فرد، معاشرتی شعور اور پاکستانی معاشرہ: سماجی نفسیاتی تجزیہ

شہریار خان
فرد، معاشرتی شعور اور پاکستانی معاشرہ
از، شہریار خان
فرائیڈ کے خیال میں انسانی تاریخ کے ابتدائی دور میں انسان انفرادی طور پر رہتے تھے اور معاشرے کا تصور ناپید تھا ۔ لیکن جلد ہی انسانوں نے محسوس کیا کہ فطرت کی قوتوں ( قدرتی آفات ، ماحولیاتی عناصر، بیماریاں، موت کا معمہ ) کا ایک فرد اکیلے مقابلہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی انفرادی طرزِ زندگی اس کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے سامنے لاسکتا ہے۔ قدرتی عناصر کو اپنے تابع کرنے اور قدرتی آفات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے اسے دوسرے انسانوں کی مدد کی ضرورت تھی ۔ اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانوں نے شروع میں چھوٹے گروہ تشکیل دیے جو بعد میں ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے مکمل معاشرہ کی شکل اختیار کرگئے۔
لیکن معاشرہ کے وجود میں آتے ہی جو سب سے بڑا مسئلہ سامنے آیا وہ افراد کا(anti-social) یعنی تمدن بیزارانہ رویہ تھا ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر معاشرہ ضروری ہے اور اپنے ارکان کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھتا ہے تو اس کے ارکان اس کے خلاف سرگرمیوں میں کیوں ملوث ہوتے ہیں ؟ اس سوال کے جواب کے لیے فرائیڈ نے فرد کی نفسیات کا تجزیہ کیا۔
فرائیڈ کے خیال میں انسان فطرتاً خود غرض اور متشدد واقع ہوا ہے۔ وہ صرف اپنی جبلی تسکین چاہتا ہے اور اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ اس کی خواہشات کسی دوسرے کو نقصان بھی پہنچاسکتی ہیں۔ ایک معاشرہ صرف اس وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب اس کے ارکان دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنا سیکھیں۔ انہیں دوسروں کو object of desire سمجھنے کی بجائے اپنے جیسا انسان سمجھنا چاہئے اور اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے ان کے جذبات و محسوسات کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے۔

دوسرے لفظوں میں ایک فرد کو معاشرے کا حصہ بننے کے لیے اپنی جبلی خواہشات سے دستبردار ہونا ضروری ہے ۔ اگر ایک فرد اپنی جبلت کی تسکین کے لیے کسی دوسرے کی جائیداد یا مویشی وغیرہ پر قبضہ کرلیتا ہے تو کوئی اور طاقتور شخص اس کے ساتھ بھی ایسا کرے گا اور یہ سلسلہ معاشرے کو میدان جنگ میں تبدیل کردے گا۔ چنانچہ جنگل کے قانون سے بچنے کے لیے معاشرہ کچھ قوانین کا تعین کرتا ہے اور افراد کو پابند کرتا ہے کہ وہ ان حدود کے اندر رہ کر زندگی گزاریں اور اگر وہ ان حدود سے تجاوز کریں گے تو انہیں سزا دی جائے گی۔ یہ قوانین فرد کی جبلی تسکین کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ وہ وجہ ہے کہ فرد اور معاشرے کا آپس میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے ۔ یہ ٹکراؤ معاشرے کے وجود کے لیے خطرے کا باعث بنتا ہے، کیونکہ اس کے ارکان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔ معاشرہ اس ٹکراؤ کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کرتا ہے؟

