کیا “تمام پاکستانیوں” کو عزت اور امان سے مرنے کا حق ہے؟

 

پاکستان دنیا کے کئی ممالک سے بہ لحاظ آبادی اور رقبہ بڑا ملک ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایک زاویے اور معیار و پیمائش کاری (metrics) ہیں جن کے تحت اس کے حوالہ جات (coordinates) متعین کئے جاتے ہیں، اور کئے جا سکتے ہیں۔ ہم ایک مربوط دنیا سے مربوط ملک و قوم ہیں۔ اس کے علاوہ علم سیاسیات و قانون جب کسی ریاست کی تعریف پیش کرتے ہیں تو اس میں آبادی، رقبہ، خودمختاری اور اپنی حکومت کی موجودگی وغیرہ (علاوہ دیگراں) جیسے کوائف کو بنیاد گذار کا درجہ مہیا کرتے ہیں۔

پاکستان “معرض وجود” میں آیا، یا بصورت دیگر پاکستان “موجود تھا”، یا ان کے بیچ کی کوئی اور فکریات ہوں۔ (ہم ثنویتوں اور مجموعہ اضداد سے باہر بھی حقیقت کے تصور پر یقین رکھ سکتے ہیں)۔

پاکستانی کیسے بنا جا سکتا ہے؟ پاکستانی کون ہوتا ہے؟ “پاکستانیت” کا تصور کون تشکیل کرتا ہے؟ کون پاکستانیت کے تصور کے تشکیل کرنے کے “دائرہ عالی مقام” سے “باہر کا ہے”؟ مسلمان، یا عدم مسلمان/ غیر مسلم/کافر/ یا مردود قرارداد مقاصد، یا رد شدہ آئین سنہ 73 ( جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے!) ؛ یا اکثریت و اقلیت، “ذمے دار” یا “ذمی” کے ثنویتوں کی تعمیر و تشکیل، یا تھوپنی اور رسیدگی پر، کس کا اجارہ ہے، یا کون دھکے خوار ہے؟ یہ بڑے سوال ہیں۔ اہل علم و اہل ہنر اور اہل جبہ و اہل پتلون اور نیکٹائی سوچیں، ہم پر لاد کر خود بھی سوار ہو جائیں، یا ہم پر لاد کر اطلاق کی بارودی و لسانی چھمک کسی اور کو پٹے پر مہیا کردیں، وہ الگ بحثیں تھیں، ہیں اور رہیں گی۔ ان پر ہمارا اور ہمارے ایسوں کا رد عمل زندہ رہا ہے، اور زندہ رہنے کی آس بھی ہے، ہر چند کہ اس جنوں ہاتھ و سر قلم ہوتے آتے رہے ہیں۔

بہت جی میں تھا (اور اے کاش کہ ایسے کر بھی سکتے کہ) بات کو سیدھے سبھاو پیش خدمت کرتے۔ لیکن ہاتھ ہر چند کہ قلم ہیں، پر لہو دار انداز میں قلم ہو جانے کا خطرہ بہرحال زبان پر کافی حد تک پہرے بھی بٹھائے رکھتا ہے۔ عرض کرتے ہیں کہ پچھلے کچھ روز میں چند اچھی خبریں سننے کو ملیں۔ ان میں سے ایک تو اس دھرتئ پاکستان کے فرزند، معروف طبیعاتی سائنسدان جناب ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر قائد اعظم یونیورسٹی کے طبیعاتی تحقیق کے متعلق ایک ذیلی ادارے کو معنون کیا گیا ہے۔ اتنی ستارہ مانند شخصیت کے ساتھ قابل اعتراض رویہ رکھا گیا۔ یہاں تک کہ متوفی ہو جانے کے بعد بھی قبر پر لکھی مقدس عبارتوں کو کھرچنے کی مشق “عشق و زہد کاری” بھی کی گئی۔ اسے کہہ سکتے ہیں کہ مر کہ بھی چین نا پایا! (وجہ کیا تھی؟ قرارداد مقاصد کے تقاضوں کا بہشتی دروازہ اور دستور 73 کی تعریف ایمانی و کفر! کئی اور پہلو بھی ہیں جن پر بہت بات ہوئی، ہو بھی رہی ہے، ہوتی بھی رہنا چاہئے، لیکن ہم کہیں گے اس دھرتی کے جس فرزند ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنے دیس کے نام کو اقوام عالم میں اپنی حیثیت میں تابندگی دی، اس کے حق کا کچھ فرض تو آخر کار نبھایا گیا؛ ہر چند کہ اس خفیف سے لطف و کرم سے بھی یار لوگ بہت خفا خفا سے معلوم ہوتے ہیں۔ جینے کے وقتوں میں تو مقدور بھر توقیر میسر نا ہوئی، لیکن مر جانے کے بعد تو اکرام نصیب ہوا۔ ہم کہیں گے، جمہوریت زندہ باد!

دوسری بات روزنامہ ایکسپریس میں چند دن قبل شائع ہونے والی خبر ہے۔ یہ خبر ہندو برادری کی بابت ہے۔ یہاں بھی موت پر عزت افزائی کا معاملہ ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ شہر اقتدار میں لگ بھگ 3000 کے قریب ہندو مکتبئہ فکر کے انسان بستے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ زندگی موت کی امانت ہے۔ اسلام آباد میں زندگی کو جیسے تیسے بھگت کر راہ عدم پر عازم سفر ہونے والے ہندو مکتبئہ فکر کے پاکستانیوں کو مرنے میں آسانی میسر نا تھی۔ ہندوانہ رسم و رواج کے مطابق جسد خاکی کو سپرد خدا کرنے کے سلسلے میں شمشان گھاٹ، یعنی ایسی جگہ جہاں وہ اپنے گزرے افراد کو سپرد آتش کر سکیں، میسر نا تھی۔ 14 دسمبر سنہ 2014 میں ڈان اخبار میں چھپی تحریر میں پاکستان ہندو-سکھ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر جناب جگ موہن کمار اروڑا نے ایک ایسی آہ بھری تھی کہ نالئہ آہو اور غزل کا سا تعلق نبھا اور جڑا تھا، جگ موہن کمار اروڑا نے کہا تھا:

اور بھلے کچھ نا دیجئے، پر ہمیں مرنے تو عزت و آرام سے دیجئے، حضور!

وہ نالہ و فریاد آج زمین پر عرش لگائے ہوؤں تک جا پہنچا ہے۔ وفاقی حکومت نے ہندو برادری کے لئے جدید سہولتوں سے آراستہ شمشان گھاٹ کے لئے جگہ اور مناسب رقم کی منظوری دے دی ہے۔ اس شمشان گھاٹ کے بن جانے سے امید ہے کہ ہندو برادری کے اسلام آباد کے باسیوں کو باوقار طریقے سے اپنوں کے جسموں کو خدا کو سونپنے میں ٹیکسلا، چکوال، نوشہرہ اور دیگر دور دراز کے علاقوں کے سفر کی کوفت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ سندھ اسمبلی کا بھی حال ہی میں اہم اقدام مذہب کی بزور تبدیلی کے حوالے سے قانون سازی کرنے کا ہے۔ مکرر کہیں گے، جمہوریت زندہ باد۔ ساتھ ہی میں البتہ یہ عرض کریں گے کہ جب موت کو گلے کا ہار کر لینے کے بعد کچھ بھرم رکھنے کی رسم نکل ہی پڑی ہے تو کیوں نا ان مردود ہائے حرم کی زندگیوں کو بھی کسی قدر جینے کے قابل بنانے کی بھی کوشش کر دیکھی جائے۔

وما علینا الا لبلاغ