بیوروکریسی کی فیوڈل ازم کا ایک اور متقی رنگ

سب کررہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں

بیوروکریسی کی فیوڈل ازم

بیوروکریسی کی فیوڈل ازم کا ایک اور متقی رنگ

( محمود حسن، مسی ساگا، اونٹیریو، کینیڈا )

محترمہ منزہ احتشام کا کالم “اسسٹنٹ کمشنرکی طاقت اوراستاد” پڑھ کر راقم کے ذہن میں 1996 کی  یاد یں در آئی  ہیں جب اس کا سامنا بھی اایسے ہی ایک مطلق  العنان افسراعلی سے  ہوا تھا- مو صوف  کا تعلق ضلع  جھنگ کے ایک نواحی علاقہ چک نمبر 170 ج  ب  سے ہے۔ آپ دوران ملازمت سیکرٹری ایجوکیشن پنجاب،  چیف سیکریٹری سندھ،  پرسنل سیکریٹری ٹو پریزیڈنٹ اورممبر پبلک سروس کمیشن جیسے اعلی مناصب پر فائز رہے- موصوف  اپنے گاؤں میں سرکاری اخراجات کی مد سے ایک عدد بوائز پرائمری سکول، ایک گرلز پرائمری سکول ، ایک بوائز ھائیرسیکنڈری سکول اور گرلز ہائر سیکنڈری سکول پہلےھی بنوا چکے تھے – یہ سب کرنے کے باوجود بھی موصوف کی انا کو تسکین  نہ  ہوئی اور   علاقہ میں اپنی دھاک بٹھانے کا  جنون ماند نہ پڑا تو حضرت عالی مقام نےبوائز ہائرسیکنڈری سکول سے متصل ایک اور ڈگری کالج کی عالیشان عمارت بھی سرکاری اخراجات سے تعمیر کروادی۔

ایک روزن لکھاری
محمود حسن، صاحب مضمون

آپ سب سوچ رہے ھونگے کہ اس میں کیا برائی  ہے۔ تعلیم تو ھر انسان کا بنیادی حق ھے۔  کتنے اعلی افسران ہونگے جو اپنے علاقہ کی تعمیروترقی کے متعلق سوچتے ہونگے ؟یہ تو بہت اچھا ھے کہ کوئی شخص اپنے علاقہ کے بچوں کا مستقبل روشن  کرنے کا سوچ رہا ھے- درست باالکل درست – لیکن ذرا یہ بھی تو سوچیے کہ اس  گاؤں کا  محل وقوع کیا  ھے- جی جناب! یہ گاؤں ضلع فیصل آباد سے 55 جبکہ ضلع جھنگ سے لگ بھگ 30 سے 40 کلو میٹر دور ھے- یہ تمام   تعلیمی ادارے نہ تو  فیصل آباد جھنگ اور نہ ہی جھنگ چنیوٹ کو ملانے والی کسی شاہراہ کے قریب ہیں بلکہ یہ ان دونوں کے وسط میں موجود ایک گاؤں میں واقع ہیں جہاں پہنچنے کا واحد ذریعہ فقط تانگہ کی سواری ھے- اور تانگہ گوجرہ موڑ سے 170 ج ب  تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ (کم ازکم) صرف کرتا ھے- بوائز ہائرسیکنڈری سکول اورڈگری کالج  گاؤں سے مزید دوکلو میٹر دور ہیں جہاں  تانگہ بان  اضافی کرایہ پر جاتے ہیں (اگر موڈ نہ ہو تو اضافی کرایہ لینے پر بھی راضی نہیں ہوتے)-  گرلز ہائرسیکنڈری سکول کی اساتذہ کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے  البتہ ایک عدد موڈیفائڈ سنگل  کیبن ٹویوٹا وین  موجود ھے- کامیاب  مذاکرات کے نتیجے میں اب یہ وین پہلے بوایز ڈگری کالج  اور بوائز ہائر سیکنڈری سکول پہنچتی ھے اور بعد میں خواتین اساتذہ کو گاؤں والے سکولوں میں  ڈراپ کرنے جاتی ھے- ذرا سوچیے کہ اس ایک وین میں روزانہ  آٹھ سے دس مرد اساتذہ، اسی قدر خواتین اساتذہ  ، لگ بھگ بیس بائیس بچیاں (یہ تمام لوگ  اس وین کے اندر ہیں)   جبکہ لاتعداد لڑکےچھت اور سائیڈ کی سلاخوں پرنہایت جانفشانی سے سوار ہوکر روزانہ مادرعلمی تک پہنچتے  ہیں- وین میں موجودتمام لوگ تہہ درتہہ ایڈجسٹ ھوتے ہیں، مرد و خواتین  اساتذہ وین کی سیٹوں  پر جبکہ بچیاں ان کی گود میں  اور مزید بچیاں  ان کی گود میں بیٹھ کر ذلت خواری کا یہ وقت کاٹتے ہیں۔

جمعہ کے روز صورتحال  مزید ابتر ہو جاتی-  ہرجمعہ  گوجرہ موڑ پر مویشی منڈی لگتی اور لوگ  اپنے  مال مویشی بھی اس وین میں لاد کرمنڈی تک  لاتے اور لیجاتے-  یوں ہر جمعہ کچھ اساتذہ  وین کی چھت پر جبکہ کچھ وین کے اندر  کسی مینڈھے یا بکرے کی ہمسفری میں کالج تک پہنچتے تاکہ درس و تدریس کا سلسلہ احسن طریقے سے ادا  ہو سکے-  آپ پوچھیں گے کہ کیا اور کوئی وین نہیں تھی ؟ جی نہیں  گاؤں کے ٹرانسپورٹر اس وقت صرف ایک ہی وین نکلواتے تھے- اس سے اگلی وین ایک گھنٹہ بعد روانہ ھوتی تھی  جبکہ تمام سکول اور کالج صبح آٹھ بجےکام  شروع  کر دیتے تھے  اور کو ئی سرکاری ملازم آٹھ بجے کے بعد پہنچنا  افورڈ نہیں کرسکتا تھا۔

