اور دیگر لڑکیوں کے کامل ایقان کے سامنے پسپا ہونے لگتی ہے۔ بے جان، ہاتھ آدھے اوپر اٹھے، سسکنے لگتی ہے۔ اور لڑکیاں بھی بالکل اسی کی طرح ہاتھ اٹھا کر سسکنے لگتی ہیں۔)

ڈینفورتھ: ابھی تھوڑی دیر پہلے تم پکڑی ہوئی تھیں مگر اب لگتا ہے تم نے اوروں کو پکڑ لیا ہے۔ یہ قوت تم میں آئی کہاں سے؟

میری وارن: (ایبی گیل کو گھورتے ہوئے) میرے پاس کوئی قوت نہیں ہے۔

لڑکیاں: میرے پاس کوئی قوت نہیں ہے۔

پراکٹر: یہ تمھیں دھوندو بنا رہی ہیں، مسٹر۔

ڈینفورتھ: تم پچھلے دو ہفتوں سے بہروپ کیوں بدلتی جا رہی ہو؟ تم شیطان سے ملی ہوئی ہو؟ ہو کہ نہیں؟

ہیل: (ایبی گیل اور لڑکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آپ ان کا یقین نہیں کر سکتے۔

میری وارن: میں…

پراکٹر: (مَیری میں در آئی نا توانی بھانپتے ہوئے) مَیری خدا جھوٹوں پر لعنت بھیجتا ہے۔

ڈینفورتھ: (بات میری کے بھیجے میں گھساتے ہوئے) تم شیطان سے ملی ہو۔ تم نے لُوسیفر سے پیمان باندھے ہیں۔ باندھے ہیں کہ نہیں؟

(میری  کوئی نا قابلِ فہم سی بات کہتی ہے، ایبی گیل کو گھورتے ہوئے جو ابھی تک چھت میں پنچھی دیکھ رہی ہے۔)

ڈینفورتھ: میں نہیں سن پایا۔ کیا کہا؟ (میری پھر کوئی نا قابلِ فہم بات کہتی ہے) تم اقرار کر لو یا پھر میں تمھیں پھانسی دے دوں گا۔ (وہ غصے میں اس کی اور مڑتا ہے) جانتی ہو ناں میں کون ہوں؟ اگر مجھ سے کھل کر بات نہیں کرتیں تو میں تمھیں پھانسی دے دوں گا۔

پراکٹر: میری تمھیں فرشتہ رافیل یاد ہے ناں، بھلا کرو گی تو…

ایبی گیل: (اوپر اشارہ کرتے ہوئے) پر، وہ پر پھیلاتا ہے۔ میری، پلیز، یہ نہ کرو۔

ہیل: جنابِ عالی میں کچھ نہیں دیکھ رہا۔

ایبی گیل: وہ نیچے آئے گا، وہ ستون پہ چل رہا ہے۔

ڈینفورتھ: بولو گی، یا نہیں۔

میری وارن: (دہشت میں گھری تکتی ہے) نہیں بول سکتی۔

لڑکیاں: نہیں بول سکتی۔

پیرس: شیطان کو اتار پھینکو۔ اس کے چہرے پر نظریں گاڑ دو۔ ہم تمھیں بچائیں گے، میری۔ بس اس کے سامنے دلیری سے کھڑی ہو جاؤ۔

ایبی گیل: (اوپر دیکھتے ہوئے ) وہ نیچے آ رہی ہے۔

(چہروں پر ہاتھ رکھے لڑکیاں دیوار کی طرف بھاگتی ہیں۔ اور جیسے ہر طرف سے گھر گئی ہوں اور حلق کے پورے زور سے چیختی ہیں۔ میری ان کی پیروی کیے بنا رہ نہیں پاتی۔ حلق پھاڑ کر ان کے ساتھ  مل کر چیختی ہے۔ دھیرے دھیرے لڑکیاں ہٹ جاتی ہیں اور وہاں صرف میری رہ جاتی ہے، پنچھی کو گھورتے ہوئے، دیوانہ وار چیختی ہے۔ سب اسے دیکھتے ہیں، اس واضح دورے سے دہشت زدہ ہوتے ہوئے۔)

