قندیل بلوچ کا قاتل: بھائی نہیں، یہ معاشرہ ہے

(ثنا ڈار)

کراچی کے علاقے مومن آباد میں ایک بھائی نے غیرت کے نام پر اپنی بہن کو چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا۔ زخموں سے چور سترہ سالہ سمیرا تڑپتی رہی جبکہ باغیرت بھائی بے حسی کے ساتھ پاس بیٹھا موبائل فون سے کھیلتا رہا۔ اس باغیرت معاشرے کے کئی غیرت مند بھی پاس کھڑے تماشہ ریکھتے رہے اور موبائل پرویڈیوز بناتے رہے۔ لیکن کسی غیرت مند نے سمیرا کو اسپتال پہنچانے کی جرات نہ کی۔ شرمین عبید چنائے نے غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر فلم بنائی تو طوفان برپا ہو گیا کہ ملک کو بدنام کیا جا رہا ہے۔۔ کوئی پوچھے کہ جب روز غیرت کے نام پر خواتین کا قتل عام کیا جاتا ہے تب ملک بدنام نہیں ہوتا۔

ماڈل قندیل بلوچ کو جب اسکے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کیا تو کسی نے میڈیا کو اس کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا تو کوئی بولا اس کی حرکتیں ہی ایسی تھیں، یہی ہونا تھا۔ مان لیا کہ چینلز نے اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے قندیل کو استعمال کیا، ہر چینل کی سرخیوں میں قندیل کو نشانہ بنایا گیا، اس کی ذاتی زندگی میں حد سے زیادہ دخل اندازی کی گئی۔ یہ بھی مان لیا کہ قندیل کی موت کی وجہ بھی میڈیا بنا۔ لیکن جو روز غیرت کے نام پر مر رہی ہیں انہیں کون مار رہا ہے؟ کیا انہیں بھی میڈیا مار رہا ہے؟ نہیں بالکل نہیں۔۔ انہیں میڈیا نہیں بلکہ آپ کا باغیرت معاشرہ مار رہا ہے۔

قندیل پر انگلیاں اٹھانے والے اس معاشرے کے مطابق قندیل نے اپنی حدود سے تجاوز کیا۔ وہ معاشرے میں گندگی پھیلا رہی تھی- قندیل تو مر گئی۔ کیا اب گندگی ختم ہو گئی؟قندیل پر تنیقد کرنے والے اس معاشرے کی اصلاح آخرکب کی جائے گی۔ اس باغیرت معاشرے میں طوائفوں کو انتہائی حقیرشے تصور کیا جاتا ہے لیکن ان طوائفوں کے پاس جانے والے مرد انتہائی قابل احترام ہیں۔ کیا مرد گندگی پھیلانے میں برابر کا حصہ دار نہیں؟ اس غیرت نامی شے کو لے کر ہمارے معیار اتنے دوہرے کیوں ہیں۔

غیرت کو صرف عورت سے منسوب کر دینے والے مردوں کی اصلاح آخر کب کی جائے گی؟ کیا اس باغیرت معاشرے کے باغیرت مردوں کی سب حرکتیں درست ہیں۔ یہ جانچ پڑتال آخر کب کی جائے گی۔
سڑک پر جاتی اکیلی عورت کو چھو کر بھاگ جانے والے مرد کیا غیرت مندی کا سرٹیفیکٹ گھر رکھ کر آتے ہیں۔ عورت گھر سے اکیلی نکلی ہی کیوں؟ یہ کہہ کر ہمارا معاشرہ ایسے حضرات کو کلین چٹ جبکہ عورت کو بے غیرتی کا تمغہ تھما دیتا ہے۔۔ ٹریفک میں پھنسی ایک خاتون ڈرائیور کی گاڑی کے سامنے آکر ایک شخص اپنے کپڑے اتاردے تو ارد گرد موجود بے غیرت مسخرے صورتحال سے لطف اٹھاتے ہیں۔ یہ اس وقت مدد کو کیوں نہیں آتے، انکی غیرت نجانے اس وقت کہاں کھو جاتی ہے۔

میڈیا اور قندیل پر تنقید کرنے والے غیرت مند سڑکوں پر سرعام خواتین کو ذلیل کرنے والے بے غیرتوں پر تنقید کیوں نہیں کرتے؟ ہم یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ قندیل کو اس کے بھائی نے نہیں بلکہ اس غیرت مند معاشرے نے مارا۔ وہ معاشرہ جس میں غیرت صرف عورت سے منسوب ہے۔ وہ معاشرہ جس میں روز ایک قندیل غیرت کے نام پر مار دی جاتی

2 Comments

  1. اس مردہ معاشرے میں جنازے نکل رہے ھیں ….. سب سے پہلے قائد کا نکلا …،…. پھر نظریہ کا …. ثقافت کا … اقدار کا … اب آخری جنازہ غیرت کے ٹھیکیداروں کا نکلنا باقی ہے …. انتظار کیجئے ….. عوام ہی نکالے گی …. ثنا ڈار تم نیے خوب لکھا،…

Comments are closed.