داستانِ سیرِ بلتستان (چوتھی قسط)

داستانِ سیرِ بلتستان (چوتھی قسط)
از، علی اکبر ناطق
دیو سائی
دلاور عباس آدھی رات تک دیو سائی کے سفر کا  انتظام کرتا رہا ،اس انتظام میں نہ تو اُس نے جنوں سے مدد چاہی نہ دوستوں سے مگر دوسرے دن ضرورت کا ہر سامان میسر تھا ۔ رات بسر کر نے کے لیے خیمے ، سلیپنگ بیگ، بسترے، کھانے پینے کے برتن، گیس سلنڈر اور گیس کا چولہا ،چُھری کانٹے ، سردی سے بچاو کی جیکٹیں ،مچھلی پکڑنے کے کانٹے (جو وہاں کسی کام نہیں آئے کیونکہ وہاں مچھلی تو ایک طرف ،اُس کی بُو تک نہیں تھی یا کہیں تھی بھی تو ہر سیاح کے ہاتھ میں مچھلی کا کانٹا دیکھ کر فرار ہو چکی تھی )، یہ سب کچھ دلاور نے لینڈ کروزر میں رکھ دیا ،جو اُس نے اپنے بھائی سے بمع ڈرائیورعاریتاً حاصل کر لی تھی ۔ یہ سب کچھ تو رات جمع تھا لیکن صبح گوشت چاول اور گھی دودھ لیتے لیتے اور دوستوں کو اکٹھا کرتے کرتے،جو سکردو کی سائے دار گلیوں گلیوں میں بکھرے ہوئے تھے ، پھر بھی گیارہ بج گئے ۔اور اللہ اللہ کر کے ساڑھے گیارہ بجےسکردو سے نکلے ، نکلے سے کیا معنی سکردو سے اُوپر چڑھنا شروع کیا ۔ اگر دیوسائی کی طرف نکلنا ہو تو چڑھائی پہلے قدم پر ہی شروع ہوجاتی ہے،پھر چڑھتے جاو، چڑھتے جاو اور نیچے مُڑ کر مت دیکھوورنہ پتھر کے ہو جاو گے یا گِر جاو گے اور فنا سے نہیں بچ پاو گے ۔  ہم نے مُڑ کر نہیں دیکھا کہ نیچے ہمارے ساتھ ساتھ ندی بہتی ہے یا سفید ہرنی کے دودھ کی نہر ۔ ہم چھ نفر اور ایک ڈرائیور ،کل ملا کے سات مانس ،چار پانچ مرغیاں ۔ فقط اتنے سے گناہوں کو اٹھا کر چلنے میں ہی گاڑی کا دم پھول گیا ۔ ذری ذری میں ہونکنے لگتی ۔ اور چڑھائی تھی کہ برابر ہونے کا نام ہی نہ لیتی ، کوئی دس میل کے فاصلے تک ہم دو ہزار فٹ اُوپر اُٹھ گئے تھےاور گاڑی کا انجن غصے سے آگ بگولا ہو چکا تھا  ۔ اس راستے پر سب سے پہلے صد پارہ جھیل آتی ہے ،جو اب ایک چھوٹے سے سمندر کے برابر ہو چکی ہے اور گہرائی کا تو سوچ کر ہی پسینہ اُتر آتا اور اُس کا پانی بعد میں اِسی گہرائی میں شامل ہو جاتا ہے۔  جھیل کے سبزی مائل نیلے پانی کو دیکھتے جا یئے اور چلتے جایئے ،چلتے جایئے اور دیکھتے جایئے ۔جہاں سے جھیل ختم ہوگی وہاں ایک چھوٹا سا گاوں آئے گا ،اِسے لوئر صد پارہ کہتے ہیں ، وہی ہرے ہرے پانیوں کی پھیریاں اور درختوں کی سبزیاں۔ ہمارے دامنِ دل میں کُھب کُھب کے رہ گئیں ۔ ڈرائیور صاحب بہت باتونی اور لطیفہ گو تھے مگر ہماری مصیبت کہ سوائے  مادری زبان کے ، دوسری کو منہ نہ لگایا ۔چنانچہ بلتی کے لطیفے ہماری سمجھ سے اتنے ہی باہر تھے جتنے  ہم خود اُن کی سمجھ سے، لیکن اپنی خجالت مٹانے کو ہنستے ضرور جاتے تھے اور کبھی کسی لطیفے کا مطلب بھی پوچھ لیتے تاکہ اُنھیں اندازہ ہو کہ باقی سمجھ گئے تھے، یہ نہیں سمجھ سکے ۔ جونہی اپر صدپارہ گاوں پہنچے ایک پولیس چوکی نے روک لیا اور سب کو چھوڑ کر ہماری شناخت چاہی ۔سچ پوچھیں تو اُس وقت ہمارا دل بہت ٹوٹا ۔اب اُنھیں کیا کہتے ، ہمیں گوگل کر کے دیکھ لو،(جو وہاں اگلی صدی میں بھی نہیں پہنچے گی)کہ کتنے مشہور رائیٹر ہیں ،ادیب ہیں ، شاعر ہیں اور پتا نہیں کیا کیا ہیں ۔ خیر ہم چُپ رہے اور اپنا شناختی کارڈ نکال کر اُنھیں دکھایا اور آگے کا راہ پایا ۔اس حادثے کے بعد کچھ دیر کے لیے  ہم تو بجھ سے گئے اور ہمارے ساتھی لونڈۓ بدستور چہکتے گئے لیکن پھر ہم بھی یہ سوچ کر مکرر لطفِ سفر اُٹھانے لگے کہ دو نالائق کنسٹبلوں کی وجہ سے کیوں اپنا سفر غارت کریں ،دنیا میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جو ہمیں واقعی جانتے ہیں ۔خیر ہم اُوپر ہی اُوپر چڑھتے جا رہے تھےاور برفوں والے پانی کا نالاہماری اُلٹی سمت نیچے ہی نیچے بہا جا رہا تھا ،برف کے تودوں کے بیچ سے ، کنکروں کے بیچ سے ، بڑے پتھروں کے بیچ سے، پھلدار درختوں  اور پھولدار جھاڑیوں کے بیچ سے ۔ ہم اُلٹی طرف جا رہے تھے اور وہ سیدھی طرف ،یا ہم سیدھی طرف جا رہے تھے اور وہ اُلٹی طرف ، یہ ایک ایسا معما ہے جسے فی الحال ہم نہیں سُلجھا سکتے کیونکہ ہم دیوسائی جا رہے ہیں ۔ بس یہ تھا کہ سردی بدستور بڑھتی جا رہی تھی ۔ ہر دس میل پر دُگنی ہو رہی تھی ۔ مگر واہ رہے بکریاں اور یاک اور گائے چرانے والے ، نہ تو اُنھیں کھائیوں سے ڈر لگتا تھا اور نہ سردی سے پالا۔ یہ اور اِن کی بکریاں اور گائیں اور یاک  اونچے نیچے ، ٹیڑھے میڑھے،اُلٹے سیدھے اور خوفناک راستوں پر ایسے چل رہے تھے جیسے گھر کے آنگن میں گولٹا چھپاکی کھیل رہے ہوں ۔ حیرانی تو مجھے اُس وقت دو چند ہو جاتی جب متوازی چٹانوں پر یہ جانور برابر چڑھتے دیکھتا ۔  ہر چرواہے کی کمر کے پیچھے بستر اور چولہا بندھا تھا ۔ غالباً جہاں رات پڑتی ہوگی ،بستر کھولا اور لیٹ رہے ۔ کھانے کو اِن کے پاس اِدھر اُدھر سے توڑی ہوئی سبزیاں اور خوبانیاں اور اُنھی بکریوں کا دودھ ہوتا جنھیں لیے لیے پھرتے تھے ۔ رستے میں ہمیں کئی گلیشیئر بھی ملے ،جنھوں نے ندی کو ڈھکا ہوا تھا ۔ کہیں کہیں چڑھائی اتنی ہو جاتی کہ نیچے اُتر کر دھکا لگانے کی ضرورت پڑ جاتی ۔ تب معلوم ہوتا کہ مشین پر آدمی کا زور حاوی ہے ۔ لیجیے حضت ، برابر تین گھنٹے کی مارا ماری اور جگر کاوی کے بعد ہم دیو سائی کے منہ برابر آ ہی گئےاور کھڑے ہوتے ہی سردی سے ہمارے دانت بجنے لگے ۔ خدا قسم ایک دفعہ تو  بھول ہی گیا کہ مہینہ جولائی کا ہے ،ہم جنوری کا موسم خیال کرنے لگے ۔ یہاں ساڑھے سولہ ہزار فٹ کی بلندی تھی ،سبز گھاس اور رنگا رنگ پھولوں کے ٹیلے تھے جن کے بیچ ہزاروں یاک اور لمبے بالوں والی بکریاں چَرپھِر رہی تھیں ،دور تک سر سبز ٹیلے ہی ٹیلے تھے جن پر جگہ جگہ برف کے چھوٹے بڑے گلیشیئر ہمیں چاندی دکھا رہےداستانِ سیرِ بلتستان (چوتھی قسط) تھے ،یا ہمارا منہ چڑا رہے تھے ،کہ آو اور ہمیں پکڑ کر دیکھو ۔ بھئی اتنی بلندی پر آ کے  زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا کہ ہم بھی بلند قامت آدمی ہیں ۔مگر آسمان کی کمینگی کچھ نہ پوچھیے ،پہلے کی طرح مزید بلند ہو چکا تھا یعنی ایسا لگتا تھا کہ اُس نے اپنا فاصلہ نہیں گھٹایا ۔خیر کسی دن پکڑ ہی لیں گے ۔ کہاں تک بھاگے گا ۔  ہم سب دوست ،مثل تیمور ،دلاور عباس ، ذی جاہ ، علی ، وقار اور علی اکبر ناطق گاڑی سے نیچے اُتر آئے ۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی اور ٹھنڈ کافی بڑھ چکی تھی ۔ ہم تو اِسی کے لیے تیار ہو کر گھر سے نکلے تھے ۔ فوراً جولائی میں گرم جیکٹیں اور چادریں نکال کر پہن لیں اور اوڑھ لیں اور دیو سائی کی گھاس اور اودے اُودے ،نیلے پیلے، لال سنہری اور سُرمئی پھولوں میں لیٹنیاں لینے لگے۔ ہمارے پیچھے اور بھی لوگ آ رہے تھے ،ہمارے آگے اور بھی لوگ جا رہے تھے اور وہ سب بھی وہی کچھ خرمستاں کر رہے تھے جو ہم میں تھیں ، عورتیں کیاِ بالیاں کیا ، بالکے کیا ،بڑے کیا ، سب پتا نہیں کہاں کہاں سے اکٹھے ہو لیے تھے اور یہاں ناچتے جھومر گاتے پھرتے تھے ۔ بوڑھے نہیں دیکھے گئے ۔ غالباً سانس لینے  کا مسئلہ تھا جو کہ اب ہمیں بھی مشکل سے ہی آ رہا تھا ،یعنی تھوڑا سا چلنے پر چڑھ جاتا تھا ،نہ جانے ہم ساتوں کو لے کر گاڑی کیسے چڑھ آ ئی تھی ۔ یعنی چڑھائی بہت تھی اور آکسیجن کم کم۔ تھوڑی دیر ہم یہاں لیٹے لُوٹے، پھر گاڑی پر بیٹھے اور آگے چلے ،یعنی بڑا پانی کے پاس جہاں ٹھنڈی ندی چلتی ہے اور رُکتی نہیں ہے سوائے اللہ میاں اور جاڑے کے حکم کےیہ سڑک کچی ہے ،اور یہاں مٹی ہے اور مٹی بھُربھری ہے ، جس پر اگر بارش ہو جائے (جو  اکثر ہوتی ہے بلکہ ہوتی ہی رہتی ہے) تو سمجھیے گاڑی واڑی کچھ نہیں چلے گی ۔ ہاں اونٹ ،گھوڑے اور گدھے کی اور بات ہے اور وہ یہاں انسانوں کی شکل میں جون سے لے کر نصف اگست تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ اُس کے بعد اُن کا داخلہ بھی ممکن نہیں ،کہ سردی ،پالا اور برف باری اِس وادی کو سفید کفن اوڑھا کر درود فاتحہ پڑھ کر اگلی جون تک سُلا دیتی ہے ۔ جہاں سے ہم یا ہماری گاڑی گزر رہی تھی ،اُس کے ارد گرد مٹی اور پتھروں کے اُونچے نیچے اور سرسبز ٹیلے حدِ نگاہ تک پھیلے تھے اور بہت زیادہ تھے۔ جن سروں اور پہلووں پر برف یا ٹھنڈی چاندی کی گٹھڑیاں باندھ کر رکھی ہوئی تھیں ۔ ساتھ ساتھ ایک نالا بہے جاتا تھا، جو اِن ٹیلوں پہ پڑی چاندی کا پانی زمرد کے تختوں میں سے گویا زبردستی گھسیٹ کر لیےجاتا تھا ۔ غالباً یہ بھی وہیں جا رہا تھا، جہاں ہم جا رہے تھے ،یعنی دیوسائی کے اُس مرکزی مقام پر جسے بڑا پانی کہتے ہیں ،جہاں ایک بڑی نہر بہتی ہے اور جسے اِسی طرح کر کئی دوسرے نالے بھی مختلف طرفوں کی پہاڑیوں سے پگھلی چاندی کا خراج وصول کر کے  پہنچاتے ہیں ۔ ہم آہستہ آہستہ یعنی ایک قدم آگے اور دو پیچھے کے کلیے سے چلتے ہوئے بڑا پانی کے پاس پہنچ ہی گئے ۔ اتنی تیزی سے اِس لیے سفر کیا کہ جہاں سے گزرتے تھے ،زمین اور سبزہ اور جنگلی پھول پاوں پکڑ لیتے تھے، ہم نے ایک جگہ دیکھی جو ٹیلے سے بہت نیچے تھی،وہاں نالا کہکشاں کی طرح موڑ کھاتا جاتا تھا ،سبزہ اور گھاس اور جنگلی پھول اتنے کہ اللہ اکبر،،، ہم نے کہا بھئ ذری گاڑی روکیے، ہم کچھ وقت فطرت سے ہم کلام ہو لیں ۔ڈرائور بولا ،بھئی آپ یہاں نہیں اُتر سکتے ،،یہ سب کچھ چمکتے نالے کے ساتھ جو آپ کو سبزہ اور پھول نظر آتے ہیں ،دراصل اِن کے اندربہت گہری دلدل ہےجہاں ایک بار آپ پھنسے تو اِسی فطرت کا حصہ بن جائیں گے اور اگلی جولائی تک اِنھی گھاس اور پھولوں کی صورت اُگ آو گے اور لوگ اِسی طرح آپ کی زیارت کو آئیں گے ۔ ڈرائیور کی  یہ نامراد خبرسُن ہم رُک گئے اور بجھ سے گئے ۔ کچھ آگے گئے تو پھر وہی منظر ، اُس نے ہمارے ارادے بھانپ کر وہی جملے کچھ مثالوں کے ساتھ  پھر دہرائے اور کہا،پچھلے موسم میں ایک انگریز اپنی میم کو بڑی کرب ناک اذیت میں اسی دلدل میں کھو کر چلا گیا تھا ،بچارا بہت روتا تھا ،کوئی من بھر ٹشو خرچ ہوئے ہوں گے ۔ ہم پھر اُترنے سے باز آئے ۔ تھوڑٰی دُور آگے گئے تو اُس سے بھی زیادہ پُرکشش منظرتھا اور حدِ نگاہ تک تھا اور ساتھ ایک چمکدار نالے کے کئی کئی چکر بھی تھے ۔اب کے ہم نے کہا، میاں اب تو چاہے دلدل میں ڈوب ہی جائیں اور لالہ و گُل میں نمایاں ہو ہی جائیں ،کچھ پرواہ نہیں  مگر یہ منظر تو پاس جا کر ضرور ہی دیکھیں گے۔ یہ کہہ کررینگتی ہوئی  گاڑی سے چھلانگ لگا ہی دی ۔ ہمیں دیکھ کر دلاور عباس بھی کود پڑا،پھر دھڑا دھڑ سب لڑکے بھی اُتر گئے ۔ ہم سب کلانچیں بھرتے اور چوکیاں مارتے ہوئے نالے اور سبزے اور پھولوں کے پاس جا پہنچے ،دیکھا تو وہاں دلدل کی دال (د) بھی نہیں تھی ۔ بس ذرا مٹی نرم تھی اور کچھ کچھ گیلی تھی جہاں آدمی ذات تو کیا، ہاتھی بھی نہیں دھنس سکتا تھا  ،جو گھاس میں اور پھولوں میں منہ چھپائے لیٹی تھی اور کمال ہیٹی تھی  ۔ اوہ، میرے خدایا ! ایسی زمین آج تک نہ دیکھی نہ بھالی ،اور یہاں آکے پالی ۔  اس جگہ ہم سب نے ہر طرح سے تصویریں بنائی ،لیٹ کے، بیٹھ کے ،کھڑے ہو کے اور اسٹائل بنا بنا کے، جو کہ اِن جگہوں پر جانے کا مقصد ہوتا ہے ۔ویسے بھی جب سے یہ نامراد سیلفی نکلی ہے ،سیر سپاٹا دُگنا ہو گیا ہے اور مزا گھٹ کے آدھا رہ گیا ہے، مگر ہم بھی ایک ہی کائیاں تھے ،ایک تصویر بنوا کر اِدھر اُدھر بھاگ لیتے تھے اور لڑکے بالکوں کو سیلفیاں بنانے کے واسطے چھوڑ دیتے تھے ۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا آخرِ کار پِتًا پانی کر کے بڑے پانی کے پاس پہنچ ہی گئے، جہاں ایک نہردودھ سے سِوا سفید ،ہیرے سے زیادہ شفاف اور کافور سے زیادہ ٹھنڈی بہتی ہے۔ اِس کے کنارے بھی سبزے سے بھرے ہوئے تھے اور یہاں خیمے بھی بہت لگے ہوئے تھے ۔ دو خیمے ایسے تھے ،جن میں ہو ٹل تھے ۔ اِس نہر پر دو پُل بھی تھے، ایک لوہے اور بجری سیمنٹ وغیرہ کا جو کہ ثابت تھا ، دوسرا لوہے کی تاروں کا ،جو ٹوٹا ہوا  تھا ، ہم تو( یعنی مَیں ) ٹوٹے ہوئے پُل سے گزر کر پار گئے اور لوگوں کو حیران کر گئے ۔ دلاور ہمارے فوٹو بناتا رہا اور ہم گزرتے رہے ۔ اِسی لیے تو گزرے تھے کہ فوٹو بن جائیں ۔ اِس نہر کی خصوصیت یہ ہے کہ اِس میں بندہ ڈوب کر نہیں مرتا ،ٹھٹھرتا ہےپھر سُکڑتا ہے اور اتنا سُکڑتا ہے کہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ اب عصر کا وقت ہو چکا تھا اور بھوک ایسی چمک کر لگی کہ حواس مختل ہونے لگے۔ خیمے کے ہوٹل والا(اینٹوں کا اور پتھر کا وہاں کچھ بھی بنانے کی اجازت نہیں ہے ویسے بھی یہ چیزیں وہاں ناممکن ہیں ) ایک روٹی کے تیس روپے مانگ رہا تھا ،جو ہمیں نا منظور تھی اور اُسے بھی نامنظور تھی کہ وہاں پچاس دے کر کھانے والے بھی موجود تھے ، چنانچہ اپنا ہی پکا کر کھانے کی اُمید تھی ۔ ہم نے فوراً سب خیموں سے دُور اورنہر کے دوسری طرف اپنے بھی دو خیمے نصب کر دیے۔ ہم سے مراد یہاں ہمارے دوست ہیں ورنہ ہمیں تو خیمے کی کیل تک ٹھونکنا نہیں آتی، نہ کبھی اِن بکھیڑوں میں اُلجھے ۔ لو جی اب لونڈے تو سب خیمے لگا کر  ہنڈیا روٹی کا قضیہ کرنے لگے اور ہم نہر کے کنارے کنارے سیر کو ہو لیے ۔ خراماں خراماں چلے جاتے تھےاور نہر میں کنکر مارتے جاتے تھے اور دیکھتے جاتے تھے کہ کہیں ٹراوٹ مچھلی کا ساتھ مل جائےتو اُس سے دل کا حال احوال کہہ لیں،اُسی وقت اچانک ایسی سرد ہوا چلی ،کہ کچھ نہ پوچھیے ، کانوں کے رستے ،ناک کے رستے اور پتا نہیں، کس کس رستے سے سینے میں پہنچی اور جگر کاٹنے لگی ۔ ہم بھاگے واپس اور جیسے ہی بھاگے،ہمارا پاوں رپٹا اور سیدھا نہر میں ،جس کا پانی ،پانی نہیں تھا، مائینس 170- درجے کا تیزاب تھا ،یوں لگا ،ٹانگوں کو چھیل رہا ہے ۔ اِس حادثہء جانکاہ میں ہماری پینٹ ،جرابیں، جوتے اور دیگر اعضائے نازک سمیت سب کچھ بھیگ گیا ۔ بھاگے ہوئے خیمے کی اُور آئے، جہاں ہمارے دوست آگ جلائے بیٹھے تھے ۔ ہم آکر آگ پر بیٹھ ہی تو گئے، جس میں آکسیجن اتنی ہی تھی جتنی ہسپتالوں میں مریضوں کے منہ پر چڑھانے والے سلنڈروں میں ہوتی ہے، گویا تھی ہی نہیں ۔ ہم نے اپنے پاوں آگ میں بھی ڈال دیے مگر کچھ نہ ہوااور پالا سر کو چڑھ گیا ۔ ہم نے دو تین چادریں اُوپر نیچے اوڑھیں اور آگ کے پاس  لیٹ رہے ، علی اور تیمور خیمے میں جا گھسے اور دلاور نمازِدوگانہ کے لیے کھڑا ہو گیا ۔ کچھ دیر لیٹے رہنے سے ہمیں کچھ ڈھارس ہوئی تو ہم بھی حاجتِ مسلمہ کے لیے نکل لیے اور جس طرف کو دلاور گیا تھا اُس کے پیچھے پیچھے گئے کہ کہیں ٹائلٹ وغیرہ نظر سے گزرے ۔ ایک بات کہوں، یہ علاقہ اُوپر نیچے کے کھلے میدانوں اور پہاڑی ٹیلوں پر مشتمل ایسا ہے، جہاں سال کے نو مہینے برف میں رہتے ہیں اور سکیٹنگ کرنے والوں کے لیے نہایت موزوں ہے اور سیاحوں کے لیے اِس میں بہت کشش ہے مگر گورنمنٹ کی اِس میں کچھ بھی توجہ نہیں ہے ۔
