زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے: بڑے لوگوں سے چھوٹے چھوٹے سوال

عامررضا

کوئٹہ دھماکے کے بعد کانوں میں پڑنے والے کچھ الفاظ پر غور کرتے ہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو کہ میڈیا نے اس دھماکے  کی رپورٹ کرتے اورسول و ملٹری  قیادت نے اس کی مذمت کرتے ہوئے استعمال کئے۔

  • دہشت گردوں کا بزدلانہ حملہ
  • دہشت گرد چھپ کر وار کر رہے ہیں
  • قوم دہشت گردوں کے سامنے پسپا نہیں ہوگی
  •  بھارت کا ہاتھ اس حملے میں شامل ہے
  • افغان انٹیلی جنس ایجنسی اس حملے میں ملوث ہو سکتی ہے
  • اس حملے کا مقصد سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے

:اس کے بعد میڈیا کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات

  • کیا یہ حملہ حکومت کی ناکامی ہے؟
  • را کے ملوث ہونے  کے ثبوت حکومت منظرعام پر لانے میں کیوں ناکام ہے؟
  • سیاسی حکومت نے نیشل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل کیوں نہیں کیا؟
  • کور کمانڈر کوئٹہ ہسپتال پہنچ گئے لیکن صوبائی حکومت کے نمائندے کہاں ہیں ؟
  • جنرل راحیل شریف بھی کوئٹہ پہنچ گئے۔ میاں محمد نواز شریف ابھی کیوں نہیں پہنچے ؟

مذمت کرنے والوں کے الفاظ اور جملے بھی دیکھ لیتے ہیں۔

  • دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے
  • بزدلانہ حملے ہمیں نہیں ڈرا سکتے
  • دہشت گرد ضرب عضب سے منتشر ہو کر اب بلوچستان کا رخ کر رہے ہیں
  • پاکستانی قوم کو ڈرایا نہیں جا سکتا
  • دہشگردوں نے آسان اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیا
  • شہدا کے لواحقین کو مکمل مدد فراہم کی جائے گی
  • ہمارا دشمن کمزور ہے، ہر صورت میں شکست دیں گے
  • امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی جائے گی
  • زخمیوں کو ہر قسم کی امداد دی جائے گے

 

یہ تھیں وہ لائنز اور یہ تھے وہ جملے جو کوئٹہ دھماکے کے بعد سننے کو ملے ۔یہ وہ الفا ظ ہیں جو کہ دھماکے کی ہر ٹی وی کوریج کے دوران میڈیا سے عوامی ڈ سکورس کا حصہ بنتے ہیں۔

یہ حملہ بزدلانہ تھا۔۔۔ کہہ سکتے ہیں لیکن لگتا نہیں ہے۔ دہشت گردوں نے مکمل پلاننگ کی انہوں نے اپنے ٹارگٹ کا انتخاب کیا ۔سب پہلے وہ حملہ آ ور پہنچائے جنہوں نے بار کے صدر کو نشانہ بنایا ۔ اس کے بعد اس خود کش بمبار کو کوئٹہ پہنچایا گیا، جس نے دن دیہاڑے، دن کے سفید اجالے میں کھلے عام یہ ‘‘بزدلانہ کارروائی ’’ کی۔ اس قدر پلاننگ میں اگر ناکامی ہے تو ہماری ہے ۔ بزدلی ہے تو ہماری ہے ہم جو اڑتی چڑیا کے پر گنتے ہیں اور بے پر کی اڑنے والی خبروں کے مطابق دنیا کے بہترین اداروں میں شامل ہیں ان کو دہشت گردوں کی اس ‘‘بزدلانہ’’ کارروائی کا علم ہی نہیں ہوا۔ ویسے جب جی ایچ کیو، مہران بیس اور کامرہ میں اٹیک ہوا تھا تب بھی اس حملے کوبزدلانہ کارروائی کہا گیا تھا ۔ کیا اس پہ شکر ادا کریں کہ بزدلانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں اور جس دن ان کی طرف سے کوئی دلیرانہ کارروائی ہوگی اس دن کیا ہوگا؟