فرائیڈ کہتا ہے کہ اس ٹکراؤ کو معاشرہ دو طرح سے روکنے کی کوشش کرتا ہے ۔ بیرونی دباؤ suppression اور دوسرا ‘internalization’ یعنی کسی نظریہ کو شعور کا حصہ بنا دینا۔ بیرونی دباؤ معاشرے کے قوانین ، روایات اور اُصول و ضوابط ہیں اور اگر کوئی شخص ان پر عمل نہ کرے تو معاشرہ قانونی اداروں کے ذریعے اسے سزا دیتا ہے۔ دوسرے انسانوں کی رائے یعنی public opinion بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جیسا کہ بہت سارے لوگ دوسرے لوگوں کے ڈر کی وجہ سے بھی غلط کاموں سے اجتناب برتتے ہیں۔ جبکہ internalization وہ عمل ہے جس میں اخلاقی اصول و ضوابط کو ایک فرد کے ذہن کا اس طرح سے حصہ بنادیا جاتا ہے کہ بیرونی دباؤ کی غیر موجودگی میں بھی وہ کوئی غلط کام کرنے سے باز رہتا ہے۔
 internalization کئی طریقوں سے کی جاسکتی ہے لیکن اس کے دو بڑے طریقے مذہب اور تعلیم ہیں۔ تعلیمی ادارے بچوں کے ذہن میں اچھائی اور برائی کا تصور پیدا کرتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ معاشرے میں ایک اچھا انسان کیسے بنا جاسکتا ہے جبکہ مذہب ، یہی کام ’گناہ و ثواب ‘کے تصور کے ذریعے کرتا ہے ۔ یعنی لوگوں کو بتاتا ہے کہ اگر وہ غلط کام کریں گے تو اگلی دنیا میں انہیں سزا دی جائے گی اور اگر اچھا کام کریں گے تو جنت کا انعام پائیں گے۔ فرائیڈ کہتا ہے کہ اگر یہ بیرونی دباؤ اور internalization نہ ہو تو ایک فرد ابتدائی دور کے انسانوں کی طرح جنگل کی زندگی کی طرف لوٹ جائے گا۔ فرائیڈ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ زیادہ تر لوگ معاشرتی پابندیوں پر صرف قانون کے خوف کی وجہ سے عمل کرتے ہیں۔
اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرتی اساس اخلاقیات پر کھڑی ہے۔ اخلاقیات ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ ہم اپنی ذاتی خواہشات کو اجتماعی بھلائی پر قربان کریں۔ کوئی بھی معاشرہ ایک مہذب معاشرہ نہیں کہلا سکتا اگر اس کے افراد اس قربانی کی اہمیت کو نہ سمجھتے ہوں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس کا شدید فقدان پایا جاتا ہے ۔ ہمارا معاشرتی شعور مسلسل تنزلی کا شکار ہے اور اب ہر شعبے میں یہ تنزلی دیکھی جاسکتی ہے۔
ہم روز بروز شدت پسند ، خود غرض اور متشدد ہوتے جارہے ہیں۔ دیانت داری اور برداشت کا مادہ تقریباً ناپید ہے۔ ہم صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن اس بات سے لاعلم ہیں کہ معاشرے کے بغیر ایک فرد کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ جرم اتنا عام ہوچکا ہے کہ اب اسے جرم سمجھنا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ فرائیڈ کا معاشرتی نظریہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ معاشرے کے بیرونی دباؤ اور internalization ہمار ے ہاں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ قانون کو طاقتور افراد خصوصاً اور عام افراد عموماً اپنے مفادات کے لیے توڑ موڑ لیتے ہیں ۔ قانونی ادارے اسی نظریے پر قائم کیے جاتے ہیں کہ وہ کسی فرد کو اتنا مضبوط نہیں ہونے دیں گے کہ وہ معاشرے کے لیے خطرہ بن جائے لیکن ہمارے قانونی ادارے اپنے ہی نظریے کی نفی کررہے ہیں۔
فرد، معاشرتی شعور اور پاکستانی معاشرہ
دوسری طرف internalization بھی اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ تعلیم اخلاقیات سے دور ہوتی جارہی ہے اور ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ ہونا باشعور ہونا نہیں ہے۔ افراد تعلیم کو صرف نوکری حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور علم کی بجائے ڈگری کو فوقیت دیتے ہیں۔ تعلیم بس چند ہنر سیکھنے کا نام رہ گیا ہے اور یہ افراد کو یہ نہیں بتاتی کہ معاشرتی عمارت کو مثبت قدروں پر کیسے استوار کیا جائے۔ یہ افراد جب عملی زندگی میں آکر مختلف شعبوں میں اپنی خدمات سر انجام دیتے ہیں تو انہیں اس بات کا بالکل شعور نہیں ہوتا کہ ان کے اعمال کا معاشرے پر کیا اثر پڑرہا ہے ۔
جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو ہمارے معاشرے میں وہ صرف ’رسوم پرستی ‘ ritualism تک محدود ہے اور اس کا اخلاقی عنصر کہیں نظر نہیں آتا۔ بجائے اس کے کہ مذہب ہماری معاشرتی اساس کو مضبوط بناتا اُلٹا اسے معاشرے کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ ہمارے ہاں مذہبی رسوم کی ادائیگی ہی مذہبی ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے اور اس بات پر کوئی توجہ نہیں دیتا کہ ہم معاشرتی ڈھانچوں کو کیسے بگاڑ رہے ہیں ۔ بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم مذہب میں بھی انفرادی نجات چاہتے ہیں اور ایک ایسے individual spiritualism کے متلاشی ہیں جو معاشرے سے کٹ چکا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم ایک لمحہ کو سوچیں کہ ہمارا معاشرہ کس طرف کو جا رہا ہے ۔ جب ہم صرف اپنی جبلی تسکین کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ فرد معاشرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم علیحدہ کھڑے ہوکر معاشرتی ڈھانچے کی اینٹ اینٹ کو گرتے ہوئے دیکھتے رہیں اور یہ سمجھیں کہ میں تو محفوظ رہوں گا؟ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کیسے اپنے آپ کو ایک معاشرتی اکائی میں ڈھال سکتے ہیں اور اپنے انفرادی مفادات کو پس پشت ڈال کر اجتماعی بھلائی کے لیے کام کرسکتے ہیں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو دوسری صورت کا تصور ہی ہولناک ہے۔