مختار مسعود ، چراغ اور دریچہ

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحبِ مضمون

مختار مسعود ، چراغ اور دریچہ

(ملک تنویر احمد)

مختار مسعود چل بسے۔مختار مسعود سے کبھی شرف ملاقات توحاصل نہیں رہا تاہم ان کی تصانیف میں اپنے گئے اسلوب سے کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کی زبان سے الفاظ موتی کی طرح آپ کی سماعتوں میں چاشنی اور حلاوت گھول رہے ہیں۔ مختار مسعود اس عالم رنگ و بو سے گزرگئے لیکن آواز دوست، لوح ایام اور سفر نصیب کی صورت میں حیات جاودانی پا گئے۔ مختار مسعود کے انتقال کی خبر جب سماعتوں سے ٹکرائی تو ایک شدید محرومی کا احساس رگ و پے میں جا گزیں ہوا کہ کیسی کیسی نابغہ روزگار ہستیاں ہمارے درمیان سے اٹھتی چلی جا رہی ہیں۔

ایک ایسا معاشرہ جو تیزی سے اپنی اخلاقی، انسانی اور اسلامی قدریں کھوتا چلا جا رہا ہے جہاں انسانیت بیچ بازار ننگی پڑی ہو اور حیوانیت پوری دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے بیچ چوراہے میں رقصاں ہو وہاں سے اس وقت مختار مسعود جیسے لوگوں کا اٹھ جانا ہی بہتر ہے کہ یہ اس نسل کے لوگ تھے جنہوں نے پاکستان کو قائم ہوتے دیکھا اور اس ملک کی ترقی و کامرانی کے دلنشیں خواب اپنی آنکھوں میں سجائے تھے۔اس نسل کے لوگ جس تحمل،بردباری، برداشت اور رواداری کا عملی پیکر تھے اب ایسی جنس پاکستان کے بازار میں نہیں ملتی ۔

اس نسل نے اپنے دل کو سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف کی آرزوؤں مسکن بنایا تھا۔قانون کی حکمرانی کے حسین نقوش اپنی پتلیوں میں سجائے تھے۔ ایک روشن خیال، ترقی پسند اور خوشحال پاکستان ان خوابوں کی تعبیر تھا جو اس نسل کے لوگوں نے دیکھے تھے۔ان خوابوں اور آدرشوں کے بر عکس ایک ایسے پاکستان سے مختار مسعود رخصت ہوئے جہاں سوچ پر پہرے ہیں۔ فکر کو خوف دامن گیر ہے۔ جبر کا موسم ہے۔ زبان، عقیدے اور اختلاف رائے میں ذبح کرنے کی رسم عام ہے۔سماجی طور پر طبقاتی تقسیم گہری ہے۔سیاسی طور پر ایک بدعنوان اشرافیہ اس قوم کے مقدر کو سیہ بخت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

سیاست اور مذہب گھٹیا اور اوسط درجے کی ذہنیت کے ہاتھوں یر غمال بنا ہوا ہے۔ابتری، لاقانونیت اور بد نظمی کا ایسا چلن ہے کہ ولی خان یونیورسٹی میں مشال خان نامی نوجوان کو دن دھاڑے قتل کر دیا جاتاہے۔ایک ہجوم نے خود ہی انصاف کا مجسمہ تراشا اس کے ہاتھ میں کلہاڑا تھما کر مشال خان کو سزا دے ڈالی۔خود ہی مدعی، خود ہی گواہ اور خود ہی جج کا فریضہ انجام دیتے ہوئے ہجوم نے مشال نامی اس پیکر خاکی کو صفحہ ہستی سے مٹا کر دھرتی کا بوجھ ہلا کر نے کے ساتھ ساتھ بزعم خود اپنے اعمال کے پلڑے کو بھی اس ’’کار خیر‘‘سے بھاری کیا۔مشال خان کے رزق خاک ہونے پر مختار مسعود کی تصنیف ’’لوح ایام‘‘ کا انتساب یاد آگیا۔

چراغ اور دریچہ کے نام اس تصنیف کو کرتے ہوئے مختار مسعود نے لکھا ’’وہ چراغ جس سے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔اجالا ہی اجالا ہو گا۔ بے سمت سفر کو سمت میسر آجائے گی اور وہ دریچہ جو ایک روشن مستقبل کی طرف کھلتا ہے۔جس سے تازہ ہوا آئے گی اور جہاں تازہ کی خبر لائے گی‘‘۔ مختار مسعود کے یہ الفاظ فکری، سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر ایک فروغ پذیر معاشرے کی نوید سناتے ہیں لیکن صد افسوس یہاں تحمل، برد باری اور برداشت کے سارے چراغ جہالت، کٹھ ملائیت ، انتہا پسندی کی آندھیوں کی زد میں آکر بجھتے چلے جا رہے ہیں۔

وہ دریچے جہاں سے فکر نو، تحقیق اور ایجاد کی باد صبا کو گزرنا تھا جنونیت، دشنام اور قتل و غارت گری کی باد سموم کے نشانے پر ہے۔ مختار مسعود اس عالم نا پائیدار سے اس وقت اٹھے جب پاکستان اس ذہنیت کے پنجے میں پھنسا ہوا ہے جس کا افکار تازہ اور جہاں نو کی تعمیر سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں۔جہاں اختلاف رائے پر فتوے ٹنوں کے حساب سے ابل رہے ہیں۔جہاں اندھی تقلید نے ایسی فصل تیار کی ہے جس سے انسانی خون کی بو آتی ہے۔ جہاں کٹھ ملائیت کی بلاؤں نے ہر اس آواز کو کفر کے گڑھے میں دھکیل دینا ہے جو ان سے اختلاف رکھتا ہے۔

پاکستان نامی بستی پر ایسی خون آشام بلاؤں کا نزول ہو چکا ہے جنہیں اس بستی میں ہنستی کھیلتی زندگی کی بجائے اذیت، جبر اور موت کو ہوا دینا ہے۔ یہ بستیاں اب ایسی آسیب زدہ بستیوں میں ڈھل چکی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر شاید شاعر نے کہا تھا ع

دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں

مختار مسعود چلے گئے ا چھا ہوا اس تباہی و بربادی کو دیکھنے کے لئے اب مزید زندہ نہیں رہے جو ہمارا مقدر بن چکی ہے۔اب جنونیت اور انتہا پسندی کے خلا ف جس قیادت نے بند باندھا تھا وہ کچھ میٹر و بسوں، چند فلائی اوروں اور کچھ موٹر وے کے کھلونے سے اپنے آپ کو بھی بہلا رہی ہے اور قوم کو بھی بہلانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ ایسی قیادت جو دو دن کے بعد ہڑبڑا کر اٹھے اور ایک ایسے واقعے پر نوٹس لے جس نے انسانیت کو بیچ بازار شرمسار کر ڈالا ہو وہ جنونیت اور انتہا پسندی کے خلاف کیسے سینہ سپر ہو پائے گی۔مختار مسعود کی ’’لوح ایام‘‘ کا آغاز ایک ایرانی انقلابی شاعر کی نظم سے ہوتا ہے وہ وہ نظم کسی اور تناظر میں لکھی گئی تھی لیکن اس کا پہلا شعر ہماری حالت کا اظہار کرنے کے لئے کافی ہیں کہ ع

اس وقت میں روپوش ہوں
زیر زمین چھپا ہوا ہوں

ہم سب ان الفاظ کے مترادف روپوش ہیں۔قیادت میگا پراجیکٹس کی آڑ میں اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اہل دانش جبر و دہشت کے ماحول سے خائف ہو کر مہر بلب ہیں۔اہل مذہب دین کی ایسی تاویلوں میں الجھ کر وقت ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیں جن کا دین کی روح سے کوئی تعلق نہیں۔ اہل سیاست اپنی چھینا چھپٹی کے کاروبار میں مصروف ہیں۔ اب ایسے پر آشوب دور میں کون دست قضا کو جھٹکے جو آئے روز معصوموں کے نرخر ے پر ہاتھ رکھ دیتا ہے۔