پراکٹر: میری، گورنر کو بتاؤ کہ یہ سب کیا… ( وہ بات جوں ہی شروع کرتا ہے وہ اس سے دور پاگلوں کی طرح چیختے ہوئی بھاگتی ہے۔)

میری وارن: مجھے مت چھو، مت چھو۔ (یہ سن کر لڑکیاں دروازے پر رک جاتی ہیں۔)

پراکٹر: (دنگ ہو کر) میری۔

میری وارن: (پراکٹر کی طرف اشارہ کرتی ہے) تو شیطان کا بندہ ہے۔

(وہ وہیں تھم جاتا ہے)

پیرس: خداوند کی ثنا کرو۔

پراکٹر: (کاٹو تو لہو نہ نکلے) میری، تم کیسے…

میری وارن: میں تمھارا ساتھ نہیں دوں گی۔ میں خدا سے پیار کرتی ہوں۔ میں خدا سے پیار کرتی ہوں۔

ڈینفورتھ: (میری سے) تو تمھیں یہ شیطان کے کاج کرنے کو کہتا ہے؟

میری وارن: (بری طرح چیختے ہوئے پراکٹر کی طرف اشارہ کرتی ہے) ہر شب یہ  میرےپاس آتا ہے، دست خط لینےکے لیے، دست خط۔

ڈینفورتھ: کیسے دست خط؟

میری وارن: شیطان کی کتاب میں دست خط لینے۔ کتاب ساتھ لاتا ہے۔ (پراکٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلاتی ہے مگر پراکٹر سے ڈرتی بھی ہے) میرا نام، اسے اس کتاب میں میرا نام چاہیے۔ اگر میری بیوی کو پھانسی ہوتی ہے تو میں تیری جان لے لوں گا۔ یہ کہتا ہے مجھ سے۔ آؤ چلیں اور عدالت الٹا دیں۔ یہ بھی کہتا ہے مجھ سے۔

(ڈینفورتھ، پراکٹر کی طرف سر جھٹکتا ہے۔ پراکٹر کے چہرے پر ہیبت و حیرت رقم ہیں۔)

پراکٹر: (ہیل سے اپیل کرنے کے لیے پلٹتا ہے) مسٹر ہیل۔

میری وارن: (سسکتے ہوئے) ہر شب مجھے جگاتا ہے۔ اس کی آنکھیں جلتے ہوئے انگاروں کی مانند ہوتی ہیں۔ اور اس کی انگلیاں میری گردن جکڑ لیتی ہیں اور میں دست خط کر دیتی ہوں۔ کر دیتی ہوں۔

ہیل: عالی مرتبت یہ لڑکی دیوانی ہو گئی ہے۔

پراکٹر: (ڈینفورتھ کے پھٹے ہوئے دیدے اس پر کوندتے ہیں) میری، میری۔

میری: (چلاتے ہوئے) اب مجھے خدا سے محبت ہے۔ تیرے رستے پر میں مزید نہیں چلوں گی۔ میں خدا سے محبت کرتی ہوں اور اسی کی عبادت کرتی ہوں۔ (سسکتے ہوئے وہ ایبی گیل کی طرف لپکتی ہے) ایبی، ایبی، تمھیں میں اور دکھ نہیں دوں گی۔ (وہ سب گواہ ہیں  کہ ایبی گیل اپنی لا محدود سخاوت کا اظہار کرتے ہوئے بڑھ کر سسکتی ہوئی میری وارن کو سہارا دیتی ہے اور ڈینفورتھ کی جانب دیکھتی ہے۔)

ڈینفورتھ: (پراکٹر سے) تو ہے کیا؟ (پراکٹر غصے میں بول نہیں پاتا) مسیح مخالف سے متحد ہے؟ ہے کہ نہیں؟ تیری طاقتیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ اب تو مکر نہیں سکتا۔ اب کیا کہے گا مسٹر؟

