سرمایہ داریت کی تاریخ

ایک روزن لکھاری
اصغر بشیر، صاحب تحریر

سرمایہ داریت کی تاریخ

(اصغر بشیر)

    آج قریباً دنیا کی ہر معیشت سرمایہ داریت کے بنیادی اصولوں کو مد نظر رکھ کر  اپنی عمارت کھڑی کرتی ہے جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ قریباً پوری دنیا میں سرمایہ داریت کو نفرت، جھنجلاہٹ ، مایوسی، اور شک  کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سرمایہ داریت پر ہونے والے اعتراضات کسی بھی صورت نئے نہیں ہیں  بلکہ اس کے وجودی اظہار سے لے کر آج تک اس پر مختلف اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ  ہے کہ روز ِ اول سے لے کر آج تک اس کے متعلق اکثریتی رائے منفیت پر مشتمل رہی ہے۔ تاریخ کا اجمالی جائزہ اس تصور کو مزید واضح کرنے میں مدد دے گا۔

اٹلی کے مشہور شہر پیڈوا میں 1304ءمیں چرچ کی دیوار پر بنائی جانے والی تصاویر عیسائیت میں سرمایہ کے متعلق تصورات کو اس دور کی سوچ کے مطابق اجاگرکرنے کا مستقل اظہار تھیں جس میں دولت اور اچھائی کو آپس میں متضاد کیفیات کے طورپر دیکھایا گیا ہے۔  یہ وہ نظریہ تھا جو کہ صدیوں سے  مذہبی اداروں میں مقبول عام تھا۔ اس نظریہ کے مطابق زندگی میں روحانیت تلاش کرنے والے  کاروباری معاملات زندگی سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ  دونوں ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہیں۔ ایک اور تصویر میں  یسوع مسیح یروشلم کے چرچ کے اندر پیسوں کا کاروبار کرنے  والوں کو دیکھ کر غصے میں آجاتے ہیں کہ یہ مقدس جگہ خرید و فروخت کے شیطانی کاموں کے لیے نہیں ہے۔ اسی نظریے کے پیش نظر کئی صدیوں تک سرمایہ کی بڑھوتری اپنے پوٹینشل کے نہایت کم ترین معیار پر موجود رہی ۔

1450 ء میں وینس میں اکاونٹنگ پر چھپنے والی پہلی کتاب  Summa De Arithematica میں پیٹریولی ڈبل انٹری سسٹم کے اصول بیان کرتا ہے جس کے تحت سرمایہ کے پیچیدہ معاملات کو ہینڈل کرنا آسان ہوگیا۔  یہ کتاب فلسفیانہ معیار پر کاروباری معاملات کو مذہب سے الگ کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ کاروباری معاملات  کاآخرت میں سزا یا جزا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے  نا ہی یہ مذہبی معاملات کی طرح خدائی مدد کے تحت  چلتے ہیں بلکہ یہ ایک سائنس ہے جس کوصبر، علت اور محنت سے سیکھا اور سکھایا جا سکتا ہے۔

جان کیلون کے خطبات پروٹسٹنٹ اخلاقیات کی بنیاد ثابت ہوتے ہیں۔مختلف  خصوصیات جیسے محنت، خود فراموشی، صبر اور ایمانداری کو ان خطبات میں کاروبار زندگی کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل خصوصیات قرار دیا گیا۔ انہوں نے ہی بتایا کہ سرمایے کو کسی طرح  کی راحت کے لیے استعمال کرنا انسان کو گناہ کے قریب لے جاتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ جو سرمایہ کمایا جائے بنیادی ضروریات پوری کرنے کے بعد ان کو دوبارہ کاروبار میں انویسٹ کردیا جائے۔  کیلون اس نظریہ کا مالک تھا کہ اچھا کاروباری انسان ہونا خدا کی نظر میں ایک درویش یا مجاہد ہونے کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔  یہی وہ نظریہ تھا جس کی بنیاد پر سرمایہ داری نظام اپنی جڑیں مضبوط کر سکا۔

ڈچ ری پبلک دنیا کی پہلی واضح سرمایہ دارانہ معیشت ہے جس میں ماضی کے برعکس پہلی دفعہ جاگیرداروں کے مقابلہ میں صنعت کاروں  اور مرچنٹ  برادری کو معاشرے میں اعلیٰ مقام دیا گیا۔ چرچ نے بھی بدلتے وقت کے ساتھ اپنی اخلاقیات کو بدلا اور ایسی خصوصیات کی تبلیغ میں خطبات دینے شروع کر دیے جن سے محنت کو بہتر زندگی کا بنیادی محرک قرار دیا گیا تا کہ  کارخانوں فیکٹریوں اور ملوں میں مزدوروں کو مسلسل مشقت کا اخلاقی جواز فراہم کیا جا سکے۔ اسی کے ساتھ اس دور کے فنون لطیفہ میں بھی ان خصوصیات کو اہمیت دی جانے لگی جو سرمایہ داری کو فروغ دیتی تھیں۔

ایڈم سمتھ کی کتاب an inquiry into the nature and causes of the wealth of nations اس حوالے سے بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ اس نے کتاب نے سرمایہ داری نظام کا وژن بڑھایا اور ایسے مختلف نتائج اخذ کیے جن سے صدیوں کی روایات کی اہمیت ختم ہوگئی۔ مثلاً ایڈم سمتھ نے بتایا کہ غلام کسی طرح بھی سرمایہ داری کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں کیونکہ ایک غلام پر خرچ اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن کا Cost-Benefit Analysis  اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ ایک غلام کے فائدے کے مقابلے میں نقصانات زیادہ ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر ایک فرد کو مزدوری پر کام کروایا جائے تو یہ کاروبار کے لیے بے حد فائدہ مند ہے۔ اسی طرح اگر ایک سرمایہ دار اپنے مزدوروں کو اخلاقی طور پر پیش آتا ہے تو اس کو کاروبار میں زیادہ فائدہ ہوگا۔ اسی طرح ایک قوم specialization and division of labour کے ذریعہ اپنے سرمایے کو بڑھا سکتے ہیں۔

ایڈم سمتھ  پن بنانے کی مثال دیتا ہے کہ ایک مزدور ایک دن میں قریباً بیس پن بناتا ہے لیکن جب دس مزدوروں کو بہترین انداز سے ٹیم کی صورت میں کام پر لگایا جائے تو اپنی بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے وہ ایک دن میں دو سو کے بجائے اڑتالیس ہزار پن بنا سکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ معاشرے میں ہر فرد اپنے فائدے کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے جس کا بالآخر فائدہ معاشرے کو ہوتا ہے کہ اس سے عام انسان کی زندگی بہتر ہوتی ہے۔

اس لنک پر مضمون کا دوسرا حصہ جاری ہے۔