یہ تمام تعلیمی ادارے ہر وقت ایمرجنسی کی حالت میں رہتے تھے- کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ کب  کوئی اعلی افسر(اسسٹنٹ کمشنر، کمشنر، اے ایس پی، ایس پی، اے ای او ، ڈی ای او ،موصوف کے بھائی یا موصوف  بقلم خود )  آٹھ بجے پہنچ کر رجسٹر میں غیر حاضری  درج کردیں گےاور استاد   صاحبان جب درسگاہ پہنچیں گے تو سرخ روشنائی  میں درج “ایبسینٹ فرام ڈیوٹی”  ان کا منہ چڑا رہا ھوگا- کیا کوئی اس احساس کم مائیگی کا اندازہ کرسکتا ہے جب    ایم ایس سی،ایم فل پاس کالج کا استاد بس، وین یا تانگے میں دھکے کھا کرفیصل آباد  یا جھنگ شہرسےمنہ اندھیرے گھر سے نکل کرجب آٹھ بج کر دس منٹ پر کالج پہنچے تواس سے پہلے ہی کوئی اعلی افسراپنی سرکاری گاڑی میں آٹھ بجے پہنچ کر اس کی غیر حاضری لگا کر رجسٹر بھی ساتھ لے چکا ہو۔

ان تعلیمی اداروں کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ ایک دفعہ جس استاد کی یہاں پوسٹنگ ہوجاتی وہ زندگی بھر یہاں سے تبادلہ نہیں کرواسکتا تھا- گویا پوسٹنگ نہ ہوئی افسر بالا سےنکاح ہوگیا اور طلاق یا خلع کے لیے بھی افسر اعلی کی پیشگی اجازت ضروری ٹھہرتی- محکمہ تعلیم کے کسی افسر کی کیا مجال کہ افسر اعلی کے گاوں سے کسی استاد کا تبادلہ کر سکے۔

کالج میں طلبا کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ کہاں سائنس کی تین لیبارٹریوں سے مزین تیس کمروں پر مشتمل کالج  کی دو منزلہ عمارت اور کہاں سو  سےبھی کم طالب علم اور اس پر مستزاد یہ کہ ایک ہائر سیکنڈری سکول  پہلے ہی سے وہاں موجود جو اپنے میٹرک سے فارغ ھونے والے بچوں کو اسناد ہی نہ دیتا کہ وہ انٹر میں کالج میں داخلہ لے سکیں۔ فرسٹ اور سیکنڈ ڈویژن میں پاس ھونے والےتمام دیہاتی  لڑکوں کی منزل بہرحال شہر کا کالج ھی ٹھہرتا۔  کالج میں داخلہ کے لیے ڈھول کی تھاپ پرگاؤں گاؤں  منادی کرای جاتی تاکہ “انوکھے لاڈلے” کا کالج کام کرنا شروع کردے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔

کالج کا پہلا سال مکمل ہونے پر ایک صبح موصوف  ہمراہ ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی جھنگ  کالج تشریف لائے۔  عمائدین علاقہ اور کالج طلبا  بھی گراؤنڈ میں موجود تھے۔ موصوف نے بجائے  کالج اساتذہ کے مسائل سننے اور ان کے حل کرنے کی کوئی تدبیر کرنے کے، سب کے سامنے اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ شروع کردی۔ فرمانے لگے کہ اپنا کام ایمانداری سے کرو۔ میں آپ کے لیے نہ تو بس کا انتظام کر سکتا ہوں نہ ہاسٹل کا، جس نے جاب کرنی ہے کرے ورنہ استعفی دے کر گھر چلے جاؤ- اگر تم کام نہیں کروگے اور اچھا رزلٹ نہیں دو گے تو یہ دیکھو ایس ایس پی صاحب سے جوتے لگواؤں گا- آئندہ  آپ کی  حاضری ڈپٹی کمشنر صاحب کے دفتر جائے گی اور وہ نہ صرف آپ کو مانیٹر کریں گے بلکہ اپکی رپورٹ بھی مجھ تک پہنچائیں گے۔

موصوف کی عالی ظرفی کا اندازہ ہوتےہی کالج کا تدریسی عملہ احتجاجا  جلسہ گاہ سے اُٹھ کر چلا گیا جس کو نہایت ناپسندیدگی سے دیکھا گیا نتیجیتا کالج پر لگی ہوئی ایمرجنسی مزید سخت ہو گئی۔ راقم پانچ سال تک اسی کالج میں بطور لیکچرارتعینات رہا اور زندگی کا مشکل ترین حصہ اسی کالج میں گزارا- کالج  طلبا کی سال بہ سال کم ہوتی ہوئی تعداد کے بدولت بند ہو چکا ہے جبکہ دورافتادہ گاؤں میں موجود  اس کی عمارت آج بھی  موصوف  کی کم عقلی کا ماتم کر رہی ہے۔ موصوف قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا کراجکل ریٹائر زندگی گزار رہے اور اخبارات میں تقوی سے بھر پور کا لم لکھ رہے ہیں۔


مصنف نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز بطور لیکچرار گورنمنٹ ڈگری کالج 170 ج ب ضلع جھنگ سے کیا اوراپنی تدریسی اور تحقیقی سرگرمیوں کی بنا پر ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔ دوعدد سائنسی کتب اور چالیس سے زائد بین الاقوامی تحقیقی مقالہ جات چھپوا کا اعزاز حاصل ہے۔