’’سفید ربن باندھنے کا دن‘‘ :کیا عورتوں کے حقوق تسلیم کروائے گا؟

(رابی وحید)

’’وائٹ ربن ڈے‘‘ کیوں منایا جاتا ہے؟ 25نومبر کو منایا جانے والا یہ دن پاکستان میں بھی خاموشی سے منایا گیا۔ میں نے اپنی کولیگس سے اس دن کے متعلق پوچھا مگر کوئی بھی اس دن کی اہمیت بتانے کے قابل نہیں تھی۔ البتہ اس قسم کے دنوں کی منانے کے حوالے سے بہت سے فتوے سنے جا سکتے ہیں۔ جب میں نے بتایا کہ ’’سفید ربن کا دن‘‘ اصل میں عورتوں کے خلاف مردانہ تشدد کے خلاف احتجاج کا دن ہے تو تقریباً ہر عورت یہی کہہ رہی تھی کہ یہ مغربی رسمات ہیں جو ہمارے خاندانی نظام کے خلاف کام کر رہی ہیں، ہمیں اپنے جیسا یعنی کافر بنانا چاہتی ہیں۔ یہ تو خیر ہمارا وہ رویہ ہے ،جسے تبدیل ہوتے ہوتے صدیاں درکار ہیں مگر ہم سب کو اس دن کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہیے تا کہ آئندہ سال یہ دن ہونہی نہ گزر جائے۔
’’وائٹ ربن ڈے‘‘ کینیڈی شہریوں کی طرف سے بنایا گیا ایک دن ہے جو ایک شخص کی 18a7364a49183c64eb97da7dccf62d18-344x399چودہ عورتوں کی ہلاکت کے بعد اس دن کی یاد میں منایا جانے لگا تھا۔1991میں کینیڈا کے شہر’’ مونٹریل‘‘ میں ایک شخص نے عورتوں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں یہ نہتی عورتیں ماری گئیں۔کچھ لوگوں نے اس ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی اور 25نومبر والے دن ہی اس کو عورتوں کے خلاف تشدد کا دن بنا لیاگیا۔1999میں یو این او ، اسے اپنا دن بنا کے International Day for the Elimination of Violence Against Women (IDEVAW) کے طور پر منانے لگی۔پھر یونیفم (United Nations Development Fund for Women)نے اس کینیڈی تنظیم کے ساتھ شراکت سے اس دن ’’سفید ربن‘‘ بانٹے اور ایک خصوصی دن کے طور پرمان لیا۔
ہم اس دن کو کیوں منائیں۔ کیا مغرب سے آئی ہر رسم بری ہوتی ہے؟ ہم استاد کا دن بھی مناتے ہیں۔ والدین کا دن بھی مناتے ہیں۔ نجانے کیوں یہ مغربی دن ہمیں کیوں برے نہیں لگتے مگر یونہی کوئی ایسا دن جس سے ہمیں کوئی خوشی نصیب ہونی ہو یا ہماری پُر تشدد ذہنیت(violent)کا پتا چلتا ہو ہم اُسے نہ صرف برا سمجھتے ہیں بلکہ مغربی سازش بھی قرار دیتے ہیں۔
’’سفید ربن کا دن‘‘ عورتوں کے حقوق کا عالمی دن ہے۔ وہ حقوق جو تشدد کے نام پر غضب کر لیے جاتے ہیں۔ مرد اپنی طاقت اور مردانہ حاکمیت کے سہارے عورتوں کو ایک کنیز کے طور پر رکھنا چاہتا ہے۔ عوتوں پر تشدد دنیا بھر میں عام ہے۔ اس سے مغربی اور مشرقی معاشروں کی تخصیص کی قید نہیں۔جس طرح کا تشدد اب مشرقی معاشروں میں رائج ہے کچھ اسی قسم کا مغربی معاشروں میں بھی رائج رہ چکا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں قانون نے مرد حاکمیت کو لگام لگائی ہے، ورنہ وہاں اب بھی پُر تشدد کاروائیاں دیکھنے سننے کو ملتی ہیں۔ بلیک شاعرات ایلکس واکر اور مایا اینجلو کی شاعری اس کی کھلی مثال ہیں۔
مایا اینجلو اپنی ایک نظم ’’میں پھر اٹھوں گی‘‘ میں کہتی ہے:
’’تم چاہو تو مجھے اپنے لفظوں (کی کرواہٹ) سے مار دو
تم مجھے اپنی نظروں سے زخمی کر دو
تم مجھے اپنی نفرت سے قتل کر دو
لیکن اس سب کے باوجودمیں ہوا کی طرح اڑان بھروں گی‘‘
r472451_2369591’’وائٹ ربن ڈے‘‘ منانے کا مقصد عورتوں کی تکریم کو تسلیم کروانا ہے۔ عورتوں کی عزت صرف ماں اور بہن کے نام پر ہوتی ہے مگر وہی ماں اور بہن جب کسی اور کی ہو تو اُس کی توہین اور بے عزتی کچھ معنی نہیں رکھتی۔ جب عورتوں پر تشدد کی بات کی جاتی ہے تو کسی جاگیرداریا طاقت ور عورت کے ہاتھوں مرد کی تذلیل یا تشدد پیش کر دیا جاتا ہے حالاں کہ یہ صنفی مسئلہ نہیں بلکہ خاص واقعات (exceptional) ہوتے ہیں اس سے پورے سماجی عمل کو دیکھنا درست نہیں۔
’’سفید ربن کا دن‘‘ ہماری ذہنیتکو صاف آنکھوں سے دیکھنے کا پیغام دیتا ہے۔