ٹک نقاب الٹو مت عتاب کرو : منصور بوشناف کا ایک بہت ہی مختصر عربی ڈرامہ

ٹک نقاب الٹو مت عتاب کرو

ٹک نقاب الٹو مت عتاب کرو : منصور بوشناف کا ایک بہت ہی مختصر عربی ڈرامہ

(یاسر چٹھہ)

اس انتہائی مختصر ڈرامے میں منصور بوشناف اپنی تیز نظر اور اپنی کاٹ دار ذہانت سے عرب مسلمان معاشروں میں دینی اور دنیوی زندگی کے باہم گتھم گتھا ہونے کے سوال کے موضوع  کو کھوجتے ہیں۔

لیکن اس کھیل کو صرف عرب مسلمان معاشروں سے ہی متعلق کہنا درست تنقیدی بیان ہر گز نہیں ہوگا۔ یہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے بہت بڑا سوال رہا  ہے اور جدید معاشروں میں ان کے لیے ایک نفسیاتی سد راہ ہے؛ بھلے وہ اس سے انکار کریں۔

یہ سوال زندگی اور مذہب کے بارے میں آزاد فکری کی جوانی گزار چکنے، اور ریٹائرمنٹ کے برسوں کے آس پاس کی وقتی قوسین میں چہرے پر بڑھے ہوئے بالوں، جن کو ڈاڑھی کا نام دیتے ہیں، اور ہاتھ تسبیح کے دانوں کی برق رفتار حرکت میں بھی جواب پاتا ہے۔ اس سوال کا جواب جوانی کے ڈھلتے ہی زندگی سے حکم امتناع لے کر قبر کے لیے جیتے جانے میں بھی رد عمل پاتا ہے۔ یہ اپنے جوان ہوتے بچوں پر پہرے بٹھانے اور شک کے زندان تعمیر کرنے کی حد سے بڑھی نفسیات میں متشکل ہوتا ہے۔

ناصر عباس نیئر کی پچھلے برس یعنی 2016 میں خاک کی  مہک کے نام سے افسانوں کی کتاب آئی۔ اس کتاب کا دوسرا افسانہ بعنوان کفارہ ہے۔ اس افسانے کے شروع سے آخر تک گناہ و ثواب کی ثنویت پر دو کرداروں خدا داد اور اللہ بخشے کا بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ یہ افسانہ مسلمان معاشرے میں اپنا مقام وقوع رکھتا ہے، اس لیے کوئی اچنبھا  نا ہو کہ احساس گناہ کے بوجھ تلے دبا سماج و معاشرت اپنے مشکل سے ملے ہر سوچنے کے لحظہ گناہ و ثواب کے سوال سے ہی نبرد آزما رہے گا۔ ان محولہ بالا کرداروں کو سوال یہ درپیش ہے کہ گناہ کب سرزد ہوتا ہے۔ خدا داد کا ایک مکالمہ یہاں نقل کرنے پر اکتفا کریں گے:

” یہی تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ گناہ، اس وقت گناہ ہے، جب وہ بیان میں آ جائے۔…”

اس مکالمے سے بالکل ساتھ منسلک میں مزید یہ بیان افسانے کے راوی کی زبان سے اسی گناہ و ثواب کے موضوع پر سنیے:

“….ان کے چہروں سے یہ بات آسانی سے پڑھی جا سکتی تھی کہ انہیں تاسف تھا کہ خود سے واقف ہونے کا جو سنہری موقع انہیں اتفاقا ملا تھا، وہ اس قدر مختصر، عارضی اور بے اعتبار ثابت ہوا تھا۔ لیکن یہ تاسف جلد ہی ایک اور طرح کی راحت میں بدل گیا۔ انہیں عارضی اور فانی چیزوں سے نفرت سکھائی گئی تھی، اور جب کبھی اس نفرت کے اظہار کا موقع ملتا، انہیں راحت محسوس ہوتی تھی۔”

کفارہ، از خاک کی مہک، از ڈاکٹر ناصر عباس نیئر؛ صفحہ 31، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور

اور بہت سی باتیں کی جا سکتی ہیں مگ مقام گفتگو نہیں۔ سر دست ہم مسلمان معاشروں اور ثقافتوں کے جنم پتر اپنے اپنے احساس گناہ اور قبر کے نام پر زندگی کو خلش زدہ گزارنے کے طور گزارتے رہیں اور روز اس سوال کے کولہو کے گرد بیل بنے بندھے رہیں۔ نا اپنے آپ کو کھول سکیں، نا دنیا کو دیکھ سکیں۔ اب لیجیے منصور بوشناف کے اس موضوع پر مختصر ترین عربی ڈرامے کا اردو ترجمہ:

***

پہلا منظر

ایک عرب ملک میں نائٹ کلب جہاں مرد و خواتین گاہک موجود ہیں۔ مردوں نے کالے رنگ کے سوٹ زیب تن کیے ہوئے ہیں اور سرخ رنگ کی نیکٹائیاں لگائی ہوئی ہیں۔ مردوں کا یہ لباس بالکل رسمی دفتری آہنگ کا عکاس ہے۔ خواتین نے چست و تنگ پتلونیں پہنے ہوئے ہیں۔ ایک بیرا جو سفید رنگ کے سوٹ اور بو ٹائی لگائے ہوئے ہے، مشروبات فراہم کر رہا ہے۔

ایک خاتون گانا گا رہی ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے یونانی نژاد مصری گائیکہ دلیدا کے گانے سلمہ، یا سلمہ کے ریکارڈ پر محض ہونٹوں کو جنبش دے رہی ہیں۔

دوسری دو خواتین رقص کے ایک انداز میں اپنے جسموں کو خم دیے کھڑی ہیں۔ ان پر نظریں گاڑے مرد شہوانیت سے لتھڑے آوازے کس رہے ہیں۔
خواتین جو کلب میں آئی ہوئی ہیں وہ ہوا کے دوش پر اپنے ہونٹوں سے بوسے آگے بڑھاتی نظر آتی ہیں۔ مرد اپنی جیبوں سے ڈالر کے نوٹوں کی دفتریاں نکالتے ہیں اور انہیں اپنے  آس پاس موجود خواتین کے سروں پر نچھاور کرتے ہیں۔

خواتین اب بوسے ہوا کی نذر کرنے کی بجائے اپنے ساتھ  کے مردوں سے راست انداز سے کرتی ہیں۔

اسی اثناء میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ بجنے والے گانے کے ریکارڈ میں کچھ فنی  خرابی آ جاتی ہے۔ ریکارڈ میں آنے والی اس خرابی سے گانے کے بولوں پرخالی ہونٹوں کی جنبش کے بل پر اپنی جانب سے گانے کا احساس دینے کی فنکاری کی ترتیب الٹ پلٹ  جاتی ہے۔

ہونٹوں کہ جنبش اور ریکارڈ شدہ گانے کے بولوں کی ترتیب ٹوٹنے کے ایک آدھ لمحے کے اندر اندر ان فنکارہ کے ہونٹ رک جاتے ہیں۔ اسی دوران کلب میں آئے ہوئے مردوں کے لب اپنے ساتھ کی خواتین کے لبوں سے سل ہوتے ہیں۔

طویل خاموشی کا وقفہ آتا ہے۔

کلب کا بیرا اسٹیج کے پیچھے کی جانب چلا جاتا ہے۔ کچھ ہی لمحے بعد ایک ضعیف العمر شخص کی بلند آہنگ آواز قبر کے عذاب کے متعلق پرزور انداز سے بتاتی اور یاد کراتی  ہے۔

مرد و خواتین اپنے باہم لبوں سے سلے لبوں کو کھول لیتے ہیں۔ ہر کوئی اپنا سر جھکا لیتا ہے۔ پھر سے خاموشی چھا جاتی ہے۔ سب لوگ خالی نظروں سے خلا میں دیکھتے جاتے ہیں۔

 

ایک مرد گاہک: “یہ کیا ہے بھئی؟ ریکارڈ کاہے کو بند کرتے ہو یار! ہم کسی مسجد میں تو نہیں آئے ہیں۔”

ایک خاتون گاہک: “ یہ نائٹ کلب ہے…. نائٹ کلب… نائٹ کلب ہے یہ….”

ایک اور مرد گاہک: اللہ کے سوا کوئی اور جبار وقہار نہیں؛ میں اپنے رب سے توبہ کرتا ہوں، میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔

تیسرا مرد گاہک: انہیں اکیلا چھوڑ دیں۔ ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ ہم سب گنہگار ہیں۔

 

وہ سب کے سب گاہک حیرانی کے مارے ساکت ہوجاتے ہیں، جبکہ ان کی نظریں کسی خالی لا موجود کو دیکھتی جاتی ہیں۔ البتہ اس ضعیف العمر شخص کی قبر کے عذاب کی وعید سناتی بھنبھناتی جاتی ہے۔
ارد گرد کی چیزیں آہستہ آہستہ تاریک ہوتی جاتی ہیں۔

***

دوسرا منظر

 

