کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ ششم)

کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر
Base illustration courtesy thePlayer.org

کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ ششم)

ترجمہ، نصیر احمد

تیتیوبا: خداوندا، خدا وندا (وہ اپنے گھٹنوں پر بیٹھی دہشت میں روتی ہوئی آگے پیچھے ہونے لگتی ہے۔)

 ہیل: اور اس کی رفعتیں …

تیتیوبا: بے انتہا، بے انتہا، ابدی رفعتیں، برکتیں ہی برکتیں۔

ہیل: اپنا آپ فاش کر دے، بر ملا کر دے کہ خدا کا نورِ مقدس تجھ پر دھوپ بن کر برسے …

تیتیوبا: الحمد، الحمد

ہیل: شیطان جب تیرے پاس آتا ہے  تو کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ہوتا ہے؟ (وہ اس کا چہرہ گھورنے لگتی ہے) گاؤں کا کوئی اور آدمی؟ جسے تو جانتی ہے؟

پیرس: اس کے سنگ کون آیا؟

پٹنم: سارا گڈ؟ اس کے سنگ کیا سارا گڈ ہوتی ہے؟ یا اوسبورن ہوتی ہے؟

پیرس: اس کے سنگ مرد ہوتا ہے یا کوئی خاتون؟

تیتیوبا: مرد کہ خاتون؟ خاتون تھی۔

پیرس: کون خاتون؟ خاتون تو نے کہا۔ کون خاتون؟

تیتیوبا: وہاں گھنا اندھیرا تھا اور میں؟

پیرس: شیطان تو نے دیکھ لیا، خاتون کیوں نہ دیکھ پائی؟

تیتیوبا: وہ ہمیشہ باتیں کرتے رہتے تھے اور نَستے دوڑتے (دوڑتے بھاگتے) رہتے تھے اور ان کے پاس …

پیرس: تو کہتی ہے کہ وہ سیلیم میں ہوتے تھے، سیلیم کی ڈائنیں …

تیتیوبا: ایسے ہی ہے، جی ہاں، جناب۔

اب ہیل اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔ وہ حیران ہو جاتی ہے۔

ہیل: تیتیوبا، ڈر مت، ہمیں پتا ہے وہ کون ہیں۔ سمجھی؟ ہم تیری حفاظت کریں گے۔ شیطان کسی پادری پر غالب ہو نہیں سکتا۔ تجھے پتا ہے ناں؟ پتا ہے؟

تیتیوبا: (ہیل کے ہاتھ چومتی ہے) جی جناب مجھے پتا ہے۔

ہیل: تو نے جادو ٹونے کا اعتراف کر لیا ہے۔ جس کے معنی ہیں کہ تو بہشت کی جانب لوٹنا چاہتی ہے۔ ہم تیرے لیے برکتیں سہل کر دیں گے۔

تیتیوبا: (بہت زیادہ پُر سکون ہو جاتی ہے،) مسٹر ہیل خدا آپ پر کرم کرے۔

ہیل: (اس کا احساسِ منزلت بڑھ جاتا ہے،) اب تم ایک اَوزارِ خداوندی ہو جس کی مدد سے شیطان ہم یہاں ڈھونڈیں گے۔ تم منتخب کی گئی ہو۔ تمھیں اس لیے چُنا گیا ہے کہ تمھاری مدد سے یہ گاؤں ہم پاک کریں۔ بے دھڑک بات کرو۔ شیطان کی طرف پُشت کر لو، اور خدا کا سامنا کرو۔ خدا کا سامنا کرو اور خدا تمھیں امان دے گا۔

تیتیوبا: (ہیل کی بات دُہراتی ہے) خدا، تیتیوبا کو امان دے گا۔

ہیل: (مہر بان ہو جاتا ہے) شیطان کے سنگ تمھارے پاس کون آیا۔ دو، تین، چار، کتنے تھے؟

تیتیوبا ہانپتے ہوئے پھر سے آگے پیچھے ہِلنے لگتی ہے، اور سامنے گھورنے لگتی ہے۔

تیتیوبا: وہ چار تھے، چار۔

پیرس: (تیتیوبا پر دباؤ بناتے ہوئے) ان کے نام بتاؤ، نام بتاؤ؟

تیتیوبا: (اچانک پھٹ پڑتی ہے) ہائے، اس نے کتنے بار مجھے حوکم (حکم) دیا کہ میں جناب کو مار دوں، مسٹر پیرس۔

