اسسٹنٹ کمشنر کی طاقت اور استاد : فیوڈل ازم ابھی تک ذہنوں پر پھن پھیلائے بیٹھی ہے

لکھاری کا نام
منزہ احتشام گوندل

اسسٹنٹ کمشنر کی طاقت اور استاد : فیوڈل ازم ابھی تک ہمارے ذہنوں پر پھن پھیلائے بیٹھی ہے

از، منزہ احتشام گوندل

دو سال پہلے کی بات ہے کوٹ مومن تحصیل میں ( احسن رضا بخاری) نام کے ایک اسسٹنٹ کمشنر آئے۔چہرے مہرے اور حلیے سے وہی روایتی حاکمانہ رعونت ہویدا تھی۔ ساتھ ایک نائب قاصد اور دو مسلحہ پولیس اہلکار بھی تھے۔اسسٹنٹ کمشنر صاحب دندناتے ہوئے میرے دفتر میں داخل ہوئے اور اسی طرح کرسی نشیں ہوگئے۔ بیٹھتے ہی کسی قدر کانونٹ کے لہجے میں انگریزی میں اپنا تعارف کرایا اورپھر اپنے انقلابی خیالات سے آگاہ کرتے رہے۔ میں نے نہایت دلچسپی سے ان کی گفتگو کو سنا اور اہمیت بھی دی،چند باتوں کے جواب بھی دیئے،وہ جو چند جملے میں نے کہے تھے ان پر اے سی صاحب نے مجھے کہا کہ میڈم آپ اس طرح بات کرتی ہیں جیسے ڈاکٹر ہوں…عرض کیاِ ،، جناب میں کسی قدر ڈاکٹر ہوں اچھی ( ایم بی بی ایس) نہ سہی ،معمولی ( پی ایچ ڈی) ڈاکٹر تو ہوں،اس پہ محترم نے قہقہہ لگایا اور تشریف لے گئے۔ چند دن بعد حضرت کے دفتر سے ان کے نائب قاصد نے فون کیا کہ اسسٹنٹ کمشنر صاحب کے دفتر میں محترمہ آپ کی پیشی ہے۔
میں نے عرض کی، جی ٹھیک ہے۔اور اگلے دن حاضر ہوگئی۔موصوف اپنی کرسی پر براجمان رہے۔میں سامنے کھڑی تھی۔ہاتھ کے اشارے سے حکم دیا کہ بیٹھیں، میں بیٹھ گئی۔ اس کے بعد کچھ مزید احکامات سے نوازا اور اجازت دی۔ایک ہفتہ بھی نہ گذرا تھا کہ شاہ صاحب ایک بار پھر مصاحبین کی معیت میں تشریف لائے۔ہماری سینئر مسز عطیہ حسن صاحبہ کرسی پر تھیں، ہم بھی پاس بیٹھی تھیں،ان کے آنے پر سب بیٹھی رہیں۔ محترم نے بیٹھتے ہی کہا، آپ لوگوں میں تمیز نہیں کہ ایک بڑا آدمی آئے تو اس کے آنے پر کھڑے ہو جائیں۔ میں آیا ہوں آپ بیٹھی رہی ہیں۔ میں اسلامی حوالے سے اخلاقیات کا لیکچر دینے آیا تھا،،….تو ان کی اس بات پر مسز عطیہ حسن جو کہ اسلامیات میں ایم فل اور اسسٹنٹ پروفیسر ہیں،نے کہا ، کہ بطور اسلامیات کی استاد کے میں بھی اسلامی اخلاقیات سے واقف ہوں، میں نے آج تک نہیں پڑھا کہ پیغمبرِ اسلامﷺ  کبھی خواتین کی مجلس میں گئے ہوں اور ان سے اٹھ کر استقبال کرنے کا تقاضا کیا ہو…بس اتنی بات پر انہوں نے ڈرائیور کو فون کیا اور تلملاتے ہوئے اٹھ گئے۔ اس واقعہ کے بعد یہ دوسرا واقعہ ہے جو اسی تحصیل میں پیش آیا۔

