بت شکن دانش ور: ارشد محمود کی تین کتابیں

(اشفاق سلیم مرزا) 
ارشد محمود(ولادت: ۱۹۵۳) نے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ نوجوانی میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ روایت اور بنیاد پرستی کے خلاف کمربستہ رہے اور پاکستانی قوم کو یورپ کی ترقی کی اہمیت اور راہیں دکھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان کی تین کتابیں ’’ تصور خدا ‘‘ ثقافتی گھٹن، تعلیم اور ہماری قومی الجھنیں اور پاکستانی معاشرہ شائع ہوچکی ہیں۔ وہ آج کل اسلام آباد میں مقیم ہیں۔
بت شکن
ارشد محمود کا بیان میں اس جملے سے شروع کرنا چاہوں گا کہ اس دھرتی سے وابستگی اور اس سے متعلق تمام تر جلال و جمال کو خوبصورتی سے بیان کرنے اور قارئین تک پہنچانے کا جو فن ارشد محمود کے پاس ہے ’وہ بہت نایاب‘ ہے۔
ایسی ہی کچھ باتیں انیسویں صدی میں مادی فلسفی فائر باخ نے جرمنی میں کی تھیں۔ تو ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ میں یہ بات ارشد محمود کی کتاب ’تصور خدا کے حوالے سے کررہا ہوں۔
ارشد محمود کا شمار ان قلم کاروں میں نہیں ہوتا، جو آسمان کی ماورائی یا مابعد الطبیعیاتی وسعتوں میں گم ہو کر دھرتی اور انسانی عمل (PRAXIS) سے اس کو سنوارنے کے عمل سے بھول جاتے ہیں اور آج کے مسائل کا حل کسی ان دیکھی دنیا میں پناہ لے کر ڈھونڈتے تھے، یا پھر ماضی کے کسی سنہری دور کی مالا جپتے رہتے ہیں۔ وہ آج کے جیتے جاگتے انسان کے بدنی اور ذہنی تقاضوں اور ضرورتوں سے نبرد آزما ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اس کے سامنے دنیا کی تہذیب کی ترقی کا روشن مینار ہے جس سے سبق حاصل کرنے کے بعد وہ نئی عمارتیں بناتا ہے۔ وہ ایک لکھاری ہے، جو سچ لکھتا ہے۔
آئیے جو اس نے اپنی کتابوں میں کہاہے، اس کو دہرائیں :
(i)
تصور خدا
’’جیسا کہ ہم دیکھ آئے ہیں کہ اولین انسان اس وہم میں مبتلا ہو گیا کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی tasawar-e-khudaہے خود اس کی طرح صاحب شعور (روح) ہے۔ جو اسے اپنی مرضی سے نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے جھک گیا، اور ان اشیاء و مظاہر (دیوتاؤں) کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وہی کچھ کرنے لگا، جس طرح ایک کمزور انسان اپنے سے طاقت ور اور برتر انسان کی خوشنودی کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ اس وہم میں مبتلا ہونے میں انسان کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ان حالات میں انسان ایسا ہی سوچ سکتا تھا۔ انسانی شعور ابھی اپنے بچپن میں تھا۔ اس کی حالت بالکل انسانی بچے جیسی تھی، ایک حیران کن دنیا ، جہاں زندگی کی بقا ہر آن خطرے میں تھی۔ اس کے مقابل انسان کے پاس اپنی تصوراتی اور خیالی قوتیں ہی تھیں۔ انسان نے خارجی دنیا کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے کچھ خاص تصورات اور اعمال وضع کئے، جن کی پیروی میں انسان طرح طرح کے اوہام میں مبتلا ہوتا چلا گیا۔۔۔۔۔‘‘(صفحہ ۲۷ )
’’
۔۔۔۔مذاہب کا عمومی دعو یٰ ہے کہ وہ خدا کا براہ راست یا بالواسطہ دیا ہوا علم ہیں۔ اس کائنات کے بارے میں مذاہب نے آج تک انسان کو جو معلومات بہم پہنچائیں ، وہ سائنس کی بیان کردہ حقیقتوں سے اتنی مختلف ، متضاد اور مبہم کیوں تھیں؟ ظاہر ہے سائنس ایک ایسا معروضی علم ہے۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ خدا کی خلق کردہ دنیا کس ترتیب و ترکیب اور کن قوانین اور اصولوں کے مطابق بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ انسان بذریعہ سائنس اپنے ماحول کا صحیح علم حاصل کر کے ہی انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے، کائنات کو بجاطور پر خدا کا فعل (ACTION)کہہ سکتے ہیں۔ یعنی خدا اس کے سوا کیا ہے، کہ God in Action ہے۔ اور خدا کا یہ فعل کیسے اور کیونکر ہو رہا ہے۔ اس علم کو سائنس کہتے ہیں۔ اور بقول مذاہب ۔۔وہ خدا کا دیا زبانی علم ہیں۔ لیکن تاریخ اس باب میں ہماری راہنمائی نہیں کرتی کہ مذاہب نے انسان کو کائنات کے بارے صحیح ، صاف اور غیر مبہم علم دیا ہو۔ اس کے برعکس قصے کہانیاں، مبہم باتیں اور غیر حقیقی توجیہات کی بھرمار زیادہ نظر آتی ہے۔ انسان نے آج تک اس دنیا کے بارے میں جتنا بھی علم مجتمع کیا ہے۔مذاہب کا اس میں کوئی حصہ دکھائی نہیں دیتا۔ بلکہ تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے، کہ عقائد اس دنیا کے بارے میں جاننے کی انسانی جستجو کے راستے کی ہمیشہ رکاوٹ بنے رہے۔۔۔‘‘(صفحہ ۵۰ )
(ii)
تعلیم اور ہماری قومی الجھنیں
’’ ۔۔۔۔ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے آنے سے پہلے تقریباً ہر گاؤں میں سکول ماسٹر ہوتا 29540385-_uy201_ss201_تھا۔ راجوں اور امراء کے عطیات سے چلنے والے کہیں کہیں چھوٹے بڑے تعلیمی ادارے بھی تھے۔ لڑکیوں کی تعلیم گھر کے اندر اور پیشہ وارانہ تعلیم بذریعہ شاگردی(اپرنٹس شپ )دی جاتی تھی۔ پورے اسلامی اور مغل دور میں تعلیم کی تنظیم سازی میں باقاعدہ دلچسپی اکبر بادشاہ نے لی۔ اس نے بلا امتیاز عقیدہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے یکساں سکول کھولے۔ زندگی کی عملی ضرورتوں کے مطابق سلیبس میں تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ ایک فرمان کے ذریعے ریاضیات کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی۔ فلسفہ ،ادب، تاریخ کے ساتھ دیگر علوم کی تعلیم پر زور دیا گیا۔ اکبر کی پالیسیوں کو جہانگیر اور شاہجہاں نے برقرار رکھا۔ لیکن اورنگ زیب نے ایک طرف ہندو مدرسوں کو بند کروا دیا، دوسری طرف مسلمانوں کی تعلیم میں دنیا وی علوم کی حیثیت گھٹا کر دینیات کی اہمیت بڑھا دی۔ جس میں مذہبی جنونیت کا عنصر غالب تھا۔ انہی پالیسیوں کا نتیجہ تھاکہ مغل ریاست اور معاشرہ تیزی سے زوال پذیر ہوئے ، چنانچہ اورنگ زیب کی حکومت کے بعد بیرونی جنگجو سرداروں نے ہندوستان کی زمین کویکے بعد دیگرے روندڈالا۔ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت میں تعلیم کبھی بھی مربوط اور منصوبہ بند سرگرمی نہ رہی۔ انہیں اپنی ریاست کے پھیلاؤ اور سونے چاندی کے انبار لگانے میں دلچسپی تھی، جنہیں ایک کے بعد دوسرا (مسلمان) حملہ آور چھین لیتا۔ ہندوستان میں انگریزی تعلیم متعارف کروائے جانے تک، کسی کو انقلاب فرانس، امریکہ کے اعلان آزادی ، کارل مارکس اور آدم سمتھ کی سیاسی و معاشی تھیوریوں کا کوئی علم نہ تھا۔ مغلوں کے بنائے قلعے، محل، باغات اور مقبرے تو آج بھی دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اسکول ، کالج، لائبریریاں یا تحقیقی اداروں کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ ۔۔۔‘‘ (صفحہ ۲۱ )
’’
۔۔۔۔ یہ کہنا غلط ہے، کہ مسلم تاریخ خرد افروزی کی وارث رہی ہے۔ مسلم فکر پر ہمیشہ سے تقلیدی، رجعتی اور راسخ العقیدہ کٹر مذہبی پیشوائیت کا غلبہ رہا ہے۔ علم و دانش کے ابھار کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ بلکہ ان سماجی، سیاسی، معاشی ، تاریخی حالات کا نتیجہ تھا۔۔جس میں حکمران طبقہ یا اس کا کچھ حصہ آزاد خیال ہو چکا تھا۔ وسیع و عریض سلطنت کے ٹیکسوں کی آمدنی سے مڈل کلا س دانش نے جنم لیا۔ جو بنیادی طور پر سیکولر سوچ رکھتی تھی۔ جنہوں نے مغرب کے قدیم فلسفہ اور سائنسی کاموں کے ترجمے کر کے ان کی دریافت نو کی اور تحقیق کو مزید آگے بڑھایا۔ جس میں مسلم، عیسائی اور یہودی بھی شانہ بہ شانہ کام کر رہے تھے۔ وہ دور علوم و فنون کی ترقی ، ریڈیکل اور تشکیکی نظریات کے ساتھ علوم باطن کے فروغ کا زمانہ تھا اور مسلمانوں کے ارتقا ء کے اس اہم مرحلے کو احیائے اسلام کے نام پر تباہ کیا گیا تھا۔۔۔ حقیت یہ ہے، اگر صاحبان شریعت مسند اقتدار پر براہ راست قابض ہوتے، تو اس سنہری دور کا اسلامی تاریخ میں نام و نشان بھی نہ ہوتا۔۔ کندی، رازی، الفارابی، ابن سینا اور ابن ھیثم جیسے روشن دماغ مفکرین اور سائنس دانوں پر کفر کے فتوے لگے ۔۔۔۔ ابن خلدون کوانیسویں صدی میں مغرب نے ’’دریافت ‘‘ کیا، کسی مسلمان کو اس کا پتا ہی نہ تھا۔۔۔۔ ‘‘(صفحہ: ۶۵ تا ۷۰ )
