غیرت کے نام پر کھلے مقتل : مارکسی تناظر میں

شہریار خان

غیرت کے نام پر کھلے مقتل : مارکسی تناظر میں

(شہریار خان)

مارکس کے خیال میں معاشرتی شعور الہامی یا مطلق نہیں بلکہ پیداواری رشتوں سے جنم لیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں افراد کی ذہنی نشوونما، اخلاقی اقدار اور قانونی اور معاشرتی اصول و ضوابط کا تعین معاشرے کا معاشی ڈ ھانچہ کرتا ہے۔ ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓA Contribution to the Critique of Political Economy کے دیباچے میں مارکس لکھتا ہے:

“کسی بھی معاشرے کے معاشی ڈھانچے کی بدولت، افراد ایک دوسرے کے ساتھ کچھ رشتوں میں جڑ جاتے ہیں جو نہ صرف ناگزیر ہوتے ہیں بلکہ ان رشتوں کے معرض وجود میں آنے میں افراد کا اپنا عمل دخل نہیں ہوتا۔ یہ رشتے اس چیز کی عکاسی کرتے ہیں کہ معاشرہ معاشی ترقی کی کس منزل پر ہے۔ ان رشتوں کا مجموعہ معاشرے کا معاشی ڈھانچہ تشکیل دیتا ہے اور یہ ڈھانچہ پھر قانونی، معاشرتی اور سیاسی شعور کو جنم دیتا ہے۔ انسان کی مادی زندگی کے پیداواری ذرائع اس کے معاشرتی، سیاسی اور روحانی کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔ انسانو ں کا شعور ان کی مادی زندگی کو متعین نہیں کرتا بلکہ ان کی مادی زندگی ان کے شعور کو متعین کرتی ہے۔”

اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجیے: فرد، معاشرتی شعور اور پاکستانی معاشرہ: سماجی نفسیاتی تجزیہ

اس اقتباس سے یہ ثا بت ہوتا ہے کہ مارکس نظریات، اخلاقیات، سیاسیات وغیرہ کا منبع کسی مابعدالطبیعاتی طاقت کو نہیں سمجھتا بلکہ معاشرے کے پیداواری ڈھانچے کو ان کی بنیاد بناتا ہے۔ مزید یہ کہ ہر معاشی ڈھانچے کے اپنے پیداواری طریقے کے مطابق پیداواری ذرائع ہوتے ہیں جیسا کہ زرعی معاشی نظام کے پیداواری ذرائع ہل اور درانتی ہیں، جبکہ صنعتی معاشی نظام کے ذرائع مشین اور ٹیکنالوجی ہیں۔

مارکس کے نظریے کی مطابق پیداواری ذرائع میں تبدیلی پیداواری رشتوں میں تبدیلی لے کے آتی ہے اور یہ پیداواری رشتے معاشرے کے نظریاتی ڈھانچے یعنی اخلاقیات، اقدار اور دوسرے نظریات کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ مشینوں اور دوسرے سائنسی آلات کی ایجادات کے ساتھ نہ صرف یہ کہ یورپ کا معاشی نظام زرعی سے صنعتی ہوا بلکہ اس سے معاشرے کے نظریاتی ڈھانچے میں بھی تبدیلی آئی۔

نظریاتی ڈھانچے میں بھی تبدیلی کی حالیہ مثال یورپ میں دیکھی جا سکتی ہے جب ۷۰ کی دہائی میں یورپی معاشرہ سرمایہ دارانہ نظام کے اگلے مرحلے یعنی post-industrialism or late-capitalism میں داخل ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اس مرحلے کا سب سے نمایاں عنصر یہ ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے وہ پہلو جو پچھلے ادوار میں مارکیٹ کے طریقہ ہائے کار کے زیر اثر نہیں تھے (جیسا کہ تعلیم، فنون لطیفہ، صحافت) ان کو بھی کاروباری دائرہ کار میں داخل کر دیا۔

اس کا نتیجہ globalization اور multinational corporate culture کی صورت میں سامنے آیا اوردنیا کو ایک global village قرار دینے کی باتیں ہونے لگیں۔ یہاں یہ بات مدنظر رکھنی ضروری ہے کہ یورپ post-industrialism میں پیداداری ذرائع میں تبدیلی کی وجہ سے داخل ہوا۔ یہ تبدیلی ذرائع  cybernetics, information technolgy اور media ہیں۔

یورپ کے ترقی یافتہ ممالک نے پوری دنیا میں اپنی مصنوعات کو پھیلانے کے لیے میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں cultural eclecticism کی ترویج کی، یعنی انفرادی ثقافتی شناخت کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ ہم تمام لوگ اب گلوبل ویلج کے باسی ہیں۔ گلوبلائزیشن نے اس طرح پوری دنیا میں post-industrial culture متعارف کرایا۔