بھارت اس حملے میں ملوث ہے۔۔۔ انتالیس سال کی اس عمر میں ہر قسم کے بم” دھماکے کے پیچھے میں نے یہی بیان سنا ہے کہ غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے بھارت ذمہ دار اور را نے کیا ہے۔ ٹھیک ہے میں آپ کا یہ بیانیہ خرید لیتا ہوں ۔ لیکن جناب مجھے یہ بھی بتا دیں کہ آپ کی دکان پر یہ جنس کبھی ختم ہو گی۔ کبھی اس گولی کا سٹاک ختم ہوگا۔۔ اپنی مجبوری اور کمپنی کی مشہوری کے لیے کب تک یہ مال بیچیں گے ۔ دوہزار ایک میں جو لوگ خود کش حملے میں جان بحق ہوئے  تھے ان سولہ سالوں میں ان کے بچے جوان ہو گئے ہیں آپ کے ساتھی ریٹائر ہو گئے ہیں لیکن کمال ہے اس گولی کے سٹاک پر جو ختم ہی نہیں ہو رہی۔

یہ حملہ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔۔۔ اس سے پہلے دنیا ہمارے اٹیمی ہتھاروں کے پیچھے تھی اور اٹیمی پروگرام کو سبوتاژ کرنا چاہتی۔ اس کے بعد گوادر پورٹ آ گئی جس کو دشمن تباہ کرنا چاہتا تھا۔ اب سی پیک کا اس میں اضافہ ہو گیا ہے۔  حمید گل راہی بہشت ہوئے ورنہ نائن الیون بہانہ افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ والی گردان سننے کو ملنی تھی۔

قوم کے حوصلے بلند ہیں ۔۔۔ اس پر تبصرہ انسان کیا کر سکتا ہے۔‘‘لسے دا کی زور محمد بخشا، رونا یا نس جانا’’۔ کوئٹہ ایک وار زون بن چکا ہے ۔ اساتذہ ،ڈاکٹروں، لکھاریوں ، دانشوروں اور وکیلوں کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد، کراچی  اور لاہور منتقل ہو چکی ہے ۔ شیعہ ہزارہ نے اپنی ایک نسل کو پاکستان سے باہر منتقل کر دیا ہے تاکہ ان کانام تو کسی نہ کسی طرح دنیا میں باقی رہے ۔ لیکن قوم کے حوصلے بلند ہیں۔

پہلی جنگ عظیم میں ایک برطانوی سپاہی کو وکٹوریہ کراس دیا گیا ۔ اس کا کارنامہ یہ تھا کہ وہ اس وقت بھی میدان میں موجود رہا جب پوری پلٹن بھاگ گئی۔ کسی نے پوچھا بڑے بلند حوصلے کے انسان ہو جو کھڑے رہے، کہنے لگا کوشش تو بڑی کی لیکن بھاگ نہیں سکا ۔ خوف سے پاؤں ہی بھاری ہو گئے تھے۔ حوصلے ان کے بلند ہیں جو سیکیورٹی کے بڑے بڑے حصاروں کے پیچھے بیٹھے کر بیان جاری کرتے ہیں۔

دہشت گرد آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔۔۔ سفید جھوٹ ہے انہوں نے مشکل اہداف کو بھی نشانہ بنایا۔ یہ بیان اے پی ایس کے بعد بھی دیا گیا تھا، چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کے بعد بھی دیا گیا تھا اب بھی دیا جا رہا ہے اور اس کے بعد بھی دیا جائے گا۔

دہشت گرد ضرب عضب کے بعد بھاگ کر بلوچستان میں داخل ہو رہے ہیں۔ کیا قوم کے ساتھ وہ معلومات شئیر کی جائیں گی کہ جب یہ پلان بنایا جا رہا تھا تب اس امکان پر غور نہیں کیا گیا تھا کہ دہشت گرد دوسرے علاقوں میں پھیل جائیں گے۔ اگر ان کو روکنے کا پلان بنایا گیا تھا پھر یہ بلوچستان میں داخل کیونکرہو ۔ رہے ہیں پکڑے کیوں نہیں جا رہے۔ اگر پلان میں اس امکان پر غور نہیں کیا گیا تھا تو پھر اس کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ بات کبھی بھی سامنے نہیں آئے گی

