دو لاکھ والی کتاب

شاہد نواب

’حضرت علی کی تقریریں ‘ ۔ جناب رضا علی عابدی کی ترتیب دی ہوئی کتاب سے ایک ٹکڑا۔

’’یہاں میں امتیاز علی خان عرشی مرحوم کا وہ واقعہ نقل کروں گا جو ان کے بیٹے اکبر علی خان عرشی زادہ مرحوم نے مجھے سنایا تھا۔ کہتے تھے کہ ایک بار جمہوریہ ہند کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین رام پور کی رضا لائبریری کے معائنے کے لیے آئے ۔ عرشی صاحب نے انہیں کتب خانہ دکھایا اور اپنے تحقیقی کاموں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ نہج البلاغہ میں شامل خطبوں کی اسناد ڈھونڈتے ڈھونڈتے پرانی کتابوں میں حضرت عمرؓ کے اتنے خطبے ان کی نظر سے گزرے ہیں کہ انہیں ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو نہج البلاغہ سے زیادہ ضخیم کتاب بن جائے ۔ اس پر ذاکر حسین صاحب نے کہا کہ مولانا ، برائے کرم یہ کام کر دیجئے۔ نہج البلاغہ پر یہ آپ کا بڑا احسان ہوگا ‘‘۔

بیگم نے ڈانٹے ہوئے کہا ، رات کمرے کی لائٹ کھلی کیوں رہ گئی ۔ شوہر بولے ، میں مشتاق احمد یوسفی کی آب گم پڑھ رہا تھا ۔ بیگم بولیں، ویسے تو رات میں اکثر بجلی جاتی رہتی ہے تم یوسفی کی کوئی کتاب پڑھ رہے ہوتے ہو تو نہیں جاتی ۔ کبھی بجلی چلی جائے ، میں دیکھتی ہوں پھر تم آب گم کیسے پڑھو گے۔ میاں نے کہا ، پھر میں ’چراغ تلے ‘پڑھوں گا۔

کتاب پڑھنے والے تبرکات میں سے ہیں اور جو خرید کر پڑھتے ہیں ان کی زیارت کرتے رہنا چاہیے ۔ نوجوانوں کی پسندیدہ تو اب فیس بک ہے ۔ بچے کورس کی کتابیں ہی پڑھ لیں والدین کے لیے یہ غنیمت ہے۔

میڈیکل کالج میں پڑھنے والی لڑکی گھر واپس آئی تو ہاتھ میں حضرت جوش مرحوم کی ’یادوں کی برات ‘تھی ۔ باپ نے غصے سے بیٹی کی طرف دیکھا اور کہا ۔ یہ بارات واپس جائے گی ۔ کیوں ابو، والد صاحب نے کہا ۔ تمہیں پتا ہے اس میں کیا لکھا ہے؟ احتراماً جواب دیتے ہوئے بیٹی نے کہا، ہاں میں یہ پہلے بھی پڑھ چکی ہوں۔ یہ سن کر باپ نے سر پکڑلیا اور کہا، یہ تم کیا پڑھتی رہتی ہو۔ بیٹی نے کہا ابو ، ڈاکٹر بننے کے لیے میں جو پڑھ رہی ہوں اگر آپ کو معلوم ہوجائے تو میری پڑھائی چھڑوا دیں ۔
صفحہ نمبر(۲)
ہمارے اکثر سیاست دان اور بیوروکریٹس کی کتاب سے دوری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر پھر بھی ان کی دو کتابیں مشہورہیں ۔ گڈ بک ، بیڈ بک۔ ویسے یہ دو کتابیں تو سب ہی رکھتے ہیں اور ان میں تبدیلیاں اور تبادلے ہوتے رہتے ہیں ۔

