قندیل بلوچ کا قتل اور ہمارا معاشرتی انحطاط

قندیل بلوچ کا قتل اور ہمارا معاشرتی انحطاط

از، عزیر وزیر

کل کے دن کی دو بڑی خبروں میں ترکی کی ناکام بغاوت، جو کہ عالمی سطح کی خبر تھی اور دوسری بڑی خبر جسکا تعلق ہمارے معاشرے سے ہے وہ قندیل بلوچ کا بھائی کے ہاتھوں، غیرت کے نام پر بے رحمانہ قتل  تھی۔ ترکی کی ناکام بغاوت پر بہت بات ہوچکی ہے۔ اور اسکا انجام اکثریت کی خواہش کے مطابق ہوا۔ جبکہ قندیل بلوچ کا گلا دبا کر مارنے والی خبر بظاہر تو ایک خبر ہی ہے لیکن اس سے ہمارا معاشرتی انحطاط کافی کھل کر سامنے آجاتا ہے

قندیل صحیح تھی یا غلط، اسکے بھائی کا غیرت کے نام پر قتل صحیح تھا یا غلط یہ سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔ اس لئے ہم اس بحث سے اجتناب کرکے اس خبر کے آئینے میں اپنے معاشرے کی تصویر دیکھیں گے۔

میری نظر میں کسی بھی ایسی خبر کو محض عورت پر ظلم قرار دینا ایک بہت ہی محدود نقطہ نظر ہے۔ اس کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی

معاشرے کی خوشحالی کو بنیادی طور پر تین پیمانوں کے ذریعے جانچا جا سکتا ہے۔

۱۔ سیاسی امن ۲۔ معاشی مساوات اور ۳۔ عدل کا نظام

کسی بھی معاشرے کی ترقی کو ماپنے کا پہلا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں پر موجود سیاسی نظام امن دے رہا ہے یا خوف بانٹ رہا ہے۔ ہم اگر اپنی سوسائٹی کا جائزہ لیں تو یہاں پر ہر طرف خوف کی فضا ہے۔ ہر کسی کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ ابھی کوئی دھماکہ نہ ہوجائے۔ کوئی بھی اٹھ کر ہمیں یا ہمارے بچوں کو قتل نہ کردے۔ کوئی ہمارا مال نہ لوٹ لے۔ رات کے وقت کوئی موٹرسائیکل سوار قریب سے گزرے تو ہم اس سے خوفزدہ ہوں کہ کہیں پستول نکال کر موبائل نہ چھین لے اور بائک والا ہم سے خوف زدہ ہوتا  ہے کہ ہم اسکی پائک نہ چھین لیں۔اور اب تو یہ خوف اتنا سنگین ہوگیا ہے کہ کبھی وہ گلی ،محلے جہاں ہمارا بچپن بے خوف و خطر گزرا تھا آج ہم اپنے بچوں کو ان گلی محلوں میں کھیلنے نہیں دیتے۔ پھر اسی خوف کی وجہ سے ہر بندہ اپنے لئے الگ سیکورٹی کا تقاضہ کرتا ہے۔ اور ظاہر ہے وہ تو صرف بڑے لٹیروں کو ہی میسر ہوتی ہے۔ تو آخر میں ملک سے ہجرت کرنی پڑتی ہے یا قندیل بیچاری کی طرح انجام ہوجاتا ہے

معاشرے کی ترقی کو دیکھنے کا دوسرا پیمانہ معاشی مساوات ہوتا ہے۔ یعنی کہ وہاں رہنے والے لوگوں کی معاشی سطح برابر ہے یا اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس کے پاس دولت زیادہ ہے کیا اس نے محنت کے بل بوتے پر کمائی ہے یا کسی دو نمبر طریقے سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم اپنے معاشرے کا تجزیہ کریں تو  ہمارے معاشرے میں دولت کے بڑھنے کی وجہ محنت کی بجائے فراڈ، دھوکہ دہی، کرپشن نظر آتی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں، بیوروکریٹس، صنعتکاروں، جاگیرداروں کی پچھلی تین، چار دہائیوں کی تاریخ اگر دیکھی جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان کی بےتحاشہ دولت کے پیچھے کوئی نہ کوئی فراڈ یا ملکی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کا پہلو ضرور موجود ہوتا ہے۔ عربی کا ایک مقولہ ہے ’الناس علیٰ دین الملوکھم‘ یعنی کہ عوام حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں۔  اگر ہم دیکھیں تو اشرافیہ کی دن دگنی رات چگنی معاشی ترقی کا ملکی معیشت کو تو نقصان ہے ہی لیکن معاشرے پر بحیثیت مجموعی اس کا جو منفی اثر پڑ  رہا ہے وہ یہ کہ پوری قوم راتوں رات امیر ہونے کے سپنے دیکھ رہی ہے۔ اور محنت کرنے کی بجائے سستی، کاہلی، چاپلوسی اور غیر پیداواری ذرائع سے دولت کمانے کے امراض میں مبتلا ہوگئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو محنت کا جائز معاوضہ نہ ملنا ہے اور دوسری بڑی وجہ ہماری کارپوریٹ میڈیا کا کردار بھی ہے۔ جو کہ اپنی ریٹنگ کے چکر میں کبھی بھیک مانگنے والی لڑکیوں کے گائے ہوئے کسی گانے کو اتنی پروجیکشن دینا ہے کہ وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتی ہیں۔ یا پھر اسلام کے نام پر رمضان میں گاڑیاں اور عمرے کے ٹکٹ بانٹنے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے کہ اچھی خاصی عمر کے لوگ یہ چیزیں حاصل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک گر جاتے ہیں۔ اس سے مجموعی اخلاقیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ہم اچھی طرح دیکھ رہے ہیں۔

