خواتین کے حقوق سے وابستہ قوانین ہمارے معاشرے کو بدلیں گے؟

 خواتین کے حقوق سے وابستہ قوانین ہمارے  معاشرے کو بدلیں گے؟

از، ثمرین غوری

چھ اکتوبر ۲۰۱۶ پاکستان کے آئینی و قانونی تاریخ میں خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لئے قانون سازی کی جانب ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے! پارلیمنٹ ک مشترکہ اجلاس میں غیرت کے نام پر کئے جانے قتل اور ریپ کے خلاف قانون پاس کر دیا گیا اور یوں خواتین کے خلاف ہونے والے یہ مظا لم با لخصوص Honour Killing کے خاتمے کا بھی انتظام ہو گیا جو کہ بین الا قوامی سطح پر بھی پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے ، جب پاکستانی ماڈل اور سوشل میڈیا اسٹار قندیل بلوچ کے عزت کے نام پر قتل کے خلاف برطانوی خاتون وزیرِاعظم، ٹیریسا مے (، سے لے کر امریکن صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے بھی آواز اٹھائی۔

انتہائی خوشگوار اور امید افزا بات ہے کہ خواتین جو کہ وطن عزیز کی 52% فیصد آبادی ہیں انہیں ان کے مسا وی حقوق اور ان کے تحفظ کے لئے کئے جانے والے اقدامات میں ریاست کا بڑھتا ہوا کردار مستحکم اور واضح ہوتا جارہا ہے۔ مسئلے کے حل کی جانب پہلا قدم اس کی نشا ندہی ہے، جو کہ ہمارے میڈیا کے موثر اور متحر ک کردار کی وجہ سے کافی حد تک پورا ہو رہا ہے ، ساتھ ساتھ سماجی ترقی کے شعبے کے تنظمیں بھی انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہی ہیں، مسا ئل کے حل کی جا نب دو سرا مرحلہ متعلقہ قانون سازی ہے، اور اس حوالے سے بھی حالیہ قانون سازی تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے، اور اب باری ہے ان قوانین کے اطلاق اور اس پر تمام متعلقہ افراد و ادارو ں کی گرفت اور عملدرآ مدگی کو یقینی بنائے جانے کی، جو کہ اب تک کا سے اہم، مشکل اور فیصلہ کن مر حلہ ہے ۔ ۔ !

اگرچہ پارلیمان سے تحفظ حقوق نسواں کا بل ۲۰۱۳ میں پاس ہو چکا ہے مگر اس سے خواتین کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے نہ تشدد اور نا انصافی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ اگر زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو تشدد آمیز واقعات کے خلاف سزا کیلئے بنائے گئے قوانین سے ابھی کوئی نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ حکومت کی طرف سے بے شک ہر فورم پر خواتین کی نمائندگی کی بات کی گئی ہے مگر خواتین خود بھی قانون و انصاف کو عملی شکل دینے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئیں۔ عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے سے محفوظ رکھنے کا ایکٹ (2010)، عورت مخالف رسم و رواج کے خاتمے کا قانون، عورتوں پر تیزاب پھینکنے کی روک تھام کا قانون، نیشنل کمیشن آن دا سٹیٹس آف ویمن کو با اختیار بنانے کا قانون، قیدی عورتوں کی فلاح کا قانون جیسے اہم قوانین بھی پاس کئے گئے لیکن عمل درآمد نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتا ہے۔ ان قوانین کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو سماجی سطح پر بھی لوگوں کے رویوں میں بہت کم تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔

دنیا بھر میں خواتین کے تحفظ اور ترقی کے لئے نہ صرف مناسب قوانین بنائے جاتے ہیں بلکہ ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔ قانون سازی کرنا پہلا مرحلہ ہوتا ہے جبکہ عمل درآمد اصل چیز ہوتی ہے جہاں ہماری حکومتیں اور دیگر متعلقہ ادارے ہمیشہ سے ہی ناکام نظر آتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایک مجموعی تاثر تو یہ ہے کہ قا نون نافذ کرنے والے ادارے اور افراد کو ان قوا نین کے با رے میں معلومات ہی نہیں اور نہ ہی ان کی عمل درآمدگی کے حوالے سے کوئی خصوصی ہدایت یا لائحہ ِ عمل طے پا یا ہے، جس کی وجہ یہ قوانین ابھی تک صر ف کتابوں ، اخباروں ، سیمیناروں میں ز یر موضوع ہیں، عام لو گوں ، با لخصوص خواتین کے لیے آ ج بھی ان کے تحفظ کے قوا نین ان کی پہنچ سے دو ر ہیں۔۔۔!

