مغربی فکر کتنے چھٹانک ہونی چاہیے؟

مغربی فکر کتنے چھٹانک ہونی چاہیے؟

از، سید کاشف رضا

مسلم آبادی والے علاقوں کے مغربی فکر سے تعامل کی دو بڑی لہریں ہمیں تاریخ میں نظر آتی ہیں۔ پہلی بڑی لہر عباسیوں کے شروع کے دور میں سامنے آئی جب مغربی یا غیر مذہبی فکر نے یونان کے راستے آ کر مسلم معاشروں سے علیک سلیک کیا۔ دوسری بڑی لہر قرونِ وسطیٰ کے بعد سامنے آئی جب انگلستان، فرانس، ہالینڈ اور بعض دوسرے مغربی ملکوں نے مسلم آبادی والے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ مسلم دانش وروں نے مغربی آلاتِ حرب اور ٹیکنالوجی کے مقابلے میں اپنے آلات کو بہت کم زور اور ناکافی پایا اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ انھیں بھی مغربی فکر سے استفادہ کرنا چاہیے۔

یہ استفادہ کتنا ہونا چاہیے ؟ یہ ہے وہ ایک بنیادی مخمصہ، جس پر مسلم معاشروں کے کئی بہترین دماغوں نے پچھلے ڈیڑھ سو برسوں میں خاص طور سے غور کیا ہے۔

مغرب کا تعامل اسلام کے علاوہ جن دیگر تہذیبوں سے ہوا انھیں بھی کسی نہ کسی سطح پر اس مخمصے کا سامنا کرنا پڑا مگر وہاں اس مسئلہ کا تعلق بعض تہذیبی اور ثقافتی خدشات سے تھا جس کی کوئی مضبوط ایمانی اور روحانی بنیاد نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان تہذیبوں نے زیادہ مزاحمت کیے بغیر مغربی اندازِ فکر کے ساتھ ساتھ بڑی حد تک مغربی تہذیب و ثقافت کو بھی اپنا لیا۔ جاپان، جنوبی کوریا اور مشرقِ بعید کی کامیاب معیشتوں کی مثالیں ہم سب کے سامنے ہیں۔ اور اب بھارت اسی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔

اس مخمصے پر غور و خوض کے سلسلے میں مسلم دانش وروں کے خیالات کا ایک وسیع دائرہ ہمیں ملتا ہے۔ ایک انتہا پر وہ لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی اندازِ فکر کو سارے کا سارا قبول کیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ مسلم اکثریتی معاشروں کا مزاج سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک ایک بھی مسلم ملک پانچ دس برسوں میں اپنی کینچلی بدل کر جنوبی کوریا نہیں بن سکا تو اس کی وجہ مسلم معاشروں کا مزاج ہی ہے جسے ہم نا پسند تو کر سکتے ہیں مگر اس کی تفہیم کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس مزاج کی جڑیں مسلم معاشروں کے تصورِ حقیقت میں پیوست ہیں۔ یہ تصورِ حقیقت درست ہے یا نہیں، اس بارے میں گزارشات سرِ دست میرے پیش نظر نہیں۔

دوسری انتہا پر وہ لوگ ہیں جو الہامی کتابوں کی قدیمی قرات اور تشریح سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ یہ لوگ مسلم معاشرے میں ہر عہد میں موجود رہے ہیں۔ عباسیوں کے دور میں جب معتزلہ نے عقلیت پسندی کی تحریک چلانے کی کوشش کی یا جب یونانی کتابوں کے تراجم کیے جا رہے تھے تو یہی لوگ اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ جب الکندی، فارابی اور ابنِ رشد یونانی فلسفے سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی سفارش کر رہے تھے تو انھی لوگوں نے فقہاء کو ساتھ ملا کر روشن فکری کی اس روایت کا راستہ روکا تھا۔

الہامی کتابوں کی قدیمی تشریح و تعبیر کے قائل یہ افراد اگر غیر سیاسی رہتے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، مگر سلسلہ یہ ہے کہ ایسے افراد کی فکر کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مغرب نے جو بھی علوم اور افکار متعارف کرائے ہیں انھیں بہ یک قلم مسترد کر دیا جائے۔ اردو کے معروف نقاد محمد حسن عسکری نے اپنے آخری زمانے میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا، ’’جدیدیت یا مغربی گم راہیوں کا خاکہ‘‘۔ اگر اس پر نظر ہی دوڑا لی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مغرب سے آئے ہوئے ہر ہر تصور میں انھیں اپنے مذہب کو زک پہنچانے والی کوئی نہ کوئی چیز نظر آتی ہے اور وہ اسے دنیائے اسلام کے لیے حرام قرار دلوانا چاہتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ان قدامت پرستوں کو کچھ ایسے پڑھے لکھے افراد کی کمک بھی حاصل ہو گئی ہے جو خود کو بہ ظاہر غیر مذہبی کہتے ہیں۔ ان افراد کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ساری مغربی فکر سامراج کے ایک عظیم تر منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد تیسری دنیا اور خاص طور پر مسلم دنیا پر براہِ راست یا بالواسطہ قبضہ برقرار رکھنا ہے۔