ہیل: عالی  مرتبت۔

ڈینفورتھ: تمھاری اب میں نہیں سنوں گا مسٹر ہیل۔ (پراکٹر سے) کیا اب تو اقرار کرتا ہے کہ تو شیطان کے سنگ مل کر جہنم کی گندگی اچھالتا رہا ہے۔ یا اب ابھی اپنی اطاعت کی تیرگی کی پاسبانی کرے گا؟

پراکٹر: (سانسیں بے قابو ہیں اور جنگلی ہو گیا ہے) میں کہتا ہوں… میں کہتا ہوں… خدا مر گیا ہے۔

پیرس: سنا، سنا۔

پراکٹر: (مجنونانہ انداز میں ہنس کر کہتا ہے) اک آگ سی جلتی ہے۔ اور میں شیطان کی کھڑاؤوں کی چاپ سنتا ہوں۔ اور میں اس کا گھناؤنا چہرہ دیکھتا ہوں، یہ میرا چہرہ ہے اور یہ تیرا چہرہ ہے ڈینفورتھ۔ قسم ہے ان کی جو آدمی کو جہالت سے نکالنے کے لیے کوکتے ہیں، جیسے میں کوکتا رہا ہوں، اور جیسے  اب تم کوکتے ہو کہ اپنے سیاہ دلوں کے دُرُوں تم سب یہ جانتے ہو کہ یہ سب فراڈ ہے۔

ڈینفورتھ: مارشل، اسے اور کوری کو جیل میں لے جاؤ۔

ہیل: (دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے) میں اس کار روائی کی مذمت کرتا ہوں۔

پراکٹر: تم افلاک گرا رہے ہو اور اک گشتی کو ستارہ بنا رہے ہو۔

ہیل: میں ان تمام کارِ روائیوں کی مذمت کرتا ہوں۔ میں اس عدالت سے دست بردار ہوتا ہوں۔ (اور دروازہ زور سے بند کرتے ہوئے باہر چلا جاتا ہے۔)

ڈینفورتھ: (غصے سے ہیل کو پکارتے ہوئے) مسٹر ہیل، مسٹر ہیل۔

(پردہ گرتا ہے)

چوتھا ایکٹ

اسی جاڑے میں سیلیم کی جیل کے ایک سیل کا منظر

پچھلی طرف اونچی سلاخوں والی ایک کھڑکی ہے۔ اس کے پاس ایک بھاری  دروازہ ہے۔ دیواروں کے ساتھ دو بینچ پڑے ہیں۔ یہ جگہ تاریکی میں ہے مگر کھڑکی کی سلاخوں سے چاندنی چھٹک رہی ہے۔ کمرا ابھی خالی لگتا ہے۔ مگر دیوار کی پرلی طرف راہ داری سے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ کنجیاں کھنکھناتی ہیں اور دروازہ کھل جاتا ہے۔ لالٹین مارشل ہیرک اندر آتا ہے۔

وہ نشے میں ہے اورنشہ چھپانے کے لیے زمین پر پاؤں جما کر چلتا ہے۔ وہ  بینچ کی طرف جاتا ہے اور اس پر پڑی چیتھڑوں کی گٹھڑی کو ٹہوکا دیتا ہے۔

ہیرک: سارا، اٹھو، سارا گڈ۔ (اور پھر پھلانگ کر دوسرے بینچ کی طرف بڑھ جاتا ہے۔)

سارا گڈ: (چِایتھڑوں کے درمیان سے اٹھتی ہے) بادشاہ، آ رہے ہیں، تیتیوبا، بادشاہ یہاں آ گئے ہیں۔

ہیرک: اب شمالی سیل میں چلی جاؤ، اس جگہ کی ضرورت ہے۔ (لالٹین دیوار پر لٹکا دیتا ہے، تیتیوبا اٹھتی ہے۔)