وطن عزیز پاکستان کی 52% فیصد آبادی عور توں پر مشتمل ہے اور یہ خواتین کم تعلیم یافتہ اور غیر ہر مند ہونے وجہ کی سے ملکی ترقی میں اپنا کر دار مو ثر طور پر ادا کرنے سے قاصر ہیں ہماری قوم کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ وہ خواتین کو دوسرے کا شہری سمجھتے ہیں حالانکہ اگر ہم تھو ڑی سے تو جہ دے اور اپنی عورتوں کو تعلیم اور شعور و آگاہی سے ہمکنار کر یں تو ہم بحیثیت قوم ترقی اور خوشحالی کی منا ز ل طے کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

18 ہویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس قانون سازی کرنے کے اختیارات منتقل ہو چکے ہیں یعنی اب ان کو اس چیز کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا کہ وفاق کوئی قانون بنائے تو اسے لاگو کیا جائے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے سالانہ اعداد و شمار اکٹھے کرے لیکن افسوس، یہ کام اس نے آج تک نہیں کیا۔ یوں مقامی سطح پر مختلف این جی اوز کی جانب سے اکٹھے کئے جانے والے اعداد و شمار سے سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین پر تشدد کے واقعات میں اس برس کمی آنے کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے، حالانکہ خواتین کے حق میں چند اہم بل پاس ہونے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ خواتین پر تشدد میں کمی آئے گی۔

گھوم پھر کر بات پھر وہی ہے کہ پاکستان میں قوانین کا عملی نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے۔ قوانین کے عملی نفاذ کا بندوبست ہم سب کی مجموعی ذمہ داری ہے اور یہ بات ا یسے ہی نہیں کہی جارہی بلکہ حقیقتاً ایک بہت وا ضح اور گہری خلیج ہے، جسے ہم سب معا شرے کے افراد اور اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے ہی ختم کر سکتے ہیں ۔ ۔ ! آگاہی دینے والے اپنا کا م کر رہے ہیں، قانون ساز ادارے اور افراد اپنا کام کر رہے ہیں، اور ان قوانین پر عملدرآمدگی ہی ہم سب کا بنیادی شہری فرض ہے ، کم از کم انفرادی سطح پر بھی اس کام کو شر و ع کیا جا سکتا ہے، پاس پڑوس اہلِ محلہ میں خاتون کے سا تھ بدسلوکی کا کوئی واقعہ پیش آ تا ہے تو اب یہ صر ف آپسی یا گھریلو معاملہ نہیں بلکہ اس خاتون کو متعلقہ تھانے یا ادارے تک رسائی میں بھی ایک ذمہ دار شہری کا کردار ہو سکتا ہے یا کم از کم خا تون کے تحفظ کے لئے قانون کے با رے میں آ گا ہی د ی جا سکتی ہے۔ موجودہ دو ر میں جب نیا ترقی کی نئی منز لیں طے کر ر ہی ہے، ہم ابھی تک اپنے ملک کی آدھی آبادی یعنی خواتین کو ان کے جائز حقوق اور تحفظ د یئے جا نے کی ترکیبوں پر غور کر رہے ہیں ۔ ! ذرا سوچئے اور اب عمل بھی کر لیجئے۔  !


ثمرین غوری ملٹی میڈیا کے شعبے کی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں، سماجی ترقیاتی شعبے کے ساتھ ساتھ میڈیا پروڈکشن (ڈاکیومینٹری، ریڈیو پروگرامنگ) سے وابستہ ہیں۔

1 Trackback / Pingback

  1. ورکنگ مدرز اور میڈیا - aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.