ایڈیپس ریکس ، از، سوفیکلیز (حصہ دوم)

ایڈیپس ریکس 3 2

ایڈیپس ریکس ، از، سوفیکلیز (حصہ دوم)

ترجمہ از، نصیر احمد

ایڈیپس: دیوتا تمھاری یہ دعائیں قبول کریں۔ میری بات سنو۔ ہمیں حالات کے تقاضے مد نظر رکھتے ہوئے عمل کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ہی مصیبتوں سے تم چین پاؤ گے۔ میں تو اس پوری داستان اور جرم سے نا واقف ہوں۔ کیا میں کسی سراغ کے بغیر قتل کا راز افشا کر سکتا ہوں؟

اب مگر میرے رفیقو، میں جو اس زیادتی کے بعد تھیبز کا شہری بنا تھا، پورے شہر میں منادی کراتا ہوں کہ جو بھی لائیس، لبڈاکوس کے پسر کی زندگی چھیننے والے کو جانتا  ہو، اسے میں ہدایت دیتا ہوں کہ وہ ہر چیز مجھے بتا دے، کسی خوف یا ڈر کے بغیر۔ اگر قاتل کو جان کا خطرہ ہے تو میں ضمانت دیتا ہوں اسے حفاظت سے شہر بدر کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں اگر قاتل بے دیار ہے تو قاتل کا جانکار اداس نہ ہو، قاتل کو میری سرکار سے دربدری سہنے کے لیے امداد بھی  دی جائے گی۔ لیکن اگر یہ جانکار اپنے دوست کو بچانے کے لیے حقائق پر پردہ ڈالے گا تو قاتل کے لیے میں شدید سزا تجویز کر چکا ہوں۔

میں اس نگر کے باسیوں کو چتاؤنی دیتا ہوں کہ وہ قربانی کی رسموں، کھیل تماشوں اور معبد میں مناجات میں میرا ساتھ دیں۔ یہ میرا فرمان بھی ہے اور عزم بھی کہ مجرم کو اس کے گھر سے گرفتار کیا جائے۔

یہ مجرم ہم سب کے لیے لعنت ہے جیسا کہ ڈلفی کے معبد نے انکشاف کیا ہے۔ میں معبد سے وابستہ ہوں اور مقتول بادشاہ کا حامی بھی۔ جہاں تک مجرم کا تعلق ہے میں اسے بد دعا دیتا ہوں کہ اس کی زندگی تنگ دستی اور خُرافات کی نذر ہو خواہ وہ بادشاہ ہو کہ چور۔ اگر مجرم میں بھی ثابت ہو جاؤں تو سزا سب کے لیے برابر ہے۔ اب یہ تمھاری ذمہ داری ہے کہ میرے لیے اور اپنے اس دیوتاؤں کے ٹھکرائے ہوئے شہر کی سلامتی کے لیے میری معاونت کرو۔ فرض کرو اگر معبد سے بشارت نہیں آئی ہوتی تو کیا تم اپنا شہر اس غلاظت سے پاک نہ کرتے؟ تمھیں پہلے سے ہی جرم دار کو ڈھونڈنا چاہیے تھا کہ تمھارا بادشاہ، ایک معزز بادشاہ بے گناہ موت کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ اور اب میں اس کی سلطنت  کا حاکم ہوں، اس کے بستر پر دراز ہوں اور اب اس کی ملکہ میرے بچے جنم دیتی ہے۔ اگر وہ جیتا ہوتا تو اس کا بیٹا میرے بیٹوں کا بھائی ہوتا۔ مگر قدرت نے اسے بے اولاد ہی رکھا۔ لیکن اگر وہ بے اولاد نہ ہوتا تو میں اب اس کے بیٹوں کا بھائی ہوتا۔ اب میں اس کے بیٹوں کی جگہ پر ہوں۔ لائیس کے لیے میں لڑوں گا اور یہ لڑائی جیتوں گا۔

اینگر اور کادموس کے سلسلہ نسب کے وارث، لیبڈاکوس اور پولی ڈورس کے فرزند کے دشمنوں کو ڈھونڈ نکالوں گا۔ اور چن چن کر ان سے انتقام لوں گا۔ اور جو میرا راستہ روکیں گے زندگی کے شجر سے محروم ہوں گے۔ اپنی بیویوں کے بطن سے اولاد کا پھل نہیں پائیں گے۔ اور وہ تباہی کی تکمیل کی روداد بن جائیں گے۔