یورپ کی موجودہ ثقافت اس نظریاتی ڈھانچے کانتیجہ ہے جو پیداواری ذرائع میں تبدیلی سے وقوع پذیر ہوئی۔ اگر زرعی معاشرہ خاندان اور سربراہ خاندان کی اہمیت اور فرد کے اوپر ان کے مکمل اختیار پر زور دیتا تھا تو post-industrial معاشرہ فرد کی آزادی اور liberalism کا حامی ہے۔

انفرادی سوچ اچھے صارف پیدا کرتی ہے جو کہ post-industrial معاشرہ کی ضرورت ہے۔ فوکو (Foucault) کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس معاشرہ نے culture of the self کو فروغ دیا ہے جس میں فرد کی زندگی کا مقصد self-actualization ہے۔ سوشل میڈیا بھی اسی نظریے پہ کام کرتا ہے جس میں افراد اپنی posts کے ذریعے اپنی انفرادیت کا اظہار کرتے ہیں۔

اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ گلوبلائزیشن کے نظریاتی ڈھانچے کا تیسری دنیا پر کیا اثر ہوا۔ جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ یورپ کے نظریاتی ڈھانچے میں تبدیلی، پیداواری ذرائع میں تبدیلی کی وجہ سے آئی، یا دوسرے لفظوں میں اس تبدیلی نے اسی معاشرے کے اندر سے جنم لیا اور افراد کا ذہنی ارتقاء بھی ساتھ ساتھ ہوا۔

لیکن تیسری دنیا گلوبلائزیشن کے نظریاتی ڈھانچے میں پیداواری ذرائع میں تبدیلی کے بغیر ہی داخل ہو گئی۔ یعنی ہمارے پیداواری ذرائع آج بھی زرعی معاشرے کے ہیں اور نظریاتی ساخت بھی وہی ہے، لیکن ایک صارف معاشرہ ہونے کی وجہ سے ہم گلوبلائزیشن کے تمام ثمرات سے مستفید ہو رہے ہیں۔

پیداواری ذرائع اور پیداواری رشتے وہی رہنے کی وجہ سے خاندان اور معاشرہ، ایک فرد کے قول و فعل پر مکمل اختیار چاہتا ہے، لیکن ساتھ ہی افراد گلوبلائزیشن کی بدولتcultural  post-industrial کے ساختیاتی ڈھانچے کے زیر اثر بھی ہیں۔

ہمارا نظریاتی ڈھانچہ ابھی بھی زرعی، قبائلی اور پدرانہ ہے، لیکن بس ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں رہے ہیں۔ اس تضاد کا ہمارے اوپر کیا اثر ہو رہا ہے اس کا اندازہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتلوں سے بالعموم اور قندیل بلوچ کے قتل سے بالخصوص لگایا جاسکتا ہے۔

قندیل بلوچ اس نوجوان نسل کی نمائندہ ہے جو post-industrial culture کے زیر سایہ پروان چڑھ رہی ہے لیکن معاشرے کا نظریاتی ڈھانچہ صدیوں پرانا ہے۔ قندیل بلوچ جیسے افراد جب جدید رحجانات کے زیراثر شخصی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی پر عمل کرتے ہوئے اپنی انفرادیت کو سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں صدیوں پرانے نظریاتی ڈھانچے سے ٹکر لینا پڑتی ہے۔

 یہ نظریاتی ڈھانچہ ان پر تنقید کرتا ہے، ان کی کردار کشی کرتا ہے اور انہیں معاشرے کا بے خانماں رکن بنا دیتا ہے۔ معاشرے کی پدرانہ سوچ قندیل جیسی لڑکیوں کے بھائیوں کا مذاق اڑاتی ہے، انہیں “غیرت” دلاتی ہے اور وہ معاشرے میں اپنی “عزت ” بحال کرنے کے لئے اپنی بہنوں کو قتل کر دیتے ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل ایک ساختیاتی مسئلہ ہے جو نظریاتی ڈھانچوں کے تصادم کے باعث پہلے سے گھمبیر ہوتا جا رہا ہے اور یہ مسئلہ دیہاتی علاقوں میں زیادہ شدت سے موجود ہے کیونکہ وہاں یہ تصادم اور زیادہ ہے۔

اس کا حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ہمارا معاشرہ محض ایک صارف معاشرہ رہے گا اور اپنے پیداواری ذرائع کو اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے جدید خطوط پر استوار نہیں کرے گا۔ جب تک پیداواری ڈھانچہ تبدیل نہ ہو نظریاتی ڈھانچہ وہی رہے گا۔

3 Comments

  1. یہ تضاد نہ صرف معاشرے مین مجموعی طور پر موجود ہے بلکہ ایک ایک فرد کی زات کے اندر گھس کہ بیٹھ گیا ہے.اھل عقل و دانش کو اس سلسلے مین حکومتی مشینری اور پالیسی میکرز پہ اثر انداز ہونا چاہیے.

Comments are closed.