تاریخ کا علم اور سماجی شعور

writer's name
ڈاکٹر عرفان شہزاد

تاریخ کا علم اور سماجی شعور

(ڈاکٹر عرفان شہزاد)

کسی قوم کی تاریخ ایک فرد کی یاداشت کی طرح اہم ہوتی ہے۔ فرد اپنی یادداشت کے سہارے زندگی کے تجربات سے  سیکھے ہوئے اسباق یاد رکھتا اور ان کی روشنی میں آئندہ زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے کوشش کرتا رہتا ہے۔  یوں خوب سے خوب تر کا سفر جاری رکھتے ہوئے ترقی اور ارتقا کی منازل طے کرتا جاتا ہے۔ اگر  یادداشت کھو جائے تو آدمی کو پھر سے زیرو سے شروع کرنا پڑتا ہے۔ یادداشت اگر خراب ہو جائے تو اپنے تجربات کا درست فہم اور ان کی روشنی میں درست فیصلے کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ 

قوم کی اجتماعی یادداشت بھی بالکل اسی طرح کام کرتی ہے۔ ہماری قوم کے ساتھ المیہ یہ ہوا ہے، جس کا انہیں احساس بھی نہیں، کہ ان کی اجتماعی یادداشت، یعنی ان کی تاریخ کا ایک حصہ تو بھلا ہی دیا گیا، جب کہ باقی کی تاریخ کو مسخ کر دیا گیا۔

ہر دور، گزشتہ دور کی تاریخ سے جنم لیتا ہے۔ قدیم و جدید حالات کا باہمی تعلق باپ اور اولاد کا ہوتا ہے۔ حالات کے بھی خاندان ہوتے ہیں۔ ہر حالت اپنا ایک نسب نامہ رکھتی ہے۔ جب تک درست ولدیت اور شجرہ نسب معلوم نہ ہو، آپ حالات کو پہچان سکتے ہیں نہ ان کادرست تجزیہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے مطابق درست لائحہ عمل طے کر سکتے ہیں۔

ہماری قوم کا اجتماعی رویہ اس حقیقت کا واضح  ثبوت ہے۔ یہ اپنی اجتماعی یاداشت، یعنی اپنی تاریخ سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے یا اس کا چہرہ ہی مسخ کر بیٹھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگ حالات کا درست مطالعہ نہیں کر پاتے، ان کے تجزیات سطحی، یک رخے اور جذباتی ہوتے ہیں۔ اجتماعی یاداشت سے محروم ان لوگوں کو اسی وجہ سے بے وقوف بنانا، ہمارے دینی اور سیاسی رہنماؤں، قوم کے بڑوں، نام نہاد دانشوروں اور جذباتی نادانوں کے لیے بہت آسان ہوتا ہے۔

تاریخ کا علم اور سماجی شعور

یورپ کی مثال لیجیے۔ ہماری طرح، یورپ بھی تاریخ کے انہیں ادوار سے گزرا جن سے ہم  گزرے اور گزر رہے ہیں۔ مذھبی انتہا پسندی، عسکریت پسندی اور خانہ جنگی کے تمام مراحل اس پر گزرے۔ مذھبی انتہا پسندوں نے عوام میں مذھبی ہیجان پیدا کر کے تقریبا دو سو سال تک صلیبی جنگوں کا معرکہ گرم کیے رکھا تھا اور اس طرح عوام اور بادشاہوں کو اپنے پیچھے لگائے رکھا۔ ان کے سیاسی قائدین نے جھوٹ بول بول کر اپنی ملک گیری کی ہوس پوری کرنے کے لیے اپنے عوام سے مالی اور جانی قربانیاں مانگیں۔ مذھبی پیشواؤں نے فرقہ واریت کو ایمان کا اولین فریضہ قرار دیا اور لاکھوں افراد قتل کروائے۔ علم و آگہی پیدا کرنے والوں، اور سائنسی علوم کا تذکرہ کرنے والوں کو زندہ جلوا دیا۔ جب کہ آج یورپ کا یہ حال ہے کہ وہاں مذھبی آزادی، رائے کی آزاد ہر فرقے، ہر مذھب اور ہر شخص کو حاصل ہے، سماجی انصاف کی یقین دہانی ہر شہری کو حاصل ہے۔

سیاست دان اپنے عوام کو اب بھی بے وقوف بنانے کی کوشش تو کرتے ہیں، لیکن دیکھیے کہ ان کا تاریخی اور سماجی شعور اس سطح پر پہنچا ہے کہ جب ٹونی بلییر نے صدام حسین کے دور میں عراق پر جنگ مسلط میں امریکہ کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا اور عوام سے تائید مانگی تو چھ لاکھ لوگوں نے لندن میں اس کے اس فیصلے کے خلاف مظاہرہ کیا۔  بلییئر نے پھر بھی امریکہ کا ساتھ تو دیا، لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تاریخ نے کتنی جلدی سفر طے کیا، چند ہی سال بعد بلیئر نے اعتراف جرم  کر لیا۔ اب سوچیے کہ برطانیہ کو اگر ایسی ہی صورت حال دوبارہ پیش آئے گی، تو لندن کی سٹرکوں پر چھ لاکھ  نہیں، کروڑوں لوگ ہوں گے، جو اپنی حکومت کو ایسے اقدام سے روکیں گے، اوریوں یورپ اپنے شعور کے ارتقا  میں ایک قدم اور آگے بڑھ جائے گا۔