دیوتاؤ انھیں خستہ کرو جیسے خستہ آج ہم ہیں۔ کاش وہ ہم سے بھی زیادہ ابتری کا شکار ہوں۔

اے تھیبز کی وفادار رعایا جو میرے ارادے درست گردانتی ہے، گواہ رہنا کہ میں لافانی دیوتاؤں سے رہ نمائی اور انصاف کا مُلتجی ہوں۔

نمایندہ عوام: میرے آقا میں حلف اٹھاتا ہوں کہ نہ تو میں قاتل  ہوں اور نہ ہی ہتیارے کو جانتا ہوں۔ کیا معبد جس نے یہ تلاش ترتیب دی ہے ہمیں بتا نہیں سکتا کہ قاتل کو کہاں تلاش کیا جائے؟

ایڈیپس: ایک پر خلوص مشورہ مگر دیوتاؤں سے ان کی منشا سے زیادہ معلوم نہیں کیا جا سکتا۔

نمائندہ عوام: مگر ایک آخری راستہ ہے۔

ایڈیپس: وہ راستہ بتاؤ، خواہ وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو، تم اسے مجھ سے نہ چھپاؤ۔

نمائیندہ عوام: دیوتا اپالو کا وہ روشن ضمیر ولی ٹائریسئیس ہمیں وہ راستہ دکھا سکتا ہے۔

ایڈیپس: تمھیں علم ہے کہ میں وقت ضائع کرنے کا عادی نہیں ہوں۔ میں دوبار اس کی جانب قاصد روانہ کر چکا ہوں۔ حیرانی ہے وہ ابھی آیا نہیں۔

نمائندہ عوام: وہ پرانی اطلاع بھی بے فائدہ ثابت ہوئی۔

ایڈیپس: بتاؤ، میرے لیے ہر اطلاع کار آمد ہے۔

نمائندہ عوام: مشہور تھا کہ پچھلا بادشاہ رہزنوں کے ایک جتھے کا شکار ہوا تھا۔

ایڈیپس: مگر اس واقعے کا کوئی عینی شاہد نہیں ہے۔

نمائندہ عوام: اگر قاتل کے دل میں کہیں بھیانک خوف جا گزیں ہے، وہ تمھاری ملامتوں سے ہی گھبرا کر سامنے آ جائے گا۔

ایڈیپس: ایسے کینہ پروروں کو ملامتوں کو کوئی خوف نہیں ہوتا۔

(ایک نوعمر خادم کی راہنمائی میں اندھا ساحر ٹائریسئیس آتا ہے)

نمائندہ عوام: آ گیا وہ، جو مجرم  کھوج سکتا ہے، یہ ہے وہ مقدس پیامبر جس کے وجود میں سارے زمانوں کا سچ سمایا ہے۔ خوش آمدید اے ٹائیریسئیس۔

ایڈیپس: ٹائیریسئیس، غیب کا علم رکھنے والے، رازوں کے امین، راز جو تمھیں بتائے گئے ہیں مگر تم ہمیں وہ راز نہیں بتاتے۔

اے آسمانوں کے اسرار، اور زمینوں کے چھپے ہوئے رازوں کو جاننے والے، اگرچہ تم نابینا ہو، مگر نا آشنا تو نہیں۔ طاعون کی آگ میں، میرے آقا، صرف تمھی ہماری رہبری کرکے اس عذاب سے ہمیں چھٹکارا دلا سکتے ہو۔

ممکن ہے تم نے قاصدوں کی بات دھیان سے نہ سنی ہو، اس لیے میں پھر بتا دیتا ہوں کہ اپالو کا حکم ہے لائیس کے قاتل کو اس کے اصل مقام تک پہنچا کر ہی ہم شہر کو طاعون سے پاک کر سکتے ہیں۔ وہ جفا پیشہ شہر سے نکال دیا جائے گا یا موت کا مزہ چکھے گا۔

کیا تم پرندوں کی اڑان دیکھ کر یا کسی اور ابدی ذریعے سے شہر کو، مجھے، اس متعدی وبا سے آزاد کرا سکتے ہو۔ اے بزرگ، فلاکت میں کسی کا ہاتھ تھامنے سے شائستہ ذمہ داری کوئی نہیں ہے۔