معاشرے کی ترقی کا جائزہ لینے کیلئے تیسرا پیرامیٹر عدل کا نظام ہے۔ جس معاشرے میں عدالتی نظام فعال ہو اور بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب کے عدل و انصاف فراہم کرتا ہو وہاں کے باسیوں کا اپنے نظام پر اعتماد ہوتا ہے۔ اس معاشرے میں ظلم نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہر فرد یہ سمجھتا ہے کہ اگر کوئی اس کے ساتھ زیادتی کریگا تو اسے اس کے کئے کی سزا ملیگی۔ قانون کی نظر میں تمام لوگ برابر ہوتے ہیں اسلئے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی تصور ہی نہیں کر سکتا بلکہ قانون ہاتھ میں لینا معیوب سمجھا جا تا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

آج ہم مدعی بھی خود ہیں، گواہ بھی خود، جج بھی خود اور سزا دینے والی انتظامیہ بھی خود۔ جس کی وجہ سے پورا معاشرہ ظلم کا شکار ہے۔ تقریر اور تحریر کی آزادی پر قدغنیں ہیں۔ اور اگر کوئی تحریر اور تقریر سے کسی کے جذبات مجروح کرلے تو اسکی سزا اور جزا کا بھی کوئی خاطر خواہ انتظام موجود نہیں۔ اور سرمایہ داری نظام کی ایک اور چال یہ بھی ہے کہ اسنے ہمیں اجتماع کی بجائے افراد اور فرد کی بجائے مرد اور عورت میں تقسیم کردیا ہے۔ جسکی وجہ سے ہم منظم نہیں ہو پارہے بلکہ ایک صنف کو دوسری صنف کا دشمن سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ ظلم ہمہ گیر ہے اور اسکا اثر ہمارے مجموعی رویوں پر پڑ رہا ہے۔

قندیل بلوچ ہمارے ملک کے کروڑوں غریب نوجوانوں کا ایک آئینہ تھی۔ جو کہ اپنی محرومیاں اور غربت مٹانا چاہتی تھی۔ آگے جانا چاہتی تھی۔ ترقی کے مواقع دینا نظام کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور جب نظام مواقع دینے میں فیل ہوجائے تو لوگ شارٹ کٹس ڈھونڈتے ہیں۔ آگے جانے کیلئے، شہرت حاصل کرنے کیلئے ہر طرح کا راستہ اپناتے ہیں۔  کارپوریٹ میڈیا سرمایہ کمانے اور ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں پہلے ان کے اعمال کو، انکے کام کو پروموٹ کرتا ہے۔ اور بعد میں جب وہ ظلم کا شکار ہوجایئں تو پھر ان پر آنسو بہا کر مزید دولت کماتا  ہے۔ ان کیلئے تو ہاتھی ہوتا ہے۔ زندہ لاکھ کا، مر جائے تو سوا لاکھ کا۔

1 Comment

  1. ڈاکٹر عزیر صاحب آپ نے ہمارے معاشرے کی صحیح تصویر کشی کی ہے، اور مختصر مگر جامع الفاظ میں بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ لیکن اس موضوع کے حوالے سے کچھ تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ اس پر مزید لکھنے کی ضرورت ہے کہ قندیل جیسے کردار اگر مثبت انداز میں سامنے آئیں تو کیسے ملک و قوم کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں وغیرہ۔

Comments are closed.