پیرس: مجھے مار دو؟

تیتیوبا: (غضب ناک ہو جاتی ہے) وہ آکھنا (کہتا) مسٹر پیرس مردہ ہونا۔ مسٹر پیرس، اچھا آدمی نہیں ہونا۔ مسٹر پیرس کمینہ بندہ … اور شریف نہیں ہونا۔ اس نے مجھے حُوکم دیا کہ میں بستر سے اٹھتی اور آپ کا گلا کاٹتی۔ (ان سب کی تو سانسیں جیسے رک گئی تھیں) لیکن میں اسے بتاتی۔ اس بندے سے میں نفرت نہیں کرتی۔ اسے نہیں مارنا چاہتی۔ لیکن وہ آکھنا (کہتا ہے) تیتیوبا، تو میرا کام کرتی اور تجھے میں نے آزاد کیا۔ تجھے پہننے کو اچھے کپڑے دیتا۔ اور تیری شان اچی (اونچی) کرتا۔ اور تو اڑ کر بارباڈوس واپس گئی۔ (جائے گی)۔ لیکن میں آکھنی (کہتی) تو جھوٹا ہے شیطان تو جھوٹا ہے۔ پھر جھکڑ جھولتی (جھلاتی) ایک رات میرے پاس آیا اور آکھنا دیکھ چِٹّے (سفید فام) تو میرے بُردے (غلام) ہیں۔ میں نے نظریں اٹھائیں تو اس کے ساتھ بیگم گڈ کھڑی تھی۔

پیرس: سارا گڈ؟

تیتیوبا: (ہلتے ہوئے رونے لگتی ہے)  جی جناب اور بیگم اوسبرن بھی۔

مسز پٹنم: میں جانتی تھی۔ بیگم اوسبرن تین دفعہ میری دائی بنی تھی۔ ٹامس میں نے تمھیں کتنی دُہائیاں دیں۔ دیں کہ نہیں؟ کہ اوسبرن کو نہ بلاؤ کیوں کہ میں اس سے ڈرتی تھی کہ میرے بچے اس کے ہاتھوں میں سکڑ کر ختم ہو جاتے تھے۔

ہیل: ہمت رکھو، ہمیں ان سب کے نام بتاؤ۔ اس بچی کا دکھ تم کیسے برداشت کر پا رہی ہو؟ (وہ بَیٹّی کی طرف اشارہ کرتا ہے) خدا کی اسے عطا کردہ معصومیت پر نظر کرو، اس کی روح کتنی لطیف ہے۔ ہمیں اسے بچانا ہو گا۔ تیتیوبا، شیطان آشکار ہو گیا ہے، اور اس پاکیزہ بھیڑ کی کسی درندے کی طرح ہڈیاں چچوڑ رہا ہے۔ ہماری مدد کرو خدا تم پر رحم کرے گا۔

ایبی گیل اٹھتی ہے جیسے کِشف ہوا ہے اور غوغا کرتی ہے۔

ایبی گیل: میں اپنا آپ فاش کرتی ہوں۔ (وہ مُتحیَّر ہو کر اس کی طرف پلٹتے ہیں۔ اس پر سرخوشی سی چھائی ہے جیسے موتیوں جیسی روشنی میں جَڑی ہو) مجھے نورِ خدا در کار ہے۔ میں یَسّوع کے عشقِ شیریں کی خواہاں ہوں۔ میں شیطان کے لیے ناچی تھی۔ میں نے اپنا نام اس کی کتاب میں لکھا۔ میں یسوع کی جانب لوٹتی ہوں، اور ان کے ہاتھ چومتی ہوں۔ شیطان کے سنگ میں نے سارا گڈ کو دیکھا۔ میں نے شیطان کے سنگ بیگم اوسبرن کو دیکھا۔ میں نے شیطان کے سنگ برجٹ بشپ دیکھی۔ (اس کی تقریر کے دوران بیٹی بستر سے اٹھ پڑتی ہے۔ اس کی آنکھیں تَپ رہی ہیں اور ایبی گیل کی سنگت  کرنے لگتی ہے۔)

