اس محبت کا ہو انجام بخیر

کاشف حسین غائر کی شاعری

Sarwarul Huda

(سرور الہدی)
شعبۂ اردو
جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی

 

پچھلے دنوں ایک ملاقات میں پروفیسر شمیم حنفی صاحب نے کاشف حسین غائر کے چند اشعار سنائے۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کاشف حسین غائر کے اشعار کے ساتھ دہلی کی ایک شام اتنی یادگار بن جائے گی۔ یوں تو شمیم حنفی صاحب نے پہلے بھی مختلف ملاقاتوں میں پسندیدہ اشعار سے ہمیں نوازتے رہے ہیں۔ مگر اس ملاقات میں انہیں غائر کے تعلق سے بہت پرجوش دیکھا۔ شمیم حنفی ان چند ادیبوں میں ہیں جو دنیا بھر کا ادب پڑھنے کے باوجود نئے پرانے طالب علم سے گفتگو کرنے میں تکلف سے کام نہیں لیتے۔ کاشف حسین غائر کی شاعری نے انہیں جس قدر متاثر کیا وہ ان کے پڑھنے کے انداز سے واضح تھا۔ میں کاشف حسین غائر کے بارے میں سوچنے لگا کہ ایک شاعر کی اس سے بڑی جیت کیا ہوسکتی ہے۔ ہر شعر پر وہ رک جاتے تھے اور ایک دو جملوں کے بعد دوسرا شعر پڑھتے۔ شمیم حنفی صاحب سے میں نے جوشعر سنے ہیں وہ میرے حافظے کا حصہ ہیں۔ دوسروں کے اشعار سناتے ہوئے ان کے یہاں جو سرشاری پائی جاتی ہے اس میں ہماری تربیت کا خاصا سامان موجود ہے۔ مجھے دہلی ایک ادبی محفل یاد آتی ہے جس میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے شمیم حنفی صاحب نے میر سوز کا شعر پڑھا تھا:

سر اوپر شام آئی جادۂ منزل نہیں ملتا
کہاں بستر بچھاؤں یاں کسی کا دل نہیں ملتا
ہر طرف سے واہ واہ کی آواز آنے لگی۔ میں جب گھر لوٹا تو میرے ساتھ میر سوز کا شعر بھی تھا۔ تھوڑے دنوں کے بعد محمد حسین آزاد کا شعر نظر نواز ہوا:

جہاں و کار جہاں کس نے یہ دراز کیے

اٹھو یہاں سے کہ اب ہوگئی ہے شام بہت

اگلی ملاقات میں انہوں نے شاد عظیم آبادی کا شعر سنایا:
سحرہے، اس سرا سے وقت آیا شاد جانے کا
کسے باندھوں، نہ بستر ہے، نہ تکیہ ہے سرہانے کا
اس شعر کا سحر طاری ہی تھا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے شاد عظیم آبادی سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے شاد کا درج ذیل شعر سنایا:

اے درد ذرا کچھ تو ہی بتااب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بے تاب ہیں ہم

شمیم حنفی صاحب کی یہ بات توجہ طلب تھی کہ شاد اگر کچھ اور نہیں کہتے تو بھی ایک شعر کے حوالے سے انہیں یاد رکھا جاتا۔ کئی مرتبہ انہوں نے مصرع ثانی پڑھا۔
کاشف حسین غائر کے اشعار مجھ تک یوں تو بے سان گمان آگئے لیکن یہ تو شمیم حنفی صاحب کے اس اعلی ادبی وشعری ذوق کا فیضان ہے جس کا ایک تازہ حوالہ کاشف حسین غائر کے اشعار کی قرأت ہے۔ اعلی ادبی ذوق نے انہیں فراخدل بھی بنایا ہے اور انتخابی بھی۔ فراخدلی ان کے لئے ہے جن کی تحریریں انہیں اچھی لگتی ہیں۔ اچھے اشعار سننے اور سنانے کا کلچر علمی غرور کے سبب کمزور ہوتا جاتا ہے۔ لوگ اپنے اشعار سنانے کی فکر میں زیادہ رہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوسروں کے اچھے اشعار نہ پڑھے جائیں۔ میرے استاد اسلم پرویز صاحب کہتے ہیں کہ ساٹھ کی دہائی میں دہلی کی ادبی محفلیں نظریاتی گفتگو کے ساتھ ساتھ اچھی شاعری کے سننے اور سنانے کی وجہ سے زیادہ مالا مال تھیں۔ ان محفلو ں میں نثار احمد فاروقی نے جتنے اشعار سنائے ہیں وہ واقعہ ہے۔ اب صورتحال بدل گئی ہے۔ یہ شکایت عام ہے کہ قاری غائب ہوتا جارہا ہے مصنف حاضر ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مصنف قاری بننے کو تیار نہیں ، وہ اپنے علاوہ کسی اور کو پڑھتنا نہیں چاہتا۔ مجھے شہریار کی ایک بات یاد آتی ہے ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنے چند اہم معاصر شاعروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم سب مل کر اس عہد کی شاعری کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اب تو ہر شاعر اپنی اور اپنے عہد کی نمائندگی کرتا ہے۔ دیکھئے ایک اور ملاقات یاد آگئی۔ جامعہ کے شعبۂ اردو سے نکل کر بات کرتے ہوئے تھوڑی دور آئے تو دریافت کیا کہ ادھر کون سی کتاب پڑھی۔ میں نے شہزاد احمد کی کتاب ’’وجودی نفسیات پر ایک نظر‘‘ کا حوالہ دیا۔ فرمانے لگے کہ شہزاد صاحب کا شعر سنئے:

کون کہتا ہے کہ دریا میں روانی کم ہے
میں جہاں ڈوب رہا ہوں وہاں پانی کم ہے

پھر یہ ہوا کہ شہزاد کی تنقید کے بجائے شہزاد احمد کی غزل پر گفتگو شروع ہوگئی۔ اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرنے لگے ۔ کاشف حسین غائر کی شاعری کے ذکر نے مجھے اس ادبی کلچر کے ذکر کا موقع فراہم کردیا ہے، جس کا ایک اہم حوالہ شمیم حنفی کی شخصیت ہے۔ شمیم حنفی نے محبوب خزاں کا شعر سنایا:

راستے ہر طرف کو جانے لگے
میں نے شہریار کا شعر پڑھ دیا:
ایک منزل تمام بھی نہ ہوئی
اور نئے راستے نکلنے لگے

مسکراتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ شہریار نے محبوب خزاں کا شعر دیکھا ہوگا ۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ محبوب خزاں نے شہریار کا شعر دیکھا ہو،اب کاشف حسین غائر کے اشعار ملاحظہ کیجیے:

غائر میں کئی روز سے خاموش ہوں ایسا
گویا نظر آتے ہیں پتھر مرے آگے
کچھ دنوں دل میں کیا رہا وہ غزال
ساری وحشت یہیں پہ چھوڑ گیا

اس محبت کا ہو انجام بخیر
جس کا آغاز جدائی سے ہوا
ہم نے پہنا ہی نہیں غم کا لباس
ہوگیا میلا یہ رکھا رکھا
اک صدا زنجیر سے آتی ہے گاہے گاہے
خود گرفتار ہے زنجیر بنانے والا
ایک نادیدہ سی زنجیر لیے پھرتی ہے
اپنی مرضی سے یہ انسان کہاں جاتا ہے
یہ دیکھتی ہی نہیں بولنے بھی لگتی ہے
اسی لیے تو میں تصویر کم بناتا ہوں
زندگی نے کسی عجلت میں لکھا افسانہ
کون انصاف کرے گا مرے کردار کے ساتھ
مرے ہنر سے بہت کینوس پریشاں ہوں
میں جو بھی آنکھ بناتا ہوں نم بناتا ہوں
آج کل خواب کے بارے میں ہے تشویش مجھے
آنکھ کھلتے ہی یہ مہمان کہاں جاتے ہیں
گذشتگاں ہیں ہمارا شمار ہونے میں
اب اور وقت ہے کتنا غبار ہونے میں
یہ قید خانہ بھی اک شب میں کتنا پھیل گیا
اب اور دیر لگے گی فرار ہونے میں
ہے ایک عمر کا حاصل ہماری بے کاری
گنو ائیں کیوں اسے مصروف کار ہونے میں
بستی میں اک چراغ کے جانے سے رات بھر
کیا کیا خلل پڑا ہے ستاروں کے کام میں
کاشف حسین دشت میں جتنے بھی دن رہا
بیٹھا نہیں غبار مرے احترام میں
کاشف حسین خوب ہی ہوتے ہیں اہل عشق
اس پار بھی کھڑے ہوں تو اس پار جانئیے
رات بھر جاگتا ہوں رہتا ہوں میں غائر جیسے
میرے ہی ذمہ ستاروں کی نگہبانی ہے
رات احباب ڈر گئے میر ے
میں نہ پہنچا تو گھر گئے میرے
میں تو اپنی طرف گیا غائر
کس طرف ہم سفر گئے میرے