چند ہفتے پہلے مجھے اے سی آفس سے فون آیا کہ آپ کو اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ یاد فرماتی ہیں، میں کچھ مصروف تھی، اپنے سٹاف کے ایک سینئر بندے کو بھیجا مگر بات بنی نہیں، اگلے دن میں خود ان کے آفس میں تھی۔اچھی طرح ملیں۔ میرے کالج سے متعلق ایک عورت کی شکایت تھی، اسے نکالنے کو کہا۔ میں نے آتے ہی اس عورت کا سامان اٹھوایا اور اسے چلتا کیا۔ گیارہ مئی کو وہ بوائز ڈگری کالج میں امتحانی سنٹرچیک کرنے گئیں۔ بورڈ کے امتحانی مراکز کو چیک کرنا ان کی ذمہ داری ہے، کہ آیا وہاں طلباء کو بجلی اور پانی کی یا دوسری سہولیات میسر ہیں یا کوئی کمی موجود ہے،اگر کوئی کمی ہے تو اس کا ازالہ کیا جائے۔ محترمہ نے سنٹر چیک کیا اور اس کے بعد پرنسپل آفس میں تشریف لے گئیں۔
بوائز کالج کے پہلے پرنسپل تجمل حسین صاحب اپریل ۲۰۱۷ میں ریٹائرڈ ہوئے ہیں لہذا فی الحال سیٹ خالی ہے۔اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ جاتے ہی پرنسپل کی کرسی پہ فروکش ہوئیں اور حاضری رجسٹر لانے کا کہا، جس پر صحافت کے لیکچرر اظہر شاہ نے کہا کہ آپ کس حیثیت میں رجسٹر مانگ رہی ہیں اور اس کرسی پر بیٹھی ہیں۔ اس بات پر اے سی صاحبہ کو غصہ آگیا اور انہوں نے اظہر شاہ سے کہا کہ وہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر رہی ہیں، اور تمہارے افسران جیسے میرے تلوے چاٹتے رہے ہیں۔ بات تہذیب کے دائرے سے نکلی اور آگے بڑھ گئی، ایڈمنسٹیٹر نے پولیس بلوا لی۔ پولیس نے اظہر شاہ کو حراست میں لیا اور تھانے لے گئی۔دو گھنٹے وہاں بٹھائے رکھا اور پھر گھر بھیج دیا۔
سوال صرف یہ ہے کہ ہمارا اپنا شعبہ ہمارے نظام کی درستی اور اصلاح کے لیے موجود ہے۔ہر پندرہ دن کے بعد ہمارے کالجز کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹرز کالجز کا دورہ کرتے ہیں۔ جس میں وہ اساتذہ، درجہ چہارم کے ملازمین کی حاضری کے ساتھ ساتھ باقی معاملات پہ بھی کڑی نظر رکھتے ہیں۔ کسی ضابطے کی خلاف ورزی کی صورت میں شوکاز نوٹس جاری کرتے ہیں۔ لہذا تطہیری عمل چلتا رہتا ہے۔وہاں کسی ڈی سی او یا کسی اے سی کے دورہ کر کے حاضریاں چیک کرنے کی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔اگر ایسا ہے تو اس کا صاف مطلب تو یہ ہے کہ سرکار کو ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اوپر اعتماد نہیں رہا، سرکار یہ سمجھتی ہے کہ یہ اتھارٹیز اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کررہیں لہذا اب یہ بیوروکریسی کے حوالے کیا جائے۔