زندگی کے کسی بھی شعبے میں کتا ب کافی نہیں ۔ کسی نے کرکٹ قوانین ، اصول و ضوابط سے بھری کتاب بار بار پڑھی ۔ پھر امپائرنگ کا امتحان دیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ انہیں ایک بڑے میچ میں بھیجا گیا۔ اپیل ہوئی، انہوں نے ایل بی ڈبلیو آؤٹ دے دیا۔ بیٹس مین نے کلمہ پڑھتے ہوئے کہا، گیند تو میرے پیڈ پر لگی ہی نہیں ۔ وکٹوں کے پیچھے کھڑے ہونے والے نے بھی کہا ہاں گیند تو اس کے پیڈ پر نہیں لگی ۔ اکیلے میں انہوں نے وکٹ کیپر سے پوچھا گیند اگر بیٹس مین کے پیڈ پر نہیں لگی تو پھر کس کے پیڈ پر لگی ۔ وکٹ کیپر نے کہا سر گیند تو میرے پیڈ پر لگی آپ نے ایل بی ڈبلیو اس بیٹس مین کو آؤٹ دے دیا ۔ ( یہ آؤٹ کس نے دیا؟ اس کا نام اور تصویر کالم کے شروع میں دیکھ سکتے ہیں)۔

ایک یہودی نے ہندؤں کو چھیڑنے کے لیے ان کی مقدس کتاب کے اوپر دوسری کتابوں کا ڈھیر رکھ دیا ۔ ہندو آیا تو اس کو چڑانے کے لیے اس سے پوچھا ۔ ان کتابوں کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ ہندو نے جواب دیا، ان کتابوں کی فاؤنڈیشن بہت اچھی ہے۔

خطیب العصر ڈاکٹر ضمیر اختر نقوی وسیع مطالعے کا نام ہے۔ آپ کے ذاتی کتب خانے میں ہزاروں کتابیں ہیں، جہاں سے سینکڑوں فیض یاب ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ کتاب سے عشق کا یہ عالم ہے کہ ایک وقت میں روٹی آدھی کھاتے ہیں اور کتاب پوری پڑھتے ہیں ۔

پاکستان کرونیکل کئی سالوں کی محنت کے بعد عقیل عباس جعفری نے مرتب کی ۔ شاعر، ادیب مگر وجہ شہرت تحقیق ہے۔ اس میدان کا مستند اور معتبر نام ۔ اتوار کی صبح پرانی کتابوں کی اسٹال پر ایسے جاتے ہیں جیسے کوئی اپنی محبوبہ کے پاس جاتا ہو۔ صحیح تو ہے اچھی کتابوں کو محبوب جو رکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر صفدر محمود ان کے ہی حوالے دیتے ہیں ۔ کشور ناہید سے یہ شاباش لیتے ہیں۔

صفحہ نمبر(۳)
مستنصر حسین تارڈ ملک میں ہوں تو ان سے ملنے اور باتیں کرنے کا جی چاہتا ہے ۔ ملک سے باہر ہوں تو ان کے نئے سفر نامے کا انتظار رہتا ہے ۔

حضرت مسعود ادیب رضوی نے میر انیس کی سوانح لکھنی شروع کی مگر زندگی نے اجازت نہ دی ۔ ان کے صاحب زادے نیئر مسعود نے پچیس سال میں یہ شاہ کار کتاب مرتب کی جسے بار بار پڑھ کر پھر پڑھنے کا دل کرتا ہے ۔

تنگ روڈ پر دو انگریزوں کی گاڑیاں آمنے سامنے آگئیں ۔ دونوں ہی اپنی کار پیچھے کرنے پر تیا رنہیں تھے اور ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔ اتنے میں ایک گورے نے ایک موٹی سی کتاب پڑھنی شروع کی ۔ یہ دیکھ کر سامنے والا گور ااپنی گاڑی سے اترا اور اس کے پاس آکر کہا، جب آپ یہ کتاب پڑھ چکیں تو مجھے دے دیجئے گا ۔ میں بھی پڑھوں گا۔ یہ سن کر دونوں مسکرا دیے اور کتاب پڑھنے والے نے اپنی کار پیچھے کی۔

خیبر پختونخوا میں کتاب کی حکومت آئی ۔ جماعت اسلامی وزارت اعلیٰ حاصل کرنے میں ناکام مگر وزیر اعلیٰ کی داڑھی رکھوانے میں کامیاب رہی تھی ۔ وعدے کے مطابق کسی بھی وزیر نے مسجد وزیر خان میں حلف نہیں اٹھایا۔ میڈیا میں جماعت کی سرنگ ہے ۔ مولانا موددی ؒ عالم، سیاست دان اور صحافی تھے۔ آج کل چینلز اور سوشل میڈیا تہلکہ مچاتے ہیں ۔ مولوی شور مچاتے ہیں ۔ ایک زمانے میں یہ دونوں کام مولانا موددی ؒ کی کتاب ’خلافت اورملوکیت‘ کے آنے کے بعد ہوئے ۔