بیٹی: (خلا میں تکتے ہوئے) میں نے جارج جیکبز کو شیطان کے سنگ دیکھا۔ میں نے بیگم ہوو کو شیطان کے سنگ دیکھا۔

پیرس: بیٹی بول پڑی (وہ جھپٹ کر بیٹی کو گلے لگا لیتا ہے۔ بیٹی بول پڑی، ہیل، خدا کی رفعتیں۔ جادو ٹوٹ گیا، یہ آزاد ہو گئیں۔

بیٹی: (جنونی سا اودھم مچاتی ہے مگر بہت مطمئن ہے،) میں نے مارتھا بیلوز کو شیطان کے سنگ دیکھا۔

ایبی گیل: میں نے بیگم سبر کو شیطان کے سنگ دیکھا۔ (اب تو بات دوسروں کی بد بختی سے لطف کشید کرنے تک بڑھ گئی ہے۔)

پٹنم: مارشل، مارشل، (امریکی پولیس کا ایک بڑا عہدہ) میں مارشل کو بلواتا ہوں۔

پیرس مناجات تشکر میں محو ہو گیا ہے۔

بیٹی: میں نے ایلس بیرو کو شیطان کے سنگ دیکھا۔

پردہ گرنے لگتا ہے۔

ہیل: (جاتے ہوئے پٹنم سے کہتا ہے) مارشل کو کہنا کہ ہتھ کڑیاں اور بیڑیاں بھی لائے۔

ایبی گیل: میں نے بیگم ہاکنز کو شیطان کے سنگ دیکھا۔

بیٹی: میں نے بیگم ببر کو شیطان کے سنگ دیکھا۔

ایبی گیل: میں نے بیگم بوتھ کو شیطان کے سنگ دیکھا۔

 ان کا بد مست شور جاری رہتا ہے۔

پردہ گرتا ہے۔

دوسرا  ایکٹ

آٹھ دن بعد، پراکٹر کے گھر کی بیٹھک کا منظر۔

ایک دروازہ باہر کھیتوں کی طرف کھلتا ہے۔ بائیں طرف ایک آتش دان ہے، جس کے پیچھے زینے ہیں جو اوپر کی منزل پر لے جاتے ہیں۔ اپنے زمانے کے حساب یہ کمرہ تھوڑا تاریک اور لمبا  ہے جس کی چھت نیچی ہے۔ پردہ اٹھنے کے سَمے کمرہ خالی ہے، مگر اوپری منزل سے ایلزبیتھ کے گانے کی صدا آ رہی ہے۔ لگتا ہے یہ گیت وہ بچوں کو سلانے کے لیے گا رہی ہے۔ دروازہ کھلتا ہے اور جان پراکٹر اپنی بندوق تھامے اندر آتا ہے۔ وہ آتش دان کی طرف جاتا ہے اور دیوار کے ساتھ بندوق کھڑی کر دیتا ہے، آتش دان سے  ایک دیگچہ نکالتا ہے، اور اسے سونگھتا ہے۔ پھر وہ چمچہ اٹھا کر دیگچے میں سے کچھ نکال کر چکھتا ہے۔

اسے شاید اس شے کا  ذائقہ اچھا نہیں لگا۔ وہ الماری میں تھوڑا سے نمک نکال کر دیگچے میں پھینک دیتا ہے۔ وہ جب دو بارہ چکھ رہا ہوتا ہے تو اوپر سے ایلزبیتھ کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ وہ دیگچہ دو بارہ آتش دان میں رکھ دیتا ہے، اور بیسن کے پاس جا کر ہاتھ مُنھ دھونے لگتا ہے۔

ایلزبیتھ اندر آتی ہے۔

ایلزبیتھ: دیر کیوں ہو گئی؟ اب تو خاصا اندھیرا ہو گیا ہے۔

پراکٹر: میں جنگل کے آخری کونے پر بِجائی کر رہا تھا۔

ایلزبیتھ: یعنی  یہ کام سمجھو ختم ہوا۔

پراکٹر: ہاں فارم کی بِجائی ہو گئی۔ لڑکے سو گئے؟

ایلزبیتھ: سو جائیں گے تھوڑی دیر میں۔ (وہ آتش دان کی طرف جاتی ہے، اور چمچے سے ایک تھالی میں سالن ڈالتی ہے۔)