تیتیوبا: بادشاہ تو نہیں دکھتے، مارشل دکھتا ہے۔

ہیرک: (مشکل سے کہہ پاتا ہے) جاؤ یہاں سے اب، خالی کرو اسے۔

ہیرک: (تیتیوبا کو پکڑ لیتا ہے) چلو، چلو۔

تیتیوبا: (مزاحمت کرتی ہے) مجھے لینے آ گیا ہے۔ میں تو گھار (گھر) جا رہی ہوں۔

ہیرک: (تیتیوبا کو دروازے کی طرف کھینچتے ہوئے) شیطان نہیں آ رہا۔ نفرت بھرا دودھ لیے ایک بوڑھی بیمار گائے آ رہی ہے۔ چلو، اب نکلو بھی۔

تیتیوبا: (کھڑکی سے پکارتے ہوئے) شیطان مجھے گھر جولو ( لے چلو) مجھے گھر جولو( لے چلو)۔

سارا گڈ: (پکارتی تیتیوبا کا پیچھا کرتے ہوئے)۔ اسے کہو میں بھی جاووں گی۔ سارا گڈ بھی جاوے گی۔

(باہر راہ داری بھی تیتیوبا پکارتی جاتی ہے، شیطان مجھے گھر جولو (لے جاؤ)، شیطان مجھے گھر جولو۔ اور ہاپکنز کی آواز آتی ہے، چلتی چلو، چلتی چلو۔ ہیرک لوٹتا ہے اور چیتھڑے اور تنکوں کے بنے بستر کونے میں پھینکنے میں لگ جاتا ہے۔ قدموں کی چاپ سن کر پلٹتا ہے۔ ڈینفورتھ اور جج ہیتھورن اندر آتے ہیں۔  پالے سے بچنے کے لیے انھوں نے لمبے کوٹ اور ہیٹ پہن رکھے ہیں۔ ان کے پیچھے چیور آتا ہے۔ ڈاک کا لفافہ اور لکڑی سے بنا ایک چھوٹا سے بکسا اٹھائے ہے جس میں اس کا تحریر کا سامان پڑا ہے۔)

ہیرک: صبح بخیر، عالی مرتبت، ڈینفورتھ۔

ڈینفورتھ: مسٹر پیرس کہاں ہے؟

ہیرک: میں انھیں بلا لاتا ہوں (جانے لگتا ہے)۔

ڈینفورتھ: مارشل (ہیرک رک جاتا ہے) محترم ہیل کب آئے تھے؟

ہیرک: میرے خیال میں، آدھی رات کو۔

ڈینفورتھ: (تشکیک سے) وہ یہاں کر کیا رہا ہے؟

ہیرک: جن کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے، ان سے ملتے رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ مناجات پڑھتے ہیں۔ ابھی بیگم نرس کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ مسٹر پیرس بھی ان کے ساتھ ہیں۔

ڈینفورتھ: واقعی۔ اس شخص کے پاس ادھر اندر آنے کی کوئی اتھارٹی نہیں ہے، مارشل۔ تم نے اسے اندر کیوں آنے دیتے ہو؟

ہیرک: مسٹر پیرس کا حکم ہے، جناب۔ انھیں میں منع نہیں کر سکتا۔

ڈینفورتھ: تم نے شراب پی رکھی ہے، مارشل۔

ہیرک: نہیں جناب۔ رات بہت ٹھنڈی ہے اور آگ یہاں نہیں ہے۔

ڈینفورتھ: (غصہ تھامتے ہوئے) مسٹر پیرس کو بلا لاؤ۔

ہیرک: جی جناب۔

ڈینفورتھ: یہاں تو بڑی تیز بد بُو ہے۔

ہیرک: بس ابھی یہاں سے قیدی نکالے ہیں۔

ڈینفورتھ: شراب کم پیا کرو، مارشل۔

ہیرک: جی جناب۔ (مزید احکام سننے کے لیے تھوڑی دیر رکتا ہے۔ لیکن بے اطمینانی سے ڈینفورتھ، اس کی طرف پشت کر لیتا ہے۔ اور ہیرک باہر چلا جاتا ہے۔ وقفہ ہو جاتا ہے۔ ڈینفورتھ کھڑا سوچتا رہتا ہے۔)

ہیتھورن: عالی مرتبت ہیل سے پوچھ گچھ کریں۔ مجھے حیرت نہیں ہو گی اگر معلوم ہوتا ہے کہ اینڈوور میں بھی حال ہی تبلیغ کرتا رہا ہے۔