ضعیف العمر شخص کی آواز تسلسل سے آتی رہتی ہے۔ بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بڑھتی جاتی ہے؛ حتی کہ اس آواز میں دھمکی کا سا لہجہ سامنے آنے لگتا ہے۔

گیت گانے والی فنکارہ ایک ایک کرکے اپنے لباس کے مختلف پارچے اتارنا شروع کر دیتی ہے اور ساتھ ہی انہیں سامنے موجود مردوں کے سروں پر پھینکتی  جاتی ہے۔

وہ مرد اس فنکارہ کے لباس کی باس کو لمبی سانسوں سے اپنے پھیپھڑے میں بھرتے ہیں۔ ان لمحوں کے دوران البتہ وہ کسی حد تک اس ضعیف العمر شخص کی آواز کی وجہ سے انتشار توجہ کا شکار ہوتے ہیں۔

گائیکہ اپنا پورا لباس بدن سے اتار چکتی ہے؛ لیکن ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ ایک کالے رنگ کا گاؤن اس کے زرق برق لباس کے نیچے ڈھکا ہوا تھا۔ وہ تو پوری طرح سے ڈھکی ہوئی تھی۔

وہ گائیکہ سٹیج پر اب بھی موجود ہے، لیکن بالکل نئے روپ

میں: ایک  شرمیلی اور پارسا خاتون کے روپ میں۔

خاموشی اور حیرانی کا منظر چھا جاتا ہے؛ سب کے سب لوگوں کے منھ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں۔

کلب میں موجود باقی خواتین بھی ایک ایک کرکے اپنے رقص کرنے کے لیے مخصوص لباس بدن سے اتارتی جاتی ہیں۔ وہ بھی اپنے لباس کے مختلف حصوں کو اتارتے اتارتے مردوں کے چہروں پر پھینکتی جاتی ہیں۔ مرد ان کپڑوں کے اپنے اوپر گرنے سے ایسے تڑپ اٹھتے ہیں جیسے وہ کپڑے نہیں بلکہ اژدھے ہوں۔

شرمیلی اور پارسا بن کر خواتین وہاں کالے رنگ کے گاؤنوں میں ملبوس نظر آنے لگتی ہیں، ان گاؤنوں میں جو ان کے اوپری چمکیلے رقص کے لیے لباس کے نیچے چھپے ہوئے تھے۔

مرد بھی اپنے لباس اتارتے جاتے ہیں اور انہیں خواتین کے سروں پر پھینکتے جاتے ہیں۔ خواتین ناپسندیدگی سے کراہتی ہیں۔

مرد وہیں کھڑے رہتے ہیں پارسا اور لجیلے پن کی تصویریں بنے؛ کالے چوغوں میں ملبوس، جوکہ ان کے سوٹوں کے نیچے چھپے ہوئے تھے۔

نائٹ کلب کے سب گاہکوں کی آنکھوں سے آنسو اور ان کے تن بدن سے غم و اندوہ چھلک پڑتا ہے۔ سفید سوٹ میں ملبوس بیرا ایک ٹرالی کھینچ کر لاتا ہے جس پر چھوٹے چھوٹے کوڑے لدے ہوئے ہیں۔ وہ بیرا ہر مرد کو ایک ایک کوڑا پکڑاتا ہے، اور ہر خاتون کو ایک ایک برقع۔

مرد کوڑے لہراتے ہیں۔ خواتین اپنے اپنے سر ان مردوں اور ان کوڑوں کے آگے خم کر دیتی ہیں۔ غصے سے بھرے وہ سارے مرد اپنے پاؤں میں جم جاتے ہیں۔

ضعیف العمر شخص کی آواز لہر در لہر رواں اور گونجتی رہتی ہے۔ آس پاس کی سب چیزیں سرمئی ہوتے ہوتے کالی ہوتی جاتی ہیں۔

ختم شد

***

لبیا کے متبادل الرائے ڈرامہ نویس اور ناول نگار، منصور بوشناف نے اپنی ادبی زندگی 1970 کی دھائی میں شروع کی۔ لیبیا میں آپ کے لگ بھگ 20 ڈرامے پرفارم ہوچکے ہیں۔ قذافی کے دور حکومت میں انہیں اپنے کھیل “جب چوہے حکومت کرتے ہیں” کی وجہ سے بارہ سال کی قید سنائی گئی۔ ان کا پہلا ناول بنام، چیونگم، 2008 میں قاہرہ میں شائع ہوا، جسے 2014 میں انگریزی، اور2017 میں فرانسیسی میں ترجمہ کیا گیا؛ لیکن یہ لیبا میں آج بھی اس کتاب پر پابندی ہے۔


Reference: Mansour Bushnaf play’s text source in English: wordswithoutborders.org

 

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