پراکٹر: دعا کرو اس بار موسم عمدہ رہے۔

ایلزبیتھ: مولا بھلی کرے۔

پراکٹر: تم آج اچھی ہو ناں؟

ایلزبیتھ: اچھی ہوں (میز پر پلیٹ رکھتی ہے اور کھانے کی جانب اشارہ کرتی ہے) خر گوشنی ہے۔

پراکٹر: (میز کی طرف جاتا ہے) جوناتھن نے پھانسی ہے؟

ایلزبیتھ: یہ دو پہر کو گھر میں آئی تھی۔ ایک کونے میں بیٹھی تھی، جیسے ملاقات کے لیے آئی ہو۔

پراکٹر: نشانی تو اچھی ہے کہ خود بَہ خود آئی۔

ایلزبیتھ: مولا معاف کرے، اس کی کھال اتارتے سمے تو میں بہت دکھی ہو گئی تھی۔ بے چاری خر گوشنی۔ (وہ بیٹھ جاتی ہے اور پراکٹر کو اسے چکھتے دیکھنے لگتی ہے۔)

پراکٹر: ہے تو بڑی لذیذ۔

ایلزبیتھ: (مسرت سے اس کا چہرہ تمتمانے لگتا ہے) دھیان سے پکائی ہے۔ گلی ہوئی ہے ناں؟

پراکٹر: ہاں (وہ کھاتا ہے، یہ دیکھتی ہے) جلد ہی کھیت سر سبز ہو جائیں گے۔ ڈھیموں کے نیچے سے تو  دھرتی لہو کی طرح گرم ہے۔

ایلزبیتھ: اچھا ہے ناں۔

پراکٹر کھاتا رہتا ہے۔ پھر اوپر دیکھتا ہے۔

پراکٹر: اگر فصل اچھی ہوئی تو میں جان جیکب کی بچھیا خرید لوں گا۔ اچھا ہے ناں؟

ایلزبیتھ: ہاں ناں۔

پراکٹر: میں تمھیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں، ایلزبیتھ۔

ایلزبیتھ: (بڑی دقت سے کہتی ہے) جانتی ہوں۔

وہ اٹھتا ہے، ایلزبیتھ کے پاس جا کر اسے چومتا ہے۔ وہ بھی اسے چومتی ہے۔ مگر مایوس سا ہو کر میز کی طرف لوٹتا ہے۔

ایلزبیتھ: (جیسے اپنے آپ کو کوئی بھولی بات یاد دلا رہی ہو) ارے ہاں (اٹھتی ہے اور ایک گلاس سیبوں کی شراب کا بھر لاتی ہے، اور وہ اپنی کمر خمیدہ کر لیتا ہے۔)

پراکٹر: پیدل چلتے بیج بوتے فارم تو برِّ اعظم لگتا ہے۔

ایلزبیتھ: ہاں ناں (شراب اسے دیتی ہے۔)

پراکٹر: (ایک ہی سانس میں پورا گلاس پی کر گلاس میز پر دَھر دیتا ہے) گھر میں کچھ پھول تو چن کر لایا کرو۔

ایلزبیتھ: بھول گئی۔ کل چن لاؤں گی۔

پراکٹر: ابھی تو جاڑا ہی ہے۔ اتوار کو میرے ساتھ آؤ۔ فارم میں گھومتے ہیں۔ اتنے پھول تو میں نے کہیں بھی نہیں دیکھے۔ (پھولوں کے بارے میں گفتگو کے لائے ہوئے اچھے احساسات سے بھر پُور وہ کھلے دروازے سے آسمان کی اور دیکھنے لگتا ہے۔) گُل ہائے یاس کی خوش بو کی رنگت جامنی ہوتی ہے۔ گُل ہائے یاس کی خوش بُو ڈھلتی رات جیسی ہوتی ہے۔ بہار میں میسا چوسیٹس حسن ہی حسن ہوتا ہے۔