یہ فکر بہ ظاہر تو بڑی انقلابی لگتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ساری مغربی فکر کو سامراجی ڈیزائن سمجھنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ تیسری دنیا کے عوام کو جدید علوم سے محروم کرنے کی سازش کا، چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے، حصہ بن جاتے ہیں۔ مغربی فکر کے مخالف ان دونوں گروہوں کی بات مان لی جائے تو ہماری نمازیں اور روزے تو بچ جائیں گے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حریف ممالک کے معاشروں میں ایسا کوئی مخمصہ نہیں جس کا تذکرہ میں کر رہا ہوں۔

یہ ملک مغربی افکار اور ٹیکنالوجی کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہے ہیں اور دن دو گنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ اگر تو ہمیں ان ملکوں سے مقابلہ نہیں کرنا اور اپنے نماز روزے پر قانع رہنا ہے، پھر تو ہمیں مغربی علوم کے مخالف دونوں طبقہ ہائے فکر کو باری باری جھک کر سلام کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ہم مستقبل کی دنیا میں کوئی باعزت مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو مارے باندھے ہی سہی، ہمیں مغربی افکار و علوم میں دلچسپی تو پیدا کرنا ہی پڑے گی۔

ان دونوں گروہوں کے فکری مخمصے کا ایک تعلق ان کے تصورِ حرکت سے بھی ہے۔ وقت مسلسل حرکت پذیر ہے۔ ذرائع پیداوار میں مسلسل تبدیلی آ رہی ہے اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو بنیاد مغربی فکر و فلسفہ فراہم کرتا ہے۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے اس کے اثرات معاشرے کے ہر حصے پر پڑتے ہیں۔ مذاہب اور مذہبی تفہیمات پر اس کا اثر پڑنا لازمی ہے اور اس کے نتائج ہم سر سید احمد خان، علامہ اقبال، مولانا مودودی، سید قطب، غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی کی فکر میں دیکھتے بھی ہیں۔ ان مصلحین میں سے بعض نے مذہب میں خطرناک نظریات کی بھی آمیزش کی یا مذہب کی بعض تعبیرات پر خاص طور پر اصرار کیا جس کے نتیجے میں مسلم معاشروں کو وہ صورتِ حال پیش آئی جس سے ہم نائن الیون کے بعد سے خاص طور سے متاثر ہوئے۔

جو مصلحین تبدیلی برائے رُجعت کا باعث بنے انھیں بنیادی طور پر قدامت پرستوں میں ہی شمار کرنا چاہیے۔ کچھ لوگ ایسے مصلحین میں اقبال کو بھی شامل کرتے ہیں۔

قدامت پسند علماء کو مغربی فکر سے یہ خدشہ تھا کہ وہ ان کے روایتی تصورِ مذہب کو زک پہنچائے گی۔ اسی لئے محمد حسن عسکری کے ممدوح مولانا محمد طاسین نے ’’اسلام کا تصورِ حرکت‘‘ کے نام سے ایک مضمون لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ مذہبی تصورات وقت کی حرکت سے متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر علامہ اقبال ان قدامت پسند علماء سے بالکل الگ کھڑے نظر آتے ہیں۔

علامہ اقبال کی شاعری سے ہر طبقہ فکر نے اپنی پسند کے شعر الگ کر رکھے ہیں اور روشن خیالوں سے لے کر طالبان تک سب اپنے نظریات سے مطابقت رکھنے والا ان کا کوئی نہ کوئی شعر پیش کر سکتے ہیں۔ تاہم اپنی کتاب “تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ” میں علامہ اقبال نے واضح طور پر سائنسی فکر کی حمایت کی اور ساری مغربی فکر کو سامراجی ڈیزائن وغیرہ قرار دینے کے بجائے اس سے استفادے، ہر چند محدود، پر زور دیا۔ علامہ اقبال خود بھی مسلمانوں کے ماضی کے مداح تھے اور انھوں نے مغربی فکر کی حمایت کوئی شوق سے نہیں کی تھی۔ انھیں معلوم تھا کہ اس کے بغیر ایک جدید دنیا میں مسلمانوں کا گزارا نہیں ہو سکے گا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر علامہ اقبال اپنے بعد کے زمانے کے متاثرین، از قسم عسکری صاحب اور سلیم احمد، کے مقابلے میں زیادہ جدید نظر آتے ہیں۔

