تھوڑی ہوا آنے دیں : وقت بہت بدل چکا ہے

Ammar Ghazanfar aik Rozan writer
عمار غضنفر، صاحبِ مضمون

تھوڑی ہوا آنے دیں : وقت بہت بدل چکا ہے

(عمار غضنفر)

علمِ بشریات کے ماہرین کے مطابق قدیم زمانے میں تقریباً پانچ لاکھ سال کا عرصہ ایسا بھی گزرا ہے جسے مادرسری زمانے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ دور عورت کی برتری کا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب انسان غاروں میں رہتا تھا اس کی غذائی ضروریات کی تکمیل کا دارومدار جنگلی جانوروں کے شکار کے نتیجے میں حاصل ہونے  والے گوشت  پر تھا۔ اس دور میں سماجی لحاظ سے عورت کو برتری حاصل تھی۔کثیر زوجگی کی بجائے ایک عورت کو ایک سے زائد شوہر رکھنے کا حق حاصل تھا۔

عورت مرد کے جنسی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد عورت کی نسبت سے پہچانی جاتی تھی اور بچوں کی ولدیت کو کچھ اہمیت حاصل نہ تھی۔ عورت کا دل مرد سے بھر جاتا تو وہ اپنی مرضی کے کسی اور مرد کا انتخاب کرنے کا حق رکھتی تھی۔ مرد کو اپنے نطفے کی اہمیت سے آگاہی نہ تھی۔ عورت ہی کو تخلیق کا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا۔ عورت زرخیزی کی علامت تھی اور زرخیزی کے حصول کے لیے دیویاں تخلیق کی گئیں اور ان کی پوجا کو زرخیزی میں اضافے کے لیے باعثِ برکت سمجھا جاتا تھا۔

آج بھی دنیا کے کئی پسماندہ قبائل میں ایسے رسم و رواج  اسی زمانہِ قدیم کی  ہیں۔ اس صورتِ حال میں تبدیلی تب آئی جب دنیا کا ایک بڑا حصہ برف سے ڈھک گیا۔ اس عرصے کو آئس ایج  کے نام سے تعبیر کیا جاتا۔ مجبوراً بنی نوع انسان کو اپنی بقا کی خاطر پہاڑوں اور غاروں سےنکل کر میدانی علاقہ جات میں نکل مکانی کرنی پڑی۔ اس انسانی ہجرت کے انسان کی معاشرتی اور سماجی زندگی پر اس قدر اہم اثرات مرتّب ہوئے جنہوں نے انسانی سماج کی شکل، حرکیات اور اخلاقیات کو یکسر تبدیل کر دیا۔

اس تبدیلی کا سہرا بھی عورتوں ہی کے سر ہے مگر اس کے نتیجے میں عورتوں کی اپنی حیثیت معاشرے میں ثانوی درجے کی ہو کر رہ گئی اور ایک پدرسری معاشرہ وجود میں آیا جس میں عورت کی حیثیت ایک ملکیت سے زیادہ نہ رہی جو کہ زمین، مویشیوں اور دیگر املاک کی مانند مرد کے قبضے میں اور اس کی مرہونِ منت تھی۔ یہ عورت ہی تھی جس نے میدانی علاقوں میں آنے کے بعد گندم اگانے کا طریقہ دریافت کیا اور اس طرح انسان کو گوشت کے متبادل کے طور پر اناج کی شکل میں خوراک کا ذریعہ میسّر آیا جسےوہ عرصہ دراز تک ذخیرہ کر کے اپنی غذائی ضروریات پوری کر سکتا تھا۔

مگر اب معیشت کی بنیاد مرد کے ہاتھ میں آنے لگی کیونکہ عورت کے مقابلے میں مرد جسمانی ساخت کے لحاظ سے مضبوط بازوؤں اور کاندھوں کا حامل تھا جو کھیتی باڑی میں زیادہ مددگار تھے۔ یہ مرد کی برتری اور حکومت کا آغاز تھا۔ اب زمانہ مرد کا تھا جو معاشی ضروریات کی تکمیل کا بنیادی ستون تھا۔ اس سے قبل قبائل مل کر شکار کرتے تھے اور شکار سے حاصل شدہ گوشت وغیرہ کو تمام قبیلے کی اجتماعی ملکیت سمجھا جاتا تھا جو سب افراد کی شکم سیری کا باعث ہوا کرتی تھی۔

انفرادی ملکیت کے تصور سے انسانی ذہن ابھی ناآشنا تھا۔ مگر جب زمین میں اناج کی کاشت کا آغاز ہوا تو رفتہ رفتہ اپنی کاشت شدہ زمین کی ملکیت کو تصور پیدا ہوا۔ اور پھر دودھ اور گوشت کے لیے پالے جانے والے جانور بھی ملکیت میں شامل ہوئے۔ انفرادی ملکیت کے تصوّر نے وراثت کے تصوّر کو جنم دیاجس کے نتیجے میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ فرد کا کاشت شدہ رقبہ اس کی موت کے بعد کسی اور کی ملکیّت میں نہ جا سکے۔

مرد کو عملِ تولید میں اپنی شرکت کی اہمیت کا احساس ہونے لگا تھا۔ مرد کو ایسی عورت چاہیے تھی جو صرف اسی کی اور اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے اسی تک محدود رہے۔ تاکہ اس سے پیدا ہونے والی اولاد باپ کے حوالے سے پہچانی جائے جو اس کی موت کے بعد اس کی مِلک کی وارث بن سکے۔ اس چیز کو یقینی بنانے کی خاطر عورت کو اپنے قبضے میں کرنا ضروری تھا۔