ٹائیریسئیس: حقیقت سے آگاہی ہلاکت خیز بھی ہو سکتی ہے۔اور سچ جاننا کسی طور سے تمھارے لیے بہتر نہیں ہے۔ میں واقف حال تو ہوں مگر راز نہیں فاش کرتا۔ شاید میرا یہاں آنا ہی درست نہیں تھا۔

ایڈیپس: تمھیں راز افشا کرنے میں کیا پریشانی ہے؟ تمھارا دل پتھر کیوں ہو گیا ہے؟

ٹائیریسئیس: مجھے گھر جانے دو، تمھارے اپنے نصیب، میری اپنی قسمت۔ یہی خیر ہے۔ جو میں کہہ رہا ہوں، وہ مان جاؤ۔

ایڈیپس: تمھاری باتیں ناشکری اور شہر سے غداری کی عکاس ہیں

ٹائیریسئیس: تمھاری باتیں بے لگام اور بے محل ہیں۔ دانشمندی یہی ہے کہ میں خاموش رہوں۔

ایڈیپس: خدا کے لیے، ہم تم سے التجا کرتے ہیں۔ ہمیں قاتل کا پتا ٹھکانا بتا دو۔

ٹائیریسئیس: تم سب بے خبر ہو۔جو میں جانتا ہوں اسے میری ہی اذیت رہنے دو۔ تمھیں بتادوں تو تم سب کے لیے جی کا جنجال بن جائے گا۔

ایڈیپس: تم کچھ جانتے ہو اور ہمیں بتانے سے گریزاں ہو۔ تم ہم سے چشم پوشی اور شہر سے غداری کر رہے ہو:

ٹائیریسئیس: مجھے اپنے آپ کو اور تمھیں اذیت آشنا کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ کیوں میرے پیچھے پڑے ہو۔ تم مجھے سمجھا نہیں سکتے۔

ایڈیپس: میرا تحمل تو پتھر پانی کر سکتا ہے، مگر بڈھے، تو تو بہت ہی سرپھرا ہے۔ کیا تجھے احساس کی نعمت نہیں عطا ہوئی؟

ٹائیریسئیس: تم مجھے بے حس کہہ رہے ہو؟ اگر تمھیں اپنی فطرت احساس کی خبر ہوتی تو تم مجھے یہ بات کبھی نہ کہتے۔

ایڈیپس: مجھ سے زیادہ یہاں درد مند کوئی نہیں ہے۔ تیری شہر سے ایسی بے رخی میں کیسے سہوں؟

ٹائیریسئیس: میں بولوں یا نہ بولوں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہونی تو ہو کر رہے گی۔

ایڈیپس: اگر تم ہونی کو روک نہیں سکتے، کم از کم ہمیں ہونی کے بارے میں بتا تو سکتے ہو۔

ٹائیریسئیس: میں نہیں بتاتا۔ چاہے تم کتنے ہی غضب ناک کیوں نہ ہو؟

ایڈیپس (غم و غصہ): تو نہیں بتاتا تو میں تجھے بتاتا ہوں۔ تو ہی قتل کا منصوبہ ساز ہے۔ تو نےہی بادشاہ مارا ہے۔ تیری آنکھیں ہوتیں تو میں یہ بھی کہتا کہ تو تن تنہا مجرم ہے۔

ٹائیریسئیس: اچھا تو یہ معاملہ یوں ہے؟میں تمھیں قاتل ٹھہراتا ہوں جیسے تم نے ڈھنڈورا پیٹاہے۔ میری یہ بات سن لو، قاتل کے لیے تمھاری سزائیں، تم پر آ پڑیں گی۔ آج سے تم ہم سب سے بولنے چالنے کا حق کھو بیٹھے ہو۔اور ہمارا شہر تمھاری وجہ سے آلودہ ہے۔

ایڈیپس: تیری یہ جرات۔ کیا تو یہ سمجھتا ہے ایسی گستاخی کے بعد تو یہاں سے خراماں خراماں چلا جائے گا

ٹائیریسئیس: میں آزاد ہوں اور سچ میرا سہارا ہے۔

ایڈیپس: تجھے اس بے غیرتی پر کس نے اکسایا؟ یہ صرف تیری فتنہ گری نہیں لگتی؟

ٹائیریسئیس: در اصل، یہ سب کچھ تمھارا ہی کیا دھرا ہے۔ کاش تم میرا منھ نہ کھلواتے۔

ایڈیپس: تونے کہا کیا تھا؟ ذرا پھر سے مجھے سن لینے دے۔

ٹائیریسئیس: جو میں نے کہا تھا کیا وہ واضح نہیں تھا یا تم مجھے پھانسنے کے چکر میں ہو؟