ایلزبیتھ: ایسے ہی ہے۔

 ان  کی بات چیت میں وقفہ سا آ جاتا ہے۔ میز سے وہ اسے آسمان جذب کرتے دیکھتی رہتی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے مگر کہہ نہیں پاتی۔ کچھ کہنے کی بَہ جائے وہ اس کا گلاس، اس کا کانٹا، اس کی پلیٹ اٹھاتی ہے اور بیسن کی طرف بڑھ جاتی ہے۔ اب اس ک پُشت پراکٹر کی طرف ہے۔ وہ اس کی طرف پلٹ کر اس کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔ ان کے درمیان دوری کا ایک احساس فزوں ہو جاتا ہے۔

پراکٹر: تم کیا پھر سے اداس ہو؟ ہو ناں؟

ایلزبیتھ: (وہ تنا تنی نہیں چاہتی مگر کوئی چارہ بھی تو نہیں) تم نے بہت دیر کر دی۔ میں سمجھی دوپہر کو تم سیلیم چلے گئے تھے۔

پراکٹر: سیلیم میں میرا کیا کام؟

ایلزبیتھ: ہفتے کے آغاز میں تم نے کہا تھا کہ تم وہاں جاؤ گے۔

پراکٹر: (جانتا ہے وہ کیا کہنا چاہتی ہے)  بعد میں میرا ارادہ بدل گیا تھا۔

ایلز بیتھ: میری وارن تو وہاں گئی ہوئی ہے۔

پراکٹر: تم نے اسے کیوں جانے دیا۔ تمھیں پتا بھی ہے میں نے اسے سیلیم جانے سے روک دیا ہے۔

ایلزبیتھ: میں اسے روک نہیں پائی۔

پراکٹر: (ایلزبیتھ کی خوب خبر لینا چاہتا ہے، لیکن خود کو تھام لیتا ہے،) یہی تو تم میں خرابی ہے۔ مالکن یہاں تم ہو، میری وارن نہیں۔

ایلزبیتھ: اسے نے مجھے دہلا ہی اتنا دیا کہ اسے روکنے کی ہمت ہی جاتی رہی۔

پراکٹر: تم چوہیوں سے ڈرتی ہو ایلزبیتھ؟ تم …

ایلزبیتھ: اب یہ چوہیوں کی بات نہیں رہی۔ میں نے اسے روکا لیکن وہ کسی راج کماری کی طرح گردن اٹھا کر ناز کرنے لگی۔ میرا سیلیم جانا ضروری ہے بیگم پراکٹر۔ اب میں عدالت کی مقرر کردہ افسر ہوں۔

پراکٹر: کیسی عدالت؟

ایلزبیتھ: اب انھوں نے ایک باقاعدہ عدالت بٹھا لی ہے۔ انھوں نے بوسٹن سے چار جج بھیجے ہیں، جیسے وہ کہتی ہے عدالتِ عامہ کے سنجیدہ مجسٹریٹ۔ اور صوبے کا گورنر اس عدالت کی سربراہی کر رہا ہے۔

پراکٹر: وہ پاگل تو نہیں ہو گئی۔

ایلزبیتھ: مجھے موت آ لے اگر وہ پاگل ہے۔ وہ کہتی ہے اب چودہ لوگ جیل میں ہیں۔ (پراکٹر اس کی طرف دیکھتا ہے مگر کچھ سمجھ نہیں پا رہا)۔ وہ کہہ رہی تھی، ان لوگوں کے مقدمے سنے جائیں گے اور عدالت انھیں پھانسی کی سزا بھی دے سکتی ہے۔

پراکٹر: (تمسخر اڑاتا ہے مگر اپنے تمسخر پر اسے ایمان نہیں ہے) ارے وہ کسی کو بھی پھانسی نہیں …