 ٹائلٹ تک اُس نے نہیں بنائے اور نہ آئیندہ  بنانے کی طرف دھیان ہے ۔ اگر کچھ پُل وُل اور سڑکیں وڑکیں پکی کچی بنائی ہیں تو وہ بھی یو ایس ایڈ کا کمال ہے ۔ یو ایس ایڈ یہاں جگہ جگہ نظر آتا ہے ، میڈیکل ہیلپ کے لیے ، جنگلی حیات کے لیے ، پُل ، چاہ اور تالاب بنانے کے لیے ،جھیلوں اور میدانوں کی صفائی کے لی پاکستانی گورنمنٹ یہاں ہرگز کام کی نہیں ہے بلکہ ہمارے سینگوں کی طرح غائب ہے اور بالکل نہیں ہے۔ خیر ہم جونہی دلاور عباس کی تلاش کو نکلے ،ایک انکشاف ہم پر اچانک ہوا وہ یہ کہ  مچھروں کی ایک  فوج ظفر موج نے ہم پر حملہ کر دیا ۔پہلے تو ہم اُسے ٹڈٰی دَل  سمجھے ۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے پاو پاو بھر کا مچھر افغانیوں کی طرح چڑھا آتا تھا ہو گا اور ساون کی طرح برستا تھا ، ہمارے کانوں ،سروں ،ناکوں اور پتا نہیں کن کن جگہوں سے جسم میں گھس رہا تھا ۔ ہم اِدھر اُدھر بھاگے اور ہا ہا کار مچائی مگر مچھر نے نہ سُنی ہماری دہائی اور برابر حملہ آور ہوا ۔ اُن کے اِس خروج سے پتا چلا کہ اصل میں دیوسائی اِنھی کی اسٹیٹ ہے اور نام اِس کا ریاست ہائے متحدہ ء مچھر ہے اور بہت لچر ہے ۔ اب خبر ہوئی کہ کوئی شریف آدمی یہاں دو دن بھی کیوں ڈھنگ سے نہیں رہ سکتا ؟ مچھروں کے تیرو تفنگ سے بچاو کا کوئی سامان موجود نہیں یعنی دفاعی قلعے کا وجود نہیں ۔ خیر ڈھونڈتے ڈھانڈتے ہم ایک ٹائلٹ میں گھس ہی گئے ،جو یو ایس ایڈ کے کافروں  نے بنوایا تھا اور نہایت صاف ستھرا اور سفید رنگ کا تھا ،اِس کے ماتھے پر ہمارے مومنین نے کالی سیاہی اور خطِ شکستہ میں بڑا سا امریکہ مردہ باد لکھ کر اُسے نظرِ بد سے بچا یا تھا ۔ ہم اُسی ٹائلٹ کے احسان مند ہوئے ۔دلاور نے نماز پڑھ لی تھی ، مَیں اور ذی جاہ کافور کی نہر کا پُل پار کر چکے تھے ۔اب صلاح یہ ٹھہری کہ کھانا کھانے کے بعد(جو ہمارے دوست تیار کر چکے تھے ) ہم جو پاس ہی ایک برف سے ڈھکا ہوا ٹیلا نظر آتا ہے،اُس تک ہو آئیں اور تصویریں بنا کر دیوسائی سے دورجولائی کی بھٹی میں بُھننے والوں کا جی جلائیں ۔کھانا کھایا ،جو اِس غریب الوطنی میں مزا دے گیا حالانکہ آگ میں آکسیجن کم ہونے کی وجہ سے آدھا کچا ہی تھا ۔
لو جی جب رَج پُج گئے تو ہم چاروں یعنی مَین دلاور عباس ، ذی جاہ اور تیمور چوری چوری نکلے نیلے پربت کی طرف ،یہ سوچ کر کہ بس دس منٹ میں وہیں ہوں گے اور برف میں لوٹنیاں لیں گےاور تصویریں بنائیں گے اور پھر ساتھیوں کو دکھا کر اِن کا جی جلائیں گے ، اور جب یہ کہیں گے ،ہمیں کیوں نہ لے گے وہاں تو یہ سُن سُن کے خوش ہوں گے اور بولیں گے ہمیں کیا پتا تھا ، آپ نے بھی جانا ہے  ۔ ہم گھاس کے بیچوں بیچ  ایک خوبصورت ندی کے کنارے کنارے چلنے لگے ،مچھروں نے ہماری بہت راہ روکی مگر ہم نہیں رُکے اور بڑھتے گئے اُس نیلے پربت کی اُور ۔ اب جُوں جُوں آگے جاتے تھے، برف کا ٹیلا اور آگے ہوا جاتا تھا حتیٰ کہ دو گھنٹے متواتر چل لیے مگر فاصلہ آغازِ قدم کے برابر ہی موجود تھا ، ضدی تھا ، مقابلہ باندھ کے بیٹھ گیا ۔ رات ہو گئی ، اور ہمارے حوصلے جو کہ پہاڑوں کا جگر چیرنے کے لیے نکلے تھے ، اور ہم سمجھتے تھے کہ اسلام آباد کے ٹریل 5 پر ٹریکنگ کرتے کرتے ہماری سانس پختہ ہوچکی ہے ،ہم اُس نیلے پر بت کی  برف کے آگے دم توڑ گئے، جو شاید ایک دن اور چلتے رہتے تو بھی فاصلہ وہیں کا وہیں رہتا ۔ لہذا اے ٹریل 5 پر ٹریکنگ کر کے توندیں کم کرنے والو! عبرت ہے تمھارے لیے کہ جب اصل پربت کا سامنا ہو گا تو تمھاری سانس دم میں پھول جائے گی اورایک ایک قدم بوجھل ہو جائے گا  ،چنانچہ نیلے پربت پر چڑھنے کی تیاری کرو ، جس پر آج نہیں تو کل ضرور تمھیں چڑھنا پڑے گا  اور یہ تیاری بید کی چھڑی پکڑے مارگلہ پر ٹریکنگ کرنے سے نہیں ،حلال کھانے کی پریکٹس  سے ہو گی ۔ خیر بر سرِ مطلب ، مچھروں کے طوفانی حملے اِس پر مستزاد تھے ،دو گھنٹے ہم نے ہاتھ پاوں برابر چلائے ، پاوں فاصلہ نمٹانے کے لیے اور ہاتھ منہ سر مچھروں سے بچانے کے لیے ۔ لیکن آخر ہار گئے ۔ اب ہم واپس ہو لیے یہ کہہ کر، کہ کل پھر آئیں گے اور تیری چوٹی کو چت کریں اور فاصلے سے نہیں ڈریں گے ۔ واپس آئے اور بہت دیر کے بعد آئے اور جب آئے تو  ہمارا خیمہ اُس جگہ نہیں تھا، جہاں چھوڑ گئے تھے ۔ اُسے ایک طرف سے اُٹھا کر دوسری کسی جگہ، مگر نہر کے کنارے  نصب کیا جا چکا تھا اور ہر دو جگہ کا فاصلہ آپس میں ایک میل  کا  تھا۔ لہذا ہم ایک میل اور چلے ۔ لیکن اُس سے پہلے بڑا پانی کے نہری پُل پر موجود خیمہ زدہ ہوٹل سے 60 روپے والا آدھا کپ چائے پیا ۔ آدھا اس لیے کہ باقی آدھے کپ میں دس بارہ مچھر گر گئے تھے ۔ خیمے میں واپس آ کر سر سے مچھر نکالنے کی طرف متوجہ ہوئے اور صرف آدھے مچھر ہی نکال سکے یعنی ایک کلو کے قریب  باقی آدھے دوسرے دن گھر آ کر نکالے ۔ ایک بات اِن مچھروں میں البتہ وضع داری کی ضرور ہے کہ یہ کاٹتے تو ضرور ہیں مگر بیمار نہیں کرتے ۔یہی سوچ کر ہم نے اِنھیں دعا دی کہ سدا بڑھو ،پھلو اور پھولو اور دیو سائی کو آباد رکھو کہ تھمارے سوا یہاں کسی کو نمو نہیں ۔ رات کافی ہو گئی تھی ، کھانا مکررپک چکا تھا ۔ غالباً بریانی تھی جوپھر کچی رہ گئی تھی۔ ہم نے نہیں کھائی باقی دوستوں نے خوب اُڑائی۔ شاید ہماری بھوک کہیں بھاگ چکی تھی ۔ نہر کنارے بیٹھے بہت دیر آگ تاپتے رہے ۔ ٹھنڈ بہت بڑھ گئی تھی ، آسمان اِتنا ٹھنڈا ، صاف اور تاروں بھرا تھا کہ مَیں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا ، اپنے اندر جذب کیے د ے رہا تھا ۔ ساتھ ہی نہر کے شفاف پانی کا شور تھا جس میں علی ایک گھنٹا مچھلی پکڑنے کا کانٹا ڈالے بیٹھا رہا اور ٹراوٹ ٹراوٹ کا ورد کرتا رہا ۔ مچھلی تو نہ آئی مگر علی کا بھرم رکھنے کے لیے خالی کانٹا وآپس کرنے کی بجائے اُسے نہر کے  پتھر اپنے ساتھ  بہا کر لے گئے ۔ اِس کے بعد  پُر سکونی کا زور تھا ۔ یہ رات ایک خواب کا عالم تھی، جو ہم نے گزاری ۔ آدھی رات کے وقت جب دیوسائی میں سردی ، سردی میں شبنم، شبنم میں تارے ، تاروں میں آسمان ،آسمان میں چاند ، چاند میں روشنی اور روشنی میں زمین نہا گئی تو ہم خیموں میں گھس گئے ۔  مَیں ،دلاور عباس اور ذی جاہ ایک خیمے میں تھے ، دوسرے میں علی ، تیمور ، اور وزیر علی تھے ، ڈرائیور کاڑی میں تھا ۔ہم نے اپنے اپنے سلیپنگ بیگ اوڑھے ، اُوپر نیچے رضائیاں لیں اور سو گئے مگر ساری رات ٹھنڈک ہماری ٹانگوں کو سردماتی  رہی ۔ جیسے جیسے سردی بڑھتی گئی ، ہم سُکڑتے گئے اور آذانِ سحر کے وقت ( جو وہاں کسی نے نہیں دی ،بھالو سے اُمید تھی کہ دے گا مگر وہ تو ابھی تک غائب تھا ) ہم ایک خرگوش کے برابر رہ گئے یعنی ٹانگیں اکٹھی ہوتے ہوتے گردن میں پیوست ہو گئیں ۔ اللہ اللہ کر کے صبح ہوئی ، خیمہ شبنم سے ایسے بھیگ چکا تھا جیسے نہر سے غوطہ دے کر نکالا ہو ۔ اب ارادہ یہ تھا کہ اگلا پڑاو سوسر جھیل پر ہو گا جہاں ٹراوٹ مچھلیاں اتنی ہیں جتنے یہاں مچھر ہیں ۔ خیمے وغیرہ اُکھاڑ لیے اور گاڑی پر لاد لیے کہ آگے جا کر ناشتہ ٹراوٹ کے تِکوں سے ہی کریں گے، مگر گاڑی تھی کہ سٹارٹ ہونے کا نام نہ لے رہی تھی ، دھکا لگا لگا کر ہم خود گرم ہو گئے لیکن وہ رات کی سردی میں ایسی ٹھنڈی ہوئی گویا فوت ہی ہو چکی ہو۔ آخر ڈرائیور نے اُس کے نیچے گیس کا چولہا جلا دیا ۔ کوئی پاو گھنٹا چولہا جلنے کے بعد وہ سٹارٹ ہوئی اور پھر بند نہ ہوئی ۔ ایک گھنٹا چلنے کے بعد (جس میں ہمارا شام والا برف کا ٹیلا ہمارے ساتھ ساتھ چلا تھااور ابھی بھی دس منٹ پیدل مسافت پر ہمارے  سامنے تھا ) ایک اور نہر کنارے جا رُکے۔ یہاں ایک اور خیمہ ہوٹل تھا مگر ہم نے اُس نیسلے ملک پیک سے چائے بنائی، جس کے پیکٹ جاتے ہوئے ساتھ لے گئے تھے ۔ ہم نے تو صرف چائے ہی پی لیکن ہمارئے ساتھیوں نے وہاں سے پراٹھے پکوا کر چائے کے ساتھ کھائے اور چلے جھیل کی طرف دوبارہ ۔ اب چلتے جاتے تھے اور دیکھتے جاتے تھے رستے میں جگہ جگہ ایک ایسا جانور جو قامت میں خرگوش کے برابر تھا مگر خرگوش نہیں تھا ، گردن چوہے جیسی تھی مگر چوہا نہیں تھا ، منہ اُس کا ریچھ جیسا تھا مگر ریچھ کی دُم بھی نہیں تھا ،رنگ اُس کا زردی مائل سُرخ تھا مگر سُرخاب ہرگز نہیں تھا ۔اب آپ ہی اندازہ کیجیے، وہ کیا تھا ،ہماری تو سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ مچھروں کےعلاوہ دیوسائی میں ہم نے ایک یہی جانور دیکھا ۔ اِس کے علاوہ وہاں ، نہ کوئی پرندہ تھا ، نہ کیڑا مکوڑا تھااور نہ دیگر حشرات الارض تھے ، اللہ جانے یہ کیا جادو تھا ۔
آخر ہم جھیل پر پہنچ ہی گئے اور اُس کی خوبصورتی دیکھ کر جی ہی جی میں دیوسائی کو داد دینے لگے، جھیل  کے ارد گرد برف سے ڈھکے ہوئے چھوٹے چھوٹے سینکڑوں ٹیلے تھے اور درمیان میں صبوحی کی مانند یہ نیلے اور ہرے پانیوں کی ٹھنڈی جھیل تھی۔ دو مربع کلومیٹرمیں ہو گی۔ جھیل کے کناروں کے ساتھ ساتھ ہری ہری اور پھولوں والی چمکتی ہوئی گھاس کے قطعے زمردی قالینوں کی طرح بچھے تھے، جن کے بے داغ سینے پر ہم نے اپنا بار اُتارا اور پہلو کے پربت پر بیٹھ کر برف کھانا شروع کر دی اور اُس پر ناچنا کودنا بھی ۔ البتہ جھیل میں یہاں بھی مچھلی کا نام نشان نہیں دیکھا  ۔ کہیں پانی کی تہہ میں چھپی ہو تو خبر نہیں اور تہہ کا اللہ کو معلوم تھا ۔ سو ہم اُن مچھلیوں سے در گزرے اور اپنا ہی جو دال ساگ پانی لے گئے تھے ،وہی کچا پکا  کھایا اور شکر صبر کر کے سیر کو نکلے ۔ کچا پکا اِس لیے کہ یہاں آکسیجن اُدھار مانگنے پر ذری ذری ملتی ہے اور کوئی شے چج سے نہیں پکتی اور آدھی کچی ہی رہتی ہے ۔ چاول ،جو حبس سے بھی پک جاتے ہیں، وہ بھی آدھے کچے رہ گئے ، ہم نے بعد میں بھی بہت پانی ڈال ڈال کے پکانے کی کوشش کی مگر کچھ زیاں سود نہ ہوا ۔ پانی بھی آکسیجن کے بغیر تھا ۔ منہ دھوتے تھے مگر میل کو اپنے سے دُور نہ پاتے تھے ۔ پانی ہاتھوں سے یوں پھسلتا تھا جیسے مچھلی پھسلتی ہے ۔ ہم ایک پربت سے دوسرے پربت پر جا رہے تھے اور اللہ کے جلوے دیکھتے جاتے تھے اور سوچتے جاتے تھے، اتنا بلندی پر تو چڑھ آئے ہیں ۔اللہ میاں یہیں کہیں کسی ٹیلے پر بیٹھا ہو گا مگر ملاقات کی ہمیں خواہسش نہ تھی ، دُور سے ہی صاحب سلامت اچھی رہتی ہے ۔ سانس ہر قدم پر دُگنی چڑھ رہی تھی ۔ آخر ایک جگہ بلند ٹیلے پر چڑھ کر مَیں ، دلاور عباس اور وزیر علی  رُک گئے اور بیٹھ کر قدرت کے حسیں نظاروں کو داد دینے لگے ۔ یعنی ہم دنیا سے بہت اونچے بیٹھے تھے ۔ اللہ میاں کے قریب قریب ،باقی بڑۓ بڑے پھنے خاں ہمارے نیچے تھے ۔ تیمور ، علی اور ذی جاہ  بھالو دیکھنے کے لیے آگے نکل گئے اور کچھ دیر بعد نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔ کافی دیر کے بعد ، جہاں ہم بیٹھے تھے ،وہاں سے مَیں نے لُڑکھانے کو ایک پتھر اُٹھایا تو نیچے سے چار پانچ بڑے بڑے بچھو مُردہ پڑے تھے ۔ مَیں ڈر کے مارے وہاں سے اُٹھا اور دلاور عباس کے پاس آ بیٹھا ، اُسی لمحے وزیر علی نے ایک بڑا سا سانپ وہاں دیکھ لیا ۔ اُس کے بعد ہم وہاں نہیں بیٹھے اور واپس جھیل پر آگئے اور کھانا پکانے اور کیمپ لگانے کی جگہ ڈھونڈنے لگے ۔ جو جگہ پسند آتی تھی وہاں پانی کی بہتی ہوئی نالی نہ ہوتی تھی اور جس جگہ پانی ہوتا تھا وہاں مچھر کا بول بالا ہوتا ۔ آخر ہم جھیل کے کنارے ایک جگہ خم ٹھونک کر بیٹھ ہی گئے ۔  اِتنے میں ہمارے دوست ،جو تین گھنٹے پہلے ہم سے جا ہوئے تھے یعنی ذی جاہ ، علی اور تیمور دُور سے  آتے دکھائی دیے ۔ جھیل کے کنارے کنارے چلے آتے تھے ۔پاس آئے تو سب بھیگے ہوئے تھے ۔ پاس آئے تو سردی سے ثٹھٹھرے ایسے تھے کہ دانت بج رہے تھے ۔ ہم سمجھے ، جھیل کے دوسرے کنارے ٹراوٹ سے چُہلیں کرتے رہے ہیں،اور ٹراوٹ بازیاب کرنے کے لیے اُن کی شرٹیں پینٹیں ٹٹولنے لگے ،جو اُنھوں نے اُتار کر ہاتھوں میں تھام رکھی تھیں اور محض نیکروں سے گزارا کیا تھا  ۔ ہماری تلاشی پر کچھ نہ نکلا ، سب پتلےاور خالی پانی سے نُچڑ رہی تھیں ۔   پتا چلا تینوں کے پاوں رپٹے ہیں  اور جھیل میں پھسلے ہیں اور پانی میں جا نکلے  ہیں ۔