آرمی چیف تو پہنچ گئے میاں صاحب کیوں نہیں پہنچے۔۔۔ سما ٹی وی کی نیوز ریڈر کا پر جوش سوال لیکن وہاں وجاہت مسعود بیٹھے تھے جہنوں نے اس نیوز ریڈر کی خواہشات پر پانی پھر دیا اور اسے سول ملٹری تعلقات کا مسئلہ نہیں بننے دیا ورنہ باقی چینلز جہاں خضاب لگاۓ ہوئے ریٹائرڈ تجزیہ نگار بیٹھے تھے انہوں نے سول حکومت کے منہ اتنی ہی کالک پوتنے کی کوشش کی جتنی کوئی اچھا خضاب ان کے بالوں پر پوت سکتا ہے۔

ہمارا دشمن کمزور ہے، ہر صورت میں شکست دیں گے۔ چار ماہ بعد یہ جنگ سترہویں سال میں داخل ہو جائے گی۔ ابھی تک کوئی سرا ہاتھ آیا ہے تو دکھا دیں۔ وہی پرانے پریس ریلیز ہیں، وہی پرانے ٹویٹ ہیں اور وہی پرانے باجے ہیں جو بجائے جا رہے ہیں۔ اب یوم شہداء میں جو گانے بنیں گے ان میں کوئٹہ کے جان بحق ہونے والوں کی تصاویر کا مونتاج بھی شامل کر دیا جائےگا۔  

لینن سے کسی  نے کہا تھا کہ جنگ ہولناک ہوتی ہے، تو انہوں نے کہا تھا ہاں لیکن اتنی ہی منافع بخش بھی۔ بلوچستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ملین ڈالرز کا بزنس بن چکی ہے۔ اس سے پہلے کی جنگ میں کسی کے بیٹوں کے ہاتھ شوگر ملیں آئیں۔ سافٹ ڈرنک کی فیکٹریاں آئیں تو اب ان کے جونئیرز کے بیٹوں کے پاس فراری کاریں آ رہی ہیں۔ اربوں کے بنک بیلنس آ رہے ہیں۔ میڈیا کے حصے بم دھماکے کو کور کرنے کی ٹی آر پیز اور اس کے مطابق ایڈورٹائزنگ ریونیو اور سب سے آگے ہونے کی دوڑ میں نمبر ون کی پوزیشن۔ کسی میڈیا نے آج تک وہ امدادی چیک ٹی وی سکرین پر نہیں دکھایا جو کہ جان بحق ہونے والے رپورٹر کو دیا گیا ہو۔ حالات یہ ہیں کہ اسلام آباد پریس کلب کے باہر مظاہرہ کرنے والے صحافی نے کہا کہ اگر کیمرے کی انشورنس ہو سکتی ہے تو رپورٹر اور کیمرہ میں کی کیوں نہیں۔ بم بلاسٹ  اور وار زون میں رپورٹنگ کرنے والے کتنے لوگوں کو چینلز نے اپنے اخراجات پر ٹریننگ کے لئے بھیجا۔ کتنوں کے پاس کٹ ہے جو ایسے حالات کی دوران ضروری ہے۔ بعد میں جان بحق ہونے والی کی تصاویر کا بری شاعری پر مونتاج بنا کر نشر کرتے   رہتے ہیں۔ اس جنگ میں عوام کے حصے میں صرف گھسے پٹے جملے اور کھوکھلے نعرے اور مرنے والوں کے نمبرز آئے ہیں۔ سنیے، فیض کیا کہتے ہیں:

چند روز اور مری جان، فقط چند ہی روز

ظلم کی چھاؤں میں دَم لینے پہ مجبور ہیں ہم

اک ذرا اور ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رو لیں

اپنے اجداد کی میراث ہے، معذور ہیں ہم

جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں

فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں

اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں

زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

2 Comments

  1. بہت صحیح کہا ہم لوگ ایسے ہی پاکیستان میں تہیں گے جہاں گھٹیا قسم کے یہ حکمران سکیورٹی حصار میں رہیں گے اور عام عوام مرتی رہے گی بزدل دہشت گرد نہیں یہ حکمران ہیں اور پیسہ تو یہ ہی کھا بھی رہے ہیں اور ہنڈا بھی

Comments are closed.