(iii)
ثقافتی گھٹن اور پاکستانی معاشرہ
’’ ۔۔۔ہم نے اپنے ماحول اور انفرادی و اجتماعی زندگی کو اس حد تک جامد ، خشک ، بور، بے کیف، حسن اور لطف سے عاری کر رکھا ہے کہ بحیثیت حیوان جن جبلی خوشیوں پر ہمارا page001حق ہو سکتا تھا۔ یہ کہہ کر کہ ہم حیوان نہیں انسان ہیں، ان سے خود کو محروم کر لیا۔ اور انسان ہونے کے ناطے جن خوشیوں پر حق ہو سکتا تھا، انہیں یہ کہہ کر رد کر دیاکہ ہم انسان نہیں مسلمان ہیں۔ یہ ہے ہمارا ثقافتی المیہ۔۔ثقافت نے حیوانیت اور انسانیت کے دائرے میں ہی رہ کر پرورش پانا تھا۔ اب سنجیدگی کا مارا، تاریکی پسند اور جمالیاتی حسوں سے محروم انبوہ کثیر ، عالمی تہذیب نو سے اپنی ثقافتی ، سیاسی اور معاشی دشمنی میں اضافہ کئے چلا جارہا ہے۔ بربادی اور موت کی علامتوں سے اپنی شاہراہوں کو سجانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ خود ساختہ اخلاقیات اور پارسائی کے خبط نے ماحول میں مردنی ، گھٹن اور بے کیفی اس حد تک پیدا کر رکھی ہے کہ اس کے اندر زندگی اور دنیا کو خوبصورت بنانے یا اسے ترقی دینے کی لگن اور دلچسپی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ وہ کون سا انسان ہے، جسے اپنے لیے اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے خوبصورتی اور خوشیاں درکار نہیں، اگر ایسا ہے، تو پھر ہمیں اپنے اوپر سے مسخ شدہ انسان کا چوغہ اتار پھینکنا چاہئے۔ اور خوبصورت بننے ، ماحول کو خوبصورت کرنے اور ایک کے اپنے انداز سے خوش ہونے کے حق کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ اگر اس طبقے کی مزاحمت نہیں کریں گے جو ثواب اور پارسائی کے نام پر پورے معاشرے کو بلیک میل کرتا ہے۔ اسے پیچھے رہنے، گھٹن زدہ اور بد نما زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔ تو ہمارے اس وطن میں تہذیب کے رہے سہے آثار بھی ختم ہو جائیں گے۔ یہ کتاب اسی سلسلے کی کاوش ہے۔۔‘‘ (پیش لفظ )
’’
۔۔۔مادی ترقی اور ثقافتی ارتقاء باہمی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ اگر ہم مادی ترقی کے خواہش مند ہیں،تو نئی اقدار کا جنم لازمی تقاضا ہے۔ یہ تاریخی عمل کے خلاف ہے، کہ ہم جدید صنعتی معاشرے کی خواہش بھی کریں اور فیوڈل قدیم اخلاقی روایات کو بھی لاگو رکھیں۔ ہمیں بھی یورپ کی طرح رینے ساں اور روشن خیالی کے ادوار لانے ہو ں گے اور سماج میں مذہبی ،سماجی کردار محدود کرکے، خیالات کی آزادانہ ترویج کو موقع دے کر ، صنعتی معاشرے اور اس کے کلچر کی راہ ہموار کرنی ہوگی، ہمارا اس دنیا کی تعمیر و ترقی اور رفتار عمل میں پہلے ہی حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اس پر مستزاد ہم روشنی اندھیرے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں، مسائل کے حل کے لیے آگے کی بجائے صدیوں پیچھے دیکھتے ہیں، سوالوں کا جواب عقل سے پوچھنے کی بجائے مردہ روایات میں ڈھونڈتے ہیں ۔ ۔۔‘‘ (صفحہ ۲۹ )
***

2 Comments

  1. گستاخی معاف۔غالبا میری فہم نا رسا ہی کا شاخسانہ ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آ سکی کہ ان اقتباسات کے لیے محترم اشفاق سلیم مرزا صاحب کو زحمت دینے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر اقتباسات کے ساتھ ساتھ کچھ تبصرہ بھی عنایت کرتے تو شاید اس “تحریر” کی معنویت میں کچھ اضافہ ہو جاتا۔

Comments are closed.