ایڈیپس: میں نے  دھیان نہیں دیا۔ دوبارہ بک دے۔

ٹائیریسئیس: تو نے ذلت بوئی ہے، تو اس کا پھل پائے گا۔

ایڈیپس: تیرا کہا کچھ معتبر بھی ہے؟

ٹائیریسئیس: میں کہتا ہوں، تو اپنے پیاروں سے شرمناک اور فاسقانہ رشتوں میں بندھا ہے۔

ایڈیپس: تو تو بھونکے ہی چلا جا رہا ہے۔

ٹائیریسئیس: میں اپنی کہوں گا کہ سچ توانا ہوتا ہے۔

ایڈیپس: ہاں ،ہوتا ہے مگر تیری بات نہیں۔او ،نابینا،کوڑھ مغز، پاگل بڈھے

ٹائریسئیس: تو باؤلا ہو گیا ہے۔ مجھے گالیاں دیتا ہے مگر کل سب تجھے گالیاں دیں گے، بہت جلد۔

ایڈیپس:نہ ختم ہونے والی بے کار باتوں کی اولاد، او دیوانے بوڑھے۔

ٹائیریسئیس: میں تیری تیرہ طالعی کا ذمہ دار نہیں۔ تیری قسمت اپالو نے رقم کی ہے۔اور یہ معاملہ اپالو کا ہی معاملہ ہے۔

ایڈیپس: اتنا تو بتا کیا کریون نے تجھے یہ سب کچھ کہنے کو کہا تھا یا یہ تیری ہی کرامت ہے؟

ٹائیریسئیس: کریون تیرے لیے خطرہ نہیں ہے، تیرا عذاب تیری اپنی کشید ہے۔

ایڈیپس:مال و عظمت، ہنر و انداز جہاں گیری، شاہانہ مرتبہ تمام عالم میں باعث افتخار ہیں۔ کوئی رشک کرتا ہے تو کسی کاظرف مئے حسد سے لبالب ہوتا ہے۔کریون میرا معتبر حبیب، میرا مصاحب کریون، بادشاہی کے عظیم مرتبے کی ہوس میں مجھے سے بے وفائی کر گیا۔یہ مرتبہ اہل شہر نے مجھے کھلے عام دیا تھا مگروہ اس مقام کے لیے خفیہ طریقوں سے مجھے برباد کرنا چاہتا ہے۔

کریون نے اس قسمت شناس کو اپنا آلہ کار بنایا ہے۔ یہ گندی اشرفیاں اکٹھی کرنے والا دغاباز ولی، مجھ سے زیادہ دانا تو نہیں۔

ہمیں بتا کیا کبھی تیری زاہدانہ لغو گوئی حق آشنا بھی ہوئی ہے؟جب وہ جہنمی بلی یہاں کار فرما تھی، تب تو کہاں تھا؟ کیا اس بلی کا جادو شہر میں سب سے پہلے داخل ہونے والے انسان پر اثرانداز نہ ہو سکتا تھا؟کیا اس خاتون کے سر والی اور بلی کے دھڑ والی بلا سے نجات پانے کے لیے کسی حقیقی ساحر کی ضرورت نہیں تھی؟ اس وقت تیرے پرندے کہاں تھے؟ کہاں تھے تیرے دیوتا؟

مگر میں ایڈیپس، ایک سادہ لوح بے علم انسان، اس بلا کو شہر سے بھگانے میں کامران ہوا۔کسی آسمانی پرندے نے میری مددنہیں کی تھی

تمھاری خام خیالی ہے۔ مجھے برباد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے تو اؤر تیرا یار کریون دونوں تباہ ہو جاؤ گے۔ تو اگر بوڑھا نہ ہوتا تو اپنی سازش کی سزا  ابھی پا لیتا ۔

نمائندہ عوام: تمھارے اور ٹائیریسئیس کے الفاظ غیض وغضب کے آئینہ دار ہیں، اے ایڈیپس،اور ہمیں غصے سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم تو بس دیوتا کی منشا پوری کرنے کے خواہاں ہیں اور یہی ہمارا موقف ہے۔