میں نے مضمون کے آغاز میں جن دو انتہاؤں کا ذکر کیا، ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک بہت بڑا اسپیکٹرم ہے جس پر بہت سے مفکرین اپنے اپنے نظریات کے ساتھ موجود ہیں۔ ان میں اقبال بھی ہیں۔ یہ سب مفکرین مغربی فکر سے کسی نہ کسی حد تک استفادے کے حق میں ہیں۔ ان میں اختلاف کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مغربی فکر ہم خرید تو لیں، مگر کتنے چھٹانک؟

بہت سی وجوہات کی بنا پر پاکستانی معاشرے میں علامہ اقبال عزت کے ایک ایسے مقام پر ہیں جو ہمارے معاشرے میں ان کے علاوہ کسی ایک بھی مفکر کو نصیب نہیں ہو سکا۔ اس لیے بہت سے حلقے یہ کوشش کرتے ہیں کہ اقبال کو اپنے رنگ میں رنگ کر پیش کیا جائے۔ مغربی فکر سے مکمل اجتناب کرنے والے دونوں حلقے ان دنوں اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ ہماری نئی نسل علامہ اقبال کی کتاب ’’تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ سے محفوظ و مامون رہے۔ کیونکہ اقبال کو جتنی عزت حاصل ہے اس کے تناظر میں اگر ان کی تحریروں میں ایسی بھی بات نظر آتی ہے جو مروجہ افکار کے خلاف ہو تو امکان یہ ہوتا ہے کہ اس بات پر ہم دردانہ غور ضرور کیا جائے گا۔ یہی وہ امکان ہے جس کے بارے میں سوچ سوچ کر ان دونوں حلقوں کی جان جاتی ہے۔

میں یہاں یہ واضح کر دوں کہ اقبال کے کچھ نادان دوست ان کی فکر کو مغرب کی فلسفیانہ روایت کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اقبال دوستی نہیں اقبال دشمنی ہے۔ مغرب کی فلسفیانہ روایت کا مسیحی تصورِ حقیقت سے بنیادی نوعیت کا تعلق نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بعض مغربی فلسفیوں کے نظامِ فکر میں مذہبی اثرات تلاش کر  لیے جائیں۔ مگر یہ طے ہے کہ تقریباً یہ سب فلسفی مغرب کی روشن خیالی کی روایت کا حصہ ہیں۔ اس روایت کے بنیادی طور پر دو حصے ہیں۔ ایک حصے میں زیادہ تر برطانیہ کے فلسفی ہیں جو صرف تجربی علم پر یقین رکھتے ہیں تو دوسری طرف تصوراتی فلسفی ہیں جن کے ہاں مابعدالطبیات کی بھی گنجائش نکلتی ہے۔

اقبال ان دونوں سے مختلف ہیں کیونکہ وہ اپنے مذہبی پیراڈائم سے دور نہیں جانا چاہتے اور مغربی فلسفے کی طرف جاتے بھی ہیں تو انھیں اس کی مدد سے اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنے کا خیال ستاتا رہتا ہے۔ یہ وہی کام تھا جو مسلم متکلمین پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ اس لیے اقبال کے اس کام کو مغربی فلسفیانہ روایت کے تناظر میں نہیں بلکہ مسلم متکلمین کی روایت میں دیکھنا چاہیے۔ لیکن اس روایت میں ان کا کام ایک بڑا اضافہ ہے۔

متحرک وقت میں گزر بسر کرتے متحرک معاشرے میں ہر معاملے پر مکالمے اور بحث کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ متحرک وقت سے باقی ہر چیز تو متاثر ہو مگر مذہب متاثر نہ ہو۔ علامہ اقبال ہی نہیں، سر سید احمد خان نے بھی اس بات کو محسوس کیا تھا۔ مذہب کی تشکیلِ جدید کا یہ پراسیس ایک فطری عمل ہے۔ یورپ کے مذہبی تصورات بھی اس فطری عمل سے گزرے۔ مسلم معاشروں میں اس عمل کی حمایت کی جائے یا مخالفت، یہ پراسیس جاری رہے گا۔