ڈینفورتھ: وقت پر پوچھ لیں گے۔ اینڈور کا ذکر نہ کرنا۔ پیرس بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ عجیب بات ہے۔ (وہ اپنی ہتھیلیوں پر پھونکتا ہے۔ کھڑکی کی طرف بڑھتا ہے اور باہر دیکھنے لگتا ہے۔)

ہیتھورن: عالی مرتبت۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا پیرس کو قیدیوں کے ساتھ ملاقات کرنے کی اجازت  دیتے رہنا ہوش مندی کی بات ہے؟ (ڈینفورتھ دل چسپی لیتے ہوئے اس کی طرف مڑتا ہے) آج کل تو وہ آدمی تھوڑا پاگل نظر آنے لگا ہے۔

ڈینفورتھ: پاگل؟

ہیتھورن: کل وہ گھر سے باہر نکلتے سمے مجھ سے ملا تھا۔ میں نے اسے صبح بَہ خیر کہا تو وہ روتے ہوئے اپنی راہ پر چل دیا۔ یہ اچھا نہیں ہے کہ گاؤں والوں کی نگاہوں میں اتنا بے توازن دِکھے۔

ڈینفورتھ: اسے شاید کچھ غم ہو؟

چیور: (سردی دور کرنے کے لیے پاؤں پٹختا ہے) اس کا باعث گائیں ہیں جناب۔

ڈینفورتھ: گائیں؟

چیور: شاہ راہ پر بہت ساری گائیں پھرتی رہتی ہیں کیوں کہ ان کے مالک اب جیل میں بند ہیں اور اس بات پر لوگوں میں بہت اختلاف ہے کہ اب وہ کس کے پاس جانی چاہییں۔ میرے علم کے مطابق کل مسٹر پیرس کسانوں سے بہت بحث کرتے رہے ہیں کہ  کسانوں میں گائیوں کے بارے میں بہت چپقلش ہے۔ اور جناب اس چپقلش نے کل مسٹر پیرس کو رُلا دیا۔ پھر جناب، وہ تو ہمیشہ سے ہی کچھ جھگڑے کی بات ہو جائے تو آنسو بہانے لگتے ہیں۔ (وہ ڈینفورتھ اور ہیتھورن کے ساتھ ہی پلٹتا ہے کیوں کہ راہ داری سے کسی کے آنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ جوں ہی پیرس اندر آتا ہے ڈینفورتھ گردن اٹھاتا ہے۔ پیرس خستہ و خوف زدہ ہے اور لمبے کوٹ میں بھی اس کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔)

پیرس: (بے تاخیر، ڈینفورتھ سے) اوہ، صبح بخیر، جناب،  آمد کا شکریہ۔ اتنے سویرے زحمت دینے کے لیے معافی کا خواست گار ہوں۔ جناب  جج ہیتھورن، صبح بَہ خیر۔

ڈینفورتھ: پادری ہیل کو یہاں آنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

پیرس: تھوڑا صبر، عالی مرتبت (وہ جلدی سی مڑ کر دروازہ بند کرتا ہے۔)

ہیتھورن: تم کیا قیدیوں کے ساتھ اسے تنہا چھوڑ دیتے ہو؟

ڈینفورتھ: اس کا یہاں کام کیا ہے؟

پیرس: (دعائیہ انداز میں اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے) عالی مرتبت، سن تو لیں۔ یہ کارِ مشیَّت ہے۔ عزت مآب ہیل ریبیکا نرس کو خداوند  کی طرف واپس لے آئے ہیں۔

ڈینفورتھ: اس نے کیا ریبیکا کا  اعتراف حاصل کر لیا ہے؟

پیرس: (بیٹھتے ہوئے) تین مہینوں سے جب سے ریبیکا یہاں آئی ہے اس نے مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ لیکن ہیل کے پاس وہ بیٹھتی ہے۔ اس کی بہن اور مارتھا کوری اور دو تین اور بھی ساتھ ہوتی ہیں۔ اور وہ انھیں قائل کرتا رہتا ہے کہ وہ اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی جانیں بچا لیں۔