ٹائیریسئیس: تم ایک بادشاہ ہو۔ یوں تو میں تمھاری رعایا ہوں مگر تم سے کہیں بڑا بادشاہ ہوں کہ اپالو کا خادم ہوں اور مجھے کریون کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

میری سنو، تم میرے اندھے پن پر خندہ زن ہو مگر تم اپنی دونوں آنکھوں کے باوجود اندھے ہو۔اور تم اپنی کج حالی سے آگاہ بھی نہیں ہو۔

تمھیں یہ بھی نہیں پتا کہ تم کس کے گھر میں کس کے ساتھ رہ رہے ہو؟ تمھارے ماں باپ کون ہیں؟ کیا تم مجھے اپنے بارے میں کچھ بتا سکتے ہو؟

تمھیں یہ بھی خبر نہیں کہ تم اپنے ماں باپ کے ساتھ کیسی اندھی زیادتیاں کر چکے ہو؟تمھارے ماں باپ کی بددعاؤں کا دہرا کوڑا جو عالم زیریں میں بھی اور اس دنیا میں بھی موجود ہے۔ وہ دہرا کوڑا اسی دنیا میں تم پر برسے گا۔ ساتھ ہی تمھاری قیمتی آنکھوں پر ایک کالی رات اترے گی۔

اس وقت کون تمھارا واویلا سنے گا؟کتھاریون کی پہاڑیاں تمھاری چیخوں سے گونجیں گیں؟دلہا کی طرح تمھاری آمد پر بجنے والے شادیانے تمھاری ناجائز پیدائش کا نوحہ کہیں گے۔ اس سے بڑھ کر تباہی تیرے بچوں پر نازل ہو گی۔

غصہ کر، کریون کی ملامت کر، مجھے گالیاں دے مگر میں تجھے بتائے دیتا ہوں زمین پر چلنے والوں میں سے کوئی بھی تجھ سے زیادہ خوار نہ ہوگا۔جیسے تیرا مقدرہے ایسے تو کسی کی کبھی جڑیں نہیں اکھڑیں گی۔

ایڈیپس: کیا میں اس کی بے ہودہ باتیں سہتا رہوں؟اسے لے جاؤ، یہاں سے باہر، جا میری نظروں سے دور ہو جا۔

ٹائیریسئیس: میں کبھی یہاں نہ آتا اگر تو مجھے نہ بلاتا۔

ایڈیپس: مجھے کیا پتا  تھا کہ تو اپنے آپ کا اور ہم سب کا تماشہ بنا ڈالے گا۔

ٹائیریسئیس: مجھے احمق کہتے ہو۔ تمھارے والدین تو مجھے جہاں بھر سے زیادہ زیرک جانتے تھے۔

ایڈیپس: پھر میرے والدین کا ذکر، ٹھہر ، بتا کون تھے میرے والدین؟

ٹائیریسئیس: آج تمھیں ایک نیا باپ ملے گا، پچھلے سے تمھارا ناتا ٹوٹ جائے گا۔

ایڈیپس: تمھاری جلادینے بجھارتیں، بے کار کی باتیں

ٹائیریسئیس: پہیلیاں بوجھنے میں تو تمھارا بڑا نام تھا؟

ایڈیپس: چاہو تو میرا مذاق اڑا لو مگر میں یہ پہیلی بوجھ لوں گا اور مجھے کریون کی حمایت کی بھی حاجت نہیں۔

ٹائیریسئیس:کافی حد تک تمھاری بات درست ہے۔ تمھاری یہی عقدہ کشائی تمھاری بربادی کی وجہ بنی ہے۔

ایڈیپس:  اگر شہر کو  طاعون سے نجات مل گئی تو؟

ٹائیریسئیس: خادم، میرا ہاتھ تھام لے۔

ایڈیپس: خادم، اسے پرے لے جا، جب تک یہ یہاں ہے، کوئی کام نہ ہو سکے گا۔ یہ دفع ہو تو کچھ تو سکون ملے۔

ٹائیریسئیس: چلا جاؤں گا مگر وہ کہہ کر جاؤں گا جو کہنا ہے۔ تو مجھے کیا گزند پہنچا سکتا ہے؟میں پھر بتائے دیتا ہوں، وہ راندہ معبد،لائیس کا قاتل، جس کی تجھے تلاش ہے، تھیبز ہی میں ہے۔