ایلیزبتھ: جان، اگر وہ اعتراف نہیں کرتے تو ڈپٹی گورنر انھیں پھانسی دے گا۔ شہر پگلا گیا ہے۔ ایبی گیل کے بارے میں  میری ایسے بات کر رہی تھی جیسے ایبی گیل کوئی طاہرہ ہے۔ جب ایبی گیل لڑکیوں کو عدالت میں لاتی ہے تو لوگ ایسے اس کے لیے راہ بناتے ہیں جیسے اسرائیل کا سمندر درمیان سے پھٹ گیا تھا۔ لوگ ان لڑکیوں کے سامنے لائے جاتے ہیں۔ اور اگر کسی کو دیکھ کر یہ لڑکیاں چیختی چنگھاڑتی فرش پر لوٹتی ہیں تو اس فرد کو جیل میں بند کر دیا جاتا ہے، ان لڑکیوں کو سِحَر زدہ کرنے کے الزام میں۔

پراکٹر: (دیدے پھاڑتا ہے) یہ تو بہت ہی سیاہ شرارت ہے۔

ایلزبیتھ: میرے خیال میں تمھیں سیلیم جانا چاہیے، جان۔ (وہ اس کی طرف مڑتا ہے) تمھیں لوگوں کو بتانا چاہیے کہ یہ سب فراڈ ہے۔

پراکٹر: (کسی اندیشہ ہائے دُور دراز میں مبتلا ہے) فراڈ تو یقیناً ہے۔

ایلزبیتھ: ایزکائیل چیور کے پاس جاؤ کہ وہ تمھارا شناسا ہے، اور اسے بتاؤ ایبی گیل نے پچھلے ہفتے اپنےچچا کے گھر میں تم سے کیا کہا تھا۔ اس نے یہی تو کہا تھا کہ کوئی جادو ٹونا نہیں ہے۔ کہا تھا ناں؟

پراکٹر: (سوچتے ہوئے) کہا تھا، بالکل کہا تھا، یہی کہا تھا۔

ایلزبیتھ: (دھیرے سے اسے کہتی ہے کہ ڈرتی ہے کہ اس کا اصرار پراکٹر کو کہیں طیش نہ دلا دے۔) خدا نہ کرے کہ عدالت سے تم یہ بات مخفی رکھو۔ یہ بات ضرور عدالت تک پہنچنی چاہیے، جان۔

پراکٹر: (خامشی سے اپنی سوچوں سے جھگڑتا ہے) ضرور، ضرور۔ میں تو حیران ہوں وہ اس کی باتوں پر یقین کیسے کر رہے ہیں۔

ایلزبیتھ: میں ہوتی تو ابھی سیلیم چلی جاتی ،جان۔ تم رات کو …

پراکٹر: میں اس معاملے پر سوچوں گا۔

ایلزبیتھ: (ہمت کرتی ہے) تم اس بات کو مت چھپاؤ، جان۔

پراکٹر: (طیش میں آنے لگتا ہے) میں جانتا ہوں، مجھے یہ بات بتانی چاہیے۔ کہا ناں سوچوں گا۔

ایلزبیتھ: (اسے اذیت ہوتی ہے اور بڑی سرد مُہری سے کہتی ہے،) اچھی بات ہے۔ تو تم اب سوچتے رہو۔ (اٹھ کر جانے لگتی ہے۔)

پراکٹر: ایلزبیتھ، میں اس فکر میں مبتلا ہوں کہ جو بات ایبی گیل نے مجھے بتائی میں اسے ثابت کیسے کروں گا۔ اور اگر اب وہ طاہرہ بن چکی ہے، اور شہر کے لوگ اُلّو کے پٹھے ہو گئے ہیں تو اسے فراڈ ثابت کرنا میرے خیال میں آسان نہیں ہو گا۔ جب اس نے یہ بات مجھے بتائی تھی تو ہم ایک کمرے میں تنہا تھے۔

ایلزبیتھ: تو تم اس کے ساتھ ایک کمرے میں اکیلے تھے؟

پراکٹر: (ڈٹتے ہوئے) ہاں ایلزبیتھ، کچھ لمحوں کے لیے۔

ایلزبیتھ: تو پھر تم نے مجھے پوری بات نہیں بتائی ناں۔

پراکٹر: (اس کا غصہ بڑھنے لگتا ہے،) میں نے کہا، محض چند لمحوں کے لیے، پھر دوسرے سب اندر آ گئے تھے۔

ایلزبیتھ: (دھیمے سی کہتی ہے مگر اس کا پراکٹر پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔) تم جو چاہو کرو، پھر۔ (اور پلٹنے لگتی ہے۔)

