فنونِ لطیفہ اورہمارےشدت پسند رویے‎

   نعمان وہاب

گاؤتکیےلگےہوئےتھے۔ شمالی علاقہ جات کےخاص اناروں سےتیارکیاگیامشروب اورانواع واقسام کےپھل میزپرآویزاں تھے۔ حضرت نےسفیدرنگ کی خوبصورت پوشاک زیب تن کی ہوئی تھی اورہاتھ میں خوبصورت گھڑی مع داہنےہاتھ کی بیچ والی اُنگلی میں کچےفیروزےکی انگُوٹھی حضرت کی شخصیت کوہم جیسےلونڈوں لپاڑوں کی نظرمیں چارچاندلگارہی تھی۔ اوپرسےمولاناکاجوشِ خطابت بھی کچھ’ایمان افروز’حضرات کےدلوں میں طلاطم پیداکررہا تھا۔ مُحلّےکےبزرگوں نےتویہی بتایاتھاکہ حضرت بڑی پہنچی ہوئی شخصیت ہیں اوردین کےلیےان کی خدمات خاص ہیں۔ اتنےمیں ایک ناہنجاراورکج فہم سالونڈاکھڑاہوااورحضرت سےپوچھنےلگاکہ یہ’پرنٹنگ پریس ‘حلال ہےیاحرام ہے۔ علامہ صاحب نےحیرت کےساتھ جواب دیا”بالکل حلال ہے‘‘.

لیکن وہ کج فہم پھربولا”حضرت صاحب جب یہ ایجادہواتھاتوشیخ الااسلام صاحب نےحرام قراردیاتھا.‘‘

حضرت صاحب کےچہرےپرایک رنگ آکرگزرگیالیکن اطمینان سے جواب دیتےہوئے کہا کہ شیخ صاحب توکچھ جانتےہی نہیں تھےورنہ ایساتھوڑی کہتے۔لیکن وہ ناہنجاراپنی پٹاری سےایک اورسوال نکال لایااوربولامحترم یہ لاؤڈاسپیکرکوتو آپ کےہی بزرگوارنےحرام قراردیاتھا۔ مولاناکاچہرہ غصےسےسُرخ ھوالیکن موقع کی نزاکت کوسمجھتےھوئےجواب دیااگربزرگوارنےکچھ غلط کیاتوہمارااس سےکیاتعلق لیکن نوجوان توبڑھےہی چلاجارہاتھاڈرتےڈرتےبولاحضرت یہ ایدھی صاحب کیسےآدمی تھے؟سُناہےحرام کےنطفوں کو چوکوں چُراہوں اورکوڑےدانوں سےاٹھاکےپرورش کرتےتھے۔مولاناکےصبرکاپیمانہ لبریزہوگیااورغصےسےبولے کیا مطلب’حرام کےنطفوں کوپالنےوالاتوگُناہِ کبیرہ کامرتکب ہوا ہےاور اُس کوچندہ دینےوالےبھی۔آخرہم کس لیےہیں ۔ ہمیں دیتےتواسلام کی مزیدخدمت کرتے!

مسئلہ یہ ہےکہ ہمارےسماج کےاندرتنگ نظری اورخود کوعقلِ کل سمجھنےکازہراتناسرایت کرچکاہےکہ ھم نےمومن اورکافرکی تصدیق شُدہ اسنادکثیرتعدادمیں اپنی جیب میں رکھی ہوئی ہیں اوربوقتِ ضرورت ان کوجاری کرتےرہتےھیں اس تنگ نظری کی سب سےبڑی وجہ معاشرے کےاندرمکالمےکانہ ہوناہےاور ہمارےسماج کےاندرایک خاص منصوبہ بندی کےتحت فنونِ لطیفہ کےراستےمسدودکیےگۓہیں یاان کی اصلی حالتوں کےاندربگاڑپیداکیاگیاہے۔ فنوںِ لطیفہ کسی بھی سماج کےتہذیبی اورطبقاتی شعوراورنفسیاتی تنوع کی عکس گری کرتےہیں۔ادب کسی بھی معاشرےکےشعور، جمالیاتی ذوق اور جذبات کاآئینہ دارہوتاہے۔ شاعری سماج کےاندرماضی اورموجودکےحالات اوررومانویت کی علم بردارہوتی ہے۔ ذوقِ موسیقی متعین کرتاہےکہ کسی بھی سماج کےاندرزندگی کی کتنی رمق باقی ہے ہمارامسئلہ یہ ہے کہ آزادی کےبعدہم ایک ایساصحت بخش ماحول نھیں پیداکرسکےجس کےاندرفنون لطیفہ پھل پھول سکتے۔ معدودےچندنام ہمیں نظرآتےہیں. یہ وہ تھےجن کاشعورمتحدہ ہندوستان کی فضامیں پروان چڑھا۔

