پاکستان میں کتابوں کی اشاعت میں حیرت انگیز اضافہ لیکن معیار گر گیا

پاکستان میں کتابوں کی اشاعت
علامتی تصویر

پاکستان میں کتابوں کی اشاعت میں حیرت انگیز اضافہ لیکن معیار گر گیا

(ڈاکٹر سعید الحسن)

پاکستان میں کتابوں کی اشاعت میں حیرت انگیز اضافہ لیکن معیار گر گیا
بین الاقوامی سطح پرکئے جانے والے تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی تحقیق کار مقالے یا کتب لکھتے وقت ضخامت پر توجہ دیتے ہیں لیکن معیار پر نہیں، لہٰذا اس سلسلے میں ہمیں اپنی پالیسی میں انقلابی تبدیلی لانےکی ضرورت ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں ایسے نئے سائنسی علوم کو پروان چڑھانے کیلئے سرمایہ کاری کر رہی ہیں جو سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی میں معاون ثابت ہو سکیں۔ نئے علوم پر سائنسی کتب کی تیزی سے بڑھتی ہوئی اشاعت کارکردگی کا اہم عنصرہے۔ یہ رپورٹ پاکستان اور باقی دنیا سے تقابلی تجزیہ کرتے ہوئے سائنسی کتب کے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ اعدادوشمار پیش کرتی ہے۔ جس میں ایشیاکی سال2000 ءسے 2013ءتک کی ابھرتی ہوئے معیشتوں کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ سائنسی کمیونٹی اور اعلیٰ تعلیم کی پالیسی بنانے والوں کے لیے مفید معلومات کی حامل ہے۔

اس حوالے سے منتخب ممالک کا جائزہ لیا جائے تو ان کی سائنسی کتب کی اشاعت میں فرق خاصا کم ہوا ہے۔ خصوصا ً امریکہ اور چین میں اس فرق میں نمایاں کمی آئی ہے۔ سائنسی کتب میں اضافے کی اگر یہی شرح رہی تو چین امریکہ سے جلد آگے نکل جائے گا۔ جبکہ یورپی ممالک برطانیہ، جرمنی اور فرانس میں سائنسی کتب کی اشاعت کی شرح مستقل ہے البتہ بھارت تیزی سے فرانس کے برابر آرہا ہے۔

سائنسی کتب کی اشاعت میں ملائشیا، سنگاپور سے آگے بڑھ رہا ہےجو حیرت انگیز ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملائشیا نے تحقیق و ترقی کے کام کیلئے اپنے بجٹ میں اضافہ کیا ہے ملائشیا کایہ بجٹ 2000ءمیں 0.5 فیصد تھا جو 2011ء میں بڑھا کر 1.2 فیصد کر دیا ہے۔

مختلف منتخب ممالک میں پاکستان، ایران، ملائشیا اور چین میں سائنسی کتب کی اشاعت حیرت انگیز اضافہ ہوا تھا جس کی مجموعی سالانہ شرح میں 18فیصد سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا کےباقی ممالک تو سی اے جی آر (CAGR)کے معیار سے اوپر ہیں لیکن امریکہ اور یورپین ممالک اس معیار سے نیچے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں کا جائزہ لیں تو تحقیق کے حوالے سے دنیا کا بڑا دلچسپ منظر سامنے آتا ہے۔

چین نے کمپیوٹر سائنس میں 287,916کتب شائع کیں جو دنیا میں شائع ہونے والی کتب کا 23.64فیصد ہیں جبکہ امریکہ ، دوسرے نمبر پر آتا ہے جس کا کمپیوٹر سائنس کی کتب میں حصہ 18.45فیصد ہے۔ اسی طرح چین انجینئرنگ کتب کی اشاعت میں 620887کتابیں سالانہ اشاعت کے ساتھ امریکہ سے خاصاآگے نکل چکا ہے یہ تعداد دنیا میں شائع ہونے والی انجینئرنگ کتب کا 30.42فیصد ہیں جبکہ امریکہ کا حصہ 17.16فیصد ہے۔
پاکستان میں تحقیق کا میدان: معیار بمقابلہ مقدار