یہ اشعار میرے حافظے کا حصہ بنتے جارہے ہیں، جس آہستگی اور جذبے کے ساتھ شمیم صاحب نے شعر سنائے، اس کے بارے میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں ادب کا اعلی ذوق اور ادب سے محظوظ ہونا بہت بڑی دولت ہے۔ کاشف حسین غائر کے اشعار شمیم حنفی صاحب نے کاغذ پر درج کر رکھے تھے، اس میں صد فی صد ان کی پسندیدگی کا دخل تھا۔ میں نے ان تمام شعروں کو نقل کرنے کے بعد ان کے سامنے پڑھ کر سنایا، اور پھر گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا ۔ شاعری کی طاقت یہ ہے کہ شاعر کے غیاب میں اس کی شاعری پر گفتگو ہو۔ شمیم حنفی صاحب نے لکھنے کے کے ساتھ ساتھ گفتگو کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اصل میں ادبی کلچر بنیادی طور پر گفتگو کا ہی پروردہ ہوتا ہے۔ غائر بلکہ کسی بھی اچھے مصنف یا قلم کار پر گفتگو کرنا ان کے لیے جلسے اور سمینار منعقد کرنے سے زیادہ اہم ہے ۔کاشف حسین غائر کے شعر سنتے ہوئے مجھے اظہار کی سطح پر بہت جدت کا احساس نہیں ہوا۔ جدت نہ ہوتی تو شعر اتنے تازہ کار کیوں معلوم ہوتے ۔ غائر کے یہاں ویسی جدت نہیں نہیں ہے جو تخلیقی اپج سے زیادہ خارجی اپج کاحاصل معلوم ہوتی ہے۔

غائر کے اشعار بتاتے ہیں شاعر کلاسیکی شاعری کا گہرا شعور رکھتا ہے اور اسے پتہ ہے کہ جدت کی کون سی ایسی سطح ہے جس سے شاعر ی کو رسمی ، روایتی ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ ایک معنی میں احمد مشتاق کی غزل گوئی بھی اسی ہنر مندی کا پتہ دیتی ہے۔ بظاہر یہ شاعری روایتی معلوم ہوگی مگر اس میں کوئی ایسی بات ضرور ہے جو اسے کلی طور پر روایتی ہونے سے بچالیتی ہے۔میں نے کاشف حسین غائر کا زیادہ کلام دیکھا نہیں ان کے تعلق سے میری کوئی واقفیت نہیں ہے۔بس یہی چند اشعار میرے لیے ان کا تعارف ہیں۔ سوچتا ہوں کہ انہیں جاننے کے لیے اتنے اشعار کیا کم ہیں،کیا ان اشعار کی بنیاد پر غائر سے شناسائی کا دعوی کیا جاسکتا۔ دعوی یوں بھی ادب میں زیادہ دنوں تک ساتھ نہیں دیتا۔کاشف حسین کے اس شعر کو پڑھنے کے بعدمیں آشنائی کا دعوی کیا معنی رکھتا ہے:

اس محبت کا ہو انجام بخیر
جس کا آغاز جدائی سے ہوا

یہ ایک دعا بھی ہے اور تلخ حقیقت کا ادراک بھی۔ فراق نے لمحۂ وصل میں جس طرح جدائی کی کیفیت کو دیکھا اور محسوس کیا وہ فراق کی غزل کا بڑا امتیاز ہے۔ غائر کے اس شعر کو پڑھتے ہوئے فراق کی یاد آنا فطری ہے۔لیکن فراق سے غائر کی کیفیاتی دنیا آگے جاتی ہے۔فارسی اورد اردو شاعری میں اس مضمون نے بڑی تخلیقی قوت فراہم کی ہے۔ انسان فطری طور پر ایک دوسرے سے گریزاں ہے۔دوام تو فراق کو حاصل ہے وصل کو نہیں۔ کاشف حسین نے دعائیہ انداز میں المیہ صورت کو پیش کیا ہے۔اگر ملاقات کا آغاز جدائی سے ہوا تو گویا یہ ایک طرح سے ابتداہی نہیں بلکہ انجام بھی ہے ۔محبت کاآغاز میں جدا ہوجانا اسی گریز کا پتہ دیتا ہے۔ ایسے میں محبت کا انجام بخیر ہی ہوگا۔ مگر کاشف حسین ایک ذرا سی ابتدائی ملاقات کو بہت اہمیت دی ہے۔ یہ ایک لمحہ بھی اتنا اہم ہے کہ اس کے بہتر انجام کی دعا دی جاسکتی ہے۔جدائی کا مطلب الگ ہوجانا ہے بھلانا نہیں۔کچھ عجب نہیں کہ کل کوئی اور شعر مل جائے جو غائر کے شعر سے فائق ہو، مگر آج اور ابھی تو غائر کا ہی شعر ہے۔ غالب نے کہا تھا:

ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی

میں یہاں غائر کے ان اشعار کا بطور خاص ذکر کروں گا جن میں زنجیر دشت اور غبار جیسے الفاظ آئے ہیں۔ غائر کے یہاں خیال کی ترسیل کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے ترسیل کا المیہ سے جوڑ کر دیکھا جائے۔ مگر یہ شاعری سادہ ہونے کے باوجود ذہن کو یک رخہ نہیں بناتی۔ غائر نے ایک خاص ہنر مندی کے ساتھ خاموشی کو راہ دی ہے، ان کے یہاں خاموشی کامطلب ایک معنی اور اس سے وابستہ کیفیات ہیں۔غائر نے معنی آفرینی یا معنوی طرفوں کی طرف توجہ کے بجائے اپنی شاعری پر توجہ صرف کی ہے، زیادہ کی ہوس شاعر کو اکثر اوقات خراب کرتی ہے، آپ کو غائر کے یہاں منیر نیازی کے جنگل کی وحشت نہیں ملے گی۔

کچھ دنوں دل میں کیا رہا وہ غزال
ساری وحشت یہیں پہ چھوڑ گیا

غزال سے نئے شاعروں کو دلچسپی ہے مگر انہیں معلوم نہیں کہ اسے غزل میں کس قدر باندھا جائے۔ غائر کے مصرعے اتنے مربوط ہیں کہ اسلوب کی سطح پر رخنہ تلاش کرنا کار عبث ہے۔غائر کا غزال اپنی خصوصیات میں نرالا نہیں مگر چند دنوں کے قیام نے تمام عمر بھٹکنے کا سامان فراہم کردیا۔ وحشت کو غزال کے ساتھ ہی جانا چاہیے تھا اگر ایسا ہوتا تو اتنا خوبصورت شعر وجود میں نہ آتا:

کاشف حسین دشت میں جتنے بھی دن رہا
بیٹھا نہیں غبار مرے احترام میں

ایسا شعر کہنے کے لیے غبار کے تخلیقی سفر سے واقف ہونا ضروری ہے۔ غبار فطری طور پر بیٹھ جاتا ہے۔ دیوانے کی صحرا نوردی غبار کو بیٹھنے نہیں دیتی۔ غبار کو یوں بھی اٹھنا تھا مگر کاشف حسین نے غبار کو کتنی عزت بخش دی ہے اس لیے کہ دیوانے کی صحراا نوردی بھی قابل تعظیم ہے۔اب غائر کی زنجیر کو دیکھتے ہیں۔

اک صدا زنجیر سے آتی ہے گاہے گاہے
خود گرفتار ہے زنجیر بنانے والا

جو صدا زنجیر سے مسلسل آتی ہے وہ غائر کی زنجیر کی صدا سے مختلف ہے، وقفے وقفے سے صدائے زنجیر بہت کچھ کہتی ہے، اس وقفے کو محسوس کرنا ہی تخلیقیت ہے، اسی صدا سے زنجیر بنانے والی کی گرفتاری کا سراغ مل سکا۔ آزادی کے بعد جن زنجیروں کو شہرت ملی وہ کچھ اس طرح ہیں۔

تم آرہے ہو کہ بجتی ہیں میری زنجیریں
نہ جانے کیا مرے دیوار و بام کہتے ہیں
(فیض)

میں بکھر جاؤں گا زنجیر کی کڑیوں کی طرح
اور اس دشت میں رہ جائے گی جھنکار مری
ظفر اقبال

ایک دیوانہ بنا فصل بہاراں میں اگر
سیکڑوں بن گئے زنجیر بنانے والے
(کلیم عاجز)

کاشف حسین غائر نے زنجیر کو جبر کے طور پر بھی دیکھا ہے۔

ایک نادیدہ سی زنجیر لیے پھرتی ہے
اپنی مرضی سے یہ انسان کہاں جاتا ہے

شمیم حنفی صاحب نے جب غائر کی زنجیر پر زور دیا تو مجھے شاد عظیم آبادی کا ایک مصرعہ یاد آیا
مرے قدموں سے چھٹ کر چپ رہی زنجیر مدت تک
شمیم حنفی صاحب واہ کرنے کے بعد سوچنے لگے اور فرمایا کہ اس میں ایک دوسرا عالم ہے کیا بات شاد نے کہہ دی۔ اس کے بعد یگانہ کی زنجیر یاد آئی ۔

ہاں وسعت زنجیر تک آزاد ہوں میں بھی
دنیا مری مجموعہِ اضداد رہے گی

کاشف حسین غائر کے ان شعروں کی قرأت نے ایک زنجیر سی بنادی ہے، سچی بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ فکری سطح پر زنجیر کے ساتھ میں نے اتنی لمبی مسافت طے کی ۔ لیکن

مسافت طے کہاں ہوئی۔
اس محبت کا ہو انجام بخیر
جس کا آغاز جدائی سے ہوا