قراۃالعین حیدر،منٹو،فیض،فراز،جالب اور انتظارحسین کےبعدہماراادب بانجھ ہوگیا۔ ہماری شاعری رومانویت سےخالی ہوگی۔ لیفٹ کےلوگوں سےکچھ امیدتھی کہ وہ سماج کےاندرفنون لطیفہ کوزندہ رکھنےکی کوشش کریں گےوہ مارکسی جمالیات اورادب کومعروضی حالات کے مطابق ڈھال کےسماج کےاندرمثبت تبدیلی لےکےآئیں گے لیکن ان کی تبدیلی صرف سُرخ بوٹوں کی آمدکےساتھ یاپختونستان کےنعروں کےساتھ محدودتھی یہ جانےبغیرکہ سماجی تبدیلی کےبغیرسیاسی تبدیلی بالکل بےفائدہ ثابت ہوگی۔رہی سہی کسرجنرل ضیاء کےمارشل لاءنےنکال دی۔ سب سےپہلےاس مارشل لاءمیں فنون لطیفہ پرحملہ کیاگیا۔ سینماؤں کوبندکیاگیاتولوگوں نےتھیٹرہاؤسز بنا کےمجروں کاہوس بھراسامان بیچناشروع کردیا اورمجروں کودیکھنا، پیسےپھینکنااورمجرے والیوں کےساتھ بسترگرم کرناہماری جاگیرداری روایات کےمطابق عین خاندانی ہوناٹھہرا موسیقی والےمعتوب ٹھہرے تو مذہب کےتڑکے کےساتھ قوالیاں ثواب دارین کادرجہ حاصل کرگئیں کلاسیکل رقص غیراسلامی ٹھہرا تو ملنگوں کی دھمالیں تصوف کامعراج قرارپائی رومانویت اورجمالیاتی ذوق گناہ ٹھہرا توماردھاڑ اورگنڈاساکلچرسےبھرپورفلمیں عین شریعت کےاصولوں پرپورااترتی پائی گئی اورتابوت میں آخری کیل مسلک، ذات، برادری اور لسانیت سےبھرپورغیرجماعتی انتخابات نےٹھونک۔ اس کےساتھ ہی ادب،موسیقی،شاعری وغیرہ بھی مسلکی اورلسانی ہوگئی۔ فنونِ لطیفہ کہیں کھو گئےاور صرف لطیفےرہ گئے۔ اس سےتنگ نظری، عدم برداشت، ہیجان کےدورکاآغازہوا اور اس عرصےکےدوران پراگندہ اخلاقیات،سوچ اور منافقت سےبھرپورنسل پل کرجوان ھوئی۔ تنگ نظری اورعدم رواداری جیسےجیسے بڑھتی گئی۔ ہمارےرویےمتشدد ہوتےگئے۔اور آج یہ ایسی بھیانک شکل اختیارکرچکےہیں کہ انہوں نےمذہب اورسیاست کوخون کاکھیل بنادیاہے۔اس سماج کواگربچانا ہےتومذہب کواس کی اصل اخلاقی اورروحانی اساس پر واپس لاناہوگا اور فنونِ لطیفہ کوفروغ دیناہوگا۔ کیونکہ ادب ہی انتہاپسندی کاتریاق ھے اور ادب کےذریعےہی مختلف افکار کےلوگوں کےدرمیان برداشت اورمکالمےکی فضاپیداہوگی۔ لیکن اس طرح کی باتوں کوسن کریاپڑھ کرہمارے پالیسی سازیہی کہتےھوں گے:
“نواں آیا اے سوہنیا”