پاکستانی اداروں میں کتب کی اشاعت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ کورکانفرنس 2014 میں طے شدہ معیار کے تحت جرائد کواے پلس، اے ، بی اور سی درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پاکستان میں کتابوں کی اشاعت 2004ء میں 2ہزار تھی جوبڑھ کر اب 10ہزار ہو گئی ہے۔ اگرچہ تحقیقی کتب کی اشاعت میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن ان کا معیار گر گیا ہے۔ 1996ء میں اے پلس کیٹگری جرائد کا معیار 3.84فیصدتھا جوکہ 2013ء میں کم ہو کر 2.21 فیصدپر آگیا، اسی طرح 1996ء میں اے کیٹگری جرائد کا معیار 10.16فیصد تھا جو 2013ء میں گر کر 6.84 فیصد ہو گیا۔ تاہم ہماری کُل تحقیقی کتب میں سے 10فیصد کا معیار عالمی سطح کے مطابق ہے۔

اس کے علاوہ ادارہ جاتی سطح پر کیا جانے والا تجزیہ قومی تحقیق کا مزید واضح منظر پیش کرتا ہے۔ منتخب اداروں، جن میں کامسیٹ یونیورسٹی، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پاکستان ،قائداعظم یونیورسٹی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاہور شامل ہیں جن کی 70 فیصد تحقیقی کتب عالمی معیار کے مطابق نہیں ہیں۔ سوائے قائداعظم یونیورسٹی، اور لمز کے باقی تمام اداروں کے تحت شائع ہونے والی 10 فیصد کتب کا معیار بمشکل اے پلس یا اے کیٹگری میں آتاہے۔

اسی طرح کمپیوٹر سائنس کے شعبے کا جائزہ لیا جائے تو کوئی حوصلہ افزاء تصویر سامنے نہیں آتی۔ بہت سی اعلیٰ اداروں کی 5فیصد کتب بھی عالمی معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ اس کے علاوہ کتابوں کی بہت زیادہ کتاب سی کیٹگری یا اس
سے بھی کم معیار کی ہیں۔

حاصل بحث

ملکوں کی ترقی میں تحقیق اور اختراع کا کام اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس دور میں ذہانت اور علم کی بنیاد پر قائم معیشتوں کیلئے اہم ترین عنصر ذہانت کی تلاش اور تخلیق و ترقی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے سائنسی کتب کی اشاعت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایشیاء میں بہت سی نئی ابھرنے والی معیشتیں سخت مقابلہ کررہی ہیں اور بہت سے ممالک تو تحقیق اور اختراع میں شمالی امریکہ اور یورپ سے آگے نکل چکے ہیں۔اس سلسلے میں پاکستان کا تحقیق میں مقام کا جائزہ لیا جانا اہم ہے۔ اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پاکستانی اداروں کے نتائج کئی سالوں سے مستحکم ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستانی اداروں کی کتب کا معیار خطرناک حد تک کم ہوا ہے۔

اعلیٰ تعلیم کے پالیسی سازوں کو غیرمعیاری کتب کی اشاعت کے دائرے سے نکل کر ’’ تحقیق کے میدان میں اعلیٰ معیار کی کتب شائع کرو ‘‘کی بنیاد پر مختصر اور طویل مدتی منصوبے بنانے چاہئیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں:
اداروں میں اساتذہ پر بھاری بھر کم تدریسی بوجھ کو کم ہونا چاہئے۔
1 سائنس کی فیلڈ میں شائع ہونے والے معیاری اور غیر معیاری رسائل و جرائد اور کتب میں امتیاز کرکے انعام دیا جانا چاہئے۔
2 سائنسی تحقیق کیلئے بہتر مثالیں قائم کی جانی چاہئیں۔
3 سائنسی تحقیق کیلئے حکومت کی طرف سے زیادہ فنڈز مختص کئے جانے چاہئیں۔

 

ڈاکٹر سعید الحسن ڈائریکٹر آئی ٹی یو سائنٹومیٹرک لیب اور انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر ہیں

Courtesy: technologyreview.pk