خیر ہم نے اُن سب کو آگ تپائی ، نئے کپڑے دیے اور گاڑی میں بٹھایا ۔ دلاور عباس کا ارادہ تو آج رات بھی یہاں پڑاو رکھنے کا تھا مگر ہمارا حوصلہ جواب دے چکا تھا ۔ ہم نے کہا، میاں سیر ہو چکی ، دیوسائی دیکھ چکے، مچھروں سے مزاکرات  کر لیے گئے ، ایک بھالو دیکھنا باقی تھا ،وہ ہمارے دوست دل کی آنکھوں سے دیکھ آئے اور ہم خود قریب قریب بن چکے ہیں ،پھر کس  چیز کی کمی رہ گئی ۔ چلو بوریا باندھو اور ہولے ہولے شہر سدھارو ۔ ہمارے اِس مشورے پر پانی میں گرے ہوئے دوستوں نے سب سے پہلے صاد کیا ۔ دلاور اپنی جگہ اَڑا رہا اگرچہ مچھر نے اُس کے ساتھ بھی کوئی مروتانہ برتاو نہ کیا تھا ۔ آخر ریزولیشن پاس ہوئی،جس کے نتیجے میں الیکشن ہوا ، دلاور کے دو ووٹ اور ہماے پانچ نکلے ، یوں ہم اُسی وقت دیوسائی سے نکلے ۔ نکلے کہاں، نکلنا شروع کیا اور فیصلہ یہ ٹھہرا کہ جھیل وھیل یہیں چھوڑو ،کہیں دلاور مکرر نہ پِسر جائے اور دوبارہ ریزو لیشنوں اور الیکشنوں میں وقت برباد ہوتے ہوتے رات گزارنا پڑے ۔ لہذا اِس جگہ کو ابھی چھوڑو اور کھانا وانا دیوسائی ٹاپ پر جا کر پکائیں کھائیں گے ۔  کھانا کھا کر وہیں سے سکردو سدھاریں ۔ لیجیے جناب ہم سب لینڈ کروزر پر بیٹھے  جو کچے اور کیچڑ بھرے راستوں پ ر واپس لُڑھکتی بَل کھاتی چلی جاتی تھی اور ہمیں دھوکا نہ دیتی تھی ۔ لوگ باگ موٹرسائکلوں پر گاڑیوں پر کچھ آ رہے تھے ،کچھ جا رہے تھے ۔ ہمیں ایک ٹولی دس پندرہ لونڈوں کی ایسی ملی جو اپنی اپنی 125 ہنڈا موٹر سائکلوں چڑھے اور بسترے باندھے سیر واسطے پھر رہے تھے ، ہمیں اپنے اپنے لگے ،پوچھا کہاں سے ہو اور یہ پربت پربت  نگری نگری کیوں پھرتے ہو ؟ بولے، ہم فیصل آباد سے آئے ہیں اور یہاں تک پہنچنے میں ہمیں پندرہ دن لگے ہیں ۔اِسی طرح سیر بھرتے واپس جائیں گے اور اگلے برس پھر آئیں گے ،ہمارا ہر سال کا یہ معمول ہے اور بہت ہی باقاعدہ ہے ۔ ایک جگہ ہم رُکے جہاں رنگ رنگ کے پھول کانٹے بہت تھے ،سب نے اُن پھولوں والی جڑی بُوٹیوں کو جڑوں سے اُکھاڑا کہ گھر جا کر لگائیں گے اور دیوسائی کا لطف وہیں سے اُٹھائیں گے ۔ آخر ہم اُس جگہ پہنچ ہی گئے، جہاں سے ہم  دیوسائی میں داخل ہوئے تھے۔اِسے ٹاپ کہتے ہیں ۔ اِس سے نیچے بس اُترائی ہے اور بہت گہرائی ہے ۔ یہاں پتھروں اور لکڑی گارے سے بنا ہوا ایک ہوٹل بھی ہے ، وہاں سے میں نے چائے پی ، باقیوں نے نہیں پی کہ کھانا کھائیں گے اور بعد میں چائے اُڑائیں گے ۔ اِس جگہ کا منظر بھی بہت دل کو لبھانے والا ہے ۔اتنی گائے، یاک اور بکریاں تھیں کہ گنتا جاتا تھامگر وہ ختم نہیں ہوتی تھیں ۔میں ایک ہزار پندہ تک گن گیا پھر یہ سوچ کر رُک گیا کہ کس کام لگ گیا ہوں اور بیٹھ کرآگ تاپنے لگا، آگ یہاں بھی کافی ٹھنڈی تھی مگر وہ سوسر جھیل والی بات نہ تھی ۔ اس جگہ  یہیں سے ایک ٹھنڈے اور صاف پانی کا نالا نکلتا ہے،جو ہوتے ہوتے پہلے صدپارا جھیل میں جاتا ہے پھر ہرگسا نہر میں بدل کر سکردو کے بیچوں بیچ سے جا کر دریائے سندھ میں پڑتا ہے ۔ شام چھ بجے سب نے یہاں کی ایک چھوٹی سی مسجد میں بیٹھ کے کھانا کھایا ، چائے پی ، کچھ دیر منہ سکھایا ، برتن دھوئے ،اُن کو لادا، خود لدے اور چل سو چل نیچے ۔رات آٹھ بجے سکردو واپس مُڑے ،کمرے میں آ کر غسل خانے میں گیا اور اب جو نہانے کے لیے سر پر پانی ڈالا تو مچھروں کا پورا جہان سر سے نکلا ، اللہ قسم اُن سے چار پیالے سوپ نکل سکتا تھا۔ہائے ضائع گئے ۔