ڈینفورتھ: یہ واقعی مشیتِ اِیزدی ہے۔ تو وہ کچھ نرم پڑ گئی ہیں؟

پیرس: ابھی نہیں جناب، ابھی نہیں۔میں نے آپ کو اس لیے بلوایا ہے کہ کیا یہ عقل مندی ہو گی کہ (اسےآگے کہنے کی ہمت نہیں ہوتی) میں نے سوچا آپ سے مشورہ کر لوں۔ امید ہے آپ…

ڈینفورتھ: مسٹر پیرس ،صاف بتاؤ کہ تمھیں کیا پریشانی لاحق ہے؟

پیرس: عدالت کے لیے ایک انتہائی اہم خبر ہے، جناب۔ میری بھتیجی، مجھے یقین ہے، غائب ہو گئی ہے۔

ڈینفورتھ: غائب ہو گئی ہے؟

پیرس: میرا خیال ہے مجھے ہفتے کے آغاز میں ہی یہ بات آپ کو بتا دینی چاہیے تھی مگر…

ڈینفورتھ: ارے، کتنی دیر ہوئی ہے اسے غائب ہوئے؟

پیرس: یہ تیسری رات ہے جناب۔ دیکھ لیں۔ مجھے اس نے یہ بتایا تھا کہ وہ مرسی لیوس کے ہاں رات رہے گی۔ اگلے دن وہ واپس نہیں آئی تو میں نے کسی کو مسٹر لیوس کے ہاں وجہ جاننے کے لیے بھیجا۔ مرسی نے مسٹر لیوس  سے کہا تھا کہ وہ ایک رات میرے ہاں گزارے گی۔

ڈینفورتھ: تو وہ دونوں چلی گئی ہیں؟

پیرس: (ڈینفورتھ سے ڈرتے ہوئے) چلی گئی ہیں، جناب۔

ڈینفورتھ: (خطرہ بھانپتے ہوئے) میں ان کے پیچھے ایک پارٹی بھیجتا ہوں۔ کہاں جا سکتی ہیں وہ؟

پیرس: میرے اندازے میں جناب وہ بحری جہاز کے ذریعے گئی ہیں۔ (ڈینفورتھ کا مُنھ کھل جاتا ہے) میری دختر بتارہی تھی کہ پچھلے ہفتے اس نے دونوں کو جہازوں کے بات چیت کرتے سنا۔ اور آج شب میں نے دیکھا کہ میرا گلہ بھی ٹوٹا ہوا تھا۔ (وہ آنسو روکنے کے لیے اپنی انگلیوں سے اپنی آنکھیں دباتا ہے۔)

ہیتھورن: (حیرت زدہ ہو کر) اس نے تمھیں لوٹ لیا؟

پیرس: اکتیس پاؤنڈز چلے گئے ہیں۔ میں لٹ گیا، برباد ہو گیا۔ میرے پاس پیسہ پائی نہیں۔ (چہرہ چھپا کر رونے لگتا ہے۔)

ڈینفورتھ: مسٹر پیرس، تمھارا تو بھیجا ہی نہیں ہے۔ (وہ گہری سوچ میں گم چلتا ہے اور بہت پریشان ہے۔)

پیرس: عالی مرتبت اب مجھے دوش دینے سے کیا فائدہ؟ ان کے خیال میں ان کی زندگی خطرے میں تھی۔ اس لیے وہ سیلیم سے بھاگ نکلیں۔ ورنہ وہ ہرگز نہ بھاگتیں۔ (قائل کرنے کے انداز میں) نوٹ کر لیں جناب، ایبی گیل گاؤں کے بارے میں بہت کچھ جانتی تھی اور جب سے اینڈور کی خبر پھیلی ہے…

ڈینفورتھ: اینڈوور کا معالجہ کر دیا گیا ہے۔ عدالت آ دینے وہاں بیٹھے گی اور پھرسے  پوچھ گَچھ کرے گی۔