مولانا احمد رضا خان ؒ کے ترجمہ قران ’کنز الایمان ‘ اور مولانا امجدعلی ؒ کی کتاب ’بہار شریعت‘ کے نام سے شہر قائد میں مساجد ہیں یہ کتاب اور صاحب کتاب کو خراجِ عقیدت ہے ۔

عمر صدیقی نئی کتاب اور ہر ماہ کے ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ بڑے شوق سے پڑھتا ۔ گھر میں کتابوں کا ڈھیر ہوا تو اس نے ان پر جلد چڑھوا کر انہیں کرائے پر دینا شروع کر دیا ۔ آخری بار قدرت اللہ شہاب کی کتاب ’شہاب نامہ‘ پانچ روپے یومیہ پر ملتی تھی ۔اکا دکا اب بھی ایسی چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں۔
صفحہ نمبر(۴)
باؤلر کے ہاتھ سے نکلی ہوئی گیند ، غلط نمبر پر بھیجا گیا ایزی لوڈ، واپس آسکتا ہے مگر کسی کو دی گئی کتاب نہیں ۔ لڑکا موبائل فون کان سے لگائے کتاب کے ورق تیزی سے الٹ پلٹ کر رہا تھا ۔ ایسا لگا جیسے سوکھے ہوئے پھول ڈھونڈ رہا ہو یا چاہت کے قصے ۔ پتا چلا کل ہونے والا پیپر آؤٹ ہواہے۔

سہیل عباس کا نام ہاکی میں دنیا بھر میں جانا پہچانا جاتا ہے ۔ والدمرحوم کرکٹ کھیلتے تھے ۔ خاندان میں سب نے کرکٹ یا ہاکی کھیلی ۔ ماموں صفدر عباس اولمپئن تھے ۔ ان کے بچوں نے بھی ہاکی میں نام کمایا مگر چھوٹے صاحب زادے ارتضیٰ عباس کتابوں کے ہو گئے ۔ بہت کم عمری میں کتاب لکھ ڈالی ، سلسلہ جاری ہے ۔ خطیب، مصنف ، محقق ۔ مستقبل ایسے ہی خوب صورت نوجوانوں کا ہے ۔

ہمارے ہاں کتاب مفت تقسیم ہو رہی ہو تو لوگ ٹوٹ پڑتے ہیں لیکن پڑھتے نہیں ۔ ایک سوئم میں تعزیت کے لیے جو بھی آیا اسے گلدستہ پیش کیا گیا ۔ یہ سن کر حیرت ہوئی ۔ پڑھنے والوں کو بھی ہوئی ہوگی ۔ جی ہاں گلدستہ ۔ جیبی کتاب ۔ جس میں وظائف ، حمد و نعت، مناقب شامل تھیں ۔

اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان نے انفاق فاؤنڈیشن کے تعاون سے اردو میں نئی کتابوں کی اشاعت کو فروغ دینے اور حوصلہ افزائی کے لیے ہر سال اردو ادب میں شائع ہونے والی نثر یا نظم کی کسی ایک کتاب کو دو لاکھ روپے نقد انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ اردو زبان کے ادیبوں ، شاعروں اور نقادوں کے لیے یہ اچھی خبر ہے ۔ اس کی تقلید کی جانی چاہیے۔ امینہ سید اور آصف فرخی شاندار کتب کی اشاعت اور پر کشش ، رنگا رنگ ادبی میلوں کے کامیاب انعقاد کے بعد داد و تحسین سمیٹتے رہے ہیں ۔ دونوں کا کتاب کے ساتھ رشتہ پرانا ہے ۔

کتاب پر کالم لکھنے کی کوشش تو کی ہے اب سوچ رہا ہوں کہ جناب شکیل عادل زادہ ، ڈاکٹر ادیب رضوی ، ضیاء محی الدین میں سے کسی پر کتاب لکھوں مگر دوست کہتے ہیں کہ بحریہ فاؤنڈیشن کے ملک ریاض پر کتاب لکھو ۔ دو لاکھ روپے سے کیا ہوتا ہے۔