تیرے گمان میں وہ کوئی پردیسی ہے مگر جلد تو جان لے گا کہ وہ مقامی ہے۔ مگر اس انکشاف سے وہ اندھا محظوظ نہ ہو سکے گا جس کی ابھی تک آنکھیں سلامت ہیں۔ ایک بے درہم و دینار شخص  اس آگاہی سے کوئی مسرت حاصل نہ کر پائے گا جو اب امارت کے نشے میں چور ہے۔ اور وہ لاٹھی سے راستہ ٹٹولتا ہوا شہر سے نکلے گا۔ جن بچوں کے ساتھ وہ رہ رہا ہے، آنے والے وقت میں، وہ ان کا باپ بھی ہو گا اور بھائی بھی۔ جس خاتون نے اسے جنم دیا ہے، وہ اس کا شوہر بھی ہو گا اور بیٹا بھی۔ اور وہ شخص  اس کڑے وقت میں یہ جان لے گا کہ وہ تو اپنی محرم سے فِسق میں مبتلا رہا ہے اور اپنے باپ کا قاتل بھی ہے۔ تھوڑے کو بہت جانو، آئندہ جو میں نے ابھی کہا غلط، بے ہودہ یا لغو نکلے  تب تم یہ طعنے دینا کہ اس پاگل بوڑھے کو آداب کِشف نہیں آتے تھے۔

(ٹائیریسئیس نو عمر خادم کی ہمراہی میں باہر چلا جاتا ہے اور ایڈیپس محل کے اندر چلا جاتا ہے)

سخن عوام:

بھولا نہیں

پچھلے بادشاہ کا خون

ڈلفی کا سنگ  رویا

ڈھونڈتا ہے

لہو میں لتھڑے ہاتھ

آ پہنچا ہے

قاتل کا لمحہ قضا

آندھی سے تیز

بادلوں سے سبک خرام

زی اس کا  لخت جگر

بادلوں کی مانند

گرجے گا

بجلی کی مانند

کڑکے گا

قاتل کو نہیں

بخشے گا

قہر کی دیویاں

ازل سے اس کی

ہم سفر ہیں

قاتل

ان سے بچ نہ پائے گا

پارنیسس کی فلک چھوتی

برفیلی چوٹیاں

چندھیا دیں گی

رہزن کی آنکھیں

دیوتا اسے

ڈھونڈ نکالیں گے

پاتال سے

گرچہ وہ جنگلی سایوں میں

چھپا ہے

دیوتاؤں کے قہر سے

مگر کب کوئی

بچا ہے

دیوتاؤں کا قہر

اس پر گرے گا

چراگاہ کےارنے بیل کی طرح

دیوتاؤں کے قہر سے

مفر ممکن نہیں

دیوتاؤں کے ہاتھوں

باغی مرے گا

مگر یہ خوفناک تر باتیں

باراں دیدہ بوڑھے کی

جو پرندوں کے پروں کی سرگوشیاں سن کر

احوال آئندہ بتلاتا ہے

میری روح کا طائر مجروح

سن کر یہ سخن

اداس ہے

جانے کیوں یہ پیردانا

میرا دل تڑپاتا ہے

میں بے دانش

اسرار آشنا نہیں

مگر میرا دل

بے تاب ہے

کبھی کسی نے خبر نہ دی

تھیبز کے شاہی کنبے

کا نسب

کچھ خراب ہے

نہ کسی نے بتایا

لائیس کی اندھی موت

ایڈیپس

شہ والا تبارکا

دامن داغ دار

کرے گی

مقدس زی اس

محترم اپالو

سب کہی جانتے ہیں

مگر  کس نے سوچا تھا

کہ زندگی ایسی بھی

کہے گی

مگر یہ پیر فرزانہ

یہ راز جوئے عالم لاہوت

جانتا ہے

سر بستہ رازوں کو

مگر اپنے ہی سحر کا

اسیر ہے

اس کی یہ عجب باتیں

اس پہ اعتماد

گھٹاتی ہیں

اور دانائی

کب کسی کی

جا گیر ہے

میں کیوں اپنے آقا پہ

دشنام دھروں

پگلے سے اک بوڑھے کی

اندھی سی پیش گوئی پہ

اکرام کروں

میرے مدبر آقا نے

شہر سے بھگائی تھی

میری دل جوئی کے لیے

وہ عِفریت خاتون

میں کیوں مانوں

اس بوڑھے کا

بہتان

اتہام

دوروغ و جنون

(جاری ہے )

ایڈیپس ریکس ، از، سوفیکلیز (حصہ اول)