سو اب عورت بھی دیگر اشیاء کی طرح مرد کی ملکیت تھی۔ یہ زراعتی دور آغاز تھا ایک جاگیردارانہ سماج کا آغاز۔ عورت نے اس تبدیلی کو نہ صرف یہ کہ ذہنی طور پر قبول کر لیا بلکہ وہ معاشی ذمہ داریوں میں بنیادی کردار سے دستبردار ہو کر مرد کو اپنے معاشی و سماجی تحفّظ کا ذمہ دار سمجھنے لگی۔

کہا جاتا ہے کہ عورتوں کے زیورات جنہیں وہ بہت شوق سے پہنتی ہیں اسی دورِ غلامی کی یادگار ہیں اور گلے اور پیروں میں ڈالے جانے والی زنجیروں اور ناک، کان میں ڈلنے والی نکیل کی موجودہ صورت ہیں۔ اب عورت صرف ایک ہی مرد کے ساتھ تعلق قائم کرنے اور اس کی اولادکو جنم دینے اور اس کی پرورش کی ذمہ دار تھی۔

ہمارے موجودہ مذاہب خصوصاً  سامی مذاہب نے اسی زراعتی دور میں نمود پائی اور سماجی سطح پر شارحینِ  مذہب نے مذہبی احکامات و استعمال کرتے ہوئے مرد کی عورت پر برتری کے تصور کو مزید پختگی بخشنے کے لیے اس میں الوہی عنصر بھی شامل کر دیا اور مردوں کی خوشنودی ان کے لیے ایک مذہبی فریضہ ٹھہرا۔

اس دور میں ہونے والی جنگوں میں مفتوح قوم یا قبیلے کی خواتین کو دیگر لوٹے ہوئے مال و دولت کی مانند آپس میں تقسیم کیا جاتا اور پھر ان لونڈیوں کی باقاعدہ خرید وفروخت کی جاتی جس میں خریدار ان کے جسم کو اچھی طرح ٹٹول کر ان کی ایسے بولی لگاتے جیسے کوئی جانور خریدا جاتا ہے۔

عورت کو جنسی تعلقات میں ایک مفعول کی حیثیت حاصل تھی جس کو اپنے جنسی جذبات اور جسمانی خواہشات کے اظہار کا کوئی حق حاصل نہ تھا بلکہ اس کا مصرف صرف مرد کی شہوانی خواہشات کی آگ کو بجھانا اور اس کے لیے بیٹے پیدا کرنا اور ان کی پرورش کرنا تھا۔

بیٹی کی پیدائش کو ایک مجبوری کے طور پر قبول کرنا پڑتا۔ ایک ایسا وجود جس کی عصمت کی تا عمر حفاظت کرنا پڑتی اور اور اسے سنبھال سنبھال کر رکھنا پڑتا تھا یہاں تک کے اس کے لیے کوئی رشتہ ڈھونڈ کر اس کو ایک اور مرد کی نگرانی میں دے دیا  جاتا۔

باپ، بھائی، خاوند اور بیٹا سب کی عزت عورت کے جسم سے منسلک تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ دنیا کی اقوام کا ایک بڑا  حصّہ زراعتی دور سے آگے نکل کر صنعتی اور پھر اس سے بھی آگے بڑھ کر کمرشل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہوتا چلا گیا۔ معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے خواتین کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ  جدوجہد کرنے کے لیے باہر نکلنا پڑا۔ معاشی ضروریات نے سماجی رویوں اور اخلاقی قدروں کو بدل ڈالا۔

معاشی طور پر خودمختار عورت اب کسی کی ملکیت نہیں۔ وہ اب اپنی زندگی کے فیصلوں میں آزاد ہے۔ اپنے جسم اور اپنی ذات کی وہ خود مالک ہے۔ اپنی جنسی جبلت کے اظہار، جسمانی تعلقات قائم کرنے یا نہ کرنے کے حق اور ان تعلقات سے برابری کی سطح پر لطف اندوز ہونے کا پورا استحقاق اسے حاصل ہے۔

مائی باڈی مائی چوائس  My body, my choice کا سلوگن اور میریٹل ریپ  marital rape کو ایک جرم تسلیم کیا جانا اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ دوسری جانب ہم جیسی اقوام ہیں جو جاگیردارانہ سماج، ملائیت، اور جدید زمانے کے درمیان کہیں معلق ہیں۔ ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر والا حساب ہے۔

تو ہم اس آئی۔ٹی اور گلوبلائزیشن کے دور میں باقی دنیا سے کٹ کر رہ سکتے ہیں اور نہ ہی فرسودہ روایات کا طوق اپنی گردن سے اتار سکنے کے قابل ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام نے تجربے کیے، نقصان اٹھائے، سیکھا اور اپنی سماجی اقدار کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی اور ایسی روایات اور اخلاقیات سے پیچھا چھڑا لیا جو موجودہ زمانے کی تبدیلیوں کا ساتھ دینے سےقاصر تھیں اور ایسی سوچ اور اقدار کو فروغ دیا جو موجودہ زمانے کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئےلوگوں کی زندگی کو آسان بنائیں۔

ادھر ہم نے خود کو اپنی بنائی دیواروں میں مقیّد کر لیا ہے مگر جو سوچ اتنی جامد ہو کہ بدلتے زمانے کے تقاضوں کا ساتھ نہ دے وہ صرف سوسائٹی میں اندرونی شکست و ریخت، دوہرے اخلاقی معیارات، فرسٹریشن اور انفرادی اور اجتماعی بے سکونی کا باعث ہی بنتی ہے جیسا کہ اس وقت ہمارے معاشرے کے حال سے عیاں ہے۔