جرمنی باجود ایک ترقی یافتہ ملک ہونے کے ہٹلر کے دور میں پوری قوم کے اجتماعی پاگل پن پر برملا شرمندہ ہے۔ اس شرمندگی کو یہ لوگ اپنی اگلی نسلوں سے چھپاتے نہیں اور نہ اس کی کوئی الٹی سیدھی تاویل کر کے اس کو جواز کی سند دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

یورپ کی تاریخ کا ہر اچھا برا لمحہ ان کی اجتماعی یاداشت کا حصہ بنتا چلا گیا۔ وہ اپنی شاندار اور شرمناک دونوں طرح کی تاریخ پر فخر اور شرمندگی دونوں طرح کے رویوں سے سیکھتے چلے گئے، اور آج وہ سیاسی اور سماجی ارتقا کی اس منزل پر کھڑے ہیں کہ رہنے بسنے کے  لیے  پوری دنیا میں وہ ایک مثالی جگہ بن گئی ہے۔ تاریخ کا علم اور شعور اسی لیے اہم ہوا کرتا ہے۔

پہلا دکھ یہ ہے یہ لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے ہمارے لوگ تاریخ سے سیکھنا بھی چاہیں تو نہیں سیکھ سکتے، اس لیے کہ  ہماری تو تاریخ ہی گم اور مسخ کر دی گئی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ ہم آگے بڑھنے کی بجائے دائروں میں گھوم رہے ہیں۔ تاریخ کی روشنی میں جب ہم اپنی قوم کا جائزہ لیتے ہیں تو اسے وہیں پاتے ہیں جہاں سے تاریخ کا راستہ ان سے گم ہوا تھا۔

ہمارے لوگوں کے تاریخی شعور کا یہ عالم ہے کہ یہ تاریخ کو افسانہ کی طرح کی کوئی چیز سمجھتے ہیں، اسے برتتے بھی افسانے کی طرح ہیں۔ ان کے ہاں تاریخ، حقائق کا بیان نہیں، خوابوں اور تخیل کا جہان ہے۔ آپ ریڈر شپ دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں ہمارے ہاں تاریخ کی کتب زیادہ پڑھی جاتی ہیں یا تاریخی افسانے، تاریخی ناول اور افسانہ نما تاریخی کالم زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ قوم کو حقائق کی بجائے خوابوں کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ یہ کس قدر افسوس ناک پہلو ہے۔

یہ سب باتیں میں اس سماج سے مخاطب ہو کر کہ رہا ہوں، جہاں سوشل سائینسز اور بشریات (Humanities) کو دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے مضامین سمجھا جاتا ہے، اور ان میں بھی تاریخ کو مزید کم تر درجہ دیا جاتا ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں پڑھے لکھے لوگ بھی تاریخ کو ‘گڑے مردے اکھاڑنا’ کہتے ہیں! جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کو منتہائے کمالِ انسانی سمجھا جاتا ہے۔  معلوم ہونا چاہیے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہنر پیدا کرتے ہیں، جس سے افراد اشیا کو بہتر طور پر برت سکنے کے قابل بنتے ہیں۔ ایسے افراد کا درجہ سماج کے ہاتھ اور بازو کا ہوتا ہے، جبکہ سوشل سانئسز اور بشریات زندگی سے اور اس کی پیجیدگیوں سے براہ راست جڑے علوم ہیں، جن کا مقصد انسان اور انسانی سماج کو بہتر سے بہتر بنانا ہے ۔

سماج میں ان کا درجہ دماغ کی طرح ہے۔ اب آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ جسم میں ہاتھ بازو اور دماغ کی کیا اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بہترین سائینسدان، ڈاکٹرز، انجینئرز، اور اکاونٹنٹس رکھتے ہوئے بھی سماجی شعور کی پہلی سیڑھی پر کھڑے اپنے معاشرے کو اس موجودہ المناک صورتِ حال سے دوچار پاتے ہیں، وجہ یہی ہے کہ ہم سوچنے والے دماغ پیدا کرنے سے انکاری ہیں، بلکہ ان سے خائف بھی ہیں۔ ہمارے سماج کو علم و آگہی کی ابھی بہت سی منازل طے کرنا ہیں، تب ہی یہاں وہ شعور بیدار ہو سکتا ہے جو مطلوب ہے۔

عوام کو ایجوکیٹ کرنا اصل تو حکومت ہی کا کام ہے، لیکن دور دور تک اس کا امکان نہیں کہ ان کا ایسا کچھ کرنے کا کوئی ارادہ بھی ہو۔ یہ تو ایسے علوم اور ان سے ملنے والی آگہی سے ہی خوف زدہ ہیں جو سوال اٹھاتی ہے، غلطیوں کی نشاندہی کرتی ہے، خود احتسابی کا کہتی ہے، اپنی غلطیوں پر شرمندہ ہونے اور اس شرمندگی کی وجہ سے آئندہ ایسی غلطیاں نہ کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے، جو عوام کو بے وقوف بننے سے روکتی ہے۔

فی الحال بس یہی کیا جا سکتا ہے کہ اپنے طور پر، جتنا ممکن ہو، لوگوں کو باور کرانا چاہیے کہ وہ اپنی تاریخ سے آگاہی حاصل کریں اور خواب و سحر کے حصار توڑ کر حقائق سے آنکھیں ملانا سیکھیں، تاکہ دائروں میں گھومنے کی بجائے  آگے کا سفر شروع ہو۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں یہ سب اتنا مشکل بھی نہیں، بس ماؤس پر کلک کرنے والی انگلی کے پیچھے ایک سوچنے والا، متجسس دماغ ہونا چاہیے۔

1 Comment

Comments are closed.