تخلیق کار کے نام خط

ایک روزن لکھاری
خرم شہزاد

تخلیق کار کے نام خط

ملتان
۱۸ستمبر ۲۰۱۶ء

جانِ ادب!
سلامتی ہو۔
آج کل مختلف حلقوں میں ادبی تھیوری کے حوالے سے میں نے تمہیں بہت پریشان دیکھا ہے۔میں جانتا ہوں ،اس تنقید(ادبی تھیوری) کو تم اپنے روشن مستقبل کی ضمانت نہیں سمجھتے۔تمہارے تحفظات تمہاری ذہنی و ادبی تربیت کے تناظر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔مثال کے طور پر تمہارا یہ کہنا کہ نقاد تمہیں تخلیق کار ماننے سے گریز پا ہیں اورتمہاری خلاقیت کی بجائے تحریر کی خود مختاریت پر ذور دیتے ہیں۔ جب کہ تم تو اپنی تخلیق کو خدا کی تخلیق کے مماثل دیکھنے کے عادی ہو یا کم از کم تخلیقی عمل کی ڈومین میں’’ نوائے سروش‘‘ کے عادی ہو۔ تو یہ بات تمہارے لیے نا قابل برداشت ہی ہو نی چاہیے کہ تمہیں تخلیقی عمل سے منہا کر دیا جائے۔یا ’’مصنف کی موت‘‘ کا اعلان کرکے تمہیں مرحوم ہونے کا احساس کرایا جائے۔لیکن اگر تم غور کرو تو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے کہ متن کوتمہاری منشا سے الگ کر کے دیکھا جائے گا۔ اس سے معنی کی نت نئی سطحیں دریافت ہوں گی اور اکہرے مفہوم سے تمہاری تحریر کی جان چھوٹ جائے گی۔ اگر تمہیں اپنی اہلیت پر یقین ہے کہ تم صرف یک رخے معنی کے خلاق ہو تو اور بات ہے ورنہ’ ایمائیت ‘یا ’رمزیت‘ جیسی مروجہ مشرقی اصطلاحات ہی میں اپنائیت محسوس کرواور پیدا کرنے کی کوشش کرو باقی سارا مسئلہ نقاد ہے کہ وہ کس طرح تمہاری تحریر سے کثیر المعنویت نکال لیتا ہے۔ کم از کم تمہیں اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اب اگر تمہیں اپنی منشا کے حزَف ہونے پر اعتراض ہے تو یاد رکھو روایتی اردو تنقید میں سوانحی کوائف کی روشنی میں منشائے مصنف کے نام پرجو مذاق میرا جی کے متن سے کیا گیا وہ تمہارے لیے نشانِ عبرت بننے کے ساتھ ساتھ ادبی تھیوری میں جاذبیت کا بھرپور سامان پیدا کر سکتا ہے۔منٹو کے افسانوںیا کلامِ فیض کے حوالے سے ہی دیکھ لو کس طرح شان دار متن کو فخریہ انداز میں روایتی تنقید نے یک رخے معنی میں ملفوف کیا ہے۔امید ہے تم اس بات کو سمجھ چکے ہو گے جو میں نے کہہ دی ہے اور اسے بھی جو میں نے نہیں کہی۔
میں ادبی تھیوری کا وکیل نہیں ہوں بس تمہارا خیر خواہ ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم معاصر تنقید میں موجود تعقلات کو کھلے ذہن کے ساتھ سمجھ کر ان سے استفادہ کرو ۔ تم نے آج کل جس محاذ پر نقاد سے جنگ شروع کر دی ہے وہ تمہارے حق میں بہتر نہیں ہے۔یہ نقاد لوگ بڑے ظالم ہوتے ہیں ۔تمہیں یاد ہے نا کہ ایک دفعہ شمس الرحمٰن فاروقی نے ظفر اقبال کے بارے میں رائے دے دی تھی کہ ’’دیوانِ غالب‘‘ کی اول اشاعت(۱۸۴۱) کے بعد اردوغزل کی تاریخ میں دوسرا انقلابی قدم’’گلافتاب‘‘کی اشاعت تھی۔بعد میں بوجوہ وہ اپنی ہی اس رائے سے دستبردار بھی ہو گئے تھے۔حالاں کہ بے چارے ظفر اقبال نے انہیں یاد دلانے کی بہت کو شش کی،بہت واسطے بھی دیے ۔۔۔۔ تو یہ قصہ تمہارے لیے سبق آموذ ہے۔
از راہ کرم تم تخلیق کارانہ زَعم کو جانے دو اور وقت کے دستخط کو پہچانو۔ادبی تھیوری میں موجود مضمرات کو تم مزید امکانات میں بدل سکتے ہو۔تمہارا تعلق جس خطے سے ہے اس میں 9\11 کے بعدفکری سطح پر بہت سے حوالوں سے مردہ خاموشی پیدا کی گئی ہے ۔اس شور نماسکوت کو بامعنی بنانے کے لیے تمہیں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اگر صورتِ حال کو سرسری حوالے سے موضوع بناؤ گے تو یاد رکھنازیادہ سے زیادہ ایک اسٹیریو ٹائیپ بیانیہ ہی پیش کر سکو گے جو دنیا میں طاقت کا مرکز بدلنے کے بعد آنے والی نسلوں کے لیے غیر اہم ہو جائے گا۔صحیح طور پر صورتِ حال کے ادراک کے لیے تمہیں فکشن کے مطالعے پرہی اکتفا کرنے کی بجائے عمرانی علوم سے بھی دلچسپی پیدا کرنا ہو گی ۔بطور ادیب ہمسایہ ملک سے تعلق رکھنے والی ایک عورت (ارن دتی رائے) بھی تمہاری رہنمائی کر سکتی ہے اس بات پر پریشان مت ہونا کہ وہ ایک’’ عورت‘‘ ہے۔

خیر اندیش
خرم شہزاد

1 Comment

  1. آپ نے اچھا تجزیہ کیا ہے . ظفر اور فاروقی والا ابہامی جملہ بھی تھرڈ پارٹی کے حمایتیوں کی جانب سے آیا تھا جسے انہوں نے خود اچھالا. برا شاعر جب نقاد بنتا ہے تو یہ ہوتا ہے. باقی یونیورسٹیوں کے استاد نقاد نقصان پہنچا سکتے ہیں اور پہنچاتے بھی ہیں وہاں اقربا پروری اور بعد از وفات بھی دشمنی نکالنے کی فیکٹریاں قائم ہیں. ایجنسیاں میڈیا کیطرح یہاں بھی اثرورسوخ استعمال کرتی ہیں. آزاد سوچ والوں کو پیچھے ہی نہیں دھکیلا جاتا بلکہ الٹا ان کے خلاف ہی سب کو متحد کیا جاتا ہے. لیکن سچ تو سچ ہے. تخلیق رہ جائے شعر کی صورت وہی کافی ہے. خواہ سینہ بہ سینہ ہی ہو. کوئی کاغز پر حوالہ دے ہی دیتا ہے. تخلیق کار کو تو آخر مٹی ہونا ہے. بعض اوقات نام کو مٹا کر بھی تخلیق کو زندہ رکھنا ضروری ہوتا ہے.

Comments are closed.