ہمارا شعبہ اس وقت ملک کا سب سے پُر امن شعبہ ہے۔پچھلے ایک عشرے میں وکلاء نے اپنے اختیارات میں اضافے کے لیے کئی سال ہنگامے کیے ہیں، شعبہ طب نے پانچ سال سے تنخواہوں میں اضافے اور مراعات کے لیے سرکار کو تگنی کا ناچ نچا رکھاہے۔ حالانکہ یہ وہ شعبہ ہے جن کا تعلق زندگی اور موت کے ساتھ ہے۔میری سب سے چھوٹی پھپھو سب سے پہلے مر گئیں، جس دن وہ ( لیور سنٹر فیصل آباد) میں زندگی کے آخری سانس لے رہی تھیں اس دن ہمارے مسیحا ہڑتال پر تھے۔انہیں اسی دن مرنا تھا جو ان کے لیے مقرر تھا،مگر مسیحاوں کی غیر حاضری پر جو پھانس ہمارے اندر ہے وہ کبھی نہیں نکلے گی۔افواجِ پاکستان،عدلیہ،اور انتظامیہ کے پاس پہلے ہی اتنے وسائل اور اختیارات ہیں کہ انہیں کسی احتجاج کی ضرورت ہی نہیں۔رہ گئے اساتذہ….تو آج تک ایسا نہیں ہوا کہ تنخواہوں میں اضافے یا ون گریڈ اپ کے مطالبے کے لیے اساتذہ نے کئی کئی دن کالجوں کا بائیکاٹ کیا ہو؟…. سڑکوں پر آئے ہوں۔ ہمارے بھی مسائل ہیں۔ہمارے بھی مطالبات ہیں۔جو ہر سال سرکار کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔گفت و شنید ہوتی ہے۔دلاسے ملتے ہیں اور ہمارے قائدین واپس آجاتے ہیں۔ وہ خوش ہوتے ہیں کہ سیکرٹری نے اس دفعہ مطالبات ماننے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر کی طاقت اور استاد
عفت النساء اسسٹنٹ کمیشنر، کالج پرنسپل کی کرسی پر تشریف رکھے ہوئے ہیں۔

اساتذہ کے متعلق آج تک کسی بھی حکومت نے کوئی قابلِ احترام اصلاحی قدم نہیں اٹھایا۔ میں نے اوپر ( احسن رضا بخاری) اور ( عفت النساء) والے واقعات صرف اس لیے تحریر کیے کہ اپنے دوستوں کے سامنے کچھ سوال رکھ سکوں۔کیا جب ایک پروفیسر کسی اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں جاتا ہے تو اس اسسٹنٹ کمشنر کا اخلاقی فرض نہیں کہ اسے اٹھ کر تعظیم دے؟
کیا یہ لوگ پروفیسروں سے پڑھ کے نہیں آتے؟ کیا جب ان کو ان کی پیشہ ورانہ تربیت کے دوران ( عبد الستارایدھی) جیسے لوگوں سے ملایا جاتا ہے تو اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ یہ اپنے علاوہ دوسروں کو کیڑے مکوڑے جانیں؟
اور اگر کوئی سنکی پروفیسر کسی اسسٹنٹ کمشنر کی کرسی پہ جا بیٹھے تو کیا وہ اس کو برداشت کرے گا؟
اور کیا ایسا نہیں ہے کہ ایک پُر امن شعبے کو آپ بد امنی کی طرف لے جارہے ہیں؟
آپ کسی بھی پڑھے لکھے، پرامن اور مہذب شخص کے ساتھ اخلاقی زیادتی کے مرتکب ہوں گے وہ احتجاج کرے گا۔ یہ اس کا حق ہے۔ استاد کوئی بگڑا ہوا زمیندار،کسی اڈے کا بدمعاش ٹھیکیدار، کسی کی زمین پر قابض کوئی رئیس، کوئی بلیک میں مال فروخت کرنے والا تاجرنہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ بھی گردن میں سریا ڈال کر بات کی جائے۔ استاد کو استاد سمجھا جائے۔ وہ اس سے زیادہ چاہتا بھی کچھ نہیں۔

2 Comments

  1. I am sorry to read the way this article has been written and how has the author tried to paint heople of her profession as angels and ACs as the ultimate rogues. The fact is, if teachers were that good, why would our society stoop so low in moralities. Teachers are harvesting what their predecessors sowed a decade ago. So live with it.

  2. sorry to say…i always write the day we crushed CSS officer from Pakistan….that day Pakistan will grow n grow… these officers are had haram khoor people..donkey will think much better then them….

2 Trackbacks / Pingbacks

  1. بیوروکریسی کی فیوڈل ازم کا ایک اور متقی رنگ - aik Rozan ایک روزن
  2. ڈی پی او رضوان عمر گوندل اور ڈی پی او ڈاکٹر رضوان — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.