پراکٹر: خاتون (وہ مُڑتی ہے) تمھارے واہمے، اب اور میں برداشت نہیں کروں گا۔

ایلزبیتھ: (تھوڑے اونچے انداز میں) مجھے کوئی …

پراکٹر: نہیں برداشت کروں گا۔

ایلزبیتھ: پھر نا روا نہ کرنے کا حوصلہ بھی تو رکھو۔

پراکٹر: (آپے سے باہر ہوتے ہوئے) تم مجھ پر ابھی تک شک کرتی ہو۔

ایلزبیتھ: (مسکرا کر اپنا وقار تھامتی ہے،) اگر ایبی گیل کو تکلیف پہنچنے کا خدشہ نہ ہوتا تو کیا تم سوچ بچار کرتے؟ بکھرنے لگتے؟ نہیں جان کوئی اور ہوتا تو اب تک تم عدالت میں پہنچ چکے ہوتے۔

پراکٹر: دیکھو بات سمجھنے کی …

ایلزبیتھ: سمجھ رہی ہوں ،جان۔

پراکٹر: (سرزنش کرتا ہے) تم اور اب مجھے نہیں پرکھو گی ایلزبیتھ۔ ایبی گیل پر فراڈ کا الزام دھرنے سے پہلے سوچنا عقل مندی کی بات ہے، اور میں سوچوں گا۔ اپنے شوہر کو پرکھنے سے پہلے تم اپنی نیکی میں بہتری کو بھی تو دیکھ لو۔ میں ایبی گیل کو بھول گیا ہوں اور تم …

ایلزبیتھ: اور می …

پراکٹر: چھوڑو، تم نہ کچھ بھولتی ہو اور نہ تم معاف کرنا جانتی ہو۔ خاتون کچھ سخا بھی تو سیکھو۔ تمھارے ڈر سے پچھلے سات مہنیوں سے، جب سے وہ گئی ہے، میں پنجوں پر چلتا ہوں کہ تم پر کچھ گراں نہ گزرے۔ میں نے تمھیں خوش کرنے کے سوا کچھ سوچا ہی نہیں۔ لیکن تمھارے دل میں ایک دائمی جنازہ رواں رہتا ہے۔ اگر کچھ کہوں تو مشکوک ٹھہرتا ہوں۔ میری ہر بات تم ایسی جانچتی ہو جیسے میں صرف جھوٹ بولتا ہوں۔ بولنے سے پہلے تولتا ہوں جیسے یہ گھر نہیں عدالت ہے۔

ایلزبیتھ: تم مجھے  کھل کر پوری بات نہیں بتاتے، جان۔ تم تو کہہ رہے تھے کہ تم اس سے بھیڑ میں ملے تھے اور اب کہتے …

پراکٹر: میں اب اپنے حق میں اور کوئی دلیل نہیں دوں گا، ایلزبیتھ۔

ایلزبیتھ: (اب وہ اپنی تسلی کے لیے جواز گھڑنے لگتی ہے۔) جان میں بس …

پراکٹر: بس کیا؟ جب پہلی دفعہ تم نے شک کا اظہار کیا تھا، مجھے چنگھاڑ کر تمھیں چپ کرا دینا چاہیے تھا۔ مگر ایک اچھے مسیحی کی طرح میں پارہ پارہ ہو گیا، میں نے اعتراف کیا، اعتراف۔ اس دن تمھیں خدا سمجھنا میری بہت بڑی حماقت تھی۔ تم خدا نہیں ہو، نہیں ہو تم خدا اور یہ بات یاد رکھو۔ کبھی کبھار مجھ میں کچھ اچھائی بھی دیکھ لیا کرو۔ ہر وقت مجھے مت جانچو اور پرکھو۔

ایلزبیتھ: میں تمھیں نہیں پرکھتی۔ وہ منصف تمھارے دل میں دھڑکتا ہے جو ہر وقت تمھیں پرکھتا ہے۔ میں نے تمھیں ہمیشہ سے ہی ایک اچھا آدمی جانا ہے، جان۔ (مسکراتی ہے،) تھوڑے سے بس تم وحشی ہو۔