مولانا محمد طاسین اور محمد حسن عسکری مذہب کو بدلتے ہوئے وقت سے بچا کر کسی مرتبان میں رکھنا چاہتے ہیں مگر خود ان کے خیالات متحرک وقت کے رندے پر زیرِ آزمائش ہیں اور بقائے اصلح کے مغربی تصور کی تجربہ گاہ میں پرکھے جا رہے ہیں۔
مغربی فکر کو سامراجی ڈیزائن کا حصہ سمجھنے والے پڑھے لکھوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات کے حق میں دلائل بھی مغربی مفکرین کے ہاں سے لاتے ہیں۔ یہ ایک سادہ سی بات ہے کہ ایک مغربی دانش ور کے بعد آنے والا مغربی دانش ور پچھلے دانش وروں کی فکر پر تنقید کرے گا تاکہ اپنے لیے کوئی انٹیلکچوئل اسپیس پیدا کر سکے۔ اس تنقید کا آسرا لے کر پورے مغربی نظامِ فکر کو فارغ قرار دے دینا ایک سنگین غلطی ہے جو ہمارے ہاں عسکری صاحب سے بھی سر زد ہوئی اور کچھ معصومین آج کل بھی یہی غلطی دہرا رہے ہیں۔

مغربی فکر کا کوئی بھی مغربی ناقد ہو، مغرب کی روشن خیالی اور اسکالرشپ کی روایت کے دائرے سے باہر اس کی فکر کے وجود کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ چاہے وہ رینے گینوں عرف عبدالواحد یحییٰ ہی کیوں نہ ہوں۔

علامہ اقبال نے ایک غلام ملک میں زندگی گزاری جہاں وہ ایک ایسی اقلیتی کمیونٹی کے رہ نما بھی تھے جسے اپنے مذہب اور تہذیب کے حوالے سے بہت سے، منطقی یا غیر منطقی، خدشات بھی لاحق تھے۔ اگر انھیں ایک آزاد ملک میں اکثریتی کمیونٹی کا رہ نما بننے کا موقع ملتا تو شاید وہ ہمیں ہمارے فکری سودا سلف میں مغربی فکر کی مقدار پہلے سے زیادہ کر دینے کا مشورہ دیتے۔ کیونکہ انھوں نے اپنی کتاب میں بار بار یہ کہا ہے کہ وہ جن معاملات پر بات کر رہے ہیں اس پر مستقبل میں مزید بات ہونی چاہیے۔ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال کے بعض مضامین اور اپنی سوانح عمری میں اقبال کے نام ایک خط اسی پیش رفت کی نشان دہی کرتا ہے۔

بہرحال اقبال کے بارے میں میری یہ خوش امیدی میری ایک ایسی رائے ہے جس پر مجھے اصرار نہیں، کیونکہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ قیامِ پاکستان کے بعد کے برسوں میں اور بدلتی ہوئی سیاسی اور عالمی صورتِ حال میں ہمارے سامنے جو سوال آئے، ان کے بارے میں ایک ایسے اقبال کیا رویہ اپناتے جو اپنی زندگی میں بھی بہت سی باہم متضاد راہوں سے گزر چکے تھے۔

تاہم اقبال کا کام مذہبی فکر کے فطری ارتقاء کا حصہ ہے۔ اس ارتقاء کو نہ علماء روک سکتے ہیں، نہ وہ لوگ جو مذہب سے مکمل انقطاع چاہتے ہیں۔ تاہم دنیا کے دیگر ملکوں کے برابر آنے کے لیے صرف مذہبی فکر کے اس ارتقاء پر تکیہ کیے بیٹھے رہنا مناسب نہیں۔ ہماری تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ مسلم معاشروں کے بہترین دماغوں نے اپنی توانائیاں مذہبی فکر کی تبلیغ یا تفہیم میں صرف کر دیں۔ ہمارا معاشرہ تیزی سے صنعتی دور میں داخل ہو رہا ہے۔

صنعتی معاشرے میں معاشی جدوجہد کا کمر توڑ دباؤ اور مغرب کی متعارف کردہ دل چسپ سے دل چسپ تر زندگی ہمارے نوجوانوں کو اس بات پر راغب کرے گی کہ وہ سائنس، ٹیکنالوجی اور مغربی فکر کی طرف زیادہ سے زیادہ رجوع کریں۔ یوں مغربی فکر سے مکمل انقطاع کا مطالبہ کرنے والوں کا باب جلد یا بدیر بند ہو جائے گا۔ اور یہ جتنی جلدی بند ہو جائے اتنا ہی بہتر ہے۔

مغربی فکر تو ہمیں خریدنا ہی پڑے گی۔ یہ سوال بہرحال برقرار رہے گا کہ کتنے چھٹانک؟ لیکن پس صنعتی عہد میں محض چھٹانکوں کے حساب سے بات بنے گی نہیں۔

About